سچی باتیں۔۔۔ شہرت کو بقا نہیں۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:24AM Sat 12 Feb, 2022

1930-02-14

پچھلے دِنوں مسلمانوں کی قومی زندگی سے دوبڑے شخص اُٹھ گئے۔ صوبۂ بہار میں مظہر الحق، اور علی گڑھ میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں۔ دونوں شخصیتیں آج سے چند سال قبل اِس پایہ کی تھیں، کہ ان کی مَوتوں پراُس وقت مُلک کے طول وعرض میں ہلچل مچ گئی ہوتی۔ صاحبزادہ صاحب کا انتقال اگر کہیں  10ء یا  11ء میں، اور مظہر الحق صاحب کا اگر کہیں 14ءو  15ء میں ہواہوتا، تو خدامعلوم گھر گھر کیسا شور ماتم برپا ہوگیاہوتا۔ سیاہ جدولوں کے ساتھ ہر چھوٹا بڑا اخبار ہفتوں بلکہ مہینوں ماتم کرتا رہتا۔ سیکڑوں ہزاروں تعزیتی جلسے ہوتے، شہرشہر، قصبہ قصبہ، تعزیتی رزولیوشن پاس ہوتے، مدتوں شاعروں کے قلم سے قطعاتِ تاریخِ وفات چھَپتے رہتے، اور قومی مجلسیں، اور درسگاہیں، خدامعلوم کتنی مدت تک ، اور کتنے مختلف طریقوں سے سوگ مناتی رہتیں……لیکن اب کیا ہوا! بجز گنتی کے چند اخباروں کے اور کسی نے کچھ نہ لکھا، اور انھوں نے بھی اکثر صرف ایک ایک مضمون کو کافی سمجھا۔ تعزیتی جلسے بجز دوچار خاص خاص مقامات کے اور کہیں بھی نہ ہوئے۔ لکھنؤ، دہلی، الہ آباد، جیسے مرکزی شہروں میں سے کہیں سے بھی تعزیت کے کسی جلسۂ عام کی اطلاع نہیں آئی۔

’’شہرت‘‘ و ’’ناموری‘‘ کی بساط آپ نے دیکھ لی! یہ ’’عزت‘‘ اور یہ ’’نام‘‘ جس پر دین ودیانت، ایمان واخلاق، سب کو بہ آسانی قربان کردیاجاتاہے، کیا اس کی بَس کُل اتنی ہی کائنات ہے! اقبال نے مدت ہوئی کہاتھا  ؎

کیا زندگی ، جو ہو نَفَسِ غیر پر مدار

شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑدے!۔

شہرت کے بھوکو! اور ناموری کے طالبو! مشہور ہونے والوں، شہرت پانے والوں، نام پیداکرنے والوں اور ناموری حاصل کرنے والوں کا انجام آنکھوں کے سامنے ہے۔ کیا یہ انجام عبرت وموعظت کے لئے کافی نہیں؟ نام اور عزت اِس ناپائدار وبے ثبات دنیا میں کتنی ناپائدار وبے ثبات چیزیں ہیں!آج جو نامور ہے کل گمنام ہے۔ آج گلی گلی جس کے نام کے نعرے لگائے جارہے ہیں، کَل کوئی اُسے پوچھنے والا بھی نہیں!ذرا سی اپنے حالات میں تبدیلی ہوئی یا ادھر قوم کا ذرا سا مزاج بدلا، اور ناموروں کی شہرتیں اور عزتیں دَم کے دَم میں غائب !  15ء میں الہ آباد کے ایک معمَّر بزرگ کا انتقال ہوا ، جو اُس وقت سے بیس سال قبل سرسید احمد خاں کے دَور کے خاص مشاہیر میں تھے، مگر وفات کے وقت گمنام وخانہ نشیں تھے۔ کسی کو مرنے کی کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ جنازہ تک میں شاید صرف گھر ہی کے لوگ شریک تھے۔ اکبر ؔمرحوم نے یہ اسی موقع پر فرمایاتھا  ؎

اتنا جئے کہ جاننے والے گزر گئے

پُرساں رہا نہ کوئی تو چُپ چاپ مرگئے!۔

یہ واقعات کوئی شاذونادر نہیں۔ ہرروز اور ہرجگہ نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ اور اپنے اپنے چھوٹے دائرہ میں کس کثرت کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں، سرسید کے نام سے توآپ واقف ہی ہوں گے، ان کے زمانہ میں علی گڑھ کالج کے پرنسپل بک صاحب ایک انگریز تھے، جو پرنسپلی کیا ، خدائی کرتے تھے۔ مسلمانوں کے تعلیمی، سیاسی، قومی، ہرمعاملہ میںاُنھیں کی رائے اہم ومقدّم۔ اور سرسید کے صاحبزادہ اور جسٹس سید محمود بھی اپنے زمانہ کے چوٹی کے مشاہیر میں تھے۔ جب چند سال کے اندر، تینوں دنیا سے رخصت ہوگئے، تو اکبرؔ کے قلم عبرت رقم نے یہ قطعہ سُنایاتھا  ؎

نہ وہ بِک رہ گئے نہ سرسید

دلِ احباب سے نکلتی ہے آہ

ذات محمود سے تسلی تھی

لی اُنھوں نے بھی آج خُلد کی راہ۔

بولی عبرت کی ہوش میں آؤ

اے حریصانِ شانِ وشکوت وجاہ

مٹ گیا نقش احمد ومحمود

رہ گیا لا الہ الَّا اللہ۔

اللہ ہم کو آپ کو سب کو اُس عالم کی شہرت وناموری نام وعزت نصیب کرے جسے نہ کبھی زوال ہے نہ فنا، یعنی خود رضائے الٰہی کی توفیق اور قرب حق کی سعادت۔