بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (ساتویں قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

(گزشتہ سے پیوستہ) جب کمیشن میں میری حاضری ہوئی تھی اور سنگھ پریوار کے وکیلوں کے ساتھ دلچسپ معرکہ چلا ہواتھا تو شاید دوسرے دن بھٹکل سے ہمارے مزید کچھ گواہان کی ٹیم کمیشن کے سامنے حاضر ہونے کے لئے تنظیم کی طرف سے بنگلورو پہنچی تھی۔ اس میں 1993کے فسادات کے دوران شدید زخمی ہونے والے مولانا علی سکری اکرمی صاحب مرحوم کے علاوہ جناب ایس ایم عبدالقادرصاحب اور دیگرکچھ احباب تھے۔ جناب ثناء اللہ گوائی کے بقول اس دوران انہوں نے بھی کمیشن کی کارروائی ملاحظہ کی تھی۔ ہمارے نقطۂ نظر سے جناب مولانا علی سکری اکرمیؒ ایک مضبوط گواہ تھے کیونکہ سنگھ پریوار کے غنڈوں نے آدھی رات کو جب مخدوم کالونی کے ہنومان نگر علاقے میں واقعی مسلمانوں کے گھروں پر منظم حملہ کیا تھاتو مولانامرحوم کا گھر بھی ان کے نشانے پر تھا، اور مولانامرحوم اس وقت فسادی حملہ آوروں سے مدافعت کرتے ہوئے سنگین طور پر زخمی ہوگئے تھے۔ ان کے گھر سے ذرا سی دوری پرایک دوسرے مسلم گھر پربھی شدید حملہ ہوا تھا اور اس گھر میں موجودباپ کو شدید زخمی اورنوجوان بیٹے کو شہید کردیا گیا تھا۔ اوریہ ۱۹۹۳ ء فسادات کے دوران ہونے والی پہلے مسلم نوجوان کی موت تھی۔
ہمارے گواہوں نے قدم پیچھے ہٹالیے: لیکن دو دن تک سنگھ پریوار کے وکیلوں کے ساتھ میرے معرکے کو خوداپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرنے کے بعد ہمارے ان گواہوں نے اپنے قدم پیچھے ہٹالئے اور کمیشن کے سامنے پیش ہوکر گواہی دینے اور سنگھ پریوار کے وکیلوں کا سامنا کرنے کے بجائے واپس بھٹکل لوٹ آنے کو ترجیح دی۔کچھ دنوں بعدمجھے بہت ہی معتبر ذریعے سے معلوم ہوا کہ مولانا علی سکری اکرمی ؒ نے (اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے ) جسٹس جگن ناتھ کمیشن میں وکیلوں کے ساتھ ہوئی میری معرکہ آرائی کے سلسلے میں اپنے بہترین اور ستائشی تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک عالمِ دین کے لئے بھی وہ ایک سخت دشوارترین مرحلہ تھا، جس سے نمٹنا خود ان کے بس کی بات نہیں تھی۔بہرحال اللہ رب العالمین کی تائید سے وہ مرحلہ تو حل ہوا۔بجا طور پر کہنا پڑتا ہے کہ
کم ہیں ایسے جو کریں عرضِ ہنر میرے بعد آج غمناک ہیں اہلِ نظر میرے بعد
ہمارا معتبر گواہ اور خوفزدگی!: مذکورہ بالا چند گواہوں کے واپس لوٹنے کے بعد ڈاکٹر سید سلیم صاحب کو بطور گواہ کمیشن میں بھیجا گیا ، جو کہ اس وقت صدر بلدیہ ہونے کی حیثیت سے سرکاری لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔جانے سے پہلے تھوڑی بہت ذہن سازی بھی کی گئی تھی کہ کس طرح سوالات کا سامنا کرنا ہے۔ حالانکہ انہوں نے میرے ساتھ ہونے والی معرکہ آرائی کے مناظر نہیں دیکھے تھے، لیکن بقول ان کے جب وہ گواہی دینے پہنچے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر ہی گھبرا گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے مجھے بتایا تھاکہ ان کی گواہی کے موقع پر اننت کمار ہیگڈے اور کچھ مستنڈے قسم کے لوگ سنگھ پریوار کی طرف سے وہاں موجود تھے۔ اوراس کا نتیجہ یہ ہوگیا کہ انہوں نے فسادات میں بی جے پی کو کلین چٹ دینے والا بیان دے ڈالا جسے اس وقت اخباروں کی سرخیوں میں جگہ مل گئی اور ڈاکٹر موصوف کے خلاف ہمارے اپنے عوام میں برہمی پید اہوگئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو damage controlکرنے کی ایک کوشش کے طور پردوبارہ اپنا تازہ بیان دینے کے لئے بھی کمیشن میں بھیجا گیا ، مگر جو نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ملی مفاد کے نقطۂ نظر سے ان کے پہلے والے منفی بیان کے مضر اثرات بعد میں دئے گئے مثبت بیان سے زائل نہیں کیے جاسکے۔اس کی وجہ سے ہماری اجتماعی زندگی میں جوآپسی چپقلش اور تنازعات پیدا ہوئے سو وہ الگ رہے۔ ڈاکٹر چترنجن سے جرح کی تیاری: سنگھ پریوار کی طرف سے ایک اہم گواہ کے طور پر ڈاکٹر چترنجن کو کمیشن میں پیش ہوناتھا۔ ہم نے اپنے وکیلوں سے مشورے کے بعد ان کی سخت جرح کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور ان کی پیشی سے ہفتوں پہلے سے ہی تیاری شروع کردی۔ جناب یحییٰ دامودی ، سید محی الدین برماور اور میں تقریباً روزانہ رات کو بڑی دیر تک مل بیٹھتے اور ڈاکٹر چترنجن کی جرح میں ہمارے وکیلوں کے کام آنے والے سوالات وضع کرتے۔ ان سوالات کے متوقع جوابات اپنے طور پر سوچنے کے بعد اس پر مزید سوالات ترتیب دیتے ۔پھرپندرہ بیس سوالات کا ایک سیٹ بناکرہمارے وکیلوں کی ٹیم کو روانہ کرتے تھے تاکہ وہ ان کا مطالعہ کرکے اپنی جرح کی پیشگی تیاری کرسکیں۔ اس طرح تقریباً200سے زائد سوالات ہماری طرف سے تیار کرکے وکیلوں کو بھیج دئے گئے ۔دوسری طرف ہم ڈاکٹر چترنجن کوجرح کے دوران پوری طرح گھیرنے کے سلسلے میں بہت ہی پرجوش اس وجہ سے بھی تھے کہ تنظیم کی جانب سے جناب مزمل قاضیا صاحب ایڈوکیٹ سے بطور خاص اس موقع پرجرح کے لئے کمیشن میں حاضر ہونے کی بات ہوئی تھی۔اس کے علاوہ میری معاونت کے لئے اس وقت وکالت کے طالب مرحوم سید احمد جاوید باطن نے بھی (اللہ ان کی بھرپور مغفرت فرمائے )میرے ساتھ کمیشن میں حاضر رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بھی عجیب بات ہوئی : طے شدہ تاریخ سے دو دن پہلے میں بنگلور پہنچ گیا۔ ہمارے باقی دو ساتھی ڈاکٹر چترنجن کی پیشی کے دن پہنچنے والے تھے ۔ ہمارے وکلاء کی ٹیم میں سے جرح کی ذمہ داری سنبھالنے والے ایک رکن ایڈوکیٹ کے دفتر پرمیں جب صبح پہنچا تو مجھے حیرت کا ایک زبردست جھٹکا لگا۔ کیونکہ ہم نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ جرح کے لئے جو سوالات تیار کرکے بھیجے تھے اس کے تمام لفافے بند حالت میں مذکورہ ایڈوکیٹ کے ٹیبل پر دھرے ہوئے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایڈوکیٹ موصوف اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے ان لفافوں کو کھول کر دیکھ بھی نہیں پائے۔ اس کے بعد ہم نے طے کیا کہ شام کو ایڈوکیٹ موصوف کی دیگر مصروفیت سے فراغت کے بعد دیر رات تک روزانہ ان سوالات او ر جوابات کی ریہرسل کریں گے۔اور اس معمول کے مطابق دو راتوں تک سوال و جواب کی ریہرسل کرنے کے بعدجب ہمیں پہلے دن کمیشن میں ڈاکٹر چترنجن کا سامنا کرنا تھا تو مجھے مزید ایک جھٹکا لگا کہ کسی خاص وجہ سے جناب مزمل قاضیا صاحب کمیشن میں جرح کرنے کے لئے پہنچ نہیں سکے اور مرحوم سید احمد جاوید باطن بھی ٹکٹ اور روم بک کرنے کے باوجود پہنچ نہیں پائے۔یعنی حالت یہ ہوگئی تھی کہکس سے امید کرے کوئی علاجِ دل کی چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
ڈاکٹر چترنجن سے آمنا سامنا: جب کمیشن میں ہمارے وکیل نے جرح شروع کی تو میں ہال کے ایک کنارے مشاہدین کے لئے رکھی گئی کرسیوں پر بیٹھا تھا جو وکیلوں کی نشستوں اور گواہوں کے کٹہرے سے ذرا دوری پرتھیں۔ حالانکہ ہم نے بڑی ترتیب سے سوال وجواب کی ریہر سل کی تھی اور ڈاکٹر چترنجن کے جوابات متوقع لائن پر ہی آرہے تھے، مگر ہمارے وکیل صاحب اس کو پوری طرح ہینڈل نہیں کرپارہے تھے۔ ہر دوسرے سوال یا جواب کے بعد وہ سیدھے میرے قریب آتے اور مجھ سے پوچھتے کہ ’اب کیا پوچھوں؟‘ پھر میں انہیں سوال بتاتا تو وہ واپس جاکر ڈاکٹر سے سوال پوچھتے ۔ہمارے وکیل کو مشورے کے لئے باربار میرے پاس آتے جاتے دیکھ کر جج نے سرسری انداز میں کہا:’’کیا آپ بار بار ان کے پاس کیوں آ تے جاتے ہو۔ ان کوہی بلاکر اپنے قریب بٹھا لو نا!‘‘بس اتنا سننا تھا کہ میں نے ذراسی بھی تاخیرکے بغیر اپنی کرسی اٹھائی اوروکیلوں کے لئے رکھی گئی نشستوں کے قریب لے جاکر بیٹھ گیا۔اور مخالف پارٹی کے وکلاء بس منھ دیکھتے رہ گئے۔ اس کے بعد بڑی آسانی کے ساتھ ڈاکٹر سے چبھتے ہوئے سوال و جواب کا سلسلہ چل پڑا۔ بھٹکل میں ایودھیا نگر!: ڈاکٹر چترنجن سے جرح کا غالباً دوسرا دن تھا۔کافی سوالات وجوابات(جو ریکارڈ پر موجود ہیں مگر ان کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع بھی نہیں ، اور اب مجھے یاد بھی نہیں ہیں ) ایک موڑ ایسا آیا جب ہم نے کہا کہ : ’’تم نے بھٹکل میں فرقہ وارانہ تقسیم کی ہے۔تم نے بابری مسجد ڈھانے کے لئے بھٹکل سے کار سیوک بھیجے تھے۔ اور انہیں جس مقام پر تربیت دے کر بابری مسجد گرانے کے لئے الوداع کیا گیا تھا اس کو تم لوگوں نے’ ایودھیا نگر‘ کا نام دے رکھا ہے۔‘‘ڈاکٹر نے جواب میں فوراً تردید کی کہ بھٹکل میں ’ایودھیا نگر‘کے نام سے کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔ اس جواب سے میرے دماغ میں فوراً ایک چال آئی، کیونکہ میں یقین کے ساتھ جانتا تھا کہ بھٹکل میں ایودھیا نگر کی تختی کہا ں لگی ہوئی ہے۔ میں نے ہمارے وکیل سے کہا کہ اس سوال کو دہرا کر یونہی چھوڑدو ۔ اور دوسرے سوالات کرو۔ پھر کچھ سوالات کے بعد کمیشن کا سیشن ختم ہوگیا۔ اس کے بعد تین دن کی چھٹی تھی اورہماری جرح چھٹی کے بعد شروع ہونی تھی۔ مجھے کیسے پتہ چلا!: بہت پہلے اکثر وبیشتر جب میں ذہنی طور پر انتہائی پریشان ہوجاتا تو رات کے وقت بائک لے کر ساگر روڈ کی طرف نکل جاتا اور کچھ دیر نیو انگلش اسکول کے اسٹیڈیم ، یعنی موجودہ گروسدھیندرا کالج کے سامنے والی سڑک کے کنارے موجود نشست پر بیٹھ جاتا۔ کچھ دیر تنہائی اورٹھنڈی ہوا میں سانس لینے اور فرحت محسوس کرنے کے بعد واپس لوٹاکرتا تھا۔ ایسی ہی ایک رات میں جب میں وہاں بیٹھا ہواتھاتو سرکاری اسپتال والی سڑک سے آنے والی ایک کار کی تیز روشنی سامنے اسٹیڈیم میں بنے اسٹالس کی دیوار پر پڑی تو میں نے دیکھا تھا کہ اس پر ایڈریس کی جگہ پر ایودھیا نگر paintکیا ہوا ہے۔ اور یہ بات میرے ذہن میں نقش ہوکر رہ گئی تھی۔ اور یہ بھی سچائی تھی کہ بابری مسجد ڈھانے کے لئے بھٹکل سے کارسیوکوں کی ٹیم ایودھیا بھیجی گئی تھی۔ اسی کو بنیاد پر بناکر ہم نے بابری مسجدگرانے کے الزام میں ڈاکٹر چترنجن کو ملوث کرنے والا سوال داغا تھا۔ ایودھیا نگر کا ثبوت : ڈاکٹر چترنجن کے انکار نے مجھے ایک اچھا موقع فراہم کیا تھا۔اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنگلورو سے بھٹکل پہنچتے ہی میں نے ایک فوٹو گرافر کی خدمات حاصل کرکے اس دیوار پرلکھے گئے بورڈ کی تصویر اتارلی۔پھر تین دن بعد کمیشن میں جرح کا آغاز ہوا تومیں تصویر کے ساتھ بنگلورو پہنچ گیا۔میں نے اپنے وکیل سے کہا کہ چلو ڈاکٹر سے پھر ایک بار منفی انداز میں سوال پوچھوکہ: ’’پرسوں آپ نے کہاتھاکہ بھٹکل میں ایودھیا نگر نام کی کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔ واقعی ایسی کوئی جگہ بھٹکل میں نہیں ہے نا؟ ‘‘ڈاکٹر نے سوال سنتے ہی پھر ایک بار پورے وثوق سے جواب دیا کہ’’ ہاں بالکل نہیں ہے۔‘‘ تب میں نے اپنے پاس موجود تصاویر وکیل کو تھمادیں اور کہا کہ ڈاکٹر کو دکھاؤ اور پوچھو کہ یہ کیا ہے۔ ڈاکٹر کی ہوا نکل گئی: ہمارے وکیل نے تصویر کی ایک کاپی ڈاکٹر چترنجن کو تھماتے ہوئے سوال دہرایا اور دوسری کاپی جج کو پیش کردی۔ مجھے آج بھی وہ منظر نہیں بھولتا جب تصویر دیکھ کر ڈاکٹر کی ہوا نکل گئی تھی اور چہر ہ فق ہوگیا تھا۔ کچھ لمحوں تک تصویر کوکھڑے کھڑے غور سے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر چترنجن گواہوں کے کٹہرے میں رکھی ہوئی کرسی پربالکل نڈھال ہوکر بیٹھ گئے۔ ان سے کوئی جواب بن نہیں پارہاتھا۔ان کے وکلاء حیران تھے۔ اس صورتحال کو بھانپ کر جج نے مداخلت کی اور خود ہی اس توضیح کرتے ہوئے کہا کہ یہ بابری مسجد ڈھانے کے لئے کارسیوک بھیجنے کی علامت کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی مذہبی گرو اور سوامی کی آمدپر بڑا جلسۂ عام منعقد کرتے وقت اس مقام پر ’ایودھیا نگر‘ لکھا گیا ہوگا۔ ڈاکٹر چترنجن نے فوراً جج کی اس توضیح کو اچک لیا، جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہو۔اورکہاکہ: ہاں ہاں ایسا ہی ہے۔ ایسے ہی ایک یاد گار پروگرام کے موقع پر شائد یہ لکھا گیا ہوگا۔ (۔۔۔جاری ہے........ڈاکٹر چترنجن کے آنسو نکل پڑے ..... وکیل کو قرآن کا تحفہ ....اگلی آخری قسط ملاحظہ کریں)