محمد علی کے خطوط۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:44PM Wed 4 Nov, 2020

محمدعلیؒ کے خطوط

 ۔(یہ تقریر دہلی ریڈیو اسٹیشن نے اپریل 1941ءمیں نشر کی ۔ مولانا محمدعلی جوہر مرحوم سے مولانا دریا بادی ؒ کا خصوصی ربط و تعلق تھا، سیاسی وملّی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا محمدعلی ایک اچھے انشا پرداز تھے اور ان کے خطوط ادبی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ اس نشریے میں ان کے چندخطوط جو انھوں نے سمندرپار سے لکھے تھے، ان پرتبصرہ کیاگیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"نوجوانی سے اپنے قبل از وقت بڑھاپے تک محمدعلی یورپ سمندر پار چھ بارگئے، اور خطوط ہر دفعہ وہاں سے بہت سے لکھے۔  لیکن شروع میں ان خطوط کو کون محفوظ رکھتا؟ اس وقت کسے خبرتھی کہ گودوں کا کھلایا ہوا لڑکا، ساتھ کا کھیلا ہوا نوجوان ایک روز شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے گا؟ آخرکے خطوط بے شک بہت سے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کے پاس۔ لیکن وہ زیادہ تر اختلافی اور نزاعی مسئلوں سے لبریز، انھیں ریڈیو پر کوئی کیسے لائے؟ خاص و عام کو کیسے سنائے؟ اس ذخیرہ کے علاوہ اوربھی جتنے ہیں اتنے زائد ہیں کہ کوئی انھیں پھیلانے پر آئے تو آج کا سارا پروگرام اسی ایک عنوان کی نذر ہوجائے، داستان گو تھک جائے اور داستان ختم نہ ہونے پائے۔

محمدعلی مولانا تو بہت بعد کو ہوئے، شروع میں مدّتوں مسٹر رہے، مسٹرہی کہلائے۔ پہلا سفر ۱۸۹۸ء میں کیا، جب پرانی صدی کے ختم ہونے کے دوسال رہ گئے تھے۔ سن  اس وقت بیس سال کا تھا۔دوسرا سفر ۱۹۰۲ء میں کیا، جب نئی صدی کوشروع ہوئے بھی دو ہی سال ہوئے تھے، سن اس وقت ۲۴ سال کا تھا۔  دونوں سفرطالب علم ہی کے سلسلے میں تھے۔ زیادہ ترآکسفورڈ اورلندن ۔مشغلے اسی سن وسال کے لائق، اور مراسلے ان ہی مشغلوں کے مناسب حال۔  انگریزی میں لکھے ہوئے بڑے بڑے طویل مراسلے علی گڑھ منتھلی میں ۔کے عنوان سے کئی کئی نمبروں میں نکلتے رہے۔ ذکر زیادہ تر ان میں ہوتا کالج کے کھیل کود کا، ہمجولیوں کی رنگ رلیوں کا، اورسب سے بڑھ کرکشتی رانی یاکشتی بانی کا۔ اس دور سے یقینا آپ کو کچھ زیادہ دلچسپی نہ ہوگی۔

تیسری بار انگلستان جانا ۱۹۱۳ء میں ہوا۔  اب محمدعلی ملک کے ممتاز جرنلسٹ اور انگریزی کے مشہور انشا پرداز تھے۔  کامریڈ عرصہ سے نکل رہا تھا اور اب ہمدردبھی نکلنا شروع ہوگیا تھا۔  کانپور کی ایک نئی نکلنے والی سڑک کی زد میں ایک مسجد کا گوشہ آرہا تھا۔ اس پر قدرتاً ایک سخت ہیجان برپا ہوگیا تھا اورمعاملہ شہر بلکہ صوبہ کے حدود سے نکل کر ”آل انڈیا“ بن چکا تھا۔ محمدعلی مسلم لیگ کے سکریٹری کو ساتھ لے چپ چپاتے ولایت روانہ ہوگئے کہ وہاں جا کر اس معاملہ اور ایک یہی کیا ملک کے بہت سے معاملات پر لوگوں سے ملیں ملائیں، دلوں کو گرمائیں، طبیعتوں کو نرمائیں، تقریرسے، تحریر سے، قلم سے، زبان سے۔ غرض وہاں پہنچ کر ہندوستان بہت سے خط لکھے، عموماً انگریزی میں۔ اکثر کامریڈ میں چھپ بھی گئے۔ انھیں پڑھ کر نقشہ نظرکے سامنے پھرجاتا ہے، اس وقت کے ہندوستان کا، اس وقت کے ہندی مسلمان کا، اس وقت کے انگلستان کی شان وشوکت کا۔  نا کامیاں قدم قدم پر پیش آتی رہیں ہمت پست نہ ہوئی، دعوتیں اور ضیافتیں محمدعلی کی بکثرت ہوئیں، لندن میں بھی، ایڈنبرا میں بھی اور نیوکاسل میں بھی۔  ان جلسوں اورصحبتوں میں شریک انگلستان کے چوٹی کے مشاہیر بہت سے ہوئے، مثلاً اہل قلم و اہل صحافت میں ایچ جی ویلز، جی کے چسٹرٹن، اے جی گارڈنر، سی پی اسکاٹ، جے اے اسپنڈر، ویلنٹائن ولیمس اور آئرلینڈ کے مشہور شاعر ڈبلو،بی،ایٹس۔ اہل سیاست میں ریمزے میکڈانلڈ، کیرہارڈی، جان ڈلن، آبرے ہربرٹ، ڈاکٹر ورفرڈ، مسٹرنیونس وغیرہم۔  کچھ ایسے مشاہیر بھی تھے جو عین وقت پر خود آنے سے معذور ہوگئے اور اپنے بجائے اپنے معذرت نامے بھیج دیے، مثلاً برنارڈشا، مسٹربلنٹ وغیرہم ۔ محمدعلی ان جلسوں سے خوب کام نکالتے، جو کچھ کہنا ہوتا ان ہی موقعوں پر کہہ ڈالتے، طویل مراسلے ان کے ٹائمز میں تو بار نہ پاتے، البتہ دوسرے مشہور اخباروں میں ان کے بیانات نکلتے رہتے۔ لارڈہیڈلے اسی زمانہ میں نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، اور لیڈی ایولین کو بولڈ تو ان سے قبل ہی اسلام قبول کرچکی تھیں۔  ان راستوں سے بھی محمدعلی نے انگلستان کی سوسائٹی کے اندر اپنی جگہ پیدا کرلی، اور اپنے مشن میں کچھ ایسے زیادہ نا کام نہ رہے۔

  دسمبر ۱۹۱۳ء کے کامریڈ میں جو مراسلہ نکلا ہے اس میں اپنے اس سفر پر گویا تبصرہ کرتے ہیں:۔

"۲۷نومبر کوہم لوگ خود ایک الوداعی لنچ اپنے دوستوں اور ہمدردوں کو دے رہے تھے۔ اس لنچ کی حیثیت سیاسی اورنزاعی نہ ہوگی، بلکہ اس کا مقصد یہ ہوگا کہ ہم ہندوستان اور انگلستان اسلام اورمسیحیت کے درمیان سفارت کا کام دے سکیں، اور تاکہ ہم اپنے مخاطب انگریزوں اور انگریزنوں دونوں کو بتادیں کہ وہ ہمارے ملک اور مذہب سے ایسے بے تعلق تو نہ رہیں جیسے کہ اب تک رہ چکے ہیں، بلکہ ہمارے عزم اورمقصد اور گلے شکوے خود ہماری زبان سے سن لیں۔ مشہور افسانہ نگار ایچ جی ویلز سے ملاقات ہوہی چکی ہے، بلکہ اب کی جمعہ کو تو ان میاں بیوی نے اپنے ہاں رات کے کھانے پر مدعو کردیا ہے۔  اور وقت بھی میری خاطرسے سوا آٹھ کا رکھاہے کہ میں اس وقت تک ہندوستان کی ڈاک سے فارغ ہولوں ۔" آگے چل کرلکھتے ہیں کہ "ہندوستان اور اسلام کے معاملہ میں ان لوگوں کی بے خبری اور جمود دور کرنے کے لیے اورانھیں بار بار چونکاتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہم خیال لوگ ہندوستان سے بار بار آتے اور یہاں کی رائے عامہ کو برابر تیارکرتے رہیں ۔ میں بحیثیت مجموعی مایوس نہیں ہوں۔"

 محمدعلی اب ملک وملت یعنی ہندوستان اور اسلام دونوں کےسفیر تھے، اور یہ دہرا نقطۂ نظر قائم ہوچکا۔  چوتھا سفر انگلستان اور فرانس کا ۱۹۲۰ء میں وفد خلافت کے صدر کی حیثیت سے کیا۔  اب ان کا شمار ملک کے مسلّم لیڈروں میں تھا، اورمسلمانوں میں تو وہ مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی کہ باید و شاید ۔ اب ان کی حیثیت سفیر سے زیادہ مجاہد کی تھی۔  انگلستان خصوصاً شہر لندن میں بہت سی تقریریں کیں۔  اسیکس ہال، کیکسٹن ہال وغیرہ میں، اور کچھ فرانس میں بھی۔ موضوعِ تقریر اسلام اور ہندوستان دونوں کی ترجمانی، اور پر جوش ترجمانی ہی رہتا تھا۔ تقریروں اور پبلک تحریروں کے انہماک میں ہندوستان خطوط لکھنے کا وقت کہاں سے نکالتے اور جو کچھ لکھے بھی ہیں ان کی اشاعت کی نوبت اوربھی کم آئی۔  کوئی اخبار اس وقت ان کے اپنے ہاتھ میں تھا نہیں ۔  نہ اردو کا نہ انگریزی کا۔

پانچویں بار بیمار اور زار و نزار ایک قدرداں و جوہر شناس ہندو رئیس کے خرچ پر 1928ء میں اپنے علاج کے لیے یورپ روانہ ہوئے ۔ ذیابطیس کا علاج فاقوں کے ذریعہ سے کرنا تھا اور اس طریقِ علاج کے ماہرین فرانس میں تھے، اس لیے قدرتاً اب کی زیادہ تر قیام فرانس ہی میں رہا، اور ڈاکٹروں کی شدید تاکید پر سیاسیات وغیرہ سے ایک بڑی حد تک الگ تھلگ رہنا پڑا۔  اس سفر میں راستہ سے جومفصل خط لکھا قابل ملاحظہ ہے، اقتباس ذرا طویل تو ضرور ہوگا لیکن اس سے ایک طرف تو اس سفر اور چوتھے سفر دونوں کے مقاصد روشنی میں آجائیں گے، اور دوسری طرف مولانا کا مجلسی اورمعاشری نقطۂ نظر بھی کسی قدر واضح ہو جائے گا۔  خط ولایتی جہاز ”میسی ڈوینا“ سے لکھا گیا ہے ۔  تاریخ ۶جون ۱۹۲۸ء کی پڑی، اور اب جامعہ والوں نے خطوط محمدعلی کے مجموعہ میں چھاپ بھی دیا ہے۔  مولانا فرماتے ہیں:۔

"چوتھا سفر۱۹۲۰ء میں کیا گیا اور ایک آخری کوشش اس کی کی گئی تھی کہ خلافتِ عظمیٰ کو برقرار رکھا جائے۔ ترکی سلطنت (کی قوت) اور اس کے اقتدار کی حفاظت کی جائے گذشتہ تجربوں کی بنا پر جانتے تھے کہ کیا حشر ہوگا مگر

رہے نہ دل میں ہوس آﺅ یہ بھی کردیکھیں

اس خیال سے احرام سفرباندھا گیا تھا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا بھی کیا حشر ہوا۔  اس سفر کے بعد توبہ کرلی تھی کہ اب آستان بوسی نہ کریں گے، اگر پھر جائیں گے تو اسی لیے کہ انگلستان اور ہندوستان کے درمیان معاہدہ پر دستخط کریں گے۔ افسوس وہ معاہدہ آج بھی دورنظر آتا ہے، مگر الحمدللہ کہ توبہ آج بھی نہیں ٹوٹی آج مسٹرواٹسن پولیٹکل سکریٹری (صاحب) گورنمنٹ آف انڈیا سے جہاز پر ملاقات ہوئی تو ان کی اس غلط فہمی کوبھی دورکردیا کہ(میں) بٹلر کمیٹی  کے سلسلے میں انگلستان جارہا ہوں۔ محض اپنی صحت کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں، اور اس پر(بھی)ہنسی آتی ہے کہ ایک فاقہ کش ملک سے متمول ملک کی طرف ایک فاقہ مست بہ صرف کثیر اس لیے سفرکر رہا ہے کہ وہاں جا کر فاقہ کرکے اپنا علاج کراے!۔

ہندوستانی عورتیں اس جہاز پربھی ہندوستانی لباس میں سفرکر رہی ہیں، لیکن سوائے اینی بیسنٹ کے اخبار نیو انڈیا کے ایڈیٹوریل اسٹاف کے ایک رکن جو اچکن اورآڑا پاجامہ پہنے ہوئے ہیں، مردوں میں صرف میں ہی ایشیائی لباس میں ملبوس ہوں آج صبح کے بعد سے تموج میں بہت کمی ہوگئی ہے اورآج شب کو ساڑھے آٹھ بجے سے، جب سے یہ خط شروع کیا گیا ہے، جہاز پر مردوں اور عورتوں کا ناچ ہو رہا ہے ڈیک پر میرے قریب ہی ایک خوش رو، وجیہ اور بلند قامت فوجی افسربھی لیٹے رہا کرتے تھے اورکبھی کبھی ایک دو لفظ بول لیا کرتے تھے۔ آج ایک بچی سے میری دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس میں زیادہ تر میری بچیوں کے نام اور ان کی عمر وغیرہ کے متعلق اس کے سوالات اورمیرے جوابات تھے ۔ بہ ظاہر اسے سن کر اور کچھ دلچسپ پا کر ان صاحب نے مجھ سے گفتگو شروع کی، اور دو گھنٹے تک نہایت آزادی اورصفائی سے، مگر پرلطف طریقہ پر سیاسی گفتگو رہی، جس کے بعد انھوں نے شکریہ بھی ادا کیا اور داد (تحسین ) بھی دی۔  بعدکومعلوم ہوا کہ یہ بریگڈیر جنرل ہیں۔"۔

دوسراخط فرانس کے قیام کے بعد لندن ۱۹ اگست کا لکھاہوا ہے، اس کے طویل اقتباسات بھی نہ لطف سے خالی ہوں گے نہ فائدہ سے، اس لیے اور بھی کہ اس میں ذکر ایک مشہور بزرگ قوم کی وفات کاہے، جن سے محمدعلی سے خاصی چشمک رہ چکی تھی۔  اپنی صحت اور بد پرہیزی کی تفصیل کے بعد لکھتے ہیں:۔

”جمعہ کی صبح کو میں نے اپنا فاقہ ختم کیا۔کیا معلوم تھا ٹھیک جس وقت میں افطار کر رہا تھا اسی وقت سید امیرعلی صاحب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے۔گو کچھ عرصہ سے وہ صاحبِ فراش تھے  تا ہم کسی کو گمان نہ تھا کہ وہ اس قدر جلد داعی اجل کولبیک کہنے والے ہیں۔ یہاں جس طرح جینا مشکل ہے اسی طرح مرنابھی مشکل ہے ۔ جس دن امیرعلی صاحب کا انتقال ہوا ہے اسی دن لوگ چھٹیاں منانے جارہے تھے۔ تجہیز وتکفین کا سامان منگل تک نہ ہوسکا۔ یورپین رسم کے مطابق پھولوں سے تابوت چھپ گیا ہوگا اس لیے کہ جب میں قبرستان پہونچا تو قبر پھولوں سے بالکل ڈھکی ہوئی تھی۔ وو کنگ کی مسجد کے امام صاحب نماز جنازہ پڑھا چکے تھے اس قبرستان میں ہزاروں ہی قبریں ہیں۔ اوراس شہر خموشاں کا نام بھی Necropolis ہے۔ ریل کی پٹری اس کے اندر تک آئی ہے ،نہایت وسیع میدان میں باغ لگایا گیا ہے جس کے چاروں طرف پختہ احاطہ کی دیوارہے۔ نہایت عمدہ سڑکیں روشیں چلنے پھرنے والوں کے لیے بنادی گئی ہے۔ اس شہر خموشاں کے اندرایک اچھی خاصی ریسٹوران بھی موجودتھی جہاں لنچ کھایا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا حصہ مسلمانوں کی قبروں کے لیے بھی ہے۔ یوں تو تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے والی کمپنی نے سب کچھ کرلیا تھا لیکن بعدکومعلوم ہوا کہ قبر کا رخ کسی قدر غلط تھا ۔ لیکن الحمدللہ کہ کچھ زیادہ غلطی نہ تھی اور امام صاحب نے میت کا منہ صحیح طور پر قبلہ کی سمت موڑ دیا تھا۔  ہم لوگ جب پہونچے تو قبرستان میں پندرہ بیس ہی آدمی رہ گئے تھے جن میں ایک لارڈ ہیڈلے اورپنجاب کے (سابق) لفٹنٹ گورنرسرلوئی ڈین تھے۔ سرلوئی ڈین صاحب نے مجھے پہچان کر اردو میں مزاج شریف کہہ کر میرا حال دریافت کیا اورفرمایا کہ ہاں میں آپ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں،  میں جواب میں الحمدللہ کہہ کر اور ان سے ہاتھ ملاکر آگے بڑھا۔ مسلمانوں کی قبریں غالباً پہلے یہاں نہ تھیں۔  جتنے کتبے ملے ان سب کو میں نے پڑھا اورمعلوم ہوا کہ سب سے پرانی قبر ایک ضعیفہ (خاتون) احمد فارسی کی ہے۔ “۔

یہ خط بھی جامعہ کی چھپی ہوئی تازہ کتاب خطوط محمدعلی میں درج ہوچکاہے۔ آگے چل کر اسی خط میں بمبئی، حیدرآبادجہلم، راندیر اورمصرکی متعدد میتوں کی قبروں کا ذکرہے اسی کے بعد فوجیوں کی قبروں کی ایک بڑی طویل فہرست ہے اس سے کچھ تو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ محمدعلی سیاسیات کے علاوہ بھی انگلستان میں کیا کیا دیکھتے تھے اورکس نظرسے:۔

”اس پربھی وہ کام کررہا ہوں جو نہ کسی اور سے ہوسکتاہے اور نہ کوئی کرتا ہے با اثر لوگوں پرگفتگو سے اثر ڈالتا ہوں ٹیلفون پر رات دن باتیں ہوا کرتی ہیں خواہ ٹائمز کا فارن ایڈیٹر ہو خواہ برنارڈشا وزیر ہند نے نہایت شرافت سے خود ہی دوبارہ آنے پر یہاں اصرارکیا اس طرح گھنٹہ بھر گفتگو کی اورمجھ سے اعتراف کیا کہ تم نے جوباتیں بتائیں وہ تو عجیب وغریب ہیں۔ پیچیدہ ترین مسائل پر جوسمجھ ہی میں نہ آتے تھے آج ایک روشنی کا سیلاب ٹوٹ پڑا۔  اسپیکٹیٹر کے ایڈیٹر سے دوگھنٹے باتیں ہوا کیں اور اس پر پورا پورا اثر پڑا۔  اسی طرح ٹائمز کے فارن ایڈیٹرسے ساڑھے دس سے ۱۲بجے تک ٹیلیفون پرگفتگو ہوچکی تھی خود ہی اس نے ملنے کی خواہش کی سوا گھنٹہ اس سے ہندوستان کے متعلق گفتگو ہوئی۔  یہ بھی گرویدہ ہوکر گیا۔“۔

 یہ وہ وقت تھا جب اسی محمدعلی نے جو اب نہ مسٹر تھا نہ مولانا بلکہ صرف دیوانہ راﺅنڈ ٹیبل (گول میز) کے بھرے مجمع میں اپنی موت کا اعلان کردیا تھا۔ ہندوستان کاساحل آخری بار چھوڑتے وقت بھی تو جب ایک مخلص نے بڑھ کر پوچھا تھا کہ ”آخر آپ اس حالت میں جا کس لیے رہے ہیں؟“ تو دیوانہ کی زبان سے پھٹ سے نکلا یہی تھا کہ ”مرنے کے لیے“ سچے کی بات اللہ نے سچ بھی کیسی کر دکھائی۔"

(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/