سفر حجاز۔۔۔(۳۲)۔۔۔ منی بعد حج۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:43AM Wed 21 Jul, 2021

حج کے سلسلہ اعمال میں عرفات اور مزدلفہ کی حاضری تو کہنا چاہیے کہ بس کھڑی سواری سی ہوتی ہے۔عرفات میں جاتے ہوئے منیٰ میں بھی کچھ ایسا طویل قیام نہیں ہوتا، البتہ عرفات و مزدلفہ سے واپس آکر منیٰ میں ایک خاصا طویل قیام ہوتا ہے یعنی ۱۰/کی صبح سے لےکر کم سے کم ۱۲/کی شام تک اس تین، چار دن کے عرصہ میں مختلف واجبات و سنن ادا کرنے ہوتے ہیں۔ مثلاً شیطان کے کنکریاں مارنا، قربانی کرنا، سر منڈانا وغیرہ اور اسی درمیان میں مکہ جاکر خانہ کعبہ کا فرض طواف بھی ادا کرنا ضروری ہے، اس سے پہلے جتنے طواف کیے تھے، وہ کوئی حج کے فرض طواف نہ تھے، حج کا فرض طواف وہی ہے جو عرفات سے واپسی کے بعد ادا کیا جائے، ہم لوگ ۱۰/ ذی الحجہ (یکشنبہ) کو دن نکلتے مزدلفہ سے روانہ ہوئے تھے اور ڈھائی گھنٹہ میں منیٰ پہونچ گئے، آج کے ہجوم اور کش مکش کا کیا پوچھنا! منیٰ کے حدود شروع ہوئے تھے کہ ہجوم کی زیادتی بھی محسوس ہونے لگی، ایک ہی سڑک، اسی پر اونٹ بھی چل رہے ہیں، گھوڑے، گدھے اور خچر بھی، پیدل چلنے والے انسان بھی اور کہیں کہیں موٹر بھی، آنے والوں کے لیے وہی راستہ اور جانے والوں کے لیے بھی وہی! نہ کسی قسم کی ترتیب، نہ تنظیم، نہ پولیس کی طرف سے انتظام نہ کسی اور محکمہ کی طرف سے، ہر ایک کی یہی کوشش کہ جس طرح ممکن ہو دوسرے کو دھکا دے کر اپنے لیے جگہ پیدا کرے۔چپقلش کا اندازہ سمجھ رکھنے والے ناظرین کے لیے دشوار نہیں، اونٹ سے اونٹ لڑ رہے ہیں اور شعذف سے شعذف ٹکرا رہے ہیں، اونٹ اپنی طرف زور زور سے بلبلا رہے ہیں اور ان بے زبان جانوروں سے کہیں زیادہ چیخ چیخ کر ان کے زبان دراز جمال اور معلم اور معلموں کے کارندے آسمان پر سر اٹھائے ہوئے ہیں اور شعذفوں کے اوپر جو سواریاں بیٹھی ہوئی ہیں، کچھ نہ پوچھیے کہ خوف و دہشت سے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے، کچھ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیں، اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا شعذف اب گرا اور اب گرا، اور کچھ بدحواس ہوکر بالکل چپ سادھ گئے ہیں اور گردوغبار کی تو حد نہیں، ہاتھ اور پیر ، کان اور ناک، سر اور منہ سب خاک سے اٹے ہوئے! اس وقت اپنی جان عزیز کے لالے پڑے ہوئے ہیں، صفائی اور پاکیزگی کا خیال کس کو!۔

بڑی فکر یہ تھی کہ چل کہاں رہے؟ اورمنزل پر پہونچ کر اتریں گے کہاں؟ عرفات کے میدان میں قیام کرکے خوب تجربہ ہوچکا تھا کہ عرب کی بے پناہ گرمی سے معلم صاحب کے عنایت کیے ہوئے دو تنگ اور ہلکے خیمے کہاں تک پناہ دے سکتے ہیں، پھر وہاں تو چند گھنٹے کا معاملہ تھا، کسی طرح گزر ہوگئی، یہاں پورے تین دن قیام کرنا ہے، قربانیاں ہوں گی اور قربانیوں کے بعد اپنے ہاتھوں کی پیدا کی ہوئی گندگی اور عفونت کی بنا پر جو وبائی بیماریاں پھیلیں گی، ان کا کیا علاج ہوگا؟ دماغ میں یہ فکریں گونج  ہی رہی تھیں کہ مہربان معلم نے یہ مژدہ سنایا کہ خیمے ہنوز نصب نہیں ہوئے بلکہ ہم لوگوں کے پہونچ لینے کے بعد کہیں نصب ہونے شروع ہوں گے! انا للہ! اس کو چھوڑیئے کہ نصب کس مقام پر ہوں گے، وہ جگہ کیسی ہوگی، ابھی سرے سے نصب ہی نہیں ہوئے ہیں، اور نہ ان کے نصب ہونے کی کوئی عجلت ہے! فرنگی قوموں کا نکتہ چیں اس سفر نامہ کے مصنف سے بڑھ کر اور کون ہوگا لیکن ایسے موقعوں پر شرم و ندامت سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دیندار، کاش ان بے دینوں ہی سے کچھ سبق حاصل کرتے! بڑے سے بڑے مجمع ان دنیا پرستوں کے ہاں بھی ہوتے ہی رہتے ہیں،اور پھر آخر وہ کس طرح خوبی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے مہمانوں کی راحت اور پردیسیوں کی آسائش کا سامان بات کی بات میں کر دیتے ہیں اور پردیس کو دیس سے بھی بڑھ کر خوش گوار بنادیتے ہیں! یہ بالکل صحیح ہے کہ عبادت عبادت ہی کے لیے کی جاتی ہے، نہ کہ لذت اور مزیداریوں کے لیے لیکن بلاضرورت مشقت اور تعب برداشت کرنا اور عبادت کو بلاوجہ تکلیف دہ اور ناخوشگوار بنا دینا، یہ آخر کس آئینِ شریعت و قانونِ طریقت کے مطابق ہے؟

پختہ مکانات کی قدر آج جاکر معلوم ہوئی، اپنے دیس میں آنکھ کھولی تو پختہ مکان کے اندر ساری عمر حویلیوں اور کوٹھیوں میں ہی گزری، دل نے معمولی بات اور انھیں اپنا فطری حق سمجھ کر ان کی قدر نہ پہچانی اور ایک اسی پر کیا موقوف ہے، اللہ کی جو بھی نعمت بلامشقت اور فراوانی کے ساتھ ملتی رہتی ہے، ان سب کے ساتھ اپنی ناشکریوں کا یہی معاملہ رہتا ہے، آج جب اپنے قبضہ میں کوئی پختہ چھت نہ تھی اور یہ تصور پیشِ نظر تھا کہ مئی کے مہینے میں عرب کے ملک میں تین دن اور دو راتیں، مع ایک پورے قافلہ کے کھلے میدان یا کپڑے کی چھت کے نیچے کاٹنی ہوں گی۔تو زندگی میں پہلی بار یاد پڑا کہ پختہ مکان کا میسر آجانا بھی اللہ کی ایک خاص نعمت ہے! اور اللہ کے بے شمار بندے ایسے ہیں، جو ساری ساری عمریں بغیر اس نعمت ہی کے بسر کردیتے ہیں، حیدرآباد کے سرکاری قافلہ کے لیے جو پختہ مکان کرایہ پر لے لیا گیا تھا، وہ عظیم الشان سہی اور یہ بھی صحیح ہے کہ حجاج حیدر آباد کے سرکاری ایجنٹ حاجی بلال صاحب بڑے خلیق اور سالار قافلہ میر فیض الدین صاحب وکیل ان سے بھی بڑھ کر خلیق و متواضع و مہمان نواز لیکن بہرحال ان بے چاروں کے پاس تو جگہ محدود ہی ہے، دو ایک آدمی ہوتے تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن یہ پورے سولہ آدمی، جن میں عورتیں بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ وہاں کہاں ٹھہرسکیں گے اور ان کی راحت و آسائش کے لائق وہ لوگ بیچارے کہاں سے انتظام کرسکیں گے۔ دل ابھی اس حیص بیص میں تھا اور قریب تھا کہ معلم صاحب کسی مقام پر شغدفوں کو اتارنے کا حکم دے دیں کہ اتنے میں ہماری سالی صاحبہ بیگم نواب ناظر یار جنگ بہادر جج ہائی کورٹ حیدرآباد، مع اپنے موٹر کے دکھائی دیں۔ (نیوتنی کے ڈاکٹر ناظر الدین حسن بیرسٹر لکھنؤ اور حیدرآباد کے ناظر یار جنگ بہادر سے دکن اور اودھ میں کون ناواقف ہوگا؟) یہ بھی مع اپنے شوہر اور بچوں کے اسی سال حج کے لیے آئی ہوئی ہیں، ان کا ملنا تھا کہ مکان کی مشکل آسان تھی، ان کے علاوہ اچھے وسیع مضبوط خیموں اور قناتوں سے گھرے ہوئے صحن کے ایک مختصر پختہ مکان بھی تھا اور اچھے موقع سے تھا۔ آدھ گھنٹہ میں میرا ذاتی قافلہ آٹھ آدمیوں کا ان کا مہمان تھا۔ بقیہ آٹھ ساتھی حیدرآباد والے مکان میں اتر پڑے اور وہ سب بھی آرام سے رہے۔۔۔۔۔۔باوا آدم جنت سے جدا ہونے کے بعد جب مزدلفہ میں ماما حوا سے ملے تھے تو ان کی اس وقت کی مسرت کی روایتیں اور حکایتیں بہتوں نے پھیلا پھیلا کر لکھی ہیں، اسی مسرت اور راحت کا ایک ہلکا سا نمونہ اس ابن آدم کو مزدلفہ میں نہ سہی منیٰ میں بیوی کی بہن سے مل کر دیکھنے میں آیا۔اسے کوئی صاحب محض لطیفہ نہ سمجھیں، یہ واقعہ ہے کہ جو راحت و آسائش اس پختہ مکان کے نصیب ہو جانے سے ملی، اس کی عشر عشیر بھی خیمہ میں ممکن نہ تھی۔

آج ۱۰/ذی الحجہ کو منیٰ میں داخل ہوتے وقت اگر یہ دعا پڑھی جائے تو بہتر ہے۔

۔″اللهم هذه منیٰ قد اتیتها وانا عبدك وابن عبدك اسالك ان تمن على بها كما مننت بها على اولیائک اللهم انی اعوذبك من المحرمات والمصيبت فی دينى يا ارحم الراحمين الحمد لله الذی ابلغنی سالما غانما″۔

اے اللہ میں آج منیٰ پہونچا ہوں، میں تیرا بندہ ہوں اور تیرا بندہ زادہ ہوں، تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میری آرزوئیں پوری کر جس طرح تو نے اپنے اولیاء کی آرزوئیں پوری کی ہیں، اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ دین کے باب میں محرومی اور مصیبت میں پڑوں، اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے شکر ہے، اس خدا کا جس نے یہاں عافیت و سلامتی سے پہونچایا۔

منیٰ کے دوران قیام میں خاص عبادتیں یہ چار ہیں، شیطانوں کے کنکریاں مارنا، جسے اصطلاح میں رمی کرنا یا رمی جمرات کرنا کہتے ہیں۔قربانی کرنا۔حلق یا قصر (یعنی سر کے بال منڈانا کترانا) اور مکہ جاکر طوافِ زیارت کرنا، ترتیباً رمی کا شروع کردینا سب سے مقدم ہے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت  ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب اپنے لخت جگر حضرت  اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے لے چلے ہیں تو راستہ میں تین مرتبہ شیطان ملا، اور باپ بیٹے کو راہ حق سے بہکانا چاہا، اور تینوں مرتبہ ناکام و نامراد رہا۔اس واقعہ کی یادگار میں انہیں تینوں مقامات پر شیطان کو کنکریاں مارتے چلے آرہے ہیں۔ہر ستون کو جمرہ کہتے ہیں، جمرات اور جمار اسی لفظ جمرہ کی جمع ہے۔”رمی“ کے معنی مٹی پھینکنے کے ہیں، تینوں جمرے عین سڑک پر بازار کے وسط میں واقع ہیں، جو جمرہ مکہ سے آتے وقت سب سے پہلے منیٰ کے کنارے سے پڑتا ہے۔اسے جمرہ عقبہ کہتے ہیں، دوسرے کو جمرہ وسطیٰ تیسرے کو جمرہ اولیٰ جو عرفات و مزدلفہ کی سمت میں واقع ہے، عوام کی زبان میں یہ بڑا شیطان، منجھلا شیطان، چھوٹا شیطان کہلاتے ہیں، تینوں کے درمیان ایک ایک دو دو فرلانگ کا فاصلہ ہے۔

آج جمرہ عقبہ کی رمی کرنی چاہیئے اور آج کے لیے صرف ایک جمرہ کی رمی ہے، باقی دو کی نہیں۔ رمی کی کنکریاں جنس زمین سے ہونا چاہیے یعنی پتھر یا مٹی کی کنکریاں، اگر کوئی شخص لوہے، سونے چاندی کی کنکریاں بنا کر مارنا چاہے تو درست نہ ہوگا، کنکریاں تعداد میں سات سے کم نہ ہوں۔اگر زیادہ ہوجائیں تو مضائقہ نہیں۔ہر کنکری داہنے ہاتھ سے، انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی سے پکڑکر پھینکنے اور پھینکتے وقت یوں تکبیر کہنا چاہیے،۔″ بسم اللہ اللہ اکبر رجماً للشیطان، ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھ لے تو بہتر ہے: اللهم اجعل حجی مبرورا وسعیی مشكورا وذنبی مغفورا ″۔

کنکریاں بہتر ہے کہ مزدلفہ سے چن کر اپنے ہمراہ لائے، وہ نہ ہوں تو دوسری کنکریوں سے بھی درست ہے، البتہ جو کنکریاں دوسروں کی پھینکی ہوئی وہاں پہلے سے پڑی ہوئی ہیں انہیں کو اٹھا اٹھا کر رمی کرنا مکروہ ہے۔ جمرہ عقبہ کے تین طرف نشیب سے بہتر ہے کہ وہیں کھڑے ہوکر رمی کرے لیکن اگر ہجوم کے باعث وہاں جگہ نہ ملے یا زیادہ وقت کا خیال ہو تو چوتھی طرف پہاڑی ہے، اس کی بلندی سے بھی پھینکنا جائز ہے۔کنکریوں کو دھو لینا بھی بہتر ہے تاکہ نجاست کا شبہ نہ رہے۔آج کے دن اس جمرہ کی رمی کے بعد ہی چلا جائے۔توقف کرنا مسنون نہیں، دیکھتے دیکھتے تھوڑی ہی دیر میں کنکریوں کا ایک پورا ٹیلا بن جاتا ہے۔اگر حاجیوں کا شمار اس سال کے تخمینہ کے بموجب ایک لاکھ فرض کیا جائے اور ہر حاجی کی کنکریوں کی تعداد بھی کم سے کم فرض کی جائے یعنی سات، سات تو صرف آج ہی کے دن (ابھی آئندہ تاریخوں کا حساب نہیں)اس جمرہ پر سات لاکھ کنکریاں تو اکٹھی ہو ہی جاتی ہیں۔لیکن حیرت کی بات ہے کہ آپ ہی آپ یہ ٹیلا غائب بھی ہوجاتا ہے، اور حج کے بعد اگر دیکھئے تو پھر وہی صفا چٹ میدان، رمی پیدل بھی کرنا جائز ہے لیکن امام ابوحنیفہ ؒ و امام محمد کے قول کے مطابق سواری کے اوپر کرنا افضل ہے (قاضی خاں) بہتر یہ ہے کہ ہر حاجی اپنے ہاتھ سے رمی کرے لیکن بیماروں، ناتوانوں اور معذوروں کی طرف سے نیابتہً کوئی دوسرا بھی کرسکتا ہے۔ اس رمی کا وقت افضل و مسنون آج کی تاریخ طلوع آفتاب سے لےکر زوال تک ہے۔ زوال و غروب کے درمیان بھی بلا کراہت جائز ہے، بعد غروب، طلوع صبح صادق تک بھی جائز ہے مگر بہ کراہت، لبیک اب تک تقریباً ہر موقعہ کا ایک ضروری جز تھا۔ پہلی رمی کے ساتھ ہی اسے موقوف کردینا چاہیئے۔

ہم لوگ بحمدللہ دوپہر تک رمی سے فارغ ہوگئے، اس کے بعد قربانی کا نمبر آتا ہے۔قربانی کے لیے تین چار جانور شریعت نے رکھے ہیں۔ اونٹ، گائے، بھیڑ یا بکری اونٹ، گائے اور بیل میں سات سات آدمیوں کی شرکت ہوسکتی ہے، بھیڑ یا بکری میں شرکت، مذہب حنفی میں جائز نہیں، ہر شخص کی طرف سے ایک ایک بکری یا بھیڑ ہونی چاہیئے۔ اس کے باوجود بھی کفایت بھیڑ یا بکری ہی میں رہتی ہے۔ اونٹ کثرت سے قربانی کے لیے ملتے رہتے ہیں لیکن سات حصوں میں تقسیم ہونے پر بھی خاصے گراں پڑتے ہیں۔ گائے، بیل بھی اچھی خاصی تعداد میں مل جاتے ہیں لیکن اگر کفایت کا خیال مدنظر نہ ہو اور جیب میں کافی گنجائش ہو تو افضل یہی ہے کہ اونٹ کی قربانی کرے۔ فقہاء کی سفارشیں اونٹ اور پھر گائے کے حق میں ہیں:۔

۔″اعلاہ بدنۃ من الابل وال والبقر (در مختار)″۔

بہترین قربانی اونٹ اور گائے کی ہے۔

۔″الاعلیٰ وھو الابل وھو افضلہ واوسط وھو البقر (طحاوی)″۔

ایک قربانی اعلیٰ و افضل ہے اور وہ اونٹ کی ہے اور ایک درجہ اوسط کی ہے، وہ گائے کی ہے۔

۔″عندنا افضلھا الابل ثم البقر ثم الغنم (فتح القدیر)″۔

ہمارے مذہب میں سب سے اعلیٰ قربانی اونٹ کی ہے پھر گائے کی پھر بکری کی۔

امام شافعی نے عطاء کے حوالے سے یہ روایت بھی نقل فرمائی ہے کہ سب سے ادنیٰ قربانی بھیڑ بکری کی ہے، بکریوں اور بھیڑوں کا نرخ منیٰ میں تقریباً وہی ہے جو ہندوستان میں عیدالضحیٰ کے موسم میں ہوجاتا ہے، پہلے ہر شخص جہاں چاہتا تھا اپنا جانور ذبح کر ڈالتا تھا اور خون گوشت کھال ہر جگہ پڑی رہتی تھی، گویا سارا منیٰ ایک وسیع مذبح تھا۔ اس سے قدرۃً عفونت پھیلتی اور طرح طرح کی وبائیں نمودار ہوتیں۔ اب کی سال خدا کے فضل سے اس طرح کی لغویت نہیں ہوئی، ایک مستقل مذبح بن گیا ہے، وہیں جاکر سب نے قربانی کی اور وباؤں اور بیماریاں سے بالکل امن رہا۔ ہمارے قافلہ میں شیخ مشیر الزماں صاحب رامپوری ہمہ تن فدویت ہیں اور ایک پیکر ایثار و انقیاد قافلہ بھر کا سارے سفر میں اول سے آخر تک عملی انتظامی کام وہی کرتے رہے، آج بھی اس کڑی دھوپ میں ہم لوگوں کو تو باہر نکلنے کی ہمت ہوئی نہیں، وہی بے چارے جاکر ہم آٹھ شخصوں کی طرف سے قربانیاں کر آئے۔

یاد رہے کہ ۷/ و ۸/ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں حج کے لیے جو احرام باندھا تھا وہ ابھی بندھا ہوا ہے اور احرام کے جو قیود و شرائط ہیں ان کی پابندیاں اس وقت تک بدستور نافذ ہیں، صرف تلبیہ (لبیک کہنا) البتہ پہلی رمی کے بعد موقوف ہوگیا ہے، قربانی سے فراغت کے بعد احرام اتارنے کی فکر ہوئی، اس کے لیے مذہب حنفی میں ضروری ہے کہ پہلے سرمنڈایا جائے یا کم از کم یہ کہ بال کتروا دیے جائیں۔ (افضلیت سر منڈانے والوں کو ہے، سرور کائنات ﷺ نے ان کے حق میں ازخود دعا فرمائی ہے اور بال کتروانے والوں کے حق میں صحابہ کے اصرار سے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ سرمنڈانا ایسا ہے جیسے غسل کرنا، اور بال کتروانا ایسا ہے جیسے وضو کرنا، بہرحال اب حجام کی تلاش شروع ہوئی، ایک پیر مرد دستیاب ہوئے، اتفاق سے وہ یہی نہیں کہ ہندوستانی اور ہمارے صوبہ کے تھے بلکہ خاص ہمارے ضلع بارہ بنکی کے نکلے، تیس چالیس سال ہوئے، وطن چھوڑ کر یہیں چلے آئے ہیں، عورتوں کے لیے سر منڈانا جائز نہیں، ان کے لیے بالوں کی لٹ انگلی کی ایک پور کے برابر کاٹ ڈالنا کافی ہے، سر منڈاتے وقت کچھ دعائیں پڑھتے رہنا اور تکبیر کہتے رہنا مستحب ہے لیکن ہمارے حجام صاحب کو اللہ کے ذکر سے زیادہ دلچسپ اپنی باتیں معلوم ہوئیں، عصر کا وقت آخر ہورہا تھا کہ ہم لوگ حجامت سے اور غسل سے فارغ ہوگئے، حج کی وردی (احرام) جسم سے اتاردیا، اور سب نے اپنا معمولی لباس پہن  لیا۔

ناقل: محمد بشارت نواز