ساڑھے تین ماہ میں حفظ کرنے والے جامعہ کے طالب علم کے تأثرات

Bhatkallys

Published in - Other

05:46AM Fri 15 Apr, 2016
(ایک مسلمان کے لیے حفظ کلام پاک سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں) حافظ عمر صیام فقیہ احمدا جاکٹی ندوی (امسال جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاریخ میں الحمدللّہ پہلی دفعہ اکتیس طلبانے حفظ کلام اللہ کی سعادت حاصل کی ،اس میں ندوۃ العلماء لکھنو سے فضیلت کرنے والے پانچ علماء کرام بھی تھے ،ان میں حافظ عمر صیام فقیہ احمدا جاکٹی ندوی ابن مولانا محمد الیاس صاحب ندوی نے صرف ساڑھے تین ماہ کی مدت میں حفظ کلام پاک کی سعادت حاصل کی ،ان حفاظ کرام کے اعزاز میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں منعقدہ تہنیتی اجلاس میں موصوف کی طرف سے ان سب طلبا ء کی نمائندگی کرتے ہوئے جو تاثراتی مقالہ پیش کیاگیا تھا وہ افادہ عام کے خاطر پیش خدمت ہے ۔ ادارہ) الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ۔ اماّبعد أعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشّیطٰنِ الْرّجِیْم، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْم ’’وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرآنَ لِلْذّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِر‘‘ حضرات:۔ میں آج آپ لوگوں کے سامنے ان حفاّظ کی نمائندگی کرتے ہوئے تأثرات پیش کرنے کیلئے کھڑا ہوں، جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو محفوظ رکھنے کے لیے قبول فرمایا، آج ان ہی کے اعزاز میں یہ مبارک محفل سجائی گئی ہے،میں اس وقت خاص کر ان حفاّظ کی نمائندگی کروں گا، جنھوں نے عا لمیت کی تعلیم حاصل کی ، ندوہ سے فضیلت کی تکمیل کی، پھر انہوں نے اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے جامعہ کے شعبۂ حفظ میں داخلہ لیا جس کا ذکر اکثر بڑے بڑے علماء واساتذۂ جامعہ کو جمعیۃ الحفاظ بھٹکل کے جلسوں میں کرتے ہوئے سنا گیا ۔ معزز سامعین :۔ درجۂ حفظ کی تاریخ میں اس حیثیت سے یہ سال ممتاز رہے گا کہ پہلی مرتبہ جامعہ کی تاریخ میں اللہ کے فضل سے دس فارغین نے درجۂ حفظ میں ندوہ سے فضیلت کے بعد داخلہ لیا اور ان میں سے پانچ طلبہ نے محض اللہ کی توفیق اور اسی کے فضل وکرم سے بہت ہی کم مدت میں حفظ کی تکمیل کی ۔ فَلِلّہِ الْحَمْدُ عَلیٰ ذلِک۔ انہی میں سے ایک طالب علم ایسا بھی ہے ،جس نے پنجم عربی میں رہتے ہوئے حافظ قرآن بننے کا خواب دیکھا تھا ، آہستہ آہستہ حفظ کرتا رہا ،جامعہ سے فراغت پھر ندوہ میں فضیلت کے دوران الحمدللہ کل دس پارے حفظ کرلئے، لیکن اللہ کی بے پناہ رحمت دیکھئے کہ اس طالب علم نے جب جامعہ میں داخلہ لیا تو محض ڈھائی مہینے میں باقی کے بیس پارے حفظ کر کے حفاظ قرآن کی فہرست میں اپنا نام درج کرادیا اوروہ طالب علم آج آپ کے سامنے کھڑا ہے ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ اس کے علاوہ دو فارغین ایسے بھی ہیں جو ندوہ میں اپنی فضیلت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں قرآن پاک کو یاد کرتے رہے اور اس طرح دس پارے ندوہ میں تعلیم کے دوران یاد کرلئے ،پھر انہوں نے جامعہ کے درجہ حفظ میں داخلہ لے کر ایک نے تین مہینہ میں اور ایک نے چار مہینہ کے قلیل عرصہ میں اخیر کے بیس پارے یا دکرلئے ، اللہ ان سبھوں کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔آمین۔ حضرات:۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن ایک نور ہے اور یہ نور جس دل میں داخل ہو جاتا ہے تو وہاں سے تاریکیاں اور ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں یہاں ایک طالب علم موجود ہے جس کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا کہ قرآن سے اشتغال نے جس کی زندگی بدل دی،قرآن مجید کا حفظ شروع کرنے سے پہلے اس کی زندگی عالم ہونے کے باوجود عالمانہ شان کے خلاف تھی لیکن جب اس نے حفظ شروع کیا تو اس کی برکت سے اس کی زندگی قرآن وسنت کیمطابق ہوگئی، ابھی دس دن پہلے کی بات ہے کہ میں نے اس پوچھا کہ جب میں پہلے سال رمضان کی چھٹیوں میں گاؤں واپس آرہا تھاتو ایک لڑکا ، چہرے پر پتلی سی داڑھی، آنکھوں پر خوبصورت سا چشمہ، تری فورتھ کپڑے پہنے ، کانوں میں ہیڈ فون اور ہاتھوں میں موبائل لئے ادھر سے ادھر آجارہاتھا ، کیا وہ تم ہی تھے ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں:۔ واقعی جب سے میں نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا تو اس کی برکت سے میری ساری زندگی بدل گئی ۔ مجھے اس موقع پر میرے مربیّ وسابق مہتمم جامعہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی رحمہ اللہ کی بہت یاد آرہی ہے کہ اگر آج وہ اس مبارک محفل میں موجود ہوتے تواس محفل کی رونق ہی الگ ہوتی ، اور وہ بہت ہی خوش ہوتے اس لئے کہ ان حفاظ میں اکثروہ طلبہ بھی ہیں جن کے حفظ کی مولانا کو بہت فکر تھی ،سال کے شروع میں جب میں داخلہ فارم لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا کہ ارے جاکٹی:۔ تم بھی داخلہ لوگے، پھر جب شعبۂ حفظ کا فارم دیکھا تو بہت خوشی کا اظہار کیا ، جب میں واپس جانے لگا تو واپس بلا کر فرمایا کہ اپنے جتنے بھی ساتھی ہیں سب سے کہہ دو کہ عصر بعد مجلس لگتی ہے اس میں کتاب پڑھی جاتی ہے سب کا اس میں شریک رہنا ضروری ہے ۔ دو دن تک ساتھیوں نے یہ کہہ کرمیری بات سنی ان سنی کردی کہ ابھی تو دو دن ہی ہوئے ہیں ،تیسرے دن مولانانے سب کو اپنے دفتر میں بلایا اور فرمایا کہ آپ لوگوں نے جب داخلہ لیا ہے توسب کو عصر میں بیٹھنا ضروری ہے،تو گویا یہ اللہ کی طرف سے ہم فارغین کیلئے غیبی نظام تھا کہ ہمیں مولانا کی زندگی کے اخیر وقت تک ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا جب تک صحت مند رہے بلکہ بیماری کی تشخیص کے بعد بھی سیرت کے واقعات کو سامنے رکھ کر ہم فارغین کی دعوتی اور فکری اعتبار سے رہنمائی کرتے رہے ، اس دوران مولاناہم طلبہ سے معلوم بھی کرتے رہتے تھے کہ کس نے کتنا حفظ کیا ،کون آگے ہے وغیرہ وغیرہ، شاید ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ہم طلبہ سے پوچھا کہ کس کاکتنا حفظ ہوا ہے، ہم طلبہ کے حفظ کی رفتار سن کر بیحد خوش ہوئے اور فرمایا کہ انعام دینا پڑے گا ، پھر جتنے حاضرین تھے سب کو انعام سے نوازا ۔ جب میرا حفظ قریب الختم تھاتو اس وقت میرے استا د مولانا عرفان صاحب ندوی نے مجھے کسی کو بتانے سے روک دیا تھا تاکہ سرپرائز دیا جاسکے تو اس دوران میں نے ایک دن میں الحمدللہ تقریباًایک پارہ یعنی اٹھارہ صفحات سبق سنائے تو استاد گرامی اور درجہ حفظ کے دیگراساتذہ نے خوش ہوکر مجھے انعام سے نوازا ، اسی ہفتہ اساتذۂ جامعہ کے دفترمیں جمعرات کے دن میٹنگ تھی ،تو اس وقت مولانا عرفان صاحب اور مولانا عمران صاحب نے میرا تذکرہ کیا کہ میں نے ایک دن میں اتنے اتنے صفحات سنائے ہیں ، سب اساتذہ خوش تھے، سب سے زیادہ والد صاحب خوش تھے، اگر والد صاحب کے بعد سب سے زیادہ اس وقت کسی کوخوشی محسوس ہورہی تھی تووہ مولانا عبدالباری صاحب رحمہ اللہ تھے ، اس لئے کہ مجھے اپنے درجہ میں مولاناسے سب سے زیادہ تعلق تھا ،اسی دن ظہر کے بعد میں جامعہ آرہا تھا اور مولانا اپنے فرزندمولانا عبدالاحدصاحب کے ساتھ جا معہ سے واپس ہورہے تھے، مجھے دیکھا تو اپنی گاڑی روکی، مجھے روکا اور مبارک باد دی اور کہا کہ انشاء اللہ میں تمھیں اس پر بڑا انعام دوں گا ، اور دوسرے یا تیسرے دن ظہر بعد مجھے بلا کر اپنے ہاتھ سے ایک ہزار روپئے عنایت فرمائے، شاید یہ ان کی زندگی کا آخری خصوصی انعام تھا جو انھوں نے کسی کو دیا، مولانا کا آخری عمومی انعام بھی میری ہی قسمت میں لکھا تھا ، کیونکہ میں وہ آخری طالب علم ہوں جس نے حفظ کی تکمیل کے بعد مولانا سے جاکر ان کے دفتر میں ملاقات کی ، مولانا کا معمول تھا کہ کوئی حافظ بن کر آتا تو کچھ نہ کچھہدیہ دیتے تھے ، مجھے بھی مولانا نے ایک عطر کی شیشی عنایت فرمائی ، چونکہ مہمان بیٹھے ہوئے تھے تو فرمایا کہ اس کے علاوہ بعد میں میں تم کو بڑا انعام بھی دوں گا ،اس کے بعد مولانا کی گرتی صحت کے باعث مولانا کو منگلور وبنگلورلے جا یا گیا ،جب بنگلور والد صاحب عیادت کے لیے حاضر ہوئے تو ان سے بھی پوچھا کہ صیام کیساہے ؟ اس کو ساتھ کیوں نہیں لائے، میرے بعد جتنے بھی مولانا کی زندگی میں حافظ ہوئے،مولانا کی ان سے ملاقات نہیں ہوسکی ، اللہ مولانا کی بال بال مغفرت فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے نو منتخب مہتمم مولانا مقبول احمد صاحب کوبٹیّ ندوی کو جزائے خیرعطا فرمائے جنھوں نے مولانا مرحوم کی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حفاظ کے اعزاز میں اس طرح کے تہنیتی جلسوں کے سلسلہ کو جاری رکھا اور میرے بعدبھی جتنے طلباحافظ ہوئے ان کوبھی انعامات سے نواز کر ان کی ہمت افزائی فرمائی ۔ عزیز ساتھیو:۔ حفظ کے متعلق ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جو لوگ حافظ ہوتے ہیں وہ محض اللہ کی توفیق سے ہوتے ہیں اور اگر اللہ توفیق نہ دے توذہین سے ذہین طلبہ بھی اس سے محروم رہ جاتے ہیں ، ایک ایسا طالب علم بھی آپ کے سامنے موجود ہے کہ درجہ حفظ میں داخلہ کے وقت اس کا تصور بھی نہیں تھا کہ وہ یہاں سے حافظ بن کر جائے گا ، واقعہ یہ ہے کہ وہ طالب علمP.U.C کی تعلیم حاصل کررہاتھا کہ اس نے والد سے کہا کہ میں اب کسی صورت میں بھی آگے کی تعلیم حاصل نہیں کروں گا ، والد اور رشتہ داروں نے بہت سمجھایا، والد نے کہا کہ کالج میں نہیں تو جامعہ میں داخلہ لے لو ،لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا اور کہا کہ بس اب مجھے کہیں نہیں پڑھنا ہے ،دوسرے دن والد سعودی جانے والے تھے اوراپنے بیٹے کیلئے بہت ہی پریشان تھے، اس فکر میں ان کو رات بھر نیند نہیں آئی ، آخر بیٹے نے والد کو خوش کرنے کیلئے کہا کہ میں جامعہ میں داخلہ لیتا ہوں ، اس کا کہنا ہے کہ میں نے صرف اس نیت سے داخلہ لیا تھا کہ جیسے ہی والد سعودی پہنچیں گے میں جامعہ نہیں جاؤں گا ،اللہ تعالیٰ نے مجھ پررحم فرمایا، اس دن کو یاد کرتے ہوئے آج وہ کہتا ہے کہ وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ میں حافظ بن گیا ہوں ،میں خود حیران ہوں کہ میں نے یہ کیسے کرلیا ، محض اللہ کی توفیق تھی اور کچھ نہیں ، اس واقعہ سے ہمیں اس حدیث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس میں اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:۔ اللہ کو اس شخص پر ہنسی آتی ہے جس کو بیڑیوں میں جکڑ کر جنت میں لایا جائے گا ۔ یہاں پر ایک دو طالب علم ایسے بھی موجود ہیں جنھوں نے اپنے حفظ کی تکمیل میں ایک لمبی مدت لی ، ان کے دوسرے ساتھیوں کے خیال میں آتا ہوگا کہ انہوں نے حافظ بننے میں بہت سال لگائے ،لیکن میں خاص کر ان طلبہ کو بہت مبارک باد دیتا ہوں کہ آہستہ آہستہ اور دیر سے ہی سہی ، آپ لوگوں نے ہمت نہیں ہاری ،مسلسل محنت اور کوشش کرتے رہے اور الحمدللہ آج آپ کا شمار بھی حفاظ قرآن میں ہورہا ہے، اس وقت مجھے بہت سارے وہ طلبہ یاد آرہے ہیں جو کبھی انہی کے ساتھ قرآن مجید حفظ کررہے تھے ان کو بھی انہی کی طرح قرآن یاد کرنے میں سستی ہورہی تھی لیکن وہ ہمت ہار گئے، آج وہ پچھتارہے ہیں کہ اگر وہ حفظ کو جاری رکھتے تو آج ان حفاظ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوتے ، تو اس لئے میں ان طلبہ سے کہوں گا جو حفظ کررہے ہیں اور جن کا حفظ کرنے کا ارادہ ہے کہ وہ حفظ شروع کرنے کے بعد کبھی ہمت نہ ہاریں،دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ مسلسل محنت وکوشش کرتے رہیں ،اس لئے کہ اللہ فرما تا ہے کہ اللّہ یَجتبی الیہ من یشاء ویھدی الیہ من ینیب ۔