وہ بھی انسان تھے جو نفس کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیتے تھے

Bhatkallys

Published in - Other

08:57PM Fri 7 Jul, 2017

ندیم صدیقی شیخ شرف الدین ملقب مصلح الدین معروف بہ سعدی شیرازی اپنے علم و فضل کے سبب دُنیا بھر میں معروف و مشہور ہی نہیں معزز بھی ہیں مگر یہ عزت و شہرت صرف ان کے علم کے سبب نہیں بلکہ ان کی راست گوئی اور ان کے اعمالِ صالح اس کی اساس ہیں۔ یہ زمانہ جس میں ہم اور آپ زندگی کر رہے ہیں عجب طرح کے امتحان کا ہے۔ اچھے خاصے علم و عمل کے لوگ بھی ’’ زمانے کی آلودگی‘‘ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ اس کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں ؟۔۔۔۔ تو بزرگِ عالی مقام نے جواب دِیا: ’’ اِنسان دھوکہ یا فریب تب ہی کھاتا ہے جب اس نے لالچ کی ہو۔ اگر آپ ذہنِ رسا رکھتے ہیں تو کسی اور کا نہیں صرف اپنا محاسبہ کر دیکھیں وہ یوں کہ دوسروں کے سارے اعمال و افعال آپ کے علم میں نہیں ہیں اور اسی طرح یہ بھی ہے کہ آپ کے تمام معاملا ت کسی دوسرے کے علم میں نہ ہوں مگر آپ تو اپنے معاملات سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا خدا کو حاضر و ناظر جانتے ہوئےسوچئے کہ آپ نے کہاں کہاں لالچ و طمع کی ہے۔ ؟ اور اس کا نتیجہ کس کس طرح ظاہر ہوا۔!! اگر منفی نتیجہ سامنے آیا تو اکثرلوگ قسمت کو رونے لگتے ہیں اور اگر جو مطلوب تھا ، وہ مل گیا تو اپنی عقل و دانش پر پھولے نہیں سماتے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نسخۂ دُعا بھی نہیں بھولتا کہ’’ اللہ سے وہ نہ مانگو جس کی تمہارے دل میں خواہش ہو بلکہ اللہ سے وہ طلب کرو جو تمہارے حق میں بہتر ہو۔‘‘۔۔۔۔ ذرا سوچیے کہ کس درجہ حکیمانہ بات ہے۔ بہت مشہور روایت ہے کہ جب ملک آزاد ہوا اور تقسیمِ ہند کی آندھی چلی تو کسی صاحب نے بڑے عاجزانہ انداز سے ایک ولی ٔ زمانہ کے حضوردرخواست کی کہ ’’آپ دُعا کر دِ یجیے کہ ہم جس ملک کےلئے لڑ رہے ہیں،چاہے جان چلی جائے مگر ملک قائم ہو جائے۔ ‘‘۔۔۔دُعاکی گئی کہ۔۔۔ ’’ان کا منشا پورا ہوجائے۔‘‘۔۔ ولی کی دُعا مستجاب ہوئی اور بُری طرح خون خرابہ ہونا شروع ہوا تو ۔۔۔ وہی شخص پھر وَلی کی جناب میں حاضر ہواا ور اب استدعا کی کہ’’ حضرت !دُعا کر دیجیے کہ خون خرابہ بند ہوجائے۔‘‘ جواب ملا:۔۔۔ ’’پہلی دُعا کی رد میں دوسری دُعا نہیں کی جاسکتی۔‘‘۔۔۔ یہ کہہ کر بزرگِ عالی مقام نے سائل کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ دُعا کیسے مانگی جانی چاہیے اس کا بھی ایک بہت عمدہ نمونہ یاد آتا ہےکہ ایک اندھی اور غریب ترین بے گھر بڑھیا جس کا ایک بیٹا بھی تھا وہ چاہتی تھی کہ اللہ اس کی آنکھوں میں روشنی دیدے اور اس کا اپنا گھر ہوجائے اور اس کے بیٹے کی شادی بھی ہوجائے۔ ایک بزرگ کو ترس آگیا اورا ُنہوں نے اللہ سے دُعا کی اے اللہ !تجھ سے سب کچھ ممکن ہے تٗو چاہے تو اس نا بینا بڑھیا کی تمنائیں پوری کردے۔ جواب ملا:۔۔۔ ’’جاؤ، اس نابینا بوڑھیا سے کہو کہ وہ کوئی۔۔۔ایک دُعا۔۔۔مانگ لے، جو پوری کر دی جائے گی۔‘‘ نابینا بڑھیا کو یہ مژدہ سنا یا گیا: اب وہ پریشان ہوئی کہ ایک دُعا کیا مانگوں!!۔۔۔ بزرگ نے اس کی یہ الجھن تاڑ لی اور اس سے کہا کہ اے بوڑھی عورت اللہ سے مانگ :’’ اے دونوں جہان کے مالک! میں اپنے آنگن میں اپنے پوتوں پوتیوں کو پھلتے،پھولتے اور کھیلتے ہوئے دیکھوں۔‘‘ ۔۔۔۔ بڑھیا نے حکمت سے بھری یہ دُعا مانگی اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ بڑھیا کا گھر بھی ہو گیا اور لڑکے کی شادی بھی ہوگئی اور اس نے اپنے پوتوں پوتیوں کو اپنے آنگن میں پھلتے،پھولتے اور کھیلتےہوئے دیکھ لیا، یعنی اسے بینائی بھی مل گئی۔ یہ واقعہ ہے یا افسانہ۔۔۔!! اس سے ہمیں غرض نہیں، غرض اس سے ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ’’ جس کی تم طلب و جستجو کرو گے وہی تم کو ملے گا۔‘‘ یہ واقعہ یا افسانہ اس کی ایک بہترین مثال بنا ہوا ہے۔ ۔۔۔ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو بس لاکھوں کروڑوں میں کھیلتے دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ تعلیم و تعلم کے پیچھے بھی یہی خواہش اور یہی جستجو کار فرما ہوتی ہے۔ ہماری قوم کے بچے ڈاکٹر، وکیل اور ا ب تو آئی اے ایس کے امتحا ن میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں جو یقیناً خوشی کی بات ہے۔ مگر تشویش اس کی ہے کہ وہ ڈاکٹر ، وکیل ،کمشنر، کلکٹر اور سفیر وغیرہ تو بن رہے ہیں مگر ایک اچھےمسلم ڈاکٹر، اچھے مسلم وکیل، اچھے مسلم کلکٹر یا اچھے مسلم سفیر کا جیسا کردار اُنھیں پیش کرنا چاہیے ویسی صورتِ حال(اکثر) نہیں ہے۔۔۔۔ ہماری دوسری بیماری یہ بھی ہے کہ ہم سفارش گزارش کے عادی ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں صحیح عہدے یا منصب پر حقدار نہیں پہنچ پاتے اور نا اہل فائز ہو رہے ہیں۔ جسکے سبب پورا معاشرہ ایک دیمک زدہ دیوار کی طرح ہو گیا ہے کہ کب وہ اَڑَاڑَڑَا دَھم ہو جائے ۔۔۔۔ نتیجہ سوائے ہلاکت کچھ سامنے نہیں آئے گا۔ سفارش گزارش کے عنوان پر ہم شیخ سعدی کی طرف پلٹتے ہیں، وہ کسی سفر سے اپنے مستقر شیرازؔ لوٹ رہے ہیں،قریب پہنچ چکے تھے کہ شدید تھکن اور بھوک کے احساس نے انھیں گِرِفت میں لے لیا۔ شیخ نے دیکھا کہ سامنے ایک گھنا درخت ہے اس کی چھاؤں میں وہ بیٹھ گئے اور اپنی زنبیل ٹٹولی تو اس میں سوکھی روٹی کے ٹکڑے ملے اور ایک ڈِبیہ میں نمک۔۔۔ انہوں نے اسی کو تناول کرنا شروع کیا تھا کہ اسی راستے سے شیراز کے شاہی شاعر کا بھی گزر ہوا۔ اس نے شیخِ شیراز کو ان حالوں دیکھا تو شیخ سے مخاطب ہوا کہ اے شیخ! اجازت ہوتو کچھ عرض کروں۔ شیخ سعدیؔ نے کہا کہ تٗو درباری شاعر ہے تجھے اجازت کی کیا ضرورت، تٗو اپنی کہہ ۔۔۔ اس نے کہا :اے شیخ! اگر آپ نے دربار میں کبھی کبھار سلامی کی عادت ڈال لی ہوتی تو یہ سوکھی روٹی کے ٹکڑے اور نمک کی نوبت نہ آتی۔۔۔ یہ سن کر شیخ سعدی نے تبسم کے ساتھ کہا اب تٗو میری سن وہ بھی مسکراتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوا، تو شیخ نے کہا: اے شاعرِدرباری! اگر تٗونے سوکھی روٹی اور نمک پر قناعت کی ہوتی تو تجھ کو شاہ کے سامنے سلامی کی ضرورت ہی نہ آن پڑتی۔‘‘ تاریخ کے اوراق میں دونوں کردار موجود ہیں مگر شیخ سعدی اپنے اعمالِ حسنہ کی روشنی میں زمانے کے تغیر و تبدل کے باوجود زندہ و پائندہ ہیں بلکہ دوسروں کو زندگی کی راہ دِکھا رہے ہیں اور اس کے برعکس شاہی شاعر کا نام بھی ہم تک نہیں پہنچا۔ شیخ بھی ہماری طرح ہی انسان تھے مگر انہوں نے نفس کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دِیا بلکہ نفس کو شیخ نے سواری کی طرح برتا۔۔۔