تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (دوسری قسط )۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
میں نے سابقہ قسط میں صحافت یا جرنلزم کے میدان میں بھٹکلی مسلم نوجوانوں کی شرکت اور فعالیت کے تعلق سے کچھ اشارے کیے تھے اور سوا ل اٹھایا تھا کہ کیا صحافتی میدان میں ملّی مفاد اور مسلمانوں کے کاذ کو اجاگر کرنے کی جدوجہدمیں ہمارا رول اطمینان بخش یا امید افزا ہے! اور یہ احساس ظاہر کیا تھا کہ اس کا مثبت جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ اسی سوال کا جواب پانے کے لئے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کے لئے صحافتی میدان میں مواقع اورہماری سرگرمیوں کا تجزیہ کیاجانا چاہیے۔ مجلس اصلاح وتنظیم کے میڈیا ورکشاپ کے اختتامی اجلاس میں جناب عبدالسلام پتگے ، جناب مولانا عبدالعلیم خطیب اور مسٹر دنیش امین مٹو نے اپنے خطابات میں چند اہم نکات کی طرف اشارہ کیا تھا۔جس میں میڈیا کے محاذ پر ہماری سرگرمی ، اس مورچے پرہماری موجودگی،بڑے میڈیا ہاؤس کی ملکیت اپنے ہاتھ میں لینے، میڈیا میں ہمارے contribution اور اس جد وجہد میں ہمارے مشن اور ویژن وغیرہ کے پہلو بہت نمایاں تھے۔ ان شاء اللہ انہی نکات پرگفتگو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔
ہمارا ویژن اور مشن واضح رہے: تنظیم میڈیا ورکشاپ کے اختتامی اجلاس میں مولانا عبدالعلیم خطیب ندوی نے جس بنیادی اور اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا تھااس کا مفہوم یہ تھا کہ اس میدان میں اگر ہم سرگرم عمل ہوتے ہیں تو پھرہمارا ویژن او رمشن واضح طور پر ملّی مفاد،اسلامی شناخت اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہ کام بھی اسلامی نقطۂ نظر کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔صحافت سے ہماری وابستگی غیروں کی نقالی کرنے کے لئے نہیں بلکہ خیر امت کے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے ملّت کی نمائندگی کاحق ادا کرنے کی نیت سے ہمیں شریعت کی روشنی میں اس مشن کو آگے بڑھانا چاہیے۔ لہٰذامولانا محترم کے اسی نکتے اور اسی زاویے سے فی الحال میڈیا میں ہماری یعنی بھٹکلی مسلمانوں کی موجودگی کا مزید جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ حقیقی منظر نامے میں ہمیں کیا آثارنظر آتے ہیں۔اور کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ :
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
دنیش امین مٹّونے کیا کہا: اسی اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی اور کنڑا میڈیاکی ایک نامور شخصیت( میڈیا مشیر برائے سابق وزیراعلیٰ کرناٹکا سدارامیا) دنیش امین مٹّونے کئی کارآمد باتیں کہیں۔اس میں ایک اہم اشارہ یہ کیاتھا کہ اگر ساحلی کرناٹکا سے 100بہترین کنڑا رائٹرس اور صحافیوں کی ایک فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں پندرہ بیس نام مسلم مصنفین اور صحافیوں کے ہونگے ۔ انہوں نے کچھ نام بھی گنائے اور بتایاکہ اس میں زیادہ تر ’بیاری‘ طبقے کے افراد شامل ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں نئے آنے والوں کواسی طرز پر اپنی شناخت بنانے اور اپنا وجود ثابت کرنے کی دعوت دی۔ مجھے پتہ نہیں کہ اجلاس میں حاضرین اور اسٹیج پرموجودہمارے شہر کے کتنے معززین نے کنڑا میں کی گئی دنیش مٹّو کی تقریرکا لب لباب سمجھا ہوگا۔ اور جن’ مسلم رائٹرس اور صحافیوں‘ کے حوالے انہوں نے دئے ان کے تعلق سے کس کو کتنی معلومات ہوگی۔ مگر یہ ہمارا مطلوبہ نشانہ نہیں ہے: دنیش کی تقریر سے میں نے جو سمجھا اس کے مطابق کنڑا زبان میں’ ترقی پسند سوچ ‘کے ساتھ’ مسلم رائٹرز اور صحافیوں‘ کی ضرورت پر انہوں نے زور دیا تھا۔ جو نام انہوں نے گنائے تھے اور ان کی ستائش کی تھی ان میں زیادہ تر’ سیکیولر سوچ‘، ’ترقی پسندانہ دانشوری‘ (progressive intellectualism) اور’عقلیت پسند‘(rationalist) کیمپ سے تعلق رکھنے والے قلمکار تھے ان میں رمضان درگا اور سارہ ابوبکرکا نام بھی شامل تھا۔یہ مشہور ادیبہ سارہ ابوبکر جو ہے وہ کنڑا لٹریچرکے وسیلہ سے’ اصلاح معاشرہ اور آزادئ نسواں‘ کی علم برداری کے ساتھ ’مسلم عورتوں کے استحصال‘ کو موضوع بناکر اسلامی اقدار کی شکست وریخت کا مطالبہ کرنے والی فوج کی آزمودہ کار کمانڈر ہے۔جس کے لئے اسے بے شمار اعزازات اور ایوارڈس سے نواز ا گیا ہے۔اس کے علاوہ اسی کے نقش قدم پرچلنے والی کے شریفہ جیسی دیگر ’مسلم خواتین‘ اور بہت سارے مسلم مرد قلمکار کنڑا لٹریچر اور صحافت میں موجود ہیں جو اسلامی معاشرے اور اقدارکو غلط تناظر میں پیش کرکے ملّی مفاد کو زک پہنچانے والی مہم کا حصہ ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ سوچ اور کردارہمارے ’مشن اور ویژن‘ کامطلوب ومقصود نشانہ یقیناًنہیں ہے! اس لئے :اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے
ایک پہلو یہ بھی رہا: بہرحال میرے مضمون کا اصل محور چونکہ بھٹکلی مسلمانوں کی طرف سے میڈیا کے محاذ پر اپنی موجودگی اور سرگرمی دکھانے کے لئے کی گئی تدابیراو ر اقدامات اوراس سے برآمد ہونے والے نتائج ہے ، اس لئے پھر اسی نکتے کی طرف لوٹتے ہیں۔میں نے سابقہ قسط میں بھٹکلی مسلمانوں کی میڈیا کے تعلق سے سرگرمیوں کا سرسری تذکرہ کیاتھا۔ اب ہم بھٹکلی مسلم نوجوانوں کی میڈیا سے عملی وابستگی کا مزید کچھ جائزہ لیں گے۔جیسا کہ میں نے پچھلی قسط میں کہاتھا کہ اپنی خداداد صلاحیتوں اورشوق passionکی بنیا د پر ایک طرف عتیق الرحمن شاہ بندری اور عنایت اللہ گواہی اردو صحافت سے وابستہ ہوئے اور معاشرے میں اپنی ایک پہچان بنا لی ۔پھر آگے چل کرساحل آن لائن، بھٹکلیز اور فکر وخبر کے ذریعے انگریزی اور کنڑا ویب سائٹس بھی شروع کی گئیں ۔ ان ویب سائٹس سے منسلک ہوکرکچھ نوجوان اردو کے علاوہ کنڑا اور انگلش شعبہ جات میں عملی تربیت پارہے ہیں اور ممکنہ خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، جن میں کچھ نوجوان خواتین بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف جاوید حاجی فقیہ، فیاض ملا اور نثار رکن الدین، رضوان گنگاولی وغیرہ بھی اپنے طور پر اردو اخبارات، ویب سائٹس اور مقامی پریس کلب سے باضابطہ وابستہ رہ کچھ نہ کچھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔راقم الحروف ، نسیم الغنی شاہ بندری اور رضوان گنگاولی نے کچھ عرصے تک کراولی نیوز نیٹ ورک(KNN) کے نام سے بھٹکل کاپہلا کیبل ٹی وی نیوز سلسلہ بھی کامیابی سے چلایا۔جامعہ اسلامیہ اور ندوہ سے فارغ ہونے والے مولانا انصار عزیز ندوی نے ساحل آن لائن،روزنامہ سالاراور پھر فکر وخبر کے پلیٹ فارم سے بڑے احسن طریقے پرصحافتی خدمات انجام دیں ۔ اور اب وہ بھٹکل سے ہجرت کرکے بنگلورو میں ’سیدھی بات‘ ویب سائٹ پر مصروف عمل ہیں۔فکر وخبر ڈاٹ کام کے ذریعے مولانا محترم ہاشم ندوی کی سرپرستی میں مولانا عبدالنور فکردے ندوی بھی اب صحافتی محاذ پر اپنی موجودگی کااحساس دلانے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ آفتاب کولا ایک سینئر صحافی: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 90 ء کی دہائی کے بعد اور اکیسویں صدی کی شروعات میں جوان ہونے والی بھٹکلی مسلمانوں کی نئی نسل سے کچھ معتبر اور مستند صحافی ایسے بھی نکلے جنہیں گلف کے بڑے اخبارات سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔اُس وقت کی نئی کھیپ میں انگریزی زبان کے ایک سینئر صحافی جناب آفتاب حسین کولا ہیں، جنہوں نے’ بھٹکل ٹائمز‘ کو بند کرنے کے بعد جب گلف کی راہ لی توجدہ سعودی عربیہ میں رہتے ہوئے کچھ مختصر عرصے تک ’سعودی گزٹ ‘کے لئے خصوصی نامہ نگار (special correspondant)کی خدمات انجام دیں۔ پھر وہ مسقط میں’ٹائمز آف عمان‘ کے لئے 12 سال تک سینئر سب ایڈیٹر کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اب وطن واپس لوٹنے کے بعد فری لانسر کے طور پردبئی کے اخبار’ العربیہ‘ انگلش کے لئے feature articles لکھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی رسائی: جہاں تک مجھے علم ہے آفتاب کولا ہمارے یہاں کے وہ صحافی ہیں جنہوں نے نیشنل اور انٹرنیشنل انگریزی اخبارات و رسائل کے لئے سب سے زیادہ لکھا ہے اور انہیں سب سے زیادہ بین الاقوامی exposureملا ہے۔ ان کے مضامین ’عرب نیوز،برونی ٹائمز ،مسلم ورلڈ لیگ جرنل، انڈین ایکسپریس، ڈیکن ہیرالڈ،ریڈیئنس(جماعت اسلامی کاانگریزی ہفت روزہ)، ملّی گزٹ(ملّی کاونسل کا ترجمان جو اب بند ہوچکا ہے)، مِین ٹائم (جماعت اسلامی کی حمایت سے شروع ہونے والا ایک ریاستی انگریزی اخبارجو اب بند ہوچکا ہے ) ، وائس آف مسلم وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ہوائی جہازوں میں فراہم کیے جانے والے inflightرسائل میں بھی آفتاب کولا کے فیچر آرٹیکلز شامل رہتے ہیں۔آفتاب کولا کے تعلق سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ انہیں صحافیوں کے وفد(media delegation)میں شامل رہ کر دنیا کے تقریباً 12ممالک کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے جس میں اُردن Jordan میںآبادی کے موضوع پر منعقدہ اقوام متحدہ(UN) کی کانفرنس میں شرکت بھی شامل ہے۔ خلیج میں مصروف عمل نوجوان: دبئی میں شفاعت شاہ بندری اور معاذ شاہ بندری ہمارے دو سندیافتہ اوربہت ہی فعال نوجوان ہیں جو شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے شفاعت شاہ بندری تاحال گلف نیوز دبئی میں سینئر رپورٹر کے عہدے پر فائز ہیں، کبھی کبھار بھٹکلیز ڈاٹ کام کے لئے لکھتے ہیں۔ جبکہ معاذ شاہ بندری حکومت دبئی کے شعبہ Knowledge and Human Developement Authorityمیں سینئر انگلش رائٹر اور میڈیا کو آرڈی نیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔دبئی میں قیام کے دوران اپنی خداداد قابلیت کی بنیاد پر بھٹکلیز ڈاٹ کام سے جُز وقتی طورپر وابستہ رہ کر صحافتی میدان میں اپنی صلاحتیں اجاگرکرنے والوں میں میرے فرزند اسماعیل ضوریزکا نام بھی شامل ہے ۔جو دبئی سے واپس لوٹنے کے بعدفی الحال وطن میں بھٹکلیزڈاٹ کام کے منیجنگ ایڈیٹر کے طور پر محسن شاہ بندری اور معاذ شاہ بندری کی نگرانی میں صحافتی ذمہ داری نبھانے اور تربیت پانے میں مصروف ہے۔ اور انگریزی صحافت میں اپنے جوہر دکھانے کا عزم رکھتا ہے۔دیکھئے کہ آگے اللہ تعالیٰ کیا سبیل اور وسیلہ فراہم کرتا ہے۔(برسبیل تذکرہ یہ بھی بتادوں کہ میرا سب سے چھوٹا فرزند محمد طالش حالانکہ ابھی پی یوسی فرسٹ ایئر میں زیر تعلیم ہے لیکن وہ بھی صحافت کے میدان میں اپنے قدم جمانے کے لئے ابھی سے پرتول رہا ہے۔ اللہ کرے کہ وہ اس راہ پر استقامت کے ساتھ گرمِ سفر رہے) تازہ دم سند یافتہ صحافی: اگرجرنلزم اورماس کمیونی کیشن کے شعبے میں سندیافتہ تازہ دم مقامی صحافیوں کی بات کریں تومولانا سید سالک برماور ندوی ہیں جنہوں نے عالم و حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا آزاد اوپن یونیورسٹی سے اردو ایم اے بھی کیااور ماس کمیونی کیشن میں ڈپلومہ بھی کرلیا ہے۔ اس کے بعد وہ نیوز 18(سابقہ ای ٹی وی) کے ساتھ جڑکر قومی سطح پر الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن گئے ہیں۔آپ نے ساحل آن لائن کے لئے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں ان شاء اللہ سالک صاحب ہمارے مقصد اور مشن کو پورا کرنے میں ایک اہم رول ضرور ادا کریں گے ۔ان کے علاوہ جناب مولانا عبدالسبحان ندوی ہیں جنہوں نے مولاناآزاد اوپن یونیورسٹی سے جرنلزم میں ڈپلومہ کیا ہے اور بھٹکلیز ڈاٹ کام میں اردو سیکشن سنبھال رہے ہیں۔جناب ایس ایم سید ذاکر کے فرزندایس ایم ایاز نے آکسفورڈ کالج بنگلورو سے جرنلزم میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد کچھ عرصہ ٹی وی 9 انگلش کے ساتھ جڑ کر فیلڈ رپورٹر کے علاوہ ڈیسک پر بھی خدمات انجام دیں۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ فی الحال انہوں نے ہندوستان کو الوداع کہتے ہوئے خلیج میں قسمت آزمائی کو ترجیح دی ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایم ذاکرکے دوسرے فرزند بلال نے بھی جرنلزم میں گریجویشن کیا ہے، لیکن عملی طور پر ابھی وہ صحافت میں سرگرم عمل نہیں ہوئے ہیں ۔ ایک اور نوجوان عزّام صدیقہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بھی نے کرناٹکا اوپن یونیورسٹی سے جرنلزم کا کورس مکمل کرلیا، مگر وہ اس میدان سے عملی طور پر وابستہ ہونے کے بجائے کسی اور ہی شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے : اس پورے منظر نامے سے قابل توجہ اوردکھ کا پہلو یہ نکلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کافی نوجوان اور سینئر صحافیوں کی موجودگی کے باوجود کنڑا اور انگریزی زبان میں مسلم مسائل اور ملت کے مفاد کو سامنے رکھ کر زعفرانی فکر اور فسطائی جارحیت کا مقابلہ اورمستقل قلمی جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل کرنے لائق کوئی نام ابھی تک سامنے نہیں آیاہے۔سینئر انگریزی صحافی جناب آفتاب کولا کی گرانقدر خدمات کا دائرہ سماجی وثقافتی ورثہ (heritage)،طرزِزندگی (lifestyle)اورتحقیقی زاویوں سے لکھی جانے والی فیچراسٹوریز تک محدود ہے۔حالات حاضرہ(current affairs) اور سیاسی معاملات اورمتنازع موضوعات (controversies) پر وہ بہت کم قلم اٹھاتے ہیں۔خیر یہ کوئی منفی بات تو نہیں ہے ۔اس لئے کہ صحافت ایک ہمہ جہتی میدان ہے اس کے مختلف شعبہ جات یا زمرے ہوتے ہیں۔ اور ہر قلم کاریا صحافی کی پسندیدہ نہج اس کے اپنے مزاج ،شوق اور وجدان کے مطابق ہوتی ہے اور وہ اسی میں اپنی صلاحیتوں کوبہتر انداز میں بروئے کارلا سکتا ہے۔ لیکن ہمارامسئلہ چونکہ صحافت کے ذریعے سے ہونے والی زعفرانی اور فسطائی یلغار سے مقابلے کا ہے تو اس میدان میں بھی عملی تربیت کے ساتھ سینہ سپر ہونے اور محاذ پر ڈٹ جانے والے صحافی آج ہماری پوری ملّت کے لئے ایک بنیادی ضرورت بن گئے ہیں ۔ اورموجودہ صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے پر احساس ہوتا ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی جدوجہد ہمارے یہاں مقامی سطح پربہت زیادہ نتیجہ خیز ہوتی نظر نہیں آتی۔تلخ سچائی تو یہ بھی ہے کہ ملکی سطح پر بھی اس سمت میں کام کرنے کے لئے مسلم نمائندگی کی صورتحال امیدافزا اور اطمینان بخش نہیں ہے ۔ یہ ایک المیہ نہیں تو کیا ہے: ہمارا المیہ یہ ہے کہ نہ گلف میں رہنے والے ہمارے نوجوان صحافی اس مشن اور ویژن کے تقاضے پورے کرنے کی پوزیشن میں ہیں(ان کی راہ میں وہاں کی تحدیدات بھی مانع ہوسکتی ہیں)نہ تازہ دم فارغ ہونے والے نوجوان صحافی یہاں ٹکے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔بلکہ جن سے بہت زیادہ امید کی جاسکتی تھی وہ بھی وطن سے ہجرت کرکے خلیج کا رخ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں ہمارے پاس کنڑا اور انگریزی میں دوسرے میڈیا ہاؤس کے تحت چلنے والے ریاستی اور ملکی سطح پر اخبارات یا نیوز چینلس کے لئے کام کرنے والے بھٹکلی مسلم نمائندوں کی موجودگی ثابت کرنے کی سمت میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہ تو وہی سچویشن ہوگئی جیسی کہ بھٹکل میں طبی سہولیات کی ہے۔ بیرونی مقامات سے آنے والے ماہر ڈاکٹروں کے سہارے ہمارے یہاں کے اسپتال چل نہیں پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادی طبی سہولتوں کے لئے کنداپور، اڈپی، منی پال،منگلورو،کالی کٹ اور دوسرے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اوردوسری طرف ہماری اپنی قوم کے ماہر ڈاکٹرس بیرونی ممالک میں اپنی بہترین صلاحیتوں اور خدمات کا مظاہرہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ:وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے
غیر مسلم رپورٹرس میں اضافہ: جبکہ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اسی عرصے میں ہمارے مقابلے میں کنڑا اور انگریزی اخبارات، ویب سائٹس، نیوز چینلس وغیرہ کے لئے بھٹکل سے سرگرم عمل رہنے والے غیر مسلم نمائندوں reporters کی تعداد 15تا20ہوگئی ہے۔اور ان میں بڑی تعداد ایسی ہے جو زعفرانی عینک سے حالات کو دیکھتی ہے۔ان کا مقابلہ کرنے کے ہمارے پاس پرعزم اور بلند حوصلہ نمائندوں کا فقدان ہے۔ہمارے یہاں کنڑا ادب میں بہت ہی بلند مقام و مرتبہ پانے والے سابق پرنسپال انجمن کالج جناب ڈاکٹر ضمیراللہ شریف بھٹکل میں موجود ہیں۔ لیکن وہ میڈیا سے کم اور تحقیق و تصنیف اورتالیف کے میدان سے زیادہ منسلک ہیں۔ان کی اپنی ایک فکر اور لکھنے کا اندازہے۔اوراہم بات یہ ہے کہ ان کا زیادہ ترکام خالص تحقیقی (research)اور ادبی تخلیقات اور لٹریچر کے دائرے میں ہے۔اس لیے میرااحساس ہے کہ اس سے صحافت کے میدان میں ہمیں درپیش بحران سے نکلنے میں کوئی خاطر خواہ مدد ہونہیں سکتی۔ بس ایک کنڑا صحافی ہے: بھٹکل کیا پورے شمالی کینرا کی سطح پر ہمارے پاس لے دے کے ایک رضا مانوی صاحب(شمس اسکول کے ٹیچر) ہیں، جو بڑی حد تک ہمارے اصل مقصد کے تقاضے کو پورا کرنے میں کچھ نہ کچھ عملی تعاون کررہے ہیں۔آپ نے کنڑا میں ایم اے اور جرنلزم میں ڈپلومہ کیا ہے۔ آپ کا شمار کنڑا کے سینئر مسلم صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اورآپ کنڑامیڈیا میں ملت کی واحد آواز’ وارتابھارتی‘ کے نمائندے کے طور پر مسلم کاذ کو سامنے رکھ کر نیوز اور اسٹوریز بنانے کا کام بخوبی کر رہے ہیں۔ساحل آن لائن کے کنڑا سیکشن کی نگرانی بھی آپ کے ذمے ہے۔ اس کے علاوہ اسلام ، مسلمان او رملت کے مسائل پر اکثر وبیشتر اپنے آرٹیکلز دوسرے کنڑا خبارات میں بھی شائع کرواتے ہیں۔سوشیل میڈیا پر بھی سرگرم رہتے ہیں۔ (اور اسی سبب سے وہ دیگرفرقہ پرست اور زعفرانی رنگ والے مقامی صحافیوں کی آنکھوں میں برابر کھٹک بھی رہے ہیں)اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ مسلم ملت کو درپیش میڈیا کے چیلنج کو ہمارے مطلوبہ ویژن کے مطابق جو کچھ بھی کارکردگی ان کے ذریعے ہورہی ہے وہ بسا غنیمت ہے ۔:رات کو جیت تو پاتا نہیں، لیکن یہ چراغ کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
(...نئی کھیپ جو آرہی ہے....بھٹکل کا چھوٹا میڈیا ہاؤس مگر بڑی خدمات....نقاش نائطی اور میڈیا ہاؤس....جاری ہے.... اگلی قسط کا انتظار کیجیے!) haneefshabab@gmail.com (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے ،اس میں درج کسی بات سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ بھٹکلیس)