سفر حجاز۔۔۔(۳۶)۔۔۔ حج رب البیت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

11:49AM Fri 23 Jul, 2021

لیجئے حج ختم ہوگیا، ارکان و اعمال حج ختم ہوگئے، طواف ہوچکا، عرفات میں حاضری ہولی، مزدلفہ میں رات کو رہ لیے، منیٰ میں کنکریاں پھینک چکے، قربانی کرچکے سر منڈاچکے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی، احرام پہن چکے جو حاجی نہ تھے، وہ اب حاجی ہوگئے۔۔۔۔۔کیا واقعتاً حج ہوگیا؟ کیا حقیقتاً اعمال حج ادا ہوچکے؟ رسماً صورۃً نہیں، معناً و حقیقتاً طواف و وقوف سعی و رمی، تلبیہ و قربانی کے فرائض و واجبات سے سبکدوشی ہو چکی؟ کیا جس کو دوستوں اور عزیزوں نے ”حاجی“ کہہ کر پکارنا شروع کردیا، وہ اللہ کے رجسٹر میں بھی ”حاجی“ لکھ لیا گیا؟ فرشتوں کی زبان پر بھی ”حاجی“ کے لقب سے موسوم ہوگیا؟ جس نے بار بار کسی کو پکارا، اس کے کان میں ادھر سے بھی کوئی آواز آئی؟ جس کا جسم مکے اور مدینے کی گلیوں میں چلتا پھرتا رہا، اس کا دل بھی وہیں رہا؟ جو گونگا اور بہرہ، اور اندھا سفر کو چلا تھا، وہ واپسی کے وقت کچھ بھی گویائی اور شنوائی اور بینائی کی قوتیں لےکر چلا؟ جواب کون دے؟ اور کس زبان سے دے!۔

شیخ عثمان بن علی ہجویری لاہوری (داتا گنج بخش) کشف المجوب میں روایت فرماتے ہیں کہ ایک صاحب حضرت  جنید بغدادیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ جواب ملا کہ حج سے واپس ہو رہا ہوں، پوچھا حج کرچکے؟ عرض کیا کہ کرچکا، فرمایا کہ جس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا نہیں، یہ تو نہیں کیا تھا، فرمایا بس تم سفر حج پر روانہ ہی نہیں ہوئے، پھر فرمایا کہ راہ میں جوں جوں تمہارا جسم منزلیں طے کررہا تھا۔ تمہارا قلب بھی قرب حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا کہ یہ تو نہیں ہوا، ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سفر حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں پھر پوچھا کہ جس وقت احرام کے لیے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا، اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتارا تھا؟ کہا ”یہ تو نہیں کیا تھا“ ارشاد ہوا پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا، پھر پوچھا کہ عرفات میں وقوف کیا تو کچھ معرفت بھی حاصل ہوئی؟ ”کہا یہ تو نہیں ہوا“ فرمایا کہ پھر تم نے عرفات میں وقوف ہی نہیں کیا، پھر پوچھا کہ جب مزدلفہ میں اپنی مراد کو پہونچ چکے تو اپنی ہر مراد نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا کہ یہ تو نہیں کیا تھا، ارشاد ہوا کہ پھر مزدلفہ تم حاضر ہی نہیں ہوئے، پھر پوچھا کہ خانہ کعبہ کے طواف کے وقت صاحب خانہ کا بھی جمال نظر آیا تھا؟ کہا کہ یہ تو نہیں ہوا تھا، ارشاد فرمایا کہ پھر تمہارا طواف ہی نہیں ہوا۔پھر پوچھا کہ جب صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تھی تو مقام صفا اور درجہ مروہ کا بھی کچھ ادراک ہوا تھا؟ کہا کہ ”یہ تو نہیں ہوا تھا“ ارشاد ہوا کہ پھر سعی  بھی تم نے نہ کی، پھر پوچھا کہ جب منیٰ آئے تو اپنی ساری آرزؤں کو تم نے فنا کیا؟ کہا ”یہ تو نہیں کیا تھا“ ارشاد ہوا کہ پھر تمہارا منیٰ جانا لاحاصل رہا، پھر پوچھا کہ قربانی کے وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟کہا یہ تو نہیں کیا تھا“ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے قربانی ہی نہیں کی، پھر پوچھا کہ جب کنکریاں ماری تھیں تو اپنے جہل و نفسانیت پر بھی ماری تھیں؟ کہا کہ ”یہ تو نہیں کیا تھا“ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے رمی بھی نہ کی اور اس ساری گفتگو کے بعد آخر میں فرمایا کہ ”تمہارا حج کرنا نہ کرنا برابر رہا، اب پھر جاؤ صحیح طریقہ پر حج کرو۔“۔

سیدالطائفہ کی یہ ساری تقریر محض خیال آرائی و تخلیل طرازی نہیں، ذوالنون مصری اپنی آنکھوں دیکھی بات بیان کرتے ہیں کہ منیٰ میں میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس وقت ساری خلقت قربانیوں میں مصروف تھی، وہ سب سے الگ چپکا بیٹھا ہوا ہے، میں برابر اس کی طرف دیکھتا رہا کہ دیکھوں اب یہ کیا کرتا ہے، آخر میں نے دیکھا کہ اس نے مناجات شروع کی، کہ اے پروردگار! ساری خلق قربانی کرنے  میں مشغول ہے، میں چاہتا ہوں کہ تیرے حضور میں خود اپنے نفس کی قربانی پیش کروں، اسے قبول فرما، یہ کہا اور اپنی انگشت شہادت کو اٹھایا، اور دھڑ سے زمین پر گرپڑا، میں نے قریب جاکر دیکھا تو روح پرواز کرچکی تھی، اللہ اللہ! بڑوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں، انھیں جو کچھ ملتا ہے، وہ سب کے نصیب میں کہاں سے آسکتا ہے؟ وہ جو کچھ دیکھ لیتے ہیں، اسے دیکھنے کے لیے ہر اندھا کہاں سے آنکھیں لائے؟ حضرت  بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں کہ وہ عبادت ہی کیا جو کی آج جائے اور اس کا ثواب کل کے لیے ادھار رہے۔ اللہ کی اطاعت کے معنی تو یہ ہیں کہ ادھر طاعت اور ادھر اجر طاعت ساتھ ہی ساتھ نقد وصول! چنانچہ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ جب پہلی بار حج کو گیا تو بجز خانہ کعبہ کے اور کچھ دکھائی نہ دیا، دوبارہ گیا تو خانہ اور صاحب خانہ دونوں کا جلوہ دیکھا اور جب تیسری بار گیا تو صرف خانہ ہی کا جلوہ ہر طرف دکھائی دیا، اور مکان کے در و دیوار نظروں سے غائب!۔

شیخ ہجویری جنھوں نے یہ سب حکایات و اقوال نقل فرمائے ہیں خود اپنی تحقیق تحریر فرماتے ہیں کہ حرم کو حرم اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے اندر مقام ابراہیم ہے اور مقام ابراہیم کی دو قسمیں ہیں: ایک مقام تن، ایک مقام دل۔ مقام تن کا نام مکہ ہے اور مقام دل کی تعبیر مرتبہ خلت ہے، جن کی قسمیں مقام تن تک محدود ہیں، انہیں چاہیئے کہ اپنا معمولی لباس اتارکر احرام کی کفنی پہنیں، حدودِ حرم میں شکار نہ کھیلیں، عرفات میں حاضر ہوں، طواف کریں وقس علی ہذا لیکن جس کا حوصلہ یہ ہو کہ مقام ابراہیم کے مقام دل تک پہونچے تو اسے چاہیئے کہ:۔

چوں کسے قصد دل دے کنذاز مالوفات

اعراض  بایدکر دو بہ ترک لذات وراحات وبگفت ازذکر اغیار معرض شو دزا نچہ التفات دے بہ کون محظور باشد آں گاہ بعرفات معرفت قیام گیر دوازاں جا قصد مزدلفہ الفت گرددوازاں جاسر رابطواف حرم تنزیہ حق فریسدوسنگ ہوائے و خاطر ہائے فساد رابہ بنائے ایماں بیندازد ونفس را اندر منحر مجاہدت قربان کردہ بہ مقام خلت رسددخول مقام تن امن باشداز دشمن و شمشیر ایشان و دخول مقام دل امان بوداز قطعیت و اخوات آن

(کشف المجوب، کشف الحجاب الثامن)

اپنے شوق و خواہش کی چیزوں کو چھوڑ دے، لذتوں اور راحتوں کو ترک کردے، غیراللہ کا تذکرہ تک زبان پہ نہ لائے، اس لیے  کہ عالم کون کی جانب التفات ہی اس وقت ممنوع ہیں، اس کے بعد عرفات معرفت میں وقوف کرے، وہاں سے مزدلفہ الفت کا قصد کرے، وہاں سے اپنے قلب کو  تنزیہ حق کے طواف کے لیے روانہ کرے، اور منائے ایمان میں خواہشاتِ نفس کے سنگریزوں کو پھینک دے، قربان گاہ مجاہدات میں اپنے نفس کی قربانی پیش کردے اور اس طرح مقام خلت پر فائز ہوجائے، مقام تن میں داخل ہونے کے معنی دشمن، شمشیر دشمن سی امان پاجانے کے ہیں اور مقام دل میں داخل ہونے کے معنی اللہ کی جدائی اور اس کے نتائج سے محفوظ ہوجانے کے ہیں۔

دل والوں نے جب حج ادا کئے ہیں، بارہا اس طرح کیے ہیں کہ محض تن والے دنگ رہ گئے ہیں، نہ زاد و توشے کی فکر کی ہے، نہ مرکب و راحلہ کا سامان کیا ہے، نہ کسی رفیق عزیز کو ہمراہ لیا ہے، نہ منزلوں پر پہنچ کر قیام کیا ہے، نہ پانی کی صراحیاں ساتھ لی ہیں، تن تنہا اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور خالی ہاتھ چل دیئے ہیں، بادیہ کی چلچلاتی ہوئی ریگ پر ننگے پیر اور عرب کی انتہائی کڑی دھوپ میں ننگے سر، ایک دو دن کی نہیں، ہفتوں مہینوں کی مسافتیں طے کی ہیں، روزوں پر روزے رکھے ہیں، اور فاقوں پر فاقے کیے ہیں، پھر کوئی ایک دو مثالیں ہوں تو درج کی جائیں، کس کس کے نام اور کہاں تک گنائے جائیں، طاؤس الفقراء الشیخ ابونصر سراج اپنی کتاب اللمعؒ میں اس طرح کی بہت ساری حکایات، روایات درج کرکے لکھتے ہیں کہ ان اللہ والوں کے آداب حج یہ ہیں کہ جب یہ میقات پر پہونچ کر غسل کرتے ہیں تو اپنے جسم کو پانی سے دھونے کے ساتھ ہی اپنے قلب کو توبہ میں غسل دیتے ہیں، جب احرام پہننے کے لیے اپنے جسم سے لباس اتارتے ہیں تو قلب سے بھی لباس محبت دنیا اتار ڈالتے ہیں، جب زبان سے لبیک لاشریک لک لبیک شروع کردیتے ہیں تو حق کو پکارنے کے بعد شیطان و نفس کی پکار پر جواب دینا اپنے اوپر حرام قرار دے لیتے ہیں، جب خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگتے ہیں تو  آیہ کریمہ۔″ وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ″۔ کو یاد کرکے عرشِ الٰہی کے گرد طواف کرنے والے فرشتوں کا تصور جماتے ہیں، جب حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں تو گویا اس وقت حق تعالیٰ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہیں، اور اس کے بعد اپنے ہاتھ کا کسی خواہش کی طرف بڑھانا گناہ سمجھتے لگتے ہیں، جب صفا پر چڑھتے ہیں تو اپنے قلب کی کددرت کو بھی صفائی سے بدل لیتے ہیں، جب سعی کرنے میں تیز دوڑتے ہیں تو گویا شیطان سے بھاگتے ہوتے ہیں، جب عرفات میں حاضر ہوتے ہیں تو تصور کے سامنے میدانِ حشر کا نقشہ جماتے ہیں، جب مزدلفہ میں آتے ہیں تو ان کے قلب ہیبت و عظمت حق تعالیٰ سے لبریز ہوتے ہیں، جب کنکریاں پھینکتے ہیں تو اپنے اعمال و افعال یاد کرتے جاتے ہیں، جب سر منڈاتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اپنے نفسوں پر بھی چھری چلاتے رہتے ہیں۔۔۔۔جنہوں نے یہ آداب حج اپنی کتابوں میں لکھے، اور جو انھیں عمل میں لائے، وہ نور کے بنے ہوئے اور آسمانوں پر اڑنے والے فرشتے نہ تھے۔ہماری آپ کی طرح مٹی کےپتلے اور اس مادی زمین پر چلنے پھرنے والے انسان ہی تھے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ”احیاء العلوم“ میں مناسک حج کی فقہی تفصیل کے بعد، ایک مستقل و مفصل باب حج کے دقائق اعمال اور آداب باطنی پر لائے ہیں، اور اس کے اندر جتنے اعمال حج ہوتے ہیں، اول سے آخر تک ان سب کے اسرار و آداب باطنی بیان فرمائے ہیں کہ فلاں عمل کے وقت یہ نیت رکھنا چاہیئے، فلاں عمل کے وقت اس مقصد کا تصور رکھنا چاہیئے، فلاں عمل کے ذریعہ سے یوں تزکیہ نفس کرنا چاہیئے، فلاں عمل کو یوں اپنی اصلاح کا وسیلہ بنانا چاہیئے، اور فلاں فلاں اعمال سے ان ان مجاہدات کا کام لینا چاہیئے اور پھر ہر ہر مجاہدے کے ساتھ تابعین سے لےکر اپنے زمانہ کے اولیاء کبار تک کی حکایات بھی درج کی ہیں، جس حج کے قبول کے لیے مقبولوں کو یہ یہ مشقتیں جھیلنی پڑی ہوں، اس کا ہم جیسے تباہ کار کبھی خواب بھی دیکھ سکتے ہیں؟ جس طاعت کے ادا کرنے میں اللہ والوں کو یہ یہ ریاضتیں اٹھانی پڑی ہوں، اس کے مقبول ہونے کا ہم نفس کے بندے کبھی بھی حوصلہ کرسکتے ہیں؟ عارفوں نے جس عبادت کا معیار یہ رکھا ہو ہم تہی مایہ کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سے کسی درجہ میں بھی بن پڑی! ۔۔۔۔پھر کیا سفر حج کی یہ ساری دوڑ دھوپ خدانخواستہ لاحاصل رہی؟ اور وطن سے بے وطن ہونے، بیسیوں اہل وطن سے دور رہنے، سیکڑوں روپیہ صرف کرنے، موسم کی سختیاں اٹھانے کا نتیجہ، خدانخواستہ کچھ بھی نہ نکلا؟

بڑوں کی باتیں بڑوں پر چھوڑیئے، کچھوا دوڑ میں خرگوش کا دم کہاں سے لائے، جو مفلس و بےنوا ہے، وہ تاجداروں اور زریں کلاہوں کی ریس کا حوصلہ کیوں کرے؟ اور مور ضعیف سلیماں وقت کی ہمسری کا سودا ہی اپنے سر میں کیوں پیدا کرے؟ جو اللہ کے شیر ہیں، ان کا معاملہ انھیں پر چھوڑیئے! اگر کہیں لوازم حج میں وہی سب کچھ داخل ہوتا جو ابھی بیان ہوا ہے، اگر مقبول حج کے لیے یہی سب شرطیں ہوتیں تو فرمایئے کہ ہم جیسے ضعیفوں اور زبوں ہمتوں کا کیا حشر ہوتا؟ جنید و بایزید، ہجویری و غزالی تو کہیں صدیوں کی مدت میں اور لاکھوں کی آبادی میں دو ہی چار پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کروڑ ہا کروڑ اور ارب ہا ارب مخلوق جو اس ساڑھے تیرہ سو برس کی مدت میں روئے زمین کے ہر ہر گوشے میں پیدا ہوتی رہی ہے اور آئندہ خدا معلوم کب تک پیدا ہوتی رہے، کیا ان سب کی محنت، حج اور سفر حج کے لیے سرے سے بے کار اور لاحاصل ہی رہتی ہے؟ ۔۔۔۔۔قربان جایئے اس کی رحمت کے جو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحیم اور سب کرم کرنے والوں سے بڑھ کر کریم ہے کہ اس نے ایسے رحمۃ للعالمین کو ہادی  و دلیل، حاکم و حکیم، مرشد و معلم بناکر بھیجا جس نے اپنے ہر نمونہ عمل میں اقویاء سے کہیں زیادہ ضعفاء کا، حوصلہ مندوں سے کہیں زیادہ پست ہمتوں کا، بڑوں سے کہیں زیادہ چھوٹوں کا اور طاقت والوں سے کہیں زیادہ کمزوروں کا خیال رکھا، اس سب سے زیادہ کامل اور سب سے زیادہ مقبول حج کرنے والے کے حج و اعمال و سفر حج کی ایک ایک تفصیل حدیث اور فقہ کی کتابوں میں قلم بند ہے، اور وہ جو آخرت میں ہر بےکس کا سہارا، اور ہر بےآس کا آسرا ثابت ہوگا، اس دنیا میں بھی ہر طاعت اور ہر عبادت کی طرح حج کے معاملے میں اپنے ذاتی عمل سے، سختیوں اور مشقتوں کے بجائے سہولتوں اور آسانیوں کی راہ کھول گیا ہے۔۔۔ﷺ۔۔۔اور اسی کی اتباع میں ہر مایوس کو آس کی جھلک اور ہر ناامید کو امید کی شعاع نظر آرہی ہے۔

ناقل: محمد بشارت نواز