نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:46PM Wed 5 Aug, 2020

"نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں"

مولانا دریا بادی کا یہ نشریہ دہلی ریڈیو اسٹیشن سے جولائی 1944ء میں نشر ہوا۔  مولانامرحوم  اردوکے مشہورعوامی شاعر نظیر اکبرآبادی کی شاعری،  ان کی قوت مشاہدہ  اور آمد کے معترف تھے۔ اس نشریہ میں انھوں نے ان کی شاعری  پراپنے مخصوص لب و لہجے میں پرمغز تبصرہ کیاہے  ۔(ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)

----------------------------------------------------------------

"شعر اکبر میں کوئی  کشف  و  کرامات  نہیں

دل  پہ گزری  ہوئی  ہے  اور  کوئی بات نہیں

شعرہے تو اکبر الہ آبادی کا لیکن اپنے سے ایک صدی قبل کے پیش رونظیر اکبرآبادی کے حال کا آئینہ ۔ ان کے کلام پر بہترین تبصرہ اور ان کی شخصیت کاصحیح ترین اسکیچ یا خاکہ۔

آگرہ کا پرانا نام اکبرآباد ہے ۔ میاں نظیر اپنے رنگ میں فرد و بے نظیر، آج سے سوا سو ڈیڑھ سو سال پہلے باشندہ تھے اسی ملک ہندوستان کے، اور رہنے والے اسی شہر اکبرآباد کے ۔ شاعری میں اپنی مثال آپ، اورانسان جیسے ہم آپ ۔ اسی آسمان کے نیچے سوتے اور اسی زمین پر چلتے ، جو کچھ دیکھتے دوسروں کو دکھاتے، جو کچھ خود سنتے اوروں کو سناتے ۔ دکھانا اورسنانا کیسا؟ اس سے تو نکلتاہے کہ شاید طبیعت پر زور دے دے کر کچھ کہتے ہوں، جی نہیں، یہ کہیے قدرت کی رنگا رنگیوں کودیکھ کر کبھی ہنستے اورمسکراتے، کبھی روتے اور بلکتے، کبھی خوش ہوتے اورکبھی غم گین، اور اسی عالم میں کچھ گنگنانے بھی لگتے ۔  بس یہی ان کی شاعری ہے ۔ یہی ان کی ساحری ہے۔  وہ شعرسنانے کے لیے بلکہ کہنے ہی کی خاطر کہتے ۔  اس مقام کی شرح حضرت اکبر کی زبان سے سنیے:

نہ اِن کے لیے ہیں نہ ان کے لیے ہیں

نہ  اشعار  ہیں  یہ   صلے    کے    لیے

بہت   خوب   ہے   قول   ہادی   عزیز

کہ  میں  شعر  کہتا  ہوں   اپنے   لیے

انگریزی فلسفی مِل نے بھی توکچھ ایساہی کہاہے :

"Rhetoric is head, poetry is over head"

خطابت دوسروں کے لیے ہوتی ہے اورشاعری اپنے لیے ۔ وہ سنائی جاتی ہے اور یہ سن لی جاتی ہے ۔ وہ شاعرہی کیا جس کی نظر صرف خاص پر ہو عام پر نہ ہو۔  بڑی چیزوں کو تووہ دیکھے اور چھوٹی چیزوں کی طرف سے اپنے کو نابینا کرلے۔  سعدی نے کانٹوں ہی سے کیسے کیسے گلدستے تیارکر دیے، اور مولانائے روم (صاحب مثنوی) گھونگھوں اور سیپیوں سے کیسے کیسے موتی برآمدکر لائے۔  آب دار اور تاب دار! اور تو اور خود قرآن نے مکھی اورمچھر اور مکڑی کے نام لے لے کر سبق کیسے کیسے گہرے دیے ہیں۔  یہ تو محض عامیوں اور سطحی دماغ والوں کا عقیدہ ہے کہ نتیجہ اہم اور دور رس نکالنے کے لیے پہلے نام بھی کچھ بڑے بڑے لے لیناچاہیے۔

بچپن ہرشخص پر آتا ہے اورطوفان کی تیزی کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔ نظیر اپنے اس دور کو بڑھاپے میں یاد رکھتے ہیں:

کیا وقت تھا  وہ  ہم تھے  جب  دودھ کے  چٹورے

ہر    آن    آنچلوں   کے  معمور  تھے  کٹورے

بچپن کی بے فکریوں، آزادیوں، غیر ذمہ داریوں کے سماں ایک ایک کرکے ان کی نظر میں ہیں:

دوستی  کسی   سے   نے   دل  میں ان  کے  کینا

جانیں   نہ  بے   قرینا  نے سمجھیں  کچھ  قرینا

نے  گرمیوں  سے  واقف  نے  جانتے   پسینا

چھاتی  سے  ماں کے  لپٹے  خوش  ان کودودھ پینا

کیا سیر دیکھتے  ہیں  یہ  طفل   شیر  خورے

کس حسرت پر آکر اس یاد کی تان توڑتے ہیں :

کیا  عمر  ہے عزیزو  اور  کیا  یہ  وقت ہے گا

جب گھٹنیوں  پہ  آئے  پھر اور کچھ  تماشا

پانوں  چلے  تو  واں سے  پھر  اور پیار ٹھہرا

سب  زندگی  کا  حظ ہے  ان  کو   نظیر   ہاہا

 برسات کے چھینٹوں سے سب ہی کھیلے ہیں لیکن نظیر آکبرآبادی میں یہی نقش آکر مستقل تصویر کی طرح جم جاتے ہیں۔  مکانوں کے گرنے گرانے کانقشہ برسات کی شدت میں کس خوبی سے کھینچاہے :

جھڑیوں نے اس طرح کا دیا آکے جھڑ لگا

سنیے جدھر ادھر کو دھڑا کے کی ہے صدا

کوئی  پکارے  ہے  میرا  دروازہ  گر  چلا

کوئی کہے ہے ہائے کہوں تم سے اب میں کیا

 تم  در  کو جھینکتے  ہو  مرا   گھر   پھسل   پڑا

کوچے  میں  کوئی  اور   کوئی  بازار  میں گرا

کوئی  گلی  میں  کرکے   ہے کیچڑ  میں  لوٹتا

رستہ  کے  بیچ   پاﺅں  کسی  کا  رپٹ   گیا

اس سب جگہ کے گرنے سے آیا جوبچ بچا

وہ  اپنے  گھر کے صحن میں  آکر پھسل  پڑا

نظیر زبان بھی وہی بولتے ہیں جوان کے اردگرد بولی جاتی ہے ۔  تصنع، آورد، ٹھونس ٹھانس ان کے بیان میں نہیں، بناوٹ، تکلف، اخلاق کسی طرح ان کی زبان میں نہیں، وہ وہی بولتے ہیں جوسنتے رہتے ہیں۔  وہی لکھتے ہیں جوپڑھتے رہتے ہیں۔  یہاں تک کہ وہ غلطیاں جو ان کے زمانہ میں چلی ہوئی تھیں وہ بے تکلف ان کی زبان پربھی چڑھی ہوئی۔ نہ ان کا کلام کسی شرح و فرہنگ کا محتاج، نہ ان کی زبان سمجھنے کے لیے لغت کی ورق گردانی کی احتیاج۔ یہ اوربات ہے کہ وہ زبان ہی پرانی ہوگئی۔  بہت سے لفظ متروک ہوگئے، ٹک، میان، کہیو، بیچ (سےکےمعنیٰ میں)  کیونکہ(کیونکر کے معنی میں) وغیرہ اوربعض کے تلفظ بدل گئے مثلاً اوپر اس وقت ”اپر“ تھا‘ تئیں اس وقت ’تیں‘ تھا۔  ادھر اس وقت ’ایدھر‘ تھا خواب اس وقت ’خاب‘تھا۔

آرٹ (صنعت گری) کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ وہ نیچر(فطرت یاطبیعت) کی بالکل ضدہے۔  یہ تعریف اگرصحیح ہے تو نظیر قطعاً  آرٹسٹ نہ تھے۔  ان کاآرٹ تو تمام تر نیچر ہی کی نقاشی ہے، نیچر کی نقالی ہے، اور اس معنی میں یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ نظیر اپنے زمانہ کے سب سے بڑے ”نیچری“ تھے ۔ وہ تخیل کے نہیں دیدکے قائل تھے۔  ان کے ہاتھ میں مصور کا قلم اور کونچی نہ تھی، پہلو میں فوٹوگرافر کا کیمرا لٹک رہاتھا۔

خیال نہ گزرے کہ نظیر صرف واقعاتی شاعرتھے۔  وہ نصیحت کرنابھی خوب جانتے تھے، نیکی کی طرف بلانے کے فن سے خوب آگاہ تھے، کبھی آپ بیتی سنا کرکبھی جگ بیتی سناکر،کبھی جگ بیتی کے راگ گا کر ایک بڑی حدتک استاد سعدی کے رنگ میں۔ رنگ قبول بھی کچھ سعدی ہی کا سا حاصل ہوا۔  سعدی کی کتابیں صدیوں تک لڑکوں کے درس میں داخل رہیں۔ نظیر کی نظمیں بھی بیسیوں برس تک فقیروں نے گائیں، قلندروں کے گلے سے صدائیں بن بن کر نکلیں، اورکلام کا خدا معلوم کتنا حصہ اس وقت بھی لوگوں کی زبانوں پرچڑھا ہوا اورگویا ادب اردو کا ایک مستقل حصہ بن چکا ہے۔  غزل کا ایک شعر فراقیہ مضمون کا ضرور آپ نے سنا ہوگا :

چھوٹ جاویں غم کے ہاتھوں سے جونکلے دم کہیں

خاک  ایسی  زندگی  پر  جو تم کہیں  اور ہم  کہیں

کم لوگوں کومعلوم ہوگا کہ یہ چلا ہوا شعر میاں نظیر ہی کا ہے۔

یہ بیت بھی خوب چلی ہوئی ہے :

جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست

اللہ   آبرو   سے    رکھے    اور    تندرست

اور وہ بنجارہ والی مشہورنظم بے شمار لڑکوں کے درس میں شامل رہ چکی ہے، اور کتنوں کو اب بھی زبانی یاد ہوگی، وہی جس کا مشہور مصرعہ ہے ع:

سب ٹھاٹھ پڑارہ جائے گا جب لادچلے گابنجارہ

موت اور آخرت کی یاد دلانے، عبرت اور دنیا کی بے ثباتی کا مضمون پیدا کرنے کے نظیر بادشاہ ہیں ۔ کلیات میں ایک دو نہیں بیسیوں نظمیں نام اورعنوان بدل بدل کر اسی ایک مفہوم سے متعلق ملیں گی۔ حمدالٰہی، فنا و بقا، تنبیہ غافلاں، انعام خدا، مکائددنیا، سب اسی قسم کے عنوان ہیں۔ مثال کے طورپر اس وقت صرف قصہ ہنس سنتے چلیے:

آیا   تھا   کسی  شہر   سے   ایک   ہنس    بیچارا

اک   پیڑ  پہ  جنگل  کے   ہوا   اس  کا   گزارا

رہتے   تھے  بہت   جانور   اس   پیڑ  کے   اوپر

اس نے  بھی  کسی  شاخ  پہ  گھر  اپنا   سنوارا

دیکھا جوطیوروں نے اسے حسن میں خوش رنگ

وہ   ہنس   لگا  سب   کی  نگاہوں   میں   پیارا

باز و  لگڑ و جرئہ   و  شاہین   ہوے  عاشق

شکروں  نے  بھی شکرسے کیا اس  کا  مُدارا

زاغ   و  زغن  و  طوطی  و  طاﺅس،  کبوتر

سب کرنے  لگے  اس   کی  محبت  کا  اشارا

جتنے  غرض اس  پیڑ  پہ  رہتے تھے پرندے

اس ہنس پر ان سب نے  دل و جان کو وارا

کچھ روز کے قیام کے بعد ہنس کے کوچ کی گھڑی آگئی :

ایک روز وہ  یاروں  کی   طرف  دیکھ  پکارا

لویارو اب ہم ج جاویں گے کل  اپنے  وطن  کو

اب تم  کو  مبارک  رہے  یہ   پیڑ    تمھارا

جانورستان  بھر میں اس سے کھلبلی  مچ گئی :

اس بات کےسنتے ہی جو، ہر اک کے اڑے ہوش

سب  بولے  یہ  فرقت  تو  نہیں ہم  کو  گوارا

ہم جتنے ہیں  سب ساتھ تمھارے ہی چلیں  گے

یہ   درد  تو  اب ہم  سے  نہ  جاوے  گا  سہارا

صبح نمودارہوئی اور :

پر   اپنا   ہوا   پر   وہیں اس ہنس  نے   مارا

سب ساتھ چلے اس کے وہ ہم راز و ہوا خواہ

ہر ایک  نے  اڑنے  کے   لیے   پنکھ  پسارا

دو کوس  اڑے  تھے  جو ہوئی  ماندگی  غالب

پھر  پر  میں کسی   کے   نہ رہا  قوت  و یارا

سب رہ گئے جو ساتھ کے ساتھی تھے نظیر آہ

آخر   کے   تئیں   ہنس  اکیلا   ہی   سدھارا

اس قسم کی دلچسپ نصیحت آمیزشاعری مشرق میں آرٹ کاایک جزوسمجھی گئی ہے اورنظیر اس معیار پر پورے اوربہتوں سے کہیں زیادہ پورے اترتے ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ سادگی اورفطرت کی مطابقت اگر ایک طرف ان کی شاعری کاجمال ہے تو دوسری طرف ان کی انسانیت اورشخصیت کا کمال ہے۔"

(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/