سچی باتیں۔۔۔ ولایت زدگی۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:15PM Wed 16 Nov, 2022

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ء جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

1931-04-10

ولایت سے خبر آئی ہے ، اور رپورٹرؔ کے حوالہ سے، پچھلے ہفتہ آپ انھیں صفحات میں اسے ملاحظہ بھی فرماچکے ہیں، کہ برطانیہ کی سرزمین پر، نوجوان بے نکاحی ماؤں کی تعداد روز افزوں ہے، اور ان بے نکاحے بچوں کے باپ، اکثر صورتوں میں ، اُن کی قوم کے افراد نہیں، آپ کی قوم اور آپ کے مُلک کے نوجوان ہوتے ہیں، جو اپنی تعلیم کی تکمیل کرنے، علوم وفنون کی ڈگریاں لانے، مہذب وشائستہ بننے کے لئے یورپ گئے ہوئے ہوتے ہیں!

یہ اطلاع کوئی نئی اطلاع، اور یہ خبر کوئی حیرت انگیز خبر نہیں، پھر بھی ان کی خبر تو رپورٹرؔ کے ذریعہ سے آئی ہے، اور رپورٹرؔ کے معلومات کا ماخذ ومنبع ، نیشنل کونسل ؔ کی رپورٹ ہے! چلئے : اب تو کوئی گنجائش شک وشبہ کی نہیں رہی، اور اب تو گھر کے بھید، گھر کے بھیدیوں کی زبان سے ظاہر ہوکر رہے!

اپنے بھائیوں کے، اپنے فرزندوں کے، اپنے ہونہار عزیزوں کے کرتوت آ پ نے دیکھے؟ ہزارہا روپیہ لے لے کر ولایت جاتے ہیں، گھروں کی جائدادیں تباہ کرکرڈالتے ہیں، باپ دادا کی کمائیاں لُٹالُٹا کروہاں رہتے ہیں، تاکہ آوارگی، بیہودگی، فحش کاری کے علم وفن کی بھی تکمیل کرلیں! ’’مآل‘‘ کی طرف سے تو آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہوتے ہی ہیں، ’’مال‘‘ کی طرف سے بھی بے فکری کچھ کم ہوتی ہے؟ یہاں باپ بے چارے خوش ہورہے ہیں، کہ صاحبزادے علوم وفنون کی تحقیقات میں مصروف ہیں، اور وہاں وہ بلند اقبال ہیں، کہ پریوں کے جھُرمٹ میں ـ’’گُلفام‘‘ اور عصمت فروشی وآبروباختگی کے بازار میں ’’جان عالم‘‘ بنے ہوئے، فسق وفجور کے مدارج ایک ایک کرکے طے فرمارہے ہیں!

دوبرس، چار برس، چھہ برس کے بعد، جب شریف گھرانوں اور معزز خاندانوں کے یہی چشم وچراغ واپس آتے ہیں، تو کسی ضلع کے مجسٹریٹ ہوتے ہیں، یا کسی عدالت کے جج، کسی کالج میں پروفیسر ہوجاتے ہیں، یا کسی شہر میں بیرسٹر، کہیں کے ڈاکٹر یا کہیں کے انجنیر۔ اور ان سب سے بھی زائد صورتوں میں، بدنصیب قوم کے لیڈر! سوال صرف اتناہے، کہ جس قوم کی لیڈری اور سرداری، اِس سیرت اور اس ظرف والوں کے ہاتھ میں ہو، جس قوم کی پیشوائی اور رہبری ان اخلاق والوں کے حصہ میں آئے، جس قوم کے مشاہیر واکابرین ، نماز عبادت کے تَرک کرنے والون، اور ذِکرِ الٰہی سے بھاگنے والوں، حرام کاروں اور کھُلے ہوئے فاسقوں کا شمار ہوتاہو، فلاح وصلاح سے کبھی بھی وہ قوم بہرہ ور ہوسکتی ہے؟ انبیاء کرام واولیاء کاملین کے اخلاق سے کوئی دُور کی نسبت ومناسبت بھی، ان ’’ولایت دیدہ‘‘ و ’’صاحب رسیدہ‘‘ پیشوایان قوم ومشاہیر اُمت کو ہے؟