میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:28PM Thu 28 Apr, 2016
حفیظ نعمانی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنرل الیکشن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے الیکشن پھر ایک ساتھ ہوں تو اچھا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ان پر منحصر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی بربادی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہر سال دو چار صوبوں میں الیکشن ہوتے ہیں اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو چھوڑکر اکثر وزیر اعظم اپنا انتہائی قیمتی وقت انتخابی جلسوں میں اس لئے برباد کرتے ہیں کہ انہیں اپنی پارٹی کو کامیاب کرانا ہوتا ہے۔ 1967 ء میںآخری جنرل الیکشن ہوئے تھے۔ اس وقت مسز اندرا گاندھی کے کانگریس سے الگ ہوجانے کے بعد کانگریس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اور جو اسمبلیاں بنیں ان میں حکمراں اور حزب مخالف کے درمیان فرق برائے نام رہ گیا اور ملک کی 9 اسمبلیاں رفتہ رفتہ بکھر گئیں اور وہاں غیرکانگریسی حکومتیں بن گئیں۔ اور وہ جو رنگ برنگی پارٹیوں کی حکومتیں بنیں وہ اپنے مزاج کی وجہ سے پھر گرگئیں اور صدرراج قائم ہوگئے۔ اور آخرکار 9 اسمبلیوں میں الگ الگ الیکشن کرانا پڑے۔ اندرا گاندھی نے اگر اس وقت یہ فیصلہ کرلیا ہوتا کہ جو حکومت صوبہ میں گرگئی ہے اس کا الیکشن 1972 ء کے پارلیمانی الیکشن کے ساتھ ہوگا تو آج بھی جنرل الیکشن ہو رہے ہوتے۔ لیکن انہوں نے اس وقت ملک کو نہیں اپنے اقتدار کو دیکھا اور یہ فیصلہ کیا کہ ‘صوبوں کے الیکشن ہوتے رہیں گے پارلیمنٹ کے الیکشن اپنے وقت پر کرائے جائیں اور کم محنت کے بعد حکومت اپنے ہاتھ میں رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تو اپنی حکومت سے اپنے ارمان پورے کرتی رہیں لیکن ملک کو بربادی کے راستہ پر ڈال گئیں۔ اور لوک سبھا کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم مودی صاحب جس طرح صوبائی الیکشن لڑا رہے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف الیکشن لڑانے کے لئے وزیر اعظم بنے ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کہ 2014 ء کے الیکشن کے بعد وہ کیسے برداشت کریں کہ جہاں انہیں 60 فیصدی ووٹ ملے تھے وہاں 25 فیصدی ووٹ ملیں؟ اور جس کی وجہ سے ووٹ اتنے کم ہوئے اسے دشمنی کیسے نہ سمجھیں؟ اور جب تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں تو کیسے ذلت کا انتقام نہ لیں اور جب انتقام لیں گے تو صوبے کیسے ترقی کریں گے؟ ہماری بدگمانی مودی صاحب معاف فرمائیں ان کا مقصد ملک کی ترقی نہیں ہے بلکہ جنرل الیکشن کی بات انہیں اس لئے یاد آئی کہ اگر 2014 ء میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے الیکشن ساتھ ساتھ ہوگئے ہوتے تو شاید کشمیر اور بنگال یا دو چار صوبوں کو چھوڑکر ہر صوبہ میں ان کی حکومت ہوتی۔ اور اگر پانچ سال کے بعد پھر جنرل الیکشن ہوتے تو صوبوں کی مدد سے لوک سبھا جیتی جاسکتی تھی یا اتنے ممبر کامیاب ہوجاتے کہ سب سے بڑی پارٹی بی جے پی ہی ہوتی۔ اور ہم اس کے حق میں اس لئے ہیں کہ اس ملک کا کیا حشر ہوگا جس کی مرکزی حکومت کسی اور پارٹی کے ہاتھ میں ہو اور اکثر صوبوں کی حکومتیں اس پارٹی کی مخالف پارٹیوں کے ہاتھ میں ہو؟ ہمارے نزدیک سب سے بڑی بات الیکشن کے اخراجات کی ہے کہ اب صرف پارلیمنٹ کا الیکشن کروڑوں روپئے میں ہوتا ہے اور صوبہ کے ممبر کا لاکھوں میں۔ 1952 ء سے 1967 ء تک پارلیمنٹ کے الیکشن میں جو خرچ ہوتا تھا وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کیونکہ ہر پارلیمنٹ کی سیٹ میں پانچ ایم ایل اے لڑرہے ہوتے تھے۔ ان کا کام تھا کہ ایک ووٹ ہمیں اور دوسرا اس پارٹی کو جس کے ٹکٹ پر وہ لڑرہے ہوتے تھے۔ پارلیمنٹ کے امیدواروں میں کچھ لوگ وہ ہوتے تھے جو بڑے لیڈر ہوتے تھے وہ فیصلہ کرتے تھے کہ ان کے حلقہ کے پانچ ٹکٹ کس کس کو دیئے جائیں۔ پھر وہ امیدوار سارا خرچ بھی اٹھاتے تھے اور اپنے ساتھ ایم پی کا الیکشن بھی لڑاتے تھے اور کہیں ایسا ہوتا تھا اسمبلی کا الیکشن زیادہ اہم لیڈر لڑرہا ہوتا تھا۔ وہ مرکز سے درخواست کرتا تھا کہ پارلیمنٹ کا ٹکٹ کسے دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ پارلیمنٹ کے امیدوار کا خرچ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔ ہم نے 1953 ء میں تنویر پریس لیا تھا۔ 1952 ء کے پہلے الیکشن ہوچکے تھے جب 1957 ء کے الیکشن آئے تو کام کے لئے ہم کانگریس کمیٹی گئے۔ شری دوبے آفس سکریٹری ہمارے دوست تھے۔ انہوں نے خوش آمدید کہا اور معلوم کیا کہ کتنا چھاپ لوگے؟ ہم سمجھے مذاق کررہے ہیں۔ ہم نے کہا آپ جتنا دے دیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پوسٹر دو رنگ میں چھپنا ہیں اور پریسوں کو اتنی فرصت نہیں ہے ان کے پاس دوسرے کام بھی ہیں۔ تم جتنا بھی چھاپ سکو لے جاؤ ہم ہر دن شام کو منگوالیا کریں گے۔ اور اس طرح اس لئے سب سے زیادہ ہم نے چھاپا کہ ہمارا پریس کبھی اخبار کا پریس تھا جس میں بازار کا کام نہیں چھپا کرتا ہے۔ اس وقت صرف ووٹ دینے کی اپیل اور دو بیلوں کی جوڑی کا انتخابی نشان تھا۔ نہ کسی امیدوار کا نام اور نہ کسی کا فوٹو۔ اس کے بعد دس سال تک یہی ماحول رہا کہ الیکشن اصل میں اسمبلیوں کے ہوتے تھے اور پارلیمنٹ کے امیدوار کو ایک گاڑی دے دی جاتی تھی۔ ان کی حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ جس اسمبلی کے امیدوار کے پاس جاتے تھے وہ چاہتا تھا ہمارے ورکروں کا وقت خراب نہ کریں دوسرے کے پاس چلے جائیں۔ سوائے ان امیدواروں کے جن کی تقریر سے فائدہ کی امید ہو۔ اور اس کے بعد وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب پارلیمنٹ کے امیدوار پانی کی طرح روپیہ بہاتے دیکھے اور ہمارے گھر میں جو پہلی کار آئی وہ ایک پارلیمنٹ کے امیدوار کی تھی جن کی طرف بہت روپئے باقی تھے اور وہ گھر کا زیور اور سب کچھ پھونک چکے تھے۔ ان سے تقاضہ کیا تو ایک دن وہ کار میں آئے اور گھر میں کھڑی کرکے ڈرائیور کے ساتھ یہ کہہ کر گئے کہ شہر میں کہیں قیام کریں گے اور کل پرسوں آئیں گے۔ پھر جب ان سے رابطہ کیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ اب اس گاڑی کا میں کیا کروں گا؟ آپ اسے اپنے کام میں لے لیں۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے الیکشن ساتھ ساتھ ہوں۔ پھر خود ہی کہا ہے کہ اس میں کامیابی ملتی ہے یا نہیں ملتی یہ الگ بات ہے؟ ہماری حقیر رائے ہے کہ وہ کسی قربانی کا بھی فیصلہ کریں۔ جیسے وہ کہیں کہ 2019 ء کے اندر جن اسمبلیوں کے الیکشن ہونے والے ہیں ان کی مدت بڑھاکر 2019 ء تک کردی جائے اور 2019 ء میں جن اسمبلیوں کی مدت میں دو سال یا چار سال باقی ہیں انہیں ختم کردیا جائے اور 2019 ء میں پورے ملک کا جنرل الیکشن کرادیا جائے۔ اس میں دوسری پارٹیاں شاید شریک نہ ہوں۔ لیکن مودی صاحب اگر یہ اعلان کردیں کہ بی جے پی کی تمام اسمبلیوں کو وہ راضی کرلیں گے کانگریس اپنی ریاستوں کو آمادہ کرلے اور علاقائی پارٹیاں ملک کے مفاد میں قربانی دیں تو شاید بات آگے بڑھ جائے۔ اس کے ایک نہیں کئی فائدے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہر کسی کو ساڑھے چار سال ملک اور صوبہ کے کام کے لئے مل جائیں گے۔ الیکشن کمیشن پر جو سیکڑوں کروڑ روپئے ہر سال خرچ ہوتے ہیں وہ بچیں گے اسکولوں اور کالجوں میں سکون سے تعلیم ہوسکے گی اور جو نئی دشمنیاں ہونے والی ہوں گی وہ ملتوی ہوجائیں گی۔ ہرچندکہ ہمارے معاش کے ذرائع میں آج بھی ایک ذریعہ پریس ہے اور بار بار الیکشن سے پریسوں پر نوٹوں کی بارش ہوتی ہے۔ لیکن ملک کے بہت بڑے فائدے کے لئے ہم پریس والوں کو یہ نقصان برداشت کرنا چاہئے اور دوسروں سے قربانی مانگنے کے لئے خود بھی قربانی دینا چاہئے۔ اب وزیر اعظم نے یہ بات چھیڑی ہے تو بس ایک بار اس کے بارے میں بول کر خاموش نہ ہونا چاہئے۔ بلکہ گفتگو کے لئے پارٹیوں کے بڑوں کو بلاکر بات کرنا چاہئے۔ کیا خبر ؂ شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات ایک دلیل اس کی حمایت میں یہ ہے کہ اندراجی نے 1967 ء کے بعد پارلیمنٹ کا ایک سال بڑھا دیا تھا اور الیکشن 1972 ء میں کرائے تھے۔ اسی طرح اسمبلیوں کی مدت بھی بڑھائی اور کم کی جاسکتی ہے۔