افطار پارٹیوں کی سیاست۔۔۔یہ خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے! (دوسری اورآخری قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

02:21PM Sun 24 Jun, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  امسال ملک میں چلی افطار پارٹیوں کے تعلق سے ایک شگوفہ سوشیل میڈیا پر دیکھنے کو ملا، جو میرے مضمون کی اصل روح سے مطابقت رکھنے والا تھا۔ بی زیڈ ضمیر احمد خان ، رحمان خان وغیرہ کو فوٹوزمیں’ خالص مسلمان‘ کے روپ میں افطار پارٹی میں شریک ہوتے دکھایا گیا تھا اس کے ساتھ سابق وزیراعظم دیوے گوڈا جی، سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا،ملائم سنگھ یادو، اکھلیش یادو، اروندکیجریوال، ممتا بنرجی اور چندرابابو نائیڈو کے فوٹوز بھی خالص مسلمانوں کے لباس میں ہونے کی وجہ سے ان افطار پارٹیوں کو’ سالانہ فینسی ڈریس شو ‘کاعنوان دیا گیا تھا۔ساتھ ہی ساتھ چندرا بابو نائیڈو کواس مقابلے میں’ اول انعام یافتہ‘ قراردیاگیا تھا جنہوں نے سر پرخوبصورت ٹوپی کے ساتھ نہایت ہی شاندار ریشمی قبا پہن رکھی ہے اور تام جھام ایسا ہے کہ ان پر کسی بہت بڑے عالم دین اور امام وخطیب کا گمان ہونے لگتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی بھی افطار پارٹی: افطار پارٹیوں کا سلسلہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ سات سمندر پار بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔امریکی صدارتی محل وہائٹ ہاؤس میں بِل کلنٹن کے زمانے میں(مشہور ہے کہ ہلیری کلنٹن کی تجویز پر) 1996افطارپارٹیوں کا سلسلہ شروع کیا گیاتھا۔ بعد میں جارج بش اور باراک اوباما کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ مگر اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی مسلم اوراسلام مخالف رجحان دکھانے والے ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال بطور صدر امریکہ افطار پارٹی کے انعقاد کو منسوخ کردیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ اپنی ’وسیع النظری‘ کا مظاہرہ کرنے کے لئے امریکی مسلمانوں کے لئے نہیں ، بلکہ مسلم ممالک کے سربراہوں اور ڈپلومیٹس کے لئے وہائٹ ہاؤس کے اسٹیٹ ڈائننگ روم میں ٹرمپ نے اپنی پہلی افطار پارٹی کا انعقاد کیا۔ اس دوران ٹرمپ نے مذہب اسلام کی ستائش کی اور اسے دنیا کا’ عظیم مذہب‘ قرار دیا تو دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پھولے نہیں سمایا اور سوشیل میڈیا پر ٹرمپ کے اس ستائشی بیان کو وائرل کرنے میں لگ گیا کہ دیکھو ’ڈونالڈ ٹرمپ نے تک اسلام کی ستائش کی ہے !‘جیسے دین اسلام کو بس اسی ایک سرٹفکیٹ کی ضرورت رہ گئی تھی!! جان لینا چاہیے کہ اس طرح کی افطار پارٹی ڈونالڈ ٹرمپ کے مسموم خیالات میں تبدیلی کااشاریہ نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں اس کے مذموم عزائم کے حصول کی راہ کو مزید ہموار کرنے کا حربہ ہے۔بالکل اسی طرح کی تگ و دو جیسی کہ اس ملک میں ہندوتوادی سنگھ پیریوارکے دانشور اور ideoalogueنے مشن بنالیا ہے، او ر ملت کا ایک بڑا حصہ اس کا شکار ہوتاجارہا ہے۔

ستم ہے اہل حرم ابھی تک مغالطے میں پڑے ہوئے ہیں وہ شیخ اس دور میں کہاں ہے ، جو بندۂ برہمن نہیں ہے

پنٹاگون میں افطار پارٹی : اسی طرح امریکی دفاعی ادارے ’پنٹاگون‘ میں بھی گزشتہ تقریباً20سال سے مسلم افسران او رملازمین کے لئے افطار پارٹی کااہتمام کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس دفاعی ادارے سے وابستگان کی مذہبی شناخت کو عام نہیں کیا جاتا اس لئے یہ بات قطعی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ منجملہ کتنے افراد پر مشتمل عملہ پنٹاگون میں موجود ہے۔ایک اندازے کے مطابق 4ہزار سے زیادہ مسلم طبقے کے افراد پنٹاگون میں دفاعی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لہٰذاپنٹاگون کی افطار پارٹی کے مسلم شرکاء کا خیال ہے کہ ہرسال ہونے والی افطار پارٹی کے موقع پر ادارے سے وابستہ مسلم افسران کو ایک دوسرے سے متعارف ہونے اور گفت وشنید کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی افطار پارٹیاں: بہرحال ہم اپنے ملک عزیزکی طرف واپس لوٹتے ہیں تونظر آتا ہے کہ یہاں سیاسی مقاصد سے منعقد ہونے والی افطار پارٹیوں نے مسلم جماعتوں اور اداروں کو بھی متاثر کردیا ہے اور آج کل مقامی سطحوں پر ہی سہی کچھ دینی وسماجی جماعتوں اور اداروں کی طرف سے غیر مسلموں کی ساتھ افطار پارٹیوں کا کلچر عام ہورہا ہے۔ اور اس کا مقصد غیر مسلموں میں دعوت دین اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے ایسی افطار پارٹیوں کے منتظمین کی نیتوں اوران کے اخلاص پر تو کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا ، لیکن ان پارٹیوں سے جن فوائد کی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں، اس پر یقیناًسوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔اور جیسا کہ میں نے اس مضمون کے آغاز ہی میں کہا ہے کہ سنجیدگی سے غور کرنے پرلگتا ہے کہ یہ ہماری خود فریبی کے سوا اورکچھ نہیں ہے، کیونکہ اس کا مقصد سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا منبع اور منہج سیاسی ہی بن کر رہ جاتا ہے۔

درِ گلستاں پہ فصلِ گل کے حسین کتبے لگانے والو ! ہمیں تو درکار ہے وہ موسم ، گلوں کو جو ساز گار آئے

غیر روزہ داروں کا افطار سے کیا تعلق؟!: افطار کا عمل تو روزے سے مشروط ہے۔گویا یہ ایک اسلامی عبادت کا جزءِ خاص ہوتاہے۔ اور غیر مسلموں کے لئے مخصوص ان افطار پارٹیوں میں چاہے ان کا انعقادسیاسی ہو ، سرکاری ہو، کسی دینی ، تحریکی یا مسلم سماجی تنظیم کی طرف سے کیا گیا ہو، بڑی تعداد میں جو غیر مسلم شریک ہوتے ہیں (اور کچھ مسلمان بھی!) وہ غیر روزہ دار ہوتے ہیں۔کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ افطاری کے مقدس و مکرم اوقات میں، اللہ کے حضور دستِ دعا بلند کرنے اور رحمتیں و برکتیں سمیٹنے کے لمحات میں خداکے باغی ہوکر دن بھر پیٹ بھرکرکھانے پینے کے والی، فاسق و فاجر سیاسی شخصیات کے دوغلے پن پرمبنی بیانات سننے کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔آخر روزہ داروں کے مخصوص عبادت کے درجے والے عمل میں غیر روزہ داروں کی شرکت اور ان کے منافقانہ خطابات چہ معنی دارد! ایک روایت ہمارے شہر کی: مثال کے طور پرایسی ہی ایک تقریب ایک ملک گیر دینی جماعت کی مقامی اکائی کی طرف سے بھٹکل میں اکثر و بیشتر رمضان میں منعقد کی جاتی ہے۔ چند غیر مسلم نمائندہ سیاسی و سماجی شخصیات کو اور اطراف کے کچھ غیر مسلم عوام کو افطار پارٹی کے عنوان سے علاقے کی ایک مسجد میں یکجا کیا جاتا ہے۔ مسلم کارکنان کی طرف سے کچھ اسلام کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد کچھ خاص مہمانوں کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے کانوں میں رس گھولنے اور بانچھیں کھلوانے والے بیانات پیش کیے جاتے ہیں۔اور ہم لوگ اسے میڈیا میں پبلسٹی دے کر بالکل اسی طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر پھولے نہیں سمارہے ہیں۔ساتھ ہی دعوت دین کا ایک بڑا سنگ میل پار کرنے کا احساس بھی ہمارے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس منافقت کی تو حد ہوگئی!: مگر اس بار اس افطار پارٹی میں شریک ایک بی جے پی کے لیڈر نے تو منافقت کی حد کردی۔ماضئ قریب میں مسلمانوں کی بھرپور تائید اور یکطرفہ ووٹوں سے دومرتبہ ایم ایل اے بننے والے اس کانگریسی لیڈر نے کچھ عرصے قبل کرسئ اقتدار کے لالچ میں مسلمانوں کی ازلی دشمن بی جے پی کا کنول اپنے کالر پر سجالیاتھا۔ اور ہم نے اسے اپنی افطار پارٹی میں چیف گیسٹ بناڈالا۔ اس نے بھی موقع پرستی کی ایک نادرمثال پیش کرتے ہوئے ’آپس میں بھائی چارہ اور امن و امان کے ساتھ جینے کی ضرورت‘ پر بیان دے ڈالا۔ حالانکہ ابھی چند مہینوں پہلے یہی شخص سنگھ پریوار کے اس ٹولے میں شامل تھا جوبھٹکل میں فرقہ وارانہ ماحول گرمانے کی سازشیں کررہاتھا اور میڈیا کے سامنے بھٹکل کے مسلمانوں کو دہشت گرداوربھٹکل کو دہشت گردی کااڈہ قرار دے رہا تھا اور یہ شخص اپنا سرحمایتی انداز میں ہلاتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملارہاتھا۔اوراب بھی وہ اسی سنگھی خیمے میں بیٹھا ہوا ہے۔ تماشہ دیکھئے کہ ہم اسی منافقانہ بیان کو میڈیا کی سرخیاں بنانے میں لگے ہیں! دین کی دعوت اور باہمی روابط کاذریعہ: غیر مسلموں کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے والے ہمارے دوستوں کا استدلال ہے کہ یہ غیر مسلموں سے بہتر روابط پیداکرنے، دین کی دعوت ان تک پہنچانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یقیناًاس مقصد اور اس کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ مگر کیا ضروری ہے کہ اس کے لئے افطاری کے مخصوص متبرک لمحات کاہی استعمال کیا جائے؟ اس مقصدکے لئے سال کے 365 دنوں میں سے بقیہ کسی بھی دن یہ کام ہوسکتا ہے۔ اور اسے مسلسل ہوناچاہیے۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کرنااورمواقع پیداکرناچاہیے۔ مسجد کے اطراف اور محلے کے عام غیر مسلموں کے ساتھ سماجی خدمات کی بنیاد پر،آفات سماوی کے مواقع پر راحت رسانی کے ذریعے، عام شہری مسائل کے حل کو لے کراور صحت عامہ (فری میڈیکل کیمپ) وغیرہ کے موضوعات پر رابطے ا ورمشترکہ اجتماعی پروگرامات منعقد کرتے ہوئے یہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔(اور الحمدللہ اسی جماعت کے ذریعے اس کا اہتمام ہوبھی رہا ہے!)اس سے ہٹ کراگر بات کریں تو سیاسی مفادپرستوں کی روش اپناتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ افطار پارٹیاں ،بھلا اک تماشے کے سوا اور کیا ہوسکتی ہیں! اس سے بہتر تو یہ ہوتا! : رمضان کے مبارک ایام میں اس طرح کی بے فیض اور بے معنی افطار پارٹیوں کے انعقاد اور اس کی تشہیری مہم سے سکون حاصل کرنے کی کوشش سے بہتر تو یہ ہوتا کہ ہم ان ایام میں اپنے گھریلو اور خاندانی رشتوں کو استوار اور مستحکم بنانے کے منصوبوں پر عمل کرتے ۔ ہم سے الگ تھلگ دیگر محلوں اور علاقوں میں بسنے والے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور دور و نزدیک کے رشتے داروں سے ملاقات کرنے، خیر خبر لینے، عیادت کرنے ،گلے شکوے دور کرنے اورایک آدھ باران میں سے کسی کو افطاری کے لئے اپنے گھر بلانے یا کبھی خود ان کے ساتھ انہی کے گھر پر روزہ افطاری کے پروگرام بناتے۔ کبھی خاندان کے چھوٹے اور معصوم بچوں کو اپنے گھر پر جمع کرکے خالص ’بچہ افطار پارٹی‘ کا اہتمام کرتے ۔ پھر دیکھتے کہ ذہن و دل کو کس قدر تازگی اور فرحت کا احسا س ہوتا ہے ۔تب شاید خبر ہوتی کہ یہ اعمال کس درجہ روحانی تسکین کا باعث بن جاتے ہیں۔ خیر اب تو رمضان اور افطاری کا موسم گزرچکا ہے۔ اگراللہ زندگی سلامت رکھے تو پھر آئندہ رمضان میں انفرادی طور پرکیوں نہ ا س کا عملی تجربہ کرلیا جائے؟!!

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہمۂ

  haneefshabab@gmail.com   (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج پورا مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔اس میں درج کسی بھی بات سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)