تبصرات ماجدی۔۔۔ ۱۱۶۔۔۔ رنگ محل ۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:32PM Sun 28 Feb, 2021

*تبصرات ماجدي*

*(116) رنگ محل از ساغر نظامی*

ادرہ اشاعت اردو، حیدر آباد۔

حسب تشریح سرورق یہ ساغر نظامی ادارہ اشاعت اردو حیدر آبادی رومانی نظموں، گیتوں اور غزلوں کا مجموعہ ہے، ساغر صاحب کا ایک خاص رنگ ہے اور وہ رنگ خوب جانا ہوا پہچانا ہو ہے، نازک اتنا کہ مفصل تحلیل اور مبسوط تنقید کا بار شاید اٹھا نہ سکے۔

ساغر کو غالباً اپنے تغزل کی قدر نہیں لیکن جو شاعر اس قسم کے شعر کہہ سکتا ہے:

پھر میری عرض شوق میں پیدا ہیں جرأتیں     جھک کر یہ کیا کہا نگہ شرمسار نے

تم جو چھیڑو مسکرا کر ساز ہے                        ورنہ ساز اک تار بے آواز ہے

ٹوٹ کر ساغر بنا کرتا ہے دل                       ساز کا حاصل شکستِ ساز ہے

ترے نام پر جوانی لٹادی                             جوانی نہیں زندگانی لٹادی

دل سے بھی غم عشق کا چرچا نہیں کرتے                       ہم ان کو خیالوں میں بھی رسوا نہیں کرتے

ہم ان سے ستم کا بھی تقاضا نہیں کرتے                         احساس کرم حسن میں پیدا نہیں کرتے

جو زعم حسن میں رخ سے نقاب اٹھا دیا                          ہم نے شوق دید میں دل کو نظر بنا دیا

شاعر اگر اپنی صلاحیتوں کی قدر نہیں کرتا تو اس سے بڑھ کر خود ناشناس اور کون ہوگا؟ اور ترقی پسند تو شاید انہوں نے بننا چاہا مگر نہ بن سکے۔ 41؎-15؎  دیباچہ خیر ساغر کہتے جیسا بھی ہوں پڑھتے یقیناً بہت خوب ہیں ان کی آواز، ان کے انداز، ان کے تیور، ان کا ترنم بجائے خود ایک دلکش غزل ہیں اور وفور تاثر میں کسی کا خیال لفظ اور معنی کی طرف جانے ہی کب پاتا ہے؟کاش ان میں یہ قدرت ہوتی کہ اپنے کلام کو چھپوانے کے بجائے ہمیشہ زبان سے سناتے ہی رہتے۔

صدق نمبر  29، جلد  نمبر 9 ،  مورخہ 22؍ نومبر 1943

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*(118) دیوان نظیر آبادی*

مرتبہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب

انجمن ترقی اردو،  دہلی۔

میاں نظیر اکبر آبادی اردو کے دو رسوم کے شعراء میں شہرت رکھتے تھے، اپنے دور کے عوام میں تو جیسی مقبولیت ان کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی کو ہوئی ہو، ان کی کلیات جو اب تک موجود و معروف تھی، بیشتر نظموں ہی پر مشتمل تھی، غزلیات اس میں گنتی کی چند تھیں۔ حال میں ملک کے نامور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب دہلوی کی ہمت نے تلاش کر کے ان کے ایک چھوڑو دو دو دیوان پردۂ خفا سے ڈھونڈھ نکلے، تلاش سے بھی بڑھ کر قابل داد ان کی وہ محنت ہے جو انہوں نے اس کی تصحیح و تدوین پر صرف فرمائی ہے، مزید بر آں ادھر ادھر سے نظیر کا جو کلام انہیں دستیاب ہوا، اس کو بھی ایک ضمیمہ کی شکل میں دیوان کے ساتھ ملحق کر دیا۔ اس طرح نظیر اکبر آبادی کی غزلوں، رباعیوں اور مثنویوں کا نایاب ذخیرہ اردو ادب کے قدردانوں کے سامنے آگیا۔ قابل دید خود مرزا صاحب کا مبصرانہ مقدمہ ہے۔

جس کا بڑا وصف زبان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ اس کا توازن اور رائے کی متانت ہے، نہ مدح میں افراط نہ تنقید میں غلو۔ افراط و تفریط دونوں سے احتیاط نظیر کے متعلق جتنی کتابیں شایع ہوئیں یا جن تذکروں میں ان کا حال بیان ہوا وہ مصنفانہ اور بے لاگ ہی نہیں ‘بے نظیر’ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر دیوان کے شروع میں مفصل فہرست غزلیات بہ ترتیب حروف تہجی درج ہیں۔

صدق نمبر  29، جلد  نمبر 9 ،  مورخہ 22؍ نومبر 1943

ناقل: اسامہ احمد برماور ندوی

https://telegram.me/ilmokitab/