’’تم آج کچھ بھی نہ پوچھوکہ دل اداس بہت ہے ‘‘ (از : محمد عامر مظہری قاسمی )

Bhatkallys

Published in - Other

03:52PM Tue 4 Aug, 2015
53 سالہ یعقوب میمن کی طرف سے رحم کی آخری اپیل مسترد ہونے کے بعد اسے ناگپور کی جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔وہ 1993کے ممبئی بم د?ماکوں میں ملزم تھا، ان بم دھماکوں میں 257 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 11 افراد کو دہشت گردی کے اس واقعے میں سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن یعقوب کے علاوہ دیگر تمام کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کی جا چکی ہے۔یعقوب میمن پر ان بم دھماکوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام 2007ء میں ثابت کر کے اسے سزائے موت سنائی گئی تھی۔اس کے بڑے بھائی ٹائیگر میمن اور انڈر ورلڈ کے سرغنہ داود ابراہیم مبینہ طور پر ان دھماکوں کے منصوبہ ساز ہیں اور یہ دونوں ہی مفرور ہیں۔1993ء4 میں ممبئی شہر کے اسٹاک ایکسچینج، ایئر انڈیا کے دفاتر، سینما گھر اور ہوٹلوں سمیت متعدد مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں کو ملکی تاریخ کے ایک بدترین واقعے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ٹاڈا کورٹ کے جج پی کوڈے نے جب یعقوب میمن کو سازش رچنے کے لئے سزائے موت دی تھی تو ان کے فیصلے نے یعقوب کے وکیل ستیش کانسے سمیت کئی لوگوں کو حیران کر دیا تھا۔کچھ سال پہلے کانسے نے ریڈف ڈاٹ کام کی شیلا بھٹ کو بتایا تھاکہ ’’یعقوب نے کبھی پاکستان میں فوجی تربیت نہیں لی’’۔ انہوں نے کوئی بم یا آر ڈی ایکس نہیں لگایا تھا، نہ ہی ہتھیار لانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔جن لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، وہ ان خطرناک سرگرمیوں میں کسی نہ کسی طرح سے شامل تھے۔ یعقوب کے خلاف ان میں سے کسی بھی معاملے میں الزام نہیں تھا۔ مشہور صحافی مسٹر جگن ناتھن نے ’’فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام’’ پر اپنے ایک مضمون میں مضبوط دلیل دی ہے کہ کیوں حکومت کو یعقوب میمن کو پھانسی نہیں دینی چاہیے ت?ی۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ راجیو گاندھی اور پنجاب کے وزیر اعلی بے انت سنگھ کے قتل کے مقدمات میں جنہیں پھانسی دی جانی تھی، انہیں ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ہے۔تمل ناڈو اسمبلی کی رحم اپیل کے بعد راجیو کے قتل کرنے والے ستھن، مرگن اور پیرارکولن کی پھانسی کی سزا کو کم کر دی گئی تھی۔بینت سنگھ کے قاتل بلونت سنگھ راجاونا اور بھلر نے بڑے فخر سے اپنا جرم قبول کیا تھا اور انہوں نے خود کو پھانسی دئے جانے کی مانگ بھی کی تھی۔لیکن انہیں ابھی تک زندہ رکھا گیا ہے۔ شاید اس کی وجہ پنجاب میں سیاسی مفادکے حصول کی کوششیں ہیں۔جگن ناتھن نے لکھا ہے،’’ایک چیز سب کو صاف نظر آتی ہے۔ جہاں ایک سزایافتہ قاتل یا شدت پسند کے پاس مضبوط سیاسی حمایت ہوتی ہے وہاں نہ تو حکومت اور نہ ہی عدالت منصفانہ انصاف دینے کی ہمت کرپاتی ہے’’۔ اب دیکھئے، جب قاتلوں کی مختلف قسموں کا معاملہ آتا ہے جیسے اجمل قصاب، افضل گرو اور اب یعقوب میمن، تو کیسے وہی مرکزی حکومت، ریاستی حکومتیں اور عدالتیں ’’قانون کا احترام’’ کرنے میں دلچسپی لینے لگتی ہیں۔جگن ناتھن کے مطابق، ’’پھانسی پر لٹکائے جانے والے مسلمانوں میں اور ایک بات ہے۔وہ یہ کہ ان سب کے پاس سیاسی حمایت کی کمی ہے’’۔یعقوب میمن کی سزائے موت پر اگرچہ پورے بھارت میں کہیں کوئی احتجاج تو دیکھنے میں نہیں ملا لیکن اس کا ردعمل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیکھنے کو ضرور مل رہا ہے۔ یعقوب میمن کی سزائے موت پرملک کے مسلم نوجوان اور عمومی طور پر مسلمان نوحہ کناں ہیں تو دوسری جانب بھارت کا ہندو اس سزائے موت پر تقسیم نظر آتا ہے اور اپنے جوڈیشل سسٹم پر سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔ 30جولائی کی صبح ممبئی بم دھماکوں کے لیے مالی تعاون فراہم کرنے کے جرم میں یعقوب میمن کو پھانسی دیدی گئی لیکن بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں یہ معمول کی صبح تھی۔ہڑتال یا مظاہرے تو نہیں کیے گئے لیکن رائے عامہ پر گویا گھٹن کے بادل منڈلا رہے تھے۔اسی لیے لوگوں نے فیس بک اور ٹوئٹر پر ردعمل ظاہر کیا۔ یہ ردعمل کہیں کہیں برملا مگر اکثر محتاط تھا۔واضح رہے کہ 9 فروری 2013 کو جب پارلیمنٹ پر حملے کی سازش کے لیے کشمیری قیدی افضل گورو کو خفیہ پھانسی کے بعد تہاڑ جیل میں دفنایا گیا، تو کشمیر میں کئی ہفتوں تک پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔اس باراکثر علیحدگی پسندوں نے یعقوب میمن کے معاملے پر خاموشی کو ہی ترجیح دی۔ تاہم 86 سالہ رہنما سید علی گیلانی نے محتاط ردعمل میں بھارت کے ان سماجی حلقوں کا حوالہ دیا جو سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں قانونی کارروائی مکمل نہیں ہوئی تھی۔انھوں نے ایک بیان میں بتایا کہ یعقوب کو محض اس لیے تختہ دار پر لٹکایا گیا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ چین سے تعلیم یافتہ رضاکار پیر جی این سہیل لکھتے ہیں اس عدالتی قتل سے جناح صحیح ثابت ہوگیا۔ بھارت مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اکثر ٹویٹس اور فیس بک پوسٹوں پر اس پھانسی سے قبل ہوئی عدالتی کارروائی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا کے کردار کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ کئی معروف صحافی نے حیرت کا اظہار کیا کہ ٹی وی چینلزنے اچھی سماعت کے لیے ججوں کی تعریف کی اور کہا گیا کہ یہ ہندوستان کے لئے عظیم دن ہے۔ کیا ان کی تعریف یعقوب کو لٹکانے کے لیے کی گئی۔اکثر لوگوں نے فیس بک پر براہ راست ردعمل سے گریز کرتے ہوئے یاس کے رنجیدہ لہجے کے اشعار کو پوسٹ کیا۔پھانسی کے چند منٹ بعد ہی ایک صحافی کے وال پر فیض احمد فیض کا یہ شعر پوسٹ ہوچکا تھا: امید یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پوچھو، کہ دل اداس بہت ہے یعقوب میمن کی موت سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ موجودہ ہندو نواز حکومت مسلمانوں کی ذہنی ونفسیاتی تطہیرکے درپے ہے۔ کیوں کہ بھارت میں ویسے تو پھانسیوں پر پابندی ہے لیکن جہاں معاملہ ہو افضل گرو کا یا یعقوب میمن کا تو پھر راتوں رات فیصلے سنائے جاتے ہیں اور یعقوب میمن کے کیس میں تو بھارت کے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج نے کہا تھا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ صرف ایک ملزم کا بھائی ہونے کی وجہ سے یعقوب میمن کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اس طرح کے حالات میں بھارت کاعام مسلمان اگرچہ سڑکوں پر تو نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے ؛کیوں کہ صرف مسلمانوں کو پھانسی پر چڑھانے سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر راسخ ہوتا جا رہا ہے کہ اس ملک کی سرکار صرف ہندؤں کی نمائندہ سرکار ہے اور بھارت میں مسلمانوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس کی واضح مثال یعقوب میمن کی پھانسی پر سلمان خان اور اسد الدین اویسی کے ٹیوئٹ پر فرقہ پرست ہندوؤں کا رد عمل تھا جب کہ اسی یعقوب میمن کی پھانسی پر کئی ہندؤوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا لیکن انہیں کسی قسم کی تنقید کا نشانہ نہیں بننا پڑا جو واضح کرتا ہے کہ بھارت ایک ہندو سٹیٹ بنتا جا رہا ہے اور مسلمانوں میں حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں اور وہ کیوں نہ کریں جب کہ حکومت کی جانب سے ہندو دہشت گردی کے حوالے سے سرکاری ایجنسیوں پر دباؤ بنایا جا رہا ہیکہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیز عدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں تاکہ ملوث افراد کی فی الحال ضمانت پر رہائی ممکن ہو سکے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں سے دو سال قبل 18 فروری 2007ء4 کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر مسلمان تھے۔ ابتدائی تفتیش میں ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی، چند ایک کو حراست میں بھی لیاگیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی دوسری تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم ابھینو بھارت کے رول کوبے نقاب کیا گیا۔ سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک برسرکار کرنل پرسادسری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کر کے اسکو گرفتار کیا گیا۔ اگلے دو سالوں میں نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیا گیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش رچی تھی اوراس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔ مگر انکی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندرپہلوان ، کمل چوہان اور اجیت چوہان کو گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افرد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔ گو کہ بھارت میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کئے مسلمانوں سے جوڑتی رہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء4 کو مہاراشٹرکے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد ان?وں نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کر کرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپرد کی گئی۔ اسکے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد ، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھاتو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں کے خلاف زبردست شور برپا کیاگیا اور انہیں ، ملک کا غدار قرار دیاگیا تھا۔ بہر حال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پیدا کر دیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پروہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کر کے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔ ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے یو پی اے حکومت کی ہندو دہشت گردی کے تیءں نرم رویہ کو افشا کیا تھا۔ لینا کے بقول تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ ا?ر ایس ایس کو ایک شو کاز نوٹس جاری کرے کہ اسکے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ انکی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع تنظیم قرار دیا جائے؟َ مہاراشٹر کی اسوقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ مگر اب جب سے پچھلے سال بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت قاتل اعظم مودی کی حکومت آئی ہے، ان مقدمات کو کمزور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں مالیگاؤں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل روہنی سالیان نے حال ہی میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہیکہ ایک طرف سرکاری وکیلوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں اور دوسری طرف سرکاری گواہوں کو منحرف کیا جارہا ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہندو دہشت گرد رہا ہو سکیں۔ روہنی سالیان نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی نہ کریں ۔ ایک جمہوری ملک میں وقوع پذیرہونے والیان تمام واقعات کے پس منظراورپیش منظرکا جائزہ لینے کے بعدانصاف پسندانسان یہ کہنے پر ازخودمجبورہوجاتاہے کہ آخرجرم ایک ،جرم کے طریقے ایک لیکن انصاف اورسزاکے تعین کیلئے طریقے مختلف کیوں ہیں؟ ہندوستانی جمہوریت میں ہرمعاملے کوسیاست کی عینک سے دیکھنے کی روایت مضبوط ہوتی جارہی ہے، اس کو آگے بڑھنے سے روکنا ہوگا تبھی جاکرجمہوریت کی روح اورجسم میں اتحادکا رشتہ استوارہوسکتا ہے۔ہندوستان ایک ترقی پذیرجمہوری ملک ہے اگر اس کی عظمت رفتہ کی بازیافت چاہئے تو اس کیلئے اس کی جمہوری اقدارکی حفاظت ضروری ہے محض مذہب کی بنیادپرانصاف کا دوہرا پیمانہ اختیارکرنا کسی بھی ملک کیلئے سلامتی کے اعتبارسے نیک شگون نہیں کہا جا سکتا۔اسے امتیاز ، تعصب اور دوہرا معیار نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں اور خوف و ہراس کا ماحول گھنے سیاہ بادل کی طرح چھا رہا ہے اس میں کسی انصاف کی توقع کرنا عبث ہے۔ اس کا جواب صرف سیاسی عزم سے دیا جاسکتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے انتشار و افتراق اور مسلکی اختلافات نے مسلمانوں کو کسی لائق نہیں رکھا۔کسی مذہبی پروگرام میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوجائیں گے لیکن کسی ظلم ، ناانصافی اور حقوق کے لئے کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے۔ اس طرح کے حالات میں مسلمانوں کے ساتھ برا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کے سارے ستون زعفرانی رنگ میں شرابور ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج میڈیا بڑے زورو شور سے چلا رہا ہے بمبئی بم دھماکوں کے گناہ گار کو پھانسی دینا صحیح ہے یہ چلاتے وقت میڈیا کبھی یہ کیوں نہیں کہتا کہ شری کرشنا کمیشن کو نافذ کیا جائے، ممبئی فساد کے خاطیوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ کیا ممبئی فسادات کے دوران قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے۔ کیا ان کے لئے ہندوستان میں کوئی انسانی حق نہیں ہے۔ یہاں کا نظام عدل مسلمانوں کے لئے تنگ کیوں ہے؟۔ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون مسلمانوں کے لئے زنگ آلود کیوں ہے؟ اتنے بڑے پیمانے پر ناانصافی کرکے یہاں کی حکومت آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ کیا مسلمانوں کو انصاف اور ترقی کے معاملے میں نظر انداز کرکے ملک کو ترقی دی جاسکتی ہے؟اس واقعہ سے پوری دنیا میں یہی پیغام جائے گا کہ یہاں انصاف میں امتیاز برتا جاتاہے۔ اور اسے مذہبی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گا کیونکہ ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ناانصافی کی کوکھ سے تشددجنم لیتا ہے۔جب ایک ہی سماج میں دولوگوں کے خلاف الگ الگ پیمانۂ عدل استعمال کیاجانے لگتا ہے تواس سے ایک کے اندرمایوسی اوراحسا س کمتری کا جذبہ پیداہونے لگتا ہے۔پھریا تونظرانداز طبقہ خودکودوسرے درجہ کا انسان سمجھ کرظالم کے حوالے کردیتا ہے جواس کی قسمت کا مالک بن بیٹھتا ہے یاپ?ر پھراسے مشتق ستم بنایاجانے لگتا ہے جس سے اس طبقہ کی زندگی غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے بصورت دیگرمظلوم طبقہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اورجب اس کی آوازکونقارہ خانہ میں طوطی کی آواز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تووہ تنگ آکرتشددپر آمادہ ہوجاتا ہے ؛اوریہ دونوں باتیں کسی مہذب سماج کیلئے اچھی نہیں ہیں کیوں کہ دونوں کا انجام عبرتناک ہے۔اسی لئے ملک وسماج سے تشددکے خاتمہ کیلئے ماہرین نفسیات اورفلاسفہ نے یکساں مواقع اور حقوق پرزوردیاہے۔سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام مملکت کے خاتمہ کے بعدفلاسفہ نے جمہوریت کواسی لئے بہترین متبادل قراردیاکیوں کہ اس میں ملک کے تمام شہریوں کیلئے ایک ہی قانون ہیاورسبھوں کی سزاوجزاکیلئے انصاف کا ایک ہی پیمانہ مقررہے۔لیکن گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انصاف کے پیمانے جس طرح بدلتے دکھائی دے رہے ہیں اس نے نہ صرف جمہوریت کی روح کوگھائل کردیاہے بلکہ انصاف پسندوں کی نگاہ میں ہندوستان کی سیکولرامیج مشکوک ہوتی جارہی ہے۔سابق وزیراعظم ہندراجیوگاندھی کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزاپاچکے مجرمین کی معافی ،افضل گرواوراجمل عامرقصاب کی خاموشی کے ساتھ پھانسی اورا?رایس ایس پرچارک سوامی اسیمانندکے اقبال جرم میں ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکوں میں موہن بھاگوت سمیت دیگرہندتوواتنظیموں کے سربراہ کیخلاف پختہ ثبوت کے بعدحکومت اورعدلیہ کی پراسرارخموشی دلیل کے طورپرپیش کی جاتی ہے۔ ان تینوں واردات کے سلسلے میں ہندوستان میں الگ الگ انصاف کے اصولوں پرعمل کیاگیاہے۔