بھارت کے قومی ایوارڈز

Bhatkallys

Published in - Other

04:30PM Sun 24 Jan, 2016
363625-KuldipNayarnew-1433443210-396-640x480 از: کلدیپ نیئر بھارت کے یوم جمہوریہ پر لوگوں میں جو ایوارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں میرا مقصد ان کی توقیر کم کرنا نہیں اگرچہ بہت کم افراد اس امتیازی حیثیت پر فائز ہوتے ہیں کہ جن کا اس ایوارڈ پر استحقاق بنتا ہے لیکن زیادہ تر نام تو محض اس بناء پر شامل کر دیے جاتے ہیں کہ ان کا حکمران جماعت سے کوئی تعلق واسطہ ہوتا ہے، خواہ یہ تعلق کتنا ہی دور کا کیوں نہ ہو۔ اس مرتبہ اس تعلق کی سزاوار بی جے پی ہے کہ آج وہ حکمران جماعت ہے۔ اس سے قبل کانگریس کی سرکار تھی تو وہ بھی اس اعزاز کے لیے اپنوں کو ہی نوازتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آئین تشکیل دینے والوں کی یہ سوچ نہیں ہے۔ انھوں نے ایوارڈز پر پابندی لگا دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب گاندھی جی کے پیروکار جے پرکاش نارائن کی قیادت میں جنتا پارٹی عوامی تحریک کے طور پر ابھری تو انھوں نے ایوارڈز تقسیم کرنے بند کر دیے۔ وہ شخص جس نے یہ ایوارڈ شروع کیے تھے وہ تھے بھارت کے اولین وزیراعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو۔ وہ چاہتے تھے جو لوگ ادبی، اقتصادی اور سائنسی میدانوں میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیں تو ان کو پہچان دی جانی چاہیے۔ پیسے کوئی نہیں دیے جاتے تھے کیونکہ یہ ایوارڈ اس قدر قیمتی تھا کہ اسے روپے پیسے کے ترازو میں تولا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ نہرو یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ایوارڈ کو سیاست کی مداخلت سے آلودہ کیا جائے۔ انھیں یہ گمان بھی نہ ہو سکا کہ ایک دن یہ ایوارڈ خالصتاً سیاسی بن جائے گا اور اس کے اصل حق داروں کے انتخاب میں خالص سیاست کارفرما ہو گی۔ حکومت اپنے چمچوں کو چن چن کر یہ ایوارڈ دے گی جنھوں نے حکمران پارٹی کی خدمات انجام دی ہوں گی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ یوم جمہوریہ کے ایوارڈ تقریباً 50 سال پہلے شروع ہوئے۔ ابتداء میں وہ وزارتِ امور خارجہ کی ذمے داری تھی جو وزیراعظم نہرو کے ماتحت تھی۔ بعدازاں یہ کام وزارت داخلہ کے ذمہ لگا دیا گیا۔ وزارت نے اس کی ذمے داری ایک ڈپٹی سیکریٹری کو سونپ دی لیکن ڈپٹی سیکریٹری کے اور بھی بہت سارے کام تھے۔ چنانچہ اس نے یہ کام اس انفارمیشن آفیسر کے سپرد کر دیا جو کہ وزارت کے ساتھ منسلک تھا اور یوں یہ کام میرے ہاتھ آ گیا کیونکہ اس وقت وزارت داخلہ کا انفارمیشن آفیسر میں تھا۔ اب دیکھئے کہ ایوارڈ کے لیے انتخاب کا طریقہ کیا تھا۔ یہ کاملاً یکطرفہ انتخاب ہوتا تھا جن کے نام میں ایک فائل میں درج کرتا جاتا۔ یوم جمہوریہ سے تقریباً ایک ماہ قبل میں ناموں کی فہرست کو ’’شارٹ لسٹ‘‘ کر دیتا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ ناموں کی فہرست تیار کرنے میں کسی اصول کی پیروی نہیں کرتا تھا۔ یہ فہرست پھر ڈپٹی سیکریٹری انچارج کو دے دی جاتی جو اسے سیکریٹری داخلہ کو دیتے اور آخر میں یہ وزیر داخلہ کے پاس پہنچ جاتی۔ بعد میں میں دیکھتا تھا کہ عمومی طور پر اس فہرست میں بہت کم تبدیلیاں کی جاتی تھیں لیکن سب سے مشکل مرحلہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی citations یعنی ان وجوہات کا بیان جس بنا پر موصوف یا موصوفہ کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا تحریر کرنا ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لیے میری میز پر ڈکشنری اور تھیسارس پڑے ہوتے تھے۔ بسا اوقات میں اپنی مدد کے لیے بائیو ڈیٹا سے رہنمائی حاصل کر لیتا۔ بالعموم اس میں مطلوبہ شخص کی بہت مختصر تفصیل درج ہوتی یعنی کہ یہ ایک سائنسدان ہے یا ماہر تعلیم ہے یا اکانومسٹ ہے۔ اس سے مجھے تھوڑی مدد تو مل جاتی لیکن citations کی تیاری بہت کٹھن مرحلہ ہوتا۔ یہ کام اس قدر غیرمربوط تھا کہ سپریم کورٹ کو مداخلت کر کے حکومت سے کہنا پڑا کہ اس مقصد کے لیے ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اپوزیشن لیڈر بھی ایک رکن کے طور پر شامل ہو۔ جب یہ کمیٹی بن گئی اور اس نے کام شروع کر دیا تو کچھ نظم وضبط ضرور قائم ہو گیا البتہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا تعارف (Citation) میرے ہی ذمے رہا۔ سرکاری گزٹ میں ایوارڈ پانے والوں کے ناموں کا نوٹیفکیشن ایوان صدر سے جاری ہوتا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک دفعہ صدر نے مس لزارؤس (Ms.Lazaraus) کا نام شامل کرنے کی ہدایت کی۔ ہم نے جو وزارت داخلہ میں تھے، یہ انعام معروف ماہر تعلیم مس لزاراؤس کو دے دیا اور گزٹ میں یہ نام شایع ہو کر عوام تک پہنچ گیا۔ لیکن جب صدر راجندر پرشاد نے یہ نوٹیفکیشن دیکھا تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے جو نام تجویز کیا تھا وہ تو ایک نرس کا تھا جس نے دمے کی بیماری کے حملے کے دوران اسپتال میں ان کی دیکھ بھال کی تھی۔ اس پر ہم سب کو بڑی خجالت ہوئی کہ ایوارڈ غلط بندے کو مل گیا لیکن اب ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ نام شایع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس سال لزاراؤس نام کی دونوں خواتین کو ایوارڈ مل گیا۔ دو سال قبل جب کانگریس اقتدار میں تھی، میں نے پدما بھوشن ایوارڈ امریکا میں ایک ہوٹل چلانے والے سنت سنگھ چھتوال کو دلوا دیا، حالانکہ اس کے خلاف بعض فوجداری مقدمات بھی قائم تھے۔ اس پر ملک میں شور مچ گیا۔ لیکن وزارت داخلہ نے اس انتخاب کو درست قرار دینے کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ ایک بہت نامور بھارتی شہری ہے جو بیرون ملک اپنے وطن کی خدمت کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سارے نامور لوگ ایسے ہیں جنھوں نے یہ ایوارڈ قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ انتخاب کرنے والوں کا پینل اس قابل ہی نہیں کہ وہ ان کی کارکردگی جانچ سکے۔ جو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایوارڈ ان ہی کو پہچان دیتا ہے جو یا تو حکران پارٹی کے ہوں یا کسی واسطہ سے پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوں۔ گویا ایوارڈ دینے کا اصل مقصد اپنی پارٹی والوں کو یا ان کے قریبی افراد کی عزت افزائی کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اب آپ سچن ٹنڈولکر کے معاملہ کو دیکھیں۔ بلاشبہ وہ بہترین بلا باز تھا۔ غالباً ڈان بریڈ مین کے بعد دنیا بھر میں سب سے بہتر، لیکن کیا اسے بھارت رتن (ایوارڈ) دیا جاتا؟ حالانکہ ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی دھیان چند کے نام پر اس اعزاز کے لیے غور ہی نہ کیا گیا۔ بھارت کے ایک اور لیجنڈری کھلاڑی ملکھا سنگھ کو جب پدما بھوشن ایوارڈ دینے کے لیے چنا گیا تو اس نے اس یہ کہہ کر پدما بھوشن لینے سے انکار کر دیا کہ وہ بھارت رتن سے کم کوئی ایوارڈ نہیں لے گا کیونکہ اس کے بیٹے کو اس سے پہلے ہی پدما بھوشن مل چکا ہے۔ ماہرین تعلیم میں سے رومیلا تھاپڑ نے بھی پدما بھوشن لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ اس کی حیثیت کا اندازہ وزارت داخلہ میں بیٹھے ہوئے نوکرشاہی کے پرزوں کے بجائے اس کے ہمعصر لگائیں۔ مشہور ستار نواز استاد ولایت خان نے پدما شری اور پدما بھوشن کے ایوارڈ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ ان کی توہین کے مترادف ہیں کیونکہ وہ ایسا کوئی ایوارڈ قبول نہیں کر سکتا جو اس کے جونیئرز کو مل چکا ہو جو کہ اس کے مستحق بھی نہیں ہیں۔ اس ساری صورت حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں یہ ایوارڈ غلط وقت پر اور غلط لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔ اس بات سے صرف یہی دلیل ثابت ہوتی ہے کہ ایوارڈز میرٹ کے مطابق نہیں دیے جاتے۔ یہ الزام اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ایوارڈ پانے والوں کے نام وہ لوگ چنیں گے جنھیں حکومت نامزد کرتی ہے۔ آپ بے شک اپوزیشن لیڈر کو بھی ایوارڈ کا فیصلہ کرنے والے پینل کا حصہ بنا لیں لیکن ایک اکیلا شخص آخر پورے پینل پر کس طرح اثرانداز ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں ایوارڈز کی اہمیت کے بارے میں ملک میں ایک بحث کروائی جانی چاہیے۔ شاید اب ان ایوارڈز کی وہ اہمیت نہیں رہی جو ہماری آزادی کے اوائل میں تھی۔ (ترجمہ : مظہر منہاس)