جارہانہ قوم پرستی کے بھیانک نتائج

Bhatkallys

Published in - Other

12:06PM Mon 4 Apr, 2016
عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی کو وطن سے محبت کا امتحان لینے کاحق کس نے دیاہے؟ از:سیدحامد محسن ، چیرمین سلام سنٹر ، بنگلور دنیا میں قوم پرستی اور وطن پرستی دوقدیم معاشرتی رجحانات ہیں۔ قوم پرستی اور وطن پرستی دونوں نے زمانہ جاہلیت، زمانہ جدید اور مابعد جدیدیت ہر دور میں بے اعتدالیاں دیکھی ہیں۔ قوم پرستی جب جارحانہ رخ اختیا رکرلیتی ہے تو خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ آج ملک میں جارحانہ قوم پرستی کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ اور اس کی خاطر اندرون ملک مختلف طبقات کے درمیان عداوت کو بھڑکایاجارہاہے۔ کچھ لوگ قوم پرستی پر اجارہ داری کیلئے کوشاں ہیں اور ان کے خیال میں بقیہ طبقات یاتو قوم دشمن ہیں یاپھر قوم پرستی کے جذبے سے اس ڈگری میں سرشار نہیں جس قدریہ اجارہ دار خود کو قوم پرست محسو س کرتے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس میں ہر شخص کو ہرلمحہ اپنے اندرون کاجائزہ لیتے رہنے کی ضرور ت محسو س ہونے لگی ہے۔ بحث یہ چھڑگئی ہے کہ آیا ہم Indiannessکو اختیار کریں یا Indian Nationalismکو۔ اس پوری بحث میں اصل نقطہ یہ ہے کہ کیاہندوستان کے شہریوں کو وطن سے محبت کاثبوت باربار پیش کرنا ہے۔ کیسے پیش کرنا ہے۔ اس کے اظہار کا ذریعہ کیا ہو؟ وطن سے محبت کا معیار اور پیمانہ کیاہوگا۔ اِن سارے سوالات کے جوابات کون طئے کرے گا۔ ملک کادستوریا ایک خاص نظروفکر رکھنے والی تنظیم، جماعت یاکوئی ایک فرد۔ ہندوستان دنیا کی ایک عظیم جمہوریت ہے۔ ملک کا انتظام وانصرام دستور کے مطابق چلتاہے۔ موجودہ بحث دراصل دستور کی بالادستی یاغیر دستوری اکائیوں کی بالادستی اِس موضوع پر مرکوز ہے۔ اس بحث میں مسلمانوں کو باربار سیاسی مقاصد کے تحت الجھادیاجاتاہے۔ دوسری جانب عام مسلمان سے لے کر ان کے قائدین تک اس سیاسی کھیل میں مہرہ بن کر کسی کی شئے پر حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی کو وطن سے محبت کا امتحان لینے کاحق کس نے دیاہے؟اِ س بحث کے پس منظر میں سیاسی قائدین، سیاسی مفادات اور ووٹ بینک کی سیاست اصل ملزم ہیں۔ حالات ناگفتہ بہہ ہونے لگے ہیں : جواہر لال نہرویونیورسٹی میں ماہ فروری میں جو کچھ ہوا، اس سے سبھی بخوبی واقف ہیں۔ اس یونیورسٹی میں ہمیشہ سے ہی ہر خیال کی تشہیر اور اس پر اظہاررائے کی آزادی رہی ہے مگر 9?فروری 2016ء کو طلبہ یونین کے صدر کنہیاکمار کی تقریر پرجائے واردات پر متعین ایجنٹوں کے ملک مخالف نعروں کو بہانہ بناکر یونیورسٹی کو ملک دشمن عناصر کا اڈہ ہونے کے الزام سے متہم کیاگیااور یونین کے کئی سربراہوں کو گرفتار کیاگیا۔ اس پر غوروفکر ضروری ہے۔ یوروپ کی تباہی جارحانہ قوم پرستی کاشاخسانہ تھی : ہم کچھ دیر کے لئے یوروپ کی طرف چلتے ہیں،پچھلی تین صدیوں میں یوروپی قوموں نے لسانی اور نسلی بنیادوں پر خود کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرلیا۔ اس سے ان کے مصائب میں اضافہ ہی ہوا۔کئی ریاستوں کی زمینی طورپر محصور ہوکر سمندروں تک رسائی مسدودہوگئی۔ اس سے ان کے تجارتی اور مالی ومعاشی صورتحال بگڑی۔ قوم پرستانہ جذبات مشتعل ہوئے اور کشیدگی جنگوں پر منتج ہوئی۔ جرمین کی ٹریجڈی یہی تھی کہ وہ ایک انتہائی متحرک اور جاندار وفعال قوم ہونے کے باوجود مالی طورپر طاقتورنہیں ہورہاتھا۔ اس کی تمام بندرگاہ شمالی بحر بالٹک پر واقع تھے جو سخت سردی کی وجہ تقریباًچھ ماہ یخ بستہ یامنجمدرہتے اور جہازرانی کے لئے غیرموزوں ہوتے تھے۔ باہری دنیا سے چھ ماہ منقطع رہنے کی وجہ اور دیگر ممالک کے براہ گرم پانی والے سمندروں تک عدم رسائی نے جرمنوں کی اس صنعتی فعالیت کو خودان کے لئے غیرنفع بخش بنادیا۔ آپ پچھلے دو سو برس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ جہاں انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، اسپین، اٹلی اور یہاں تک کہ پرتگال جیسی مملکت نے دنیا کے وسیع خطوں پر اپنی کالونیاں بسائیں۔ ان ممالک کے قدرتی وسائل کو لوٹا اور بے پناہ دولت حاصل کی۔ اپنی زبانوں کووسعت دی اور اپنی ثقافت میں مقبوضہ قوموں کو رنگ دیا۔ دہیں جرمنی اپنی سرحدوں میں مقید رہا۔ جرمنی کی ایشیاء اور آفریقہ کے برآعظموں میں کالونیاں نہیں بنیں۔ جرمن زبان اس عالمی زبان کارتبہ اختیار نہیں کرسکی جو انگریزی، فرنچ، اسپینی، اطالوی، پرتگیز زبانوں کو حاصل ہوا۔ اس نتیجے میں جرمنی میں قوم پرستی کے جذبے نے دوسری قوموں کو مخالفت کا رخ اختیار کرلیاہے۔ اور اس کے شاخسانہ کے طورپر یوروپ کو دوعظیم جنگوں کاسامنا کرناپڑا۔پہلی جنگ عظیم میں 80لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں غالب ا کثر یت مردوں کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں( 6) چھے کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بھی بڑی اکثریت مردوں کی تھی۔ بچے یتیم ہوئے۔ عورتوں کی مانگیں اجڑیں اور یوروپ کے شہروں میں ہزاروں گھروں پر ’’شوہر کی ضرورت ہے‘‘ کے بورڈ آویزاں دیکھے گئے۔ اور دنیا کی ان طاقتور قوموں کو ساری دنیا میں اپنی کالونیوں کوآزاد کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس انتہائی فعال جرمن قوم کو دوملکوں میں تقسیم کردیاگیا۔ 1990ء کے بعد یوروپی قوم کو جارحانہ قوم پرستی کے نقصان کا احساس ہوا۔ اور انہوں نے یوروپین یونین بناکر اس کاکفارہ اداکیا۔ انہیں احساس ہواکہ انہوں نے بے وجہ تعصب میں ایک صدی بتائی اور انسانیت کو غارت گری کا ایندھن بنایا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی کرنسیوں کو یکجا کر’’یوروEuro‘‘ کو جنم دیا۔ تمام ممالک کو یوروپین پارلیمنٹ میں نمائندگی دی۔ یوروپی عدالتوں کویوروپ کی مشترکہ عدالت سے ملحق کیا۔ تمام اراکین کو مشترکہ انسانی حقوق چارٹر سے منسلک کیا۔ اب یہ کام زراعت، تجارت، بازار، ثقافت، زبان، تعلیم، ماحولیات کے میدانوں میں یکسانیت لانے کی جانب گامزن ہے۔ اس کے برعکس عرب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہوئے۔ خود کو مملکتوں اور سلطنتوں کے خطوط پر بانٹا، انسانی حقوق پامال کئے۔ تیل کی دولت کو مغرب کی بھڑکائی جنگوں پر ضائع کیا۔ اور حتمی طورپر اب سعودی عرب کی شہ پر سنی اور شیعہ جیسی مسلکی بنیاد پر تقسیم کیاجارہاہے۔ ان کو اپنی کرنسی بنانے کی توبات دوررہی، یہ مغرب کے ظلم کی بنیاد پر بھی یکجا ہونے پر متفق نہیں حالانکہ بائیس عرب ریاستیں ایک ہی زبان اور ایک ہی مذہب کی پیروکار ہیں۔ نسل پرستی اور قوم پرستی نے موجودہ یورپ میں کشت وخون کی ندیاں بہائی ہیں۔ قوم پرستی ہی نے یورپ کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیاہے۔ افسوس کہ آج ہم اس اِنسانیت سوزتاریخ سے سیکھنے کے بجائے اسی مرض میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہندوقوم پرستی کو ہوادینے کی مہم تیز ہوگئی ہے۔ آج اسی جارحانہ قوم پرستی کے نعرے ہمارے عزیز ملک میں بلند ہورہے ہیں۔ لوگوں کو گائے کاگوشت کھانے والے اور نہیں کھانے والے، بھارت ماتا کی جئے بولنے والے اور انکارکرنے والے، وندے ماترم گانے والوں اور نہیں گانے والوں کی بنیاد پر تقسیم کیاجارہاہے۔ یوروپی قوم پرستی پڑوسی ممالک کی مخالفت پر مبنی تھی مگر ہندوستان میں یہ بین الکلیاتی بنیادوں پر ہے۔ آئندہ اس کا سلسلہ ہندی اور غیرہندی بولنے والوں، اونچی اوردرج فہرست ذاتوں، گوشت خوروں اور سبزی خوروں اور آرین اور دراوڑین نسلوں تک بھی دراز ہوسکتاہے۔ جوملک کی سالمیت کے لئے خطرناک ہوسکتاہے۔ آج اردو مصنفین کو مجبور کیاجارہاہے کہ وہ اس عہدنامے پر دستخط ثبت کریں جس کی روسے حکومت وقت کے خلاف اظہار رائے نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ آئندہ اس قسم کے عہدنامے دیگر لسانی طبقات سے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم نے بروقت اس خطرہ کی بھنک محسوس نہیں کی تو یہ ہمارے لئے اور ملک کی عوام کے لئے ایک سانحہ ہوگا۔ ضرورت یہ ہے کہ ملک میں کسی طبقہ یافرد کی قوم پرستی پر سوال نہ اٹھائے جائیں۔ یہ حق کسی کو نہ پہونچے کہ وہ دوسروں کو ملک دشمن کہیں۔ ایساکرنے والوں کو پابند قانون کیاجائے۔ ملک میں دستور کی بالادستی قائم رہے۔ مسلم قائدین ایسی بے کار بحثوں میں نہ الجھیں۔ اور نعرہ بازی وبیان بازی سے احتراز کریں اور اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی ترقی کی خاطر استعمال کریں۔