’پرسہ‘ ایک کتاب ایسی بھی

Bhatkallys

Published in - Other

09:34AM Tue 16 Feb, 2016
فرزانہ اعجاز ’ممبئ‘ میں رہ کر بہترین اردو بولنے اور لکھنے والے جناب ندیم صدیقی کی کتاب ’ پرسہ ‘ اول تا آخر پڑھی اور یہی حسرت رہی کہ ’کہیں تو انکی تحریر میں ’اووبڑ کھابڑ ‘الفاظ نظر آیئں ۔’اکھا ممبئ ،یا ’لفڑا‘دکھائ بھر دے جاۓ ،چار سو تیئس صفحات میں کہیں بھی ’زبان و بیان ‘ میں ’جھول ‘ نظر نہیں آیا ، گزشتہ ماہ لکھنؤ میں ’قلم کے بہادر سپاہی جناب حفیظ نعمانی صاحب کی کتاب ’قلم کا سپاہی ‘ کی رسم اجرأ میں خصوصی طور سے ممبئ سے تشریف لاۓ اردو کی صحافی دنیا کے معتبر فرد جناب ندیم صدیقی صاحب کہ صحافت اور ادب سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص ان سے اور انکے قلم کی سچی روشنائ سے ضرور واقفیت رکھتا ہوگا ،کانپور کی فضاؤں میں انہوں نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا ، انکی کتاب میں جس والہانہ انداز میں کانپور اور کانپور والوں کا ذکرہے اس سے کانپور شہر کا وقار کئ گنا بڑھا ہوگا ، محترم ندیم صاحب کی تحریروں سے ہمارا غائبانہ تعارف ’علی گڑھ اردو فورم ‘ کے توسط سے پہلے سے تھا ،اردو والوں کا یہ فورم ایک کلب جیسا ہے ، جس میں تمام دنیا سے اردو والے ممبر ہیں اور تمام دنیا میں پھیلی اردو کی مہک سے روح کو تازگی حاصل کرتے ہیں ، ندیم صاحب ’اردو ٹائمز ممبئ ‘سے وابستہ ہیں اور اپنے ہفتہ وار کالم کو فورم میں بھی بھیجتے ہیں ، یوں ہم انکے قلم کی روانی اور سچائ سے واقف ہوسکے ، حفیظ چچا کے پروگرام میں انکی تقریر بھی سنی اور ملاقات کا موقع بھی ملا ، محترم ندیم صاحب نے ازراہ عنایت اپنی قیمتی کتاب ’ پرسہ ‘ ہم کو دی، ۔انکی شگفتہ تقریر اور گفتگو کے ساتھ کتاب کا نام ’ پرسہ ‘ کچھ عجیب سا محسوس ہوا ، لیکن ، کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ کتاب میں موجود مرحوم اکابرین کے تذکرے اور پرسے کے ساتھ ساتھ بہت ہی دکھے دل کے ساتھ ندیم صاحب نے ’ اردو کا بھی ’پرسہ ‘دیا ہے ، انکے زمانے کی مرصع اور خوبصورت اردو تو کب کی ’ مرحوم ‘ ہوچکی ہے ، آجکل جو اردو بولی اور لکھی جارہی ہے ،اسکو کیا کہا جاۓ ، نہ جملے درست ہیں نہ ’املا ‘ صحیح ہے ، کسی بھی خوبصورت زندہ زبان کا چہرہ ایسی مہلک اغلاط سے’چیچک زدہ ‘نظر آنے لگتا ہے ، قاری کا دل الگ دکھتا ہے ، اس کتاب میں اس مسلسل المیے پر’ پرسہ‘ بڑے دردانگیز انداز میں دیا گیا ہے ۔شکر ہے کہ ’ اس کتاب ‘ میں ایک لفظ یا ایک حرف بھی غلط نظر نہیں آیا ، ورنہ آجکل تو ہم صبح اخبار پڑھنے بیٹھتے ہیں تو ’لال رنگ کی روشنائ والا قلم لیکر بیٹھتے اور املے کی غلطیوں پر لال نشان لگاتے جاتے ہیں ، پورے کا پورا اخبارلال نشانات سے بھر جاتا ہے ، یہ حالت کسی مخصوص اخبار کی نہیں ہے، اکثر کتابیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ افسوس ۔ کتاب اول تا آخر ایک خاص تأثر لۓ ہوۓ ہے، اپنی طرح کی ’نۓ انداز ‘ کی کتاب ، ۔ پرسے کے انداز میں اشخاص کی کردار نگاری و شخصیت نگاری کا اہتمام بہت منفرد ہے، کتاب مین ایسے ایسے’نگینوں ‘ کا ذکر ہے جو اس دنیا سے چلے ضرور گۓ ہیں لیکن کسی نہ کسی انداز میں اپنی ’چھاپ ‘چھوڑ گۓ ہیں ، وہ شاعر ہوں ادیب ہوں ، استاد ہوں یا عام انسان ، وہ پان والا ہو یا اپنے فن کے ماہر ’کاتب حضرات ‘۔ ہر جانے والا اپنی خوبصورت ’یاد ‘ کی شکل مین اس کتاب میں سانس لیتا محسوس ہوتا ہے ، ابھی تک ہماری معصوم سی’ راۓ‘ یہ تھی کہ ’ دلی اور لکھنؤ ‘ محض یہی دو مرکز ہیں جہاں اردو زبان کی اجارہ داری رہی ہے ، ممبئ کا تعارف محض فلم نگری اور ’حج کو جانے والے سمندری جہازوں تک ہی محدود تھا اور یہ بھی سنا تھا کہ اردو کے ’ سب شاعر ‘ فلمی دنیا میں جمع ہیں یعنی ’ سب شاعر ہویٔ گۓ فلمی ۔‘اور اخبار ’ بلٹز ‘ وہیں سے نکلتا تھا ،اور بھی بہت کچھ جیسے ’حاجی مستان ، لیکن اس کتاب ’ پرسہ ‘ سے اب یقین ہورہا ہے کہ ممبئ جب بمبئ تھا تب بھی اور اب جب ممبئ ہے تب بھی اردو کا ایک ایسا چمن ہے جس میں اردو زبان کا ہر گہرا اور ہلکا رنگ اپنی بہار دکھلاتا رہا ہے ، جن مقتدرین کا ذکر اس کتاب میں ہے انمیں ، انجم فوقی بدایونی، آوارہ سلطان پوری،ڈاکٹر ظ انصاری، فنا نظامی کانپوری، نوا لکھنوی، نورجہاں ثروت ، مقبول فدا حسین ، واجدہ تبسم ، عاصی جونپوری، کوثر جائسی، اثر فیض آبادی، خان ارمان ، شفیق عباس اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ، کئ لوگوں کے بارے میں معلومات کی ’تصحیح ‘ ‘ بھی ہوئ اور نئ معلومات میں اضافہ بھی ہوا ، جیسے فنا صاحب کا انتقال گلے کے کینسر میں ہوا تھا ، فنا صاحب کے اچانک انتقال کی خبر ہم کو مدینے شریف میں ملی تھی ، فنا صاحب کے ایک مداح جو ہمارے عزیز تھے اور پاکستانی تھے سے ملی تھی ، سنا تھا کہ دل کے مریض تھے اور ’ ہینڈ پمپ ‘ سے پانی نکال رہے تھے ، بس، اسی مشقت میں دل بند ہوگیا ، اب اس کتاب سے دوسری بات معلوم ہوئ ، ایک خبر اور بھی ملی کہ ’ راجہ مہدی علی خاں ‘ اور ’ طاہرہ سلطانہ ’مخفی‘ کے نام سے انکی بیگم کے جو منظوم مکالمات ’بانو ‘ نئ دلی میں شایع ہوتے اور شوق سے پڑھے جاتے تھے ، ان دونوں میں ’ علاحدگی ‘ ہوگئ تھی ۔ ’پرسہ‘ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس میں مرحوم افراد کے ذکر کے ساتھ ساتھ بمبئ سے نکلنے والے اردو کے نمائندہ اخبارات کا ذکر ہے اور مشہور صحافیوں کے نام نامی بھی اس بزم میں روشن روشن نظر آتے ہیں ، خلش جعفری، ڈاکٹر ذاکر حسین فاروقی،شہریار عابدی، عبدالحمید انصاری، مولاناحامد الانصاری غازی،غلام احمد خاں ،آر کے کرنجیا۔ اور بہت سے لوگ ، ’پرسہ ‘ میں ایک علاحدہ مضمون ’ مزاحیہ شاعری ‘ پر بھی ہے ، جس میں ایک بہت ’سچا ‘ اور خوبصورت جملہ لکھا نظر آیا ۔۔۔۔’یہ بھی سچ ہے کہ ہنسی ایک نعمت خدا وندی ہے مگر یہ خیال رہے کہ زندگی ہی ہنسی بن کر نہ رہ جاۓ۔‘یہ سچ ہے کہ ’مزاح ‘ اور’ تمسخر و تضحیک‘میں بس پلک جھپکنے کا فرق ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ مزاح کسی کی دل آزاری کی وجہ بن جاۓ، مزاح ہی مزاح میں سماج کی برایئوں اور انسانی کمزوریوں پر کاری ضرب لگانا ہنسی کھیل بھی نہیں ہے ، مزاح نگاروں میں اکبر الہ آبادی جو کہ مزاح نگاروں کے سالار قافلہ ہیں کے انداز کو اپنانے والے مزاحیہ شاعروں کی ایک فہرست یہاں بھی نظر آرہی ہے ،حاجی لق لق ، بوم میرٹھی، احمق پھپھونوی سے لیکر ، ماچس لکھنوی، اور دلاور فگارتک جو کہ پہلے سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے ، انکا ایک شعر نشیمن پھونک کر ہم کو رہا کرنے سے کیا حاصل بتا صیاد اب ہم ٹھوکریں کھانے کہاں جایئں ‘ آج بھی یاد آتا ہے ، لیکن، آج مزاحیہ شاعری ’پھکڑ پن اور نوٹنکی ‘ بن گئ ہے ، گنتی کے مزاحیہ شاعر رہ گۓ ہیں ، اردو ادب میں مزاحیہ کلام کا اپنا ایک سنجیدہ مقام ہمیشہ رہا ہے ، ’پرسہ ‘ میں برجستہ لکھے گۓ اشعار نے اس کتاب کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا ہے ، کتاب پڑھتے وقت بے ساختہ جی چاہا کہ ’ یہ تمام اشعار ‘ایک نوٹ بک میں لکھتے جایئں تاکہ ایک علاحدہ کتاب مرتب ہو سکے ، ندیم صاحب کی شاعرانہ صلاحیتیں اور انکی ’ بڑائ‘ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ خود ایک مستند شاعر ہوتے ہوۓ بھی دوسرے شعرأ کے اشعار کی انہوں نے خوب خوب تعریف کی ہے ، جبکہ فی زمانہ ’اپنے ساتھی شعرأ کے اچھے اشعار پر اخلاق سے بھی ’واہ‘ کہنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد Farzana ejaz@hotmail.com