عبداللہ گل کی غلطی

ترکی کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر اعظم احمد داؤد اولو نے ۲۶؍اپریل کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں برملا اعلان کیا ہے کہ انہوں نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی بنیادی رکنیت سے دست بردار ہونے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ پارٹی نے رجب طیب ایردوان کو صدارتی امیدوار قرار دیا ہے اور وہ انتخابات میں ایردوان کی غیر مشروط حمایت کریں گے۔ احمد داؤد اولو کے بارے میں بہت سے حلقے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ ایک عشرے قبل یونیورسٹی پروفیسر احمد داؤد اولو کو رجب طیب ایردوان نے سیاست میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی اور تب سے اب تک وہ شہری علاقوں کے قدامت پسند متوسط طبقے اور کردوں میں غیر معمولی مقبولیت کے حامل ہیں۔
۲۳؍اپریل کو سابق صدر عبداللہ گل استنبول پہنچے تو احمد داؤد اولو نے ان کا خیر مقدم کیا۔ عبداللہ گل چاہتے تھے کہ احمد داؤد اولو صدارتی انتخاب میں ان کی حمایت اور مدد کریں۔ احمد داؤد اولو نے واضح کیا کہ عبداللہ گل سے ان کی دوستی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں احمد داؤد اولو موجودہ صدر ایردوان کی حمایت کریں گے۔ واضح رہے کہ عبداللہ گل کا تعلق بھی اے کے پی سے رہا ہے۔ اب ان کی راہیں الگ ہوچکی ہیں۔
عبداللہ گل اور ان کے ساتھی سوچ رہے تھے کہ چند بڑی شخصیات کی مدد سے وہ ایردوان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انہیں تو ایردوان کا سیاسی کیریئر ہی خاتمے کے قریب دکھائی دے رہا تھا۔ مگر جب احمد داؤد اولو اور دیگر سرکردہ شخصیات نے عبداللہ گل کا ساتھ دینے سے انکار کیا تو اُن کے اور اُن کے ساتھیوں کے ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عبداللہ گل خاصی بیزار کن ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کریں گے۔
۲۰۰۲ء میں عبداللہ گل نے تیزی سے ابھر کر سامنے آنے اور انتخابات میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والے اے کے پی کی حکومت کی کمان سنبھالی۔ اس وقت رجب طیب ایردوان عدالتی کارروائی کے نتیجے میں چند ایک پابندیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے پارلیمنٹ کی ایک نشست جیتی اور حکومت کی کمان سنبھالی۔ عبداللہ گل نے حکومتی سربراہ کے منصب کی جگہ وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا۔
۲۰۰۷ء میں عبداللہ گل نے صدارتی انتخاب کے ذریعے ایوان اقتدار میں اوپر آنے کی کوشش کی۔ تب اے کے پی کی حکومت کی پوزیشن زیادہ مستحکم نہ تھی۔ عدلیہ، فوج اور ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے مل کر عبداللہ گل کو صدر کی حیثیت سے کامیاب ہونے سے روکا۔ عبداللہ گل کی اہلیہ سر پر اسکارف لیتی تھیں۔ سیکولر عناصر نہیں چاہتے تھے کہ ایوانِ صدر میں ایک ایسی خاتون براجمان ہوں جو اسکارف لیتی ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ سیکولر عناصر نے عبداللہ گل کی شکست کو اے کے پی کا عہدِ اقتدار ختم کرنے کی طرف اہم قدم کے طور پر استعمال کرنا چاہا۔
اے کے پی کے چند رہنماؤں نے سوچا کہ پارٹی نے عبداللہ گل کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے مگر ایردوان نے خطرہ مول لیا، قبل از وقت انتخابات کرائے اور یوں عبداللہ گل صدر بن گئے۔ صدر کی حیثیت سے ان کے اختیارات اگرچہ وزیراعظم کے اختیارات سے کم تھے مگر ایردوان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں انہوں نے عمدگی سے کام کیا۔ دونوں رہنماؤں کے تعلقات مجموعی طور پر بہت اچھے رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بڑا اختلاف رونما نہیں ہوا۔ تقسیم اسکوائر کے مظاہرین کے معاملے میں عبداللہ گل نے نرم رویہ اپنایا۔ ۲۰۱۴ء میں ایردوان نے ملک کے پہلے براہِ راست صدارتی انتخاب میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔
۲۰۱۶ء میں جب فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تب عبداللہ گل نے ایردوان کا بھرپور ساتھ دیا تاہم گزشتہ برس جب ترک حکومت نے ریفرنڈم کے ذریعے ترکی میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام لانے کی کوشش کی تو عبداللہ گل نے شدید مخالفت کی۔
ایردوان نے قبل از وقت پارلیمانی اور صدارتی انتخاب کے لیے ۲۴ جون کی تاریخ مقرر کی تو مخالفین نے مل کر عبداللہ گل کو صدارتی امیدوار بنانے کی ٹھانی۔ عبداللہ گل کو بھی تھوڑی بہت امید تھی کہ وہ ایردوان کو کسی حد تک منہ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے لیے انہیں چند سرکردہ شخصیات کی حمایت درکار تھی۔ اب وہ شخصیات بھی پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ویلفیئر پارٹی کی جانشین سعادت پارٹی نے عبداللہ گل کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سعادت پارٹی ہی تھی جس نے افسانوی شہرت کے حامل نجم الدین اربکان مرحوم کی قیادت میں ایردوان اور عبداللہ گل کو اپنی صف میں شامل کیا تھا۔
سی ایچ پی اور ایردوان مخالف قدامت پسند حلقوں نے عبداللہ گل کو اپنے امیدوار کی حیثیت سے سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ بصیر اتالے، سعداللہ ارجن اور علی بباکان جیسی سرکردہ شخصیات نے عبداللہ گل کی حمایت سیاسی قوتوں کو متحرک کرنا شروع کیا۔ یہ سب کچھ جتنی تیزی سے شروع ہوا اُتنی ہی تیزی سے ختم بھی ہوگیا۔ عبداللہ گل کے ساتھیوں کو ابتدا میں یقین تھا کہ وہ بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، مگر احمد داؤد اولو اور چند دیگر سرکردہ سیاسی شخصیات کی طرف سے حوصلہ افزاء جواب نہ ملنے پر عبداللہ گل نے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے سے پہلے ہی خود کو الگ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اگر وہ صدارتی دوڑ میں شریک ہوئے ہوتے تو پہلے مرحلے میں تھوڑی سی کنفیوژن پیدا کرنے کے بعد دوسرے مرحل میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں ضرور کامیاب ہوتے۔
عبداللہ گل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فائٹر نہیں۔ یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ انہوں نے صدارتی دوڑ میں حصہ لینے سے متعلق فیصلہ بھی غلط طریقے سے کیا۔ انہوں نے سیاسی اشرافیہ سے رابطہ کیا، سرکردہ شخصیات سے بات کی۔ قوم سے بات کرنے کی زحمت انہوں نے گوارا نہ کی۔ دوسری طرف ایردوان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عوام سے رابطہ کبھی منقطع نہیں کرتے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کو ساتھ ملا کر ہی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کی وقعت اپنی جگہ اور قوم اپنی جگہ۔ ایردوان قوم کا لہو گرمانے کا ہنر جانتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عوام سے کب کیا بات کرنی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنے کے بجائے قوم کی طرف دیکھتے ہیں اور قوم اُن سے جو کچھ سننا چاہتی ہے وہ ضرور کہتے ہیں۔ جب عبداللہ گل سیاسی اشرافیہ کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے تب ایردوان نے کہا کہ مجھے عوام اقتدار میں لائے ہیں اور وہی مجھے پھر صدر بنانے کے اہل ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)