ہندوتا کے متعصبوں میں گھرا شاعر۔اٹل بہاری واجپائی... تحریر : آصف جیلانی


ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر سن کر مجھے 1959کے وہ دن یاد آگئے جب مجھے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملاتھا ۔ میں دلی میں پارلیمنٹ سے ایک پتھر کی مار کے فاصلے پر رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا۔ میرے پڑوس میں اٹل بہاری واجپائی کی ہمشیرا رہتی تھیں اور تقریبا ہر شام واجپائی ان سے ملنے آتے تھے اور اس موقع پر اچھی خاصی محفل جمتی تھی ۔ مجھے بھی اس محفل میں شامل ہونے کا کئی بار موقع ملا۔ اس محفل میں واجپائی نہایت شستہ اردو میں بات کرتے تھے اور غالب، میر اور فیض کے اشعار جھوم جھوم کر سناتے تھے۔
ایک بار میں نے ان پوچھنے کی جراٗت کی کہ آپ لاجواب اردو بولتے ہیں اور اردو شعرو شاعری سے اتنا شوق ہے آپ کو لیکن جب آپ لوک سبھا میں ہوتے ہیں تو ایسی شدھ سنسکرت بھری ہندی میں خطاب کرتے ہیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ کون سے واجپائی جی حقیقی ہیں لوک سبھا والے یا لوک سبھا کے باہر والے۔
وہ ایک زور دار قہقہہ لگا کے ایک طویل وقفہ کے بعد بولے ارے صاحب یہ سب سیاست کے کھیل ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اس زمانہ میں لوک سبھا میں جن سنگھ کے صرف دو اراکین تھے ۔ ایک اٹل بہاری واجپائی اور دوسرے ہریانہ سے برہم پرکاش۔ لیکن جب واجپائی خطاب کرتے تھے توہ پورا ایوان گونج اٹھتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایوان میں جواہر لعل نہرو بڑے غور سے واجپائی کی تقریر سنتے تھے۔خطابت کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا تھا وہ واجپائی کی اہلیت کے بھی قایل تھے ۔
اٹل بہاری واجپائی نے شادی نہیں کی تھی ۔ ایک بار میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھ لیا کہ کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے انسان کو کامیاب زندگی میں ایک ہی کام پر توجہ دینی چاہئے ۔ قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے سیاست اور عوام کی خدمت کا کام منتخب کیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے کئی بچے لے پالک لئے تھے اور ان کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی تھی ۔
واجپائی کا لوک سبھا اور عام جلسوں میں خطاب کا منفرد انداز تھا۔ خطاب سے پہلے وہ کافی دیر تک خاموشی اختیار کرتے تھے ۔ ایک تو مقصد ان کا خیالات کو مجتمع کرنا ہوتا تھا اور دوسرے وہ حاضرین پر اس خاموشی سے ڈرامائی اثر ڈالتے تھے۔ لوگ ہمہ تن گوش ہوتے تھے کہ وہ کیا کہنے والے ہیں۔ خطاب میں وہ شاعری کی طرح جملوں میں قافیہ اور وزن کا خیال رکھتے تھے۔
عام طور پر واجپائی جی کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ غلط جماعت میں صحیح شخص ہیں۔ وہ بنیادی طور پر شاعر اور لبرل تھے لیکن سیاسی طور پر وہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ آر ایس ایس اور جن سنگھ اور بعد میں بھارتیا جنتا پارٹی کے بندھونوں میں گرفتار نظر آتے تھے۔
واجپائی اکیس سال کی عمر میں سنگھ پریوار کے اخبار راشٹریہ دھرم کے ایڈیٹر تھے اور پارلیمانی سیاست میں آنے سے پہلے ویر ارجن کے ایڈیٹر تھے۔ واجپائی نے 1952میں لکھنوء سے لوک سبھا کا انتخاب لڑا تھا جس میں انہیں شکست ہوئی تھی ۔ 1957میں انہوں نے اتر پردیش ہی میں بلرام پور سے انتخاب لڑا جس میں وہ کامیاب رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں سے لوک سبھا کے دس بار انتخابات لڑے اور کامیاب رہے۔
1975میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران واجپائی ، حزب مخالف کے دوسرے رہنماوں کے ساتھ گرفتار ہوئے اور 1977کے عام انتخابات میں جنتا پارٹی کی حکومت میں جس کے سربراہ مرار جی دیسائی تھے واجپائی وزیر خارجہ کے عہدہ پر فایز ہوئے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی نمایاں کوششیں کیں اور فروری 1999میں جب انہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا تو وہ خاص طور پر مینار پاکستان گئے مقصد ان کا یہ اعلان کرنا تھا کہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔
1979 میں مرارجی دیسائی کی حکومت گرنے کے بعد واجپائی نے جن سنگھ کے ساتھیوں سے مل کر بھارتیا جنتا پارٹی کے نام سے الگ پارٹی کی داغ بیل ڈالی ۔ واجپائی تین بار وزیر اعظم رہے ۔ پہلی بار 1996میں وہ صرف تیرہ روز تک اس عہدہ پر فایز رہے ۔ پھر 1998/99میں اور 1999/2004میں ۔ یوں ان کی وزارت اعظمی گنڈے دار تھی لیکن بلا شبہ ملک میں فرقہ وارانہ یکجہتی کو فروغ ہوا اور ایسے لبرل اقدامات کئے گئے جو آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔
سن ساٹھ اور سن ستر کے عشروں میں واجپائی نے جن سنگھ کا رخ بائیں جانب موڑنے کی کوشش کی اور اندرا گاندھی کے اقتصادی اقدامات کی حمایت کی خاص طور پر بنکوں کو قومی ملکیت میں لئے جانے اور رجواڑوں کے شاہی الاونس ختم کرنے کے اقدام کی ، لیکن ان پر آر ایس ایس اور ہندوتا کے پرچارکوں کا اس قدر شدید دباو تھا کہ وہ سخت گھٹن محسوس کرتے تھے ۔ وہ پارٹی میں لال کرشن اڈوانی سے سخت نا خوش تھے جور ام مندر کے لئے رتھ یاترا اور بابری مسجد کی مسماری میں پیش پیش تھے۔ واجپائی نے بابری مسجد کی مسماری کی کبھی حمایت نہیں کی اور جس روز مسجد مسمار کی گئی انہوں نے ایودھیا جانے سے اجتناب کیا۔ واجپائی گجرات میں2002کے مسلم کُش فسادات پر بھی سخت ناخوش تھے اور انہوں نے ان فسادات پر گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی سرزنش کی تھی۔
واجپائی کے سیاسی اقدامات اور ان کی تقریروں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سنگھ پریوار کی جماعت کے تو سربراہ ہیں لیکن دل و دماغ سے اس پریوار سے بہت دور ہیں ۔
وزیر اعظم کی حیثیت سے جب وہ سارک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے تو یہاں انہوں نے جو تقریر کی وہ بھارتیا جنتا پارٹی کے سربراہ سے متوقع نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا’’ باہمی خدشات اور عداوتیں آسیب کی طرح ہم پر طاری رہتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ امن کا منافع اس علاقہ سے راہ کاٹ کرنکل گیا ہے۔ تاریخ ہمیں یاد دلا سکتی ہے ، ہماری رہنمائی کر سکتی ہے ، ہمیں سبق سکھا سکتی ہے اور خبردار کر سکتی ہے لیکن یہ ہمارے پیروں کی زنجیر نہیں بنی چاہئے۔‘‘
واجپائی اکثر اپنا یہ شعر گنگنایا کرتے تھے۔’’ کل( وقت) کے ماتھے پر لکھتا ہوں مٹا دیتا ہوں اور گیت نیا گاتا ہوں‘‘