(( علم کتاب واٹس اپ گروپ پر مناظروں کی افادیت کے موضوع پر ہوئی بحث پر ایک تبصرہ ))
مناظرے کی افادیت کے سلسلے میں مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب کی باتیں بڑی مفید ہیں، چونکہ مولانا مسلمانوں کے ایک ایسے بڑے پلیٹ فارم کے ذمہ داران میں ہیں جس میں بریلوی ، بوہرہ اور شیعوں کی بھی نمائندگی ہے، فکری اور مسلکی فرق، اور اصولی اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کا حصول اس پلیٹ فارم کا ایک اہم مقصد ہے۔ اور یہ ہدف تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے،اللہ مولانا کو اپنے مشن میں کامیاب کرے، اور قوم کو ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا تادیر موقعہ دے، یہی ہماری دعا ہے۔
مناظرے کے موضوع پر جن شخصیات نے اس بزم میں اظہار خیال کیا ہے، انہیں مختلف طبقات فکر سے سابقہ پڑتا ہے، ان میں اعلی تعلیم یافتہ ، دانشور اور عصری یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی شامل ہیں، لہذا اس ناچیز کا کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔
جیسا کہ پہلے بارہا ذکر ہوچکا ہے، مناظرے میں مد مقابل کو ہرانا مقصود ہوتا ہے، جس میں انا کسی نہ کسی طرح داخل ہوہی جاتی ہے، جس سے دعوتی مصالح کا حصول عموما ممکن نہیں ہوتا،دعوتی نقطہ نظر سے اختلافات کے باجود افہام وتفہیم کا ماحول باقی رکھنا ضروری ہے، اس کے لئے باہمی اعتماد کا ماحول ضروری ہے، لیکن جہاں اعتماد ختم ہوگا، اور ایک دوسرے کے بارے میں محسوس کیا جائے گا کہ بیخ وبن سےاکھاڑنے کی کوشش ہورہی ہے تو پھر معصوموں کا خون بہے گا،اور بڑی قیمتی جانیں ہر طرف سے ضائع ہونگی، جس کی تلافی ناممکنات میں سے ہوگی۔
اپریل ۱۹۸۹ء کی بات ہے، مخدومی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ عمرے میں تھے، مدینہ منورہ میں احباب نے ایک نشست رکھی تھی، جس میں بڑے بڑے علماء موجود تھے، اس میں مولانا ضیاء الرحمن فاروقی مرحوم کی بھی تقریر تھی، یہ وہی زمانہ تھا جب پڑوس میں شیعہ سنی اختلافات کی آگ لگی ہوئی تھی، اور کئی قیمتی جانیں دونوں طرف سےاس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں، فاروقی صاحب نے شیعوں کے خلاف بولنا شروع کیا اور گن گن کر حضرات ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی جانے والی گالیاں سنانے لگے، انہیں سن کر قاضی صاحب غصے سے آگ بگولا ہوگئے، بھرے جلسے میں ہاتھ پکڑ کر تقریر رکوادی اور بٹھا دیا، اور کہا کہ کوئی اپنی ماں کو گالیاں دے تو انہیں گنوایا نہیں جاتا۔ سفر سے واپس پر قاضی صاحب کی ملاقات ہوئی تھی، بات بات میں ہم سے کہنے لگے کہ یہ شیعہ سنی اختلافات صدیوں سے چلے آرہے ہیں، کتابوں میں پڑے ہوئے ہیں،ان کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرتے آرہے ہیں ، لیکن ایسی خراب صورت حال تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی کہ اختلاف عقیدہ کی بنیاد پر جس طرح ایک دوسرے فرقے کے قائدین اور علماء کے قتل کے واقعات آج کے دور میں ہورہے ہیں۔ اس سفر کے تاثر میں مورخہ ۲ مئی ۱۹۸۹ء افطار کے وقت حضرت قاضی صاحب کے ساتھ علماء کی ایک خصوصی مجلس منعقد ہوئی تھی جس میں آپ نے بڑے دردمندانہ انداز سے علماء کو جمع کرکے کچھ نصیحتیں کی تھیں۔ جس کی ویڈیو بھٹکلیس پر چار قسطوں میں مندرجہ ذیل لنک پر دستیاب ہے۔
https://youtu.be/MQXVlDlWBPc
دعوت دین سے دلچسپی رکھنے والوں کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ داعی جس مذہب کا بھی ہو، اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا پیغام اس کے فریق مخالف تک پہنچے، وہ سمجھتا ہے کہ اس کی تقریر کی حیثیت ٹائیفائڈ کی گولی کی مانند ہوتی ہے، ٹائفائیڈ میں بیمار کی انٹریاں سوج جاتی ہیں، اور وہ دوائی کی گولی نگل نہیں سکتا، اگل دیتا ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے کہ دوائی ایک مرتبہ پیٹ میں چلی جائے، چاہے پیٹ میں گھلنے کے بجائے وہ اگل دے لیکن دوا اثر کئے بغیر نہیں رہتی۔
شیخ احمد دیدات کے مناظروں کے دور عروج میں ہم نے محسوس کیا کہ وہ امریکن یوروپین مبلغ جن کی پہنچ صرف اپنے ملکوں تک رہتی تھی، اور جن کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی آواز باہر کی دنیا تک پہنچے، اور جس وقت انہیں اپنے مذہب کے ماننے والوں کی بھی ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں محسوس ہورہی تھی، کیونکہ عیسائی مذہب کے ماننے والے عموما لادین ہوتے ہیں، اپنے مذہب کے بارے میں جاننے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہواکرتی ، وہ دنیاوی ملذات سے نکل کر مذہب کی حدبندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتے، لیکن ان کا اپنے مذہب سے نسلی تعلق ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کلیسا سے انہیں بہت سی سہولتیں ملتی ہیں، لہذا اپنی نسل اور ملک کی نسبت سے اپنے مذہب کے ساتھ وہ تعصب رکھتے ہیں۔ شیخ احمد دیدات کے مناظروں کے مثبت اور مفید پہلو بہت سے ہیں، وہ ایک بڑے مبلغ تھے،بہتوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، لیکن ان مناظروں کا منفی پہلو یہ بھی تھا کہ جو عیسائی مبلغ اپنے ہم مذہب لوگوں تک بھی نہیں پہنچ پارہے تھے شیخ دیدات کے مناظروں کے طفیل اپنے کیا ان سے نفرت کرنے والے مسلمانوں کے منہ پر دین اسلام اور نبی رحمت کی شان میں گستاخی کرنے اور اپنے دین کا پیغام پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کا ایک دوسرا منفی پہلو یہ بھی تھا کہ بہت سے فلیپنی عیسائی وغیرہ جنہیں اپنے مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا،انہیں صرف اپنی موج مستی سے دلچسپی تھی، انہیں مسلم نوجوان شیخ دیدات کے مناظرات کے نکات سنا کرتنگ کرنے لگے، تو پھر انہوں نے بھی بدلا لینا شروع کردیا، وہ عیسائی مبلغ جن کی تقاریر انہوں نے زندگی بھر سننے کا اتفاق نہیں ہوا تھا،وہ ان کے مناظرات اور اسلام کے خلاف ان کے نکات اکٹھے کرکے ان سیدھے سادھے مسلم نوجوانوں سے اپنے آفسوں وغیرہ میں بھڑنے لگے جنہیں اسلام سے صرف نام کا تعلق تھا، اپنے مناظرین کی زہر آلود باتیں سن کر ان بھولے بھالے مسلمانوں کا دماغ خراب کرنے لگے، ان میں سے کئی مسلمان تنگ آکر مولویوں کے پاس آتے اور اسلام کے خلاف عیسائی مناظرین کے اشکالات کا جواب مانگتے،اب انہیں مولوی کہاں سے جواب دے؟ بے چارہ دیدات کے مناظرے سمجھ سکتا تو کچھ جواب بھی دیتا، جس سے نوجوان مولوی کو اپنے حساب سے ان پڑھ سمجھ کر دور ہوجانے لگے ۔ اس وقت ایسے بہت سارے واقعات ہمارے سامنے بھی آئے تھے۔
ہمارے پاس جب دیدات کے مناظروں کے ویڈیو کیسٹ منظوری کے لئے آتے توہمارا ذاتی نوٹ صرف دیدات کے مواد کی اجازت تک محدود ہوتا، کیونکہ ایک طرح سے ہم اسے دودھ کے ساتھ شراب دینے کے مماثل سمجھتے تھے۔
سلطنت عمان کے سلطان مذہبی ہم آہنگی کی سنہری مثال رکھتے ہیں، اباضی مسلک یہاں سرکاری مذہب ہے، جو کہ عبد اللہ ابن اباض کو مانتے ہیں، اسے خارجی مذہب کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ حضرات خارجی نسبت کو پسند نہیں کرتے۔ موجود مفتی عام شیخ احمد خلیلی سے پہلے یہاں کے لوگ اپنے مذہب سے واقفیت اور وابستگی میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے، لیکن شیخ خلیلی نے اس مذہب کی نشات ثانیہ کے لئے بڑا کام کیا جس کی تفصیلات کبھی بعد میں ائیں گی۔ شاید احباب کو تعجب ہو کہ عقائد میں اباضی اعتزالی عقائد کے قائل ہیں، اور ان کے یہاں اب بھی یہ بحثیں جسے ہم قدیم اور بوسیدہ سمجھتے ہیں تازہ ہیں۔ سعودی علماء سے ان کی دوری اور اختلاف کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
شیخ خلیلی بڑے زیرک اور اپنے مذہب کے بڑے عالم ہیں، وہ لوگوں کو قریب کرنا جانتے ہیں، انہیں اپنے مذہب کی حقانیت اور اشاعت اور اپنے ہم وطنوں کی اس پر پختگی کی بڑی فکر رہتی ہے، لہذا انہوں نے شیخ بن باز اور دیگر علمائے سعودیہ کو ۱۹۸۰ ء کی دہائی میں ٹیلیویژن پر مناظرہ کی دعوت دی تھی، لیکن شیخ بن باز نے یہ کر انکار کردیا کہ اباضی مذہب اور ان کے اعتزالی عقائد محدود حلقے میں رائج ہیں، ٹیلویژن پر مناظرہ انہٰیں عالمی حیثیت دینے کے مترادف ہوگا، اور یہ عقائد ان مناظروں کے طفیل دنیا بھر میں پھیل جائیں گے، اس سے علماء مخالف طبقہ کو ایک ہتھیار ملنے کا بھی خدشہ ہے۔
جن مناظروں کے سلسلے میں ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہمارے علماء جیت گئے، ان میں سے بہتوں کے بارے میں ہم نے فریق مخالف کی کتابیں دیکھیں ہیں جن میں اپنے مسلک کے مناظرین کی فتح کا ذکر دھڑلے سے کیا گیا ہے، ان میں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃُ اللہ علیہ کے قادیانیوں کے خلاف وہ مناظرے بھی ہیں جن میں آپ کی فتح اظہر من الشمس رہی ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ مناظروں کی فتح عموما دعوت کی فتح نہیں ہوا کرتی۔ نہ اس کے دیرپا اثرات ہوا کرتے ہیں۔ شاید اس کی ثانوی حیثیت کی وجہ سے مولانا ارشاد احمد مبلغ دیوبند، مولانا نور محمد ٹاندوی، اور مولانا مفتی نظام الدین اور مولانا مفتی مہدی حسن رحمۃ اللہ علیہم کے جن مناظروں کا تذکرہ ہم نے اپنے بچپن میں سنا تھا، ان کی رودادیں اور نکات دستیاب نہیں ہوتے ۔
ایک مرتبہ تایا مرحوم سے جناب محمد پالن حقانی مرحوم کا ذکر آیا تو فرمایا کہ مولانا آل مصطفی سید میاں مارہروی برکاتی مرحوم سے آپ کا مناظرہ ممبئی میں ہوا تھا، آل مصطفی کا بریلوی مکتب فکر کے اکابرین میں شمار ہوتا ہے۔ آپ سنی جمعیت علماء کے بانی تھے، اور سید العلماء کے لقب سے پہنچانے جاتے تھے، پالن حقانی مرحوم نے بھرے مناظرے میں آل مصطفی کو شرمندہ کیا تھا، قرآن کے ایک آیت میں ان کی تحریف پکڑی تھی۔ یہیں سے پالن حقانی مرحوم کی شہرت کا آغاز ہوا تھا، تایا مرحوم کو ہم سے جدا ہوئے ۲۶ سال گذر گئے، ان کے علاوہ کوئی اور اس مناظرے کی تفصیل بتانے والا نہیں ملا۔