تبصرات ماجدی۔۔۔(۱۲۴)۔۔۔ طوفان محبت ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

02:36PM Sun 20 Jun, 2021

*(124) طوفان محبت*

از ہوش بلگرمی (ہوش یار جنگ بہادر)

کتاب خانہ، عابد روڈ، حیدر آباد (دکن)۔

اردو میں اچھی مثنویوں کے دن معلوم ہوتا تھا اب گزرچکے ہیں اور سحر البیان (میر حسن)، گلزار نسیم، زہر عشق اور ترانۂ شوق کے بعد اب خیال میں بھی نہیں آتا کہ کوئی اور مثنوی ایسی ہوسکے گی، سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی احمد علی شوق قدوائی کی ترانۂ شوق تھی، اس کی تصنیف و اشاعت کو بھی  50-60 سال کا عرصہ گزر چکا، اتنے سناٹے کے بعد اس نئی مثنوی نے وہ بھولا ہوا خواب یاد دلایا۔

طوفانِ محبت شاعر کی (مصنف رسالہ بدیہہ گوئی) 25 سال کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، دیر آید درست آید کا صحیح نمونہ۔ ہوش صاحب سنا تھا کہ بڑی شوخ اور چلبلی طبیعت کے مالک اور بڑے جلد باز ہیں، اس مثنوی کے آئینے میں تو بڑے بھاری بھرکم متانت مجسم اور شاعر سے بڑھ کر حکیم نظر آرہے ہیں! ------ پارہ جب کشتہ بن جائے تو اس میں اب سیلانیت اور سیمابیت کی تلاش ہی کیوں کیجیے۔

طوفانِ محبت کا نام ہی طوفان ہے، اس مثنوی میں طوفانیت تو نام کو بھی نہیں۔ اس میں تو کشتیٔ نوح کا سا امن ہے، سکون ہے، تحفظ و سلامتی ہے، تاروں بھرے آسمان کا سا سکون ہے، چاندنی رات کی سی ٹھنڈک ہے ------ ڈھائی ہزار سے زائد اشعار ہیں، اس رنگ کو زبان کی صحت، سلاست، شگفتگی کے ساتھ قائم رکھنا مہارت فن کا کمال ہے۔

قصہ کا زمانہ آج سے 80-90 سال قبل یعنی انیسویں صدی کے وسط کے معاً بعد کا ہے، ساگر کے ایک بڑے تاجر سرفراز نامی کا اکلوتا ہونہار اور سعادت مند لڑکا کامران اپنے والدین کی اجازت سے لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہے، ہندوستان بھر کا چکر لگا کر بحری سفر میں اس کا جہاز تباہ ہوجاتا ہے، اتفاقاتِ وقت اسے ایک نوجوان حسین لڑکی تک پہنچا دیتے ہیں جو کچھ سادھوؤں کی قید میں ہے، سادھو جب شراب میں بدمست و غافل ہوجاتے ہیں تو کامران اس حسینہ کو آزاد کر کے اپنے ساتھ لے آتے ہیں، رفتہ رفتہ لڑکی اپنی مصیبت کی داستان بیان کرتی ہے اور اب معلوم ہوتا ہے کہ وہ دہلی کے ایک بڑے مسلمان رئیس کی صاحبزادی ہیں جو محض سوئے اتفاق سے اس عالم میں پہنچ گئی، دونوں دکھیارے اپنی حالت پر روتے ہیں اور پھر تدبیر سوچتے ہیں، آخر میں یہ سب بچھڑے ہوئے اپنے اپنے والدین سے ملتے ہیں اور لڑکی (رشک قمر) کی شادی کامران کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ یہ بہت ہی ناتمام سا خلاصہ ہے اصل مثنوی میں ایک دوسرا ضمنی قصہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

آغازِ کتاب میں تصویر مصنف کے بعد 12 صفحہ کا ایک دیباچہ خود مصنف کے قلم سے ہے اور دوسرا   12 صفحہ کا نیاز فتح پوری کے قلم سے، دونوں خاصے دلچسپ اور بڑی رواں اور سلیس عبارت میں بلکہ ہوش صاحب کا دیباچہ تو اس سب کے علاوہ رنگین و بصیرت افروز بھی اور عبارت میں جا بجا محمد حسین آزاد کے رنگِ انشاء کا نمونہ ------ صرف ایک ایک لفظ دونوں صاحب کے پاس نگاہِ تنقید کو کھٹکا۔ صفحہ 4 پر ہوش صاحب کے ہاں ہم جلیس اور صفحہ 14 پر (وسط صفحہ) نیاز صاحب کے ہاں بجائے نہیں لکھی تھی کہ نہ لکھی تھی۔

پلاٹ عاشقانہ ہونے کے باوجود فاسقانہ نہیں۔ کتاب بے تکلف چھوٹے بڑے ہر ایک ہاتھ میں جانے کے قابل ہے اور جا بجا حکمت و معرفت کے درس سونے میں سہاگہ۔ مطلع کا آغاز یہ شعر ہے    ؎

بہ نام خدائے کمال آفریں                          جلیل و جمیل و جمال آفریں

تین صفحوں میں 24 شعروں تک یہی مضمونِ حمد چلا گیا ہے اور انہیں کے درمیان یہ جاندار اور جان آفریں شعر

اسی نے کیا پردۂ غیب چاک                         امینِ ازل ہوگئی مشتِ خاک

مناجات کے معاً بعد محبت کی زمزمہ سنجی شروع ہوجاتی ہے اور اب زبان اخلاص یوں گویا ہوتی ہے   ؎

غمِ دل میں یا رب لطافت بھی دے محبت جو دی ہے مودت بھی دے

مودت جو روحِ عبادت بھی ہو                      مودت جو اجرِ رسالت بھی ہو

بعض بعض شعر تو ایسے رواں سبک اور بے تکلف نکل آئے ہیں کہ ضرب المثل بن جانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں   ؎

نہ جانے حیا آ کے کیا کہہ گئی                         کھڑی تھی جہاں بس کھڑی رہ گئی

اسے دہر کی پاسبانی ملی                  دلوں پر اسے حکمرانی ملی

کتاب ادبی اخلاقی ہر اعتبار سے سند ہے، کاش ہماری یونیورسٹیاں اور کالج ایسی کتابوں کو نصاب میں جگہ دینا سیکھیں۔مصنف سے شکایت صرف ایک ہے، صفحہ 240 پر جہاں شریف رئیس زادی خود اپنے گھر سے بے گھر ہورہی ہے وہ موقع بہت درد کا تھا سرسری گزر جانے کا نہ تھا، تنہا وہی کتاب کو انتہائی درد انگیز بنانے کے لیے کافی تھا۔

صدق نمبر  42، جلد  12 ،  مورخہ 27؍ دسمبر 1946

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*(125) لا جونتی*

از سر شانتی سروپ بھٹناگر

25۔ تغلق روڈ، نئی دہلی۔

سر شانتی سروپ بھٹناگر ہندوستان کے ایک نامور سائنٹسٹ اور ماہرِ کیمیات کی صفِ اول میں ہیں۔ خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ انھیں شاعری اور پھر اردو شاعری سے کوئی مناسبت ہوگی، چہ جائیکہ وہ خود شعر کہتے ہوں۔ پیشِ نظر کتاب اس خیال کی عملی تردید میں ان کے کلام کا اردو مجموعہ ہے، ایک مختصر دیوان بلکہ کلیات۔

سر شانتی قوم کے کائستھ ہیں اور کائستھوں کا تعلق اردو بلکہ فارسی کے ساتھ کوئی نیا نہیں قدیم اور گہرا ہے اور پھر سر شانتی تو اس کے علاوہ غالب کے مشہور شاگرد منشی ہر گوپال تفؔتہ کے نواسے ہیں ------ یہ دونوں خصوصیات سامنے رکھ لیجیے، حیرت ہلکی ہوجائے گی مگر جائے گی نہیں۔ کیمیا گر کی شاعری ہے ہر حال میں ایک اعجوبہ چیز! ------ مجموعہ کے شروع میں متعدد اہل قلم کے قلم سے دیباچے، مقدمے، تقریظیں ہیں، ڈاکٹر مولوی عبد الحق، سر تیج بہادر سپرو، خواجہ محمد شفیع دہلوی، خواجہ حسن نظانی وغیرہ۔ بعض یقیناً بہت دلچسپ اور قابلِ مطالعہ، بعض سرے سے غیر ضروری۔

نفس کلام نرم گرم دونوں قسم کا ہے، گرم زیادہ نرم کم، بیشتر حصہ پڑھنے داد دینے کے قابل، کچھ حصہ خاموشی سے گزر جانے کے قابل اور ایسا کوئی نہیں کہ رد کئے جانے یا ورق الٹ دینے کے قابل ہو۔ تشبیب کے حصے میں کلام کا رنگ قدرتاً عاشقانہ ہے لیکن فاسقانہ کہیں بھی نہیں۔ شاعر ہر حال میں شریف سنجیدہ خود دار ہے، رند، اوباش، کمینہ کسی ایک جگہ بھی نہیں۔ تبصرہ کا عنوان اگر کلام کے اعتبار سے ‘‘کیمیا گر کی شاعری’’ تھا تو صاحب کلام کے اعتبار سے ایک ‘‘شریف شاعر’’ ہونا چاہیے تھا۔

مجموعہ ایک طرح کا کشکول ہے، تغزل کا حصہ تو کچھ یوں ہی سا ہے، مختلف عنوانات پر نظمیں ہیں واقعاتی لیکن نہ ایسی ہیں کہ خشکی کی حد تک پہنچ جائیں بلکہ طرز ادا کے لحاظ سے سب کے سب جذباتی، شاعر پورا عاشقِ صادق ہے لیکن عشق کی بازاری بیسوا کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی محترم رفیق حیات کے ساتھ جو دوسرے عالم میں پہنچ چکی ہیں۔

ساری کتاب شروع سے آخر تک اسی داستان درد سوز فراق سے رنگین ہے ------ شاعر ہندو ہے، کلام ہندی اور ہندوانہ تلمیحات سے لبریز ہے لیکن  نشو نما یقیناً نیم اسلامی ماحول میں ہوئی، اس لیے مسلم تخیلات کی کار فرمائی بھی کثرت سے نظر آرہی ہے۔ لاجونتی انھیں داغِ مفارقت دے جانے والی خاتون کا نام ہے، ان کے مرثیہ میں نوحہ گر شاعر کہتا ہے   ؎

صدا بلند ہوئی آئیں لیڈی بھٹناگر    ہیں چندر گپت کے کنبہ کی دختر نیک اختر

بصد ادب تھے فرشتے کھڑے کچھ ادھر کچھ ادھر       یہ حکم تھا کوئی تکلیف کوئی تکلیف نہ ہو ذرہ بھر

کیمیا گر فرنگی علوم و فنون میں ڈوب کر بھی فرنگ زدہ نہیں، اسے اپنی مشرقی شرافت و عصمت عزیز ہے، وہ خاتون ہند کو فرنگی تیتریوں سے بالکل مختلف دیکھنا چاہتا ہے، صفحہ 40-45۔ اور وہ زن فرنگی کے فریبِ محبت سے بھی خوب آگاہ ہے، صفحہ 161-165۔ خیر یہ تو پھر ایک معاشرتی جزئیہ ہے، بڑی اور بہت بڑی بات یہ ہے کہ نامور سائنٹسٹ (مشہور فلسفی اقبال کی طرح) نہ ملحد ہے نہ مشکک، نہ دہری نہ لا ادری بلکہ ٹھیٹھ خدا پرست ------ کاش ہمارے ہاں کے نوجوان فلسفہ کا صرف نام سن لینے اور سائنس کی صرف شد بد جان لینے والے اس مثال سے فائدہ اٹھائیں! ایک نظم خدا کے عنوان سے صفحہ 17-23 اور دوسری کیمیا و فلسفہ صفحہ 24-25 کے عنوان سے دونوں پڑھنے کے قابل ہیں۔

متعدد نظمیں سیاسی رنگ کی بھی ہیں اور ان میں ایک آدھ تو بالکل اقبال کے ابتدائی نقش قدم پر، مثلاً جشنِ فتح صفحہ 166-167 جس کی ترکیبیں تک اقبال کے  ‘‘نیا شوالہ’’ سے ماخوذ ہیں اور انہیں میں ایک آدھ ایسی بھی آگئی ہے جو سر شانتی کے عام مرنجان مرنج و صلح جو مسلک کے منافی ہے مثلاً مریض ہر دل عزیز صفحہ 153-160، یہ نظم اس صورت سے اگر دینی ہی تھی تو کم از کم اس پر تاریخ نظم درج کر دینا تھی۔ 1946 کی دنیا 1920 کی دنیا سے کتنی مختلف ہوچکی ہے، بھائی شوکت کا ذکر اس میں جس عنوان سے آیا ہے وہ اس وقت تو محض مزاح سمجھا جاسکتا تھا لیکن آج کثرت سے مسلمان ناظرین اس تکلیف دہ طنز کو تعریض سمجھیں گے۔

اردو لفظوں کے ساتھ متعدد ہندی نظمیں بھی ہیں، اردو کے بعض مفرد الفاظ کی صحت تلفظ ایک دو لفظ کی صحت، محاوروں اور بعض مرکبات کی صحت ترکیب پر نگاہِ نکتہ چیں دو چار جگہ رکی، لیکن جس کتاب کو خواجہ محمد شفیع دہلوی جیسے اہل زبان بے تکلف پاس کر رہے ہوں اس کے کسی مقام پر حرف رکھنا ہے بڑی ہمت و جسارت کی بات۔

صدق نمبر  45، جلد  12 ،  مورخہ 17؍ جنوری 1947

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/