عید کا چاند اور مسلمانان بھٹکل کا مسلک... تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

12:59PM Sun 25 Jun, 2017

عید الفطر کی دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارکباد۔ اللہ تعالی ہم سب کے اعمال صالحہ قبول کرے۔ اکل کوا۔ مہاراشٹر سے ہمارے ایک دوست نے کل بھٹکل میں عیدکے چاند کی رویت پر سوشل میڈیا پر مسلمان بھٹکل اور کیرالا کے مسلک پر بحث و مباحثہ اوران کی طرف بعض غلط باتیں منسوب ہونے کی اطلاع دی ہے ۔ اور یہ استفسار کیا ہے کہ گجرات کا ساحل ہندوستان میں سب سے بڑا ہے ، وہاں چاند نظر نہیں آیا تو بھٹکل اور کیرالہ میں کیسے نظر آسکتا ہے ۔ اور اس سلسلے میں اظہار خیال کرنے کو کہا ہے ۔ اسی کی تعمیل کرتے ہوئے یہ چند سطور تحریر ہوئے ہیں ۔ امید کہ دوسرے احباب کو بھی اس سے فائدہ ہوگا۔ ۔ گجرات کا ساحل کسی ایک سمت پر دراز نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مشرق مغرب اور جنوب کی سمت پر پھیلا ہواہے ۔ لیکن ممبئی سے کنیاکماری تک ہزاروں میل پر دراز ہوتا ہوا ساحل مغرب کی سمت پر واقع ہے ۔ بھٹکل اور کیرالہ کے ساحلوں سے ہلال عید مغرب میں سورج ڈوبنے کی سمت پر سیدھے یا کچھ ہٹ کر نظر آتا ہے ۔ گجرات کی سمت اس سے مختلف ہے ۔ ۔ بھٹکل کے قدیم مسلمانوں کی اپنی ایک تاریخ ہے جو ابھی تک پردہ نسیاں میں چھپی ہوئی ہے ۔ یہاں پر عرب تاجر آٹھویں نویں صدی ہجری میں آباد ہوئے تھے ۔ مورخین نے انہیں نائت ۔ نائط یا نوائط کے نام سے یاد کیا ہے ۔یہ ابتدا سے شافعی المسلک ہیں ۔ اور جماعت المسلمیں اور محکمہ شرعیہ کے نظام سے وابستہ ہیں ۔ انتظامی طور پر یہ دوجماعتوں جماعت المسلمین اور مرکزی خلیفہ جماعت المسلمین کے نام سے گزشتہ دو تین صدیوں سے وابستہ چل رہے ہیں ، ہلال رمضان اور عید ، اور عیدگاہ میں نماز وغیرہ کا اعلان ان جماعتوں کے قاضی صاحبان مشترکہ طور پر کرتے ہیں ۔ اور باری باری سے دونوں جماعتوں کے خطیب یہاں پر خطبہ عید اور نماز کی امامت کرتے ہیں ۔اس وقت ان جماعتوں کے جمالہ قاضی صاحبان اور نائبین جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور ندوۃ العلماء لکھنو کے فضلاء ہیں ۔ ۔ شافعی المسلک ہونے کے باوجود مسلمانان بھٹکل کا معتقدانہ تعلق علمائے ندوہ اور دیوبند سے رہا ہے ۔ انہیں ان اداروں سے جوڑنے میں بھٹکل کی دو شخصیات جناب محی الدین منیری صاحب اور ڈاکٹر علی ملپا صاحب کا خصوصی کردار رہا ہے ۔ اول الذکر انجمن خدام النبی صابو صدیق مسافر خانے ممبئی میں 1951 سے 1982 تک ذمہ دار رہے ۔ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری مرحوم کے ساتھ ماہنامہ البلاغ کی ادارت میں شریک رہے ، آزادی کے بعد مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مرحوم کے ساتھ مدارس دینیہ کے احیاء کی تحریک میں بھی ساتھ رہے ۔ منیری صاحب اور ڈاکٹر ملپا صاحب کے علامہ سید سلیمان ندوی ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا علیہ الرحمۃ ،اور خلفائے حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ سے گہرے روابط رہے ۔ ان حضرات کی تحریک پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا سید ابرار الحق علیہ الرحمۃ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے تا عمر سرپرست رہے ، اس وقت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی دامت برکاتھم کی سایہ عاطفت اس ادارے اور مسلمانان بھٹکل پر ہے ۔ ۔ 1469ء بھٹکل میں قتل عام کے بعد نوائط برادری نے بھٹکل سے باہر دو شہر آباد کئے جو اپنے دور میں سو فیصد مسلم شہر تھے ۔ ایک قدیم گوا اور دوسرا گجرات کا شہر راندیر ۔ ۔ گجرات کی تاریخوں میں لکھا ہے کہ راندیر میں ان سے ملنے مغل شہنشاہ جہانگیر آیا تھا ۔ ۔ بھٹکل کے مخدوم فقیہ اسماعیل سکری کے پوتے شیخ محمد بن ابی محمد نائت کا تذکرہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شیخ محمد طاہر فتنی کے معاصرین، اور شیخ علی المتقی کے بڑے شاگردوں میں کیا ہے اور مدینہ میں آپ سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے ۔آپ راندیر سے حرمین شریفین گئے تھے ۔ ۔ ممبئی میں مدفون خواجہ معین چشتی کے بعد دوسرے مقبول بزرگ مخدوم فقیہ علی المھایمی علیہ الرحمۃ کا شمار نوائط کے اولین لوگوں میں ہوتا ہے ۔ ۔ کیرالہ کے شمالی حصے ملبار کے مسلمان ماپلا کہلاتے ہیں ، ان میں عرب نژاد بھی ہیں اور عہد وسطی میں داخل اسلام ہونے والے بھی ۔ یہ حضرات بھی نوائط کی طرح شافعی المسلک ہیں ۔ ان کے یہاں بھی محکمہ شرعیہ کی روایت صدیوں سے مستحکم ہے ۔ جمعیۃ علماء کی طرح بلکہ اس سے زیادہ منظم ان کی تنظیم سمست کیرالہ سنی جمعیت علماء یہاں پر دینی امور دیکھتی ہے ۔ اسی کے فیصلوں کو یہاں کے مسلماں معتبر مانتے ہیں ، مسلکی طور پر ان کا میلان بریلویت کی طرف ہے ۔ پہلے ان میں تکفیری مزاج نہیں تھا ، اب ان کے ایک گروپ میں یہ مزاج بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ ۔ رویت ہلال کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر جو اشتہار بازی بعض علاقوں میں ہوئی ہے یہ نری جہالت اور تعصب پر مبنی ہے ، بھٹکل ہو یا ملبار یہاں کے مسلمانوں نے مسلک شافعی کے اصول و ضوابط کے مطابق ہمیشہ اعلانات کئے ہیں ۔ انہیں کسی اور ملک یا مسلک کی طرف منسوب کرنا حقیقت سے بعید تر ہے ۔ ۔ عید الفطر کے لئے رویت ہلال کا اعلان بھٹکل کے قاضی صاحبان نے شہادتوں کی بنیاد پر کیا ہے ۔ ان گواہوں میں جید علماء اور تبلیغی جماعت کے مقامی بعض ذمہ داران بھی شامل ہیں ۔ ۔ ہمارے خیال میں گجرات اور شمالی ہند میں شافعی مسلک کے افراد نہ ہونے کی وجہ سے مسلک شافعی کے مسائل کو دوسروں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ۔ بعض احباب سے سننے میں آیا کہ ایک بڑے دارالعلوم کے شیخ الحدیث نے بنگلور کانفرنس میں ہزارہا ہزار کے مجمعے میں شافعی مسلک کی رو سے جائز کے ایک مسئلہ کے بارے میں اسے اپنے مخالف مسلک کا سمجھ کر بہت ہی فاحشانہ جملہ استعمال کیا جس سے سامعین کی نگاہیں شرم سے پانی پانی ہوگئیں ۔ علماء حضرات اور فارغین مدارس سے ہماری گذارش ہے کہ مذاہب حقہ کے بارے میں پہلے وہ اچھی طرح جانکاری حاصل کریں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی کی اتباع کرنے والے کو آپ ناواقفیت اور جہالت کی بنیاد پر اپنے مسلک سے اختلاف ہونے کی وجہ سے مخالفین کے خانے میں ڈال دیں ۔ اور مخالف کے خلاف اٹھائے گئے لٹھ کی زد میں اپناہی آدمی آجائے ۔

مزید کے لئے کلک کریں مضمون ہوسپٹن : جہاں پہلے پہل حفظ قرآن کا باقاعدہ نظام قائم ہوا http://www.bhatkallys.com/ur/articles/hospatan/

ammuniri@gmail.com