عبد اللہ رفیق ۔ منصہ شہود سے گوشہ گمنامی تک۔۔۔از: سید احمد سالک برماور ندوی

Bhatkallys

Published in - Other

01:21PM Tue 12 Oct, 2021
کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ تجربات اور حوادث کی شکل میں جو کچھ سامنے گزرتا ہے شاعر اپنا خون دل نچوڑ کر اسےغزلوں اور گیتوں میں ڈھال دیتا ہے ۔ ہندی فلموں کے ایک بااثر شاعر ساحرؔ لدھیانوی مرحوم نے کہا تھا کہ  

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

یقیناً ایسا ہی ہوتا ہے ۔’ جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے ‘ کی طرح شعرا حضرات لکھتے رہتے ہیں ، کلیم عاجز نے کہا تھا کہ  

جب کوئی نیا گل کھلتا ہے ، شاعر کا کلیجہ ہلتا ہے

دنیا کو غزل مل جاتی ہے اور دل پہ وبال آجاتا ہے

  در اصل شاعری اسی کو کہتے ہیں کہ کوئی سن لے تو سوچتا رہ جائے۔ اگر کسی کی شاعری سوچنے پر مجبور نہ کرے توکچھ حاصل نہیں۔ موجودہ دور کے گلے بازوں کو دیکھئے ،’کل ہند مشاعروں‘ میں’ سیاسی رنگ ‘ کی اوٹ پٹانگ تُک بندیاں کر کے سخن ناشناس لوگوں کی واہ واہی بٹورتے ہوئے ’عالمی سطح کے شاعر‘ بن جاتے ہیں بھلا ایسی شاعری کاکیا لطف جو حاصل حیات نہ ہو۔ اسے سوائے ضیاع وقت کے کچھ اور نہیں کہا جاسکتا ، ایسی ہی شاعری کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ آپ نے اپنے آس پاس ایسے بہت سے ایسے شعرا کو بھی سنا ہوگا جن کی شاعری اثرڈالتی ہے ۔ جو شعرا ء حضرات گلوکاری نہیں کرتے وہ اپنا درد دل اور معاشرے کی داستان اپنے انداز میں سناتے ہیں اور مخصوص لب ولہجہ میں پڑھنے کی وجہ سے داد بھی حاصل کرتے ہیں ۔ ہم اپنے حلقے میں ایسے شاعر کی حیثیت سے جن لوگوں کو جانتے ہیں ان میں کئی نام ہیں۔ اس میں سے ایک اہم نام محترم عبد اللہ رفیق صاحب کا بھی ہے۔ ، اللہ انہیں صحت دے ۔ ادھر کئی مہینوں سے وہ علیل ہیں او ر صاحب فراش بھی ۔ گزشتہ روز میرے والد اور چچاان کی عیادت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ بتا رہے تھے کہ انہوں نے بہت کچھ یاد کیا۔ ماضٰ کو یاد کر کے وہ آبدیدہ ہو گئے۔ان کو شعری نشستوں میں شریک ہوئے بھی برسوں گذر گئے ، کمزوری اور نقاہت بھی بڑھ گئی ہے۔ ایک زمانہ تھاجب بھٹکل کے تعمیر پسند ادبی حلقوں کی شعری نشستوں میں وہ پابندی سے شامل ہوتے تھے۔ بے باکی اور سماجی برائیوں پر طنز کے لئے ان کی شاعری بہت مشہور ہے۔ وہ بیک وقت نوائطی اور اردو میں شاعری کرتے ہیں ۔ نوائطی شاعری میں’ول اشے باقی مگر دور زلون گیلاہا، ’دولتے سری ایلو انقلاب‘ ، دم دوکل بندا پوکل‘ عبد اللہ رفیق کے ایسے شاہکار گیت ہیں جن میں انہوں نے بھر پور انداز کا شاعرانہ طنز کیا ہے ۔ مذکورہ گیتوں میں سے بعض کو میرے چچا جناب سید سمیع اللہ برماور نےکچھ برس قبل جب اپنی آواز میں ڈھال کر پیش کیا تو چالیس پچاس برس قبل لکھے گئے گیت عوام و خواص کے دلوں کی آواز بن کر مشہور ہو گئے تھے ۔ کچھ دنوں پہلے ان میں سے ایک آدھ نغمہ وہاٹس ایپ پر سننے کو ملا تھا تو پرانی یادیں تازہ ہو گئی تھیں۔ عبد اللہ رفیق صاحب خود اس بات کے قائل تھے سمیع اللہ برماور نے ان کے گیتوں کو امر بنادیا ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ محمد رفیع اور لتا کی آواز کے ساتھ فلمی دنیا کے بہت سے گیت اور نغمے امر ہو گئے، شکیل ، ساحر ، مجروح ،کس کس کا ذکر کیا جائے ۔ سوز وساز میں ڈوبی ہوئی لے نے ان کے کلام کو شائقین کےدلوں کی دھڑکن بنادیا تھا۔ حالانکہ ساحر لدھیانوی کی پیش قیاسی تھی کہ’ مجھ سے بہتر کہنے والے کل اور آئیں گے ‘ آئے بھی اور چلے بھی گئے ہیں لیکن وہ نغمے آج بھی زندہ ہیں جنھیں خوبصورت آواز میں محفوظ کیا گیا ہے ۔ میرے بچپن یا نوعمری کے زمانے میں بھٹکل میں تحریک اسلامی کی جانب سے جو نشستیں ہو تی تھیں وہ بس ماضی کی خوبصورت یادیں ہیں۔ جہاں فطرتؔ بھٹکلی مرحوم، کوثرؔ جعفری صاحب مرحوم ،اشرفؔ برماور صاحب مرحوم، محترم جاویدؔ باطن مرحوم ،علی باشاہ بسملؔ مرحوم کے ساتھ بقید حیات شعرا میں میرے کرم فرما داکٹر حنیف شبابؔ صاحب ، محترم عبد اللہ رفیقؔ صاحب، عبد العلیم شاہین ؔصاحب، کے ساتھ شعری نشستوں میں راقم الحروف بھی شریک ہوتا تھا، دعوت سینٹر میں ہونے والی ان نشستوں میں مجھے اپنے بڑوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا، کبھی کبھار سہ لسانی مشاعرہ ہوتا تو نوائطی شعرا میں سمیع اللہ برماور صاحب، صادق نوید اورمصطفی تابش صاحب،وغیرہ بھی شریک ہوتے تو کنڑا زبان کی نمائندگی رضا مانوی صاحب کرتے تھے۔ وہ دن بڑے یاد گار اور خوبصورت تھے، کسی قسم کی کوئی گروہ بندی نہیں تھی ۔ آج بیس پچیس برس گزرنے کے بعد بھی ماضی کے ان خو ش گوار دنوں کی یادیں تازہ ہیں۔ مجھےیاد پڑتا ہے کہ ایم ٹی صاحب ان نشستوں میں داد دینے کے لئے بطور خاص موجود رہتے تھے۔ داد دینے کا ان کا اپنا خاص انداز محفل میں جان ڈال دیتا تھا ۔ یہ نشستیں کبھی اشرف صاحب کے دولت کدے ’ نور باغ کے صحن میں تو کبھی جماعت کے تربیتی اجتماع کے موقع پر ساحل سمندر پر شب کے سناٹوں میں ہوا کرتی تھیں ، مولانا سید زبیر مارکیٹ ، عبد القادر باشاہ رکن الدین صاحب، قادر میراں پٹیل صاحب، سیدشکیل ، عثمان محتشم صاحب مرحوم ، عبد اللہ لنکا صاحب مرحوم، عبداللہ دامودی صاحب  مرحوم ،صلاح الدین ایس کے صاحب ، سید حسن برماورصاحب ، سعدا میراں صاحب ، مولوی ذاکر الحق سورب عمر ی صاحب، داکٹر شاہ رشاد عثمانی صاحب، ہارون رشید بنگالی صاحب، محترم روؤف سونور صاحب۔ پروفیسر لوہانی مرحوم جیسے کئی اہم افراد بڑے ذوق و شوق سے ان نشستوں میں شریک ہوتے تھے۔ اب تو خیر وہ دن ہوا ہو گئے ۔ ہمارے معزز شعراء اور سامعین میں سے کئی تو اللہ کو پیارے ہو گئے اور کئی تو بالکل گوشہ نشین، نہ اب وہ شعری نشستیں رہیں نہ ہی افراد میں وہ باہمی تعلق ۔ پروفیسررشیدکوثر فاروقی کہتے ہیں کہ  

اب کسے یاد کہ اس حال کا ماضی کیا تھا

اب جہاں ریت کا صحرا ہے،کبھی دریا تھا

سر دست عبد اللہ رفیق کا ذکر چھڑا تو بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں ، تحریک اسلامی بھٹکل سے وابستہ افراد میں عبادل ثلاثہ ہوا کرتے تھے ۔ عبد اللہ لنکا، عبداللہ دامودی اور عبداللہ رفیق ۔ ان تین میں سے اول الذکر دونوں بارگاہ رب میں پہنچ چکے ہیں ہم انکے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں ۔ آخر الذکر عبد اللہ رفیق صاحب بستر علالت پر ہیں ،ہم سب ان کی صحت کے لیے دعا کریں ۔ اور ساتھ ہی اس کے لیے بھی دعا کریں کہ مقامی سطح پر تحریک کا تابناک ماضی پھر کسی طرح زندہ ہوجائے تاکہ سماجی ، دینی اور ادبی لحاظ کی ساری رونقیں دوبارہ ہم کونہ سہی ہماری نسلوں کو میسر ہو سکے ۔ مایوسی کے مھیب سایوں میں آج بھی ہم اچھے دنوں کی آس میں جی رہے ہیں۔