کیا عزیز برنی کی طبیعت اتنی خراب ہے؟

از: حفیظ نعمانی
ہمیں نہیں معلوم کہ ۱۴؍ جولائی 2016کو عزیز برنی صاحب کہاں تھے اوران کی طبیعت کیسی تھی؟ انھوں نے اس دن چھپی ہوئی ڈاکٹر ایوب صاحب کی پریس کانفرنس پڑھی تھی یا نہیں جو انھوں نے ہردوئی میں کی تھی۔ اور اس میں کہا تھا کہ ’’یوپی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سماج کے کمزور طبقات جن میں مسلم، دلت ، پسماندہ اور بے حد پسماندہ طبقات کے مختلف مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک عظیم اتحاد قائم کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔ ہم بی جے پی کو چھوڑکر بی ایس پی، سماج وادی پارٹی اور کانگریس سمیت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کے واسطے میں ہیں۔ اس سلسلہ میں دو میٹنگ ہوچکی ہیں اور تیسری میٹنگ جماعت اسلامی کے لکھنؤ دفتر پر جلد ہونے والی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’مہان دل‘‘ اور ’’راشٹریہ نشاد ایکتا‘‘کا ساتھ حاصل ہوچکا ہے اور اب جہاں بھی ہمارے پروگرام ہوتے ہیں ان میں یہ دونوں پارٹیاں حصہ دار ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ایوب نے صوبہ میں ملی جلی سرکار بننے کی امید ظاہر کی اور وزیر اعلیٰ کے سوال کا جواب یہ دیا کہ جس پارٹی کے ممبر زیادہ ہوں گے اس حساب سے بعد میں طے ہوگا۔ اس پریس کانفرنس کو سات مہینے ہوگئے۔ ہم اخبار پڑھنے والے نہیں بلکہ اخبار بنانے والوں میں سے ایک ہیں۔ جب سے یہ پریس کانفرنس سامنے آئی ہے اس دن سے آج تک اور اس سے پہلے بھی ڈاکٹر ایوب صاحب کی سرگرمیوں پر نظر رہتی ہے۔ اور دکھ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو اپنی رحمت سے کامیاب سرجن بنایا تھا لیکن شیطان نے اسے سیاست کی اس گندی بستی میں لا کھڑا کیا جہاں پہلی سیڑھی جھوٹ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پریس کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کے ۵۰ فیصدی ووٹ سماج وادی پارٹی کو مل جاتے ہیں۔ ہم ان کو ہی اپنے ساتھ لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اور سات مہینے کے بعد انقلاب میں ۱۵ ؍فروری کے پہلے صفحہ پر ڈاکٹر فریدی مرحوم کو یاد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ کریم روز روز فریدی پیدا نہیں کرتا اس نے ایک اورفریدی ڈاکٹر ایوب کی شکل میں پیدا کردیا ہے۔ ڈاکٹرفریدی کے زمانہ میں یہ مسئلہ نہیں تھا کہ بی جے پی کو جتانے کے لیے مسلمان ووٹوں کو منتشر کردیا جائے بلکہ مسلمانوں کا نشانہ کانگریس تھی۔ بی جے پی کے بجائے جن سنگھ تھی لیکن وہ نہ اترپردیش کے بارے میں سوچ سکتی تھی اور نہ کسی اور صوبہ کے با رے میں ۔
ڈاکٹر فریدی مرحوم ۶ سال ایم ایل سی رہے لیکن وہ ایک ایسی پارٹی کے ساتھ تھے جو کمیونسٹوں کے قریب تھی۔ اس کے بعد انھوں نے الگ لڑنے کا تجربہ بھی کیا اور سیاسی پارٹی سے مل کر بھی۔ مسلم مجلس کے ممبر بھی بنے اور وزیر بھی۔ اور جب مشترکہ منصوبہ بنایا تو ڈ اکٹر صاحب نے کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں سے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کیے تو مسلم مجلس الگ ہوجاے گی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی پارٹی کے ممبروں سے کہا کہ اپنے استعفے مجھے لا کر دے دو تو ۱۰ میں سے صرف ایک بدایوں کے اسرار احمد نے استعفیٰ دے دیا اور کسی نے سلام کا جواب بھی نہیں دیا۔
وہ عزیز برنی صاحب ہوں یا کرنل زاہد خدا کے لیے ڈاکٹر ایوب اور مسلمانوں پر رحم کریں۔ یا اپنے اوپر رحم کریں۔ انھوں نے ۷ مہینے پہلے جن دو دلت پارٹیوں کا ذکر کیا تھا ایسی تو مسلمانوں کی بھی یوپی میں سیکڑوں پارٹیاں ہیں اور انھوں نے بھی جو کیا اسے تو ڈاکٹر ایوب جانیں لیکن جن کے ہر دن فوٹوچھپتے تھے ان کا اب ذکر بھی نہیں ہے۔ عزیز برنی صاحب بڑے صحافی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سہارا یا انقلاب کے پہلے صفحہ کے اشتہار کا معاوضہ کتنا لیا جاتا ہے؟ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ انقلاب دینک جاگرن کا اخبار ہے اور جاگر ن بی جے پی کی آواز ہے۔ اور برنی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمان صرف انقلاب نہیں پڑھتا۔ برنی صاحب کے جانے کے سہارا سے بعد بھی سہارا مسلمانوں میں پڑھا جاتا ہے۔ اودھ نامہ اور دوسرے اخبار بھی پڑھے جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی الزام لگاتا ہے کہ امت شاہ نے انقلاب کا پہلا صفحہ ڈاکٹر ایوب کو دلادیا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کے ووٹ سپا بسپا اور کانگریس کو نہ جانے دیں بلکہ خود لے لیں تاکہ بی جے پی کا امیدوار جیت جائے تو کوئی کیا صفائی دے گا؟ عبدالمعروف خاں کا مسئلہ سامنے ہے وہ ذلیل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے لیکن انھوں نے چھوٹا سا ایک اشتہار پہلے دن اودھ نامہ اور کہیں اور چھپوایا۔ دوسرے دن انقلاب کے اندر کے صفحہ پر وہی اشتہار چھپوادیا۔ وہ ڈاکٹر ایوب سے دس گنا زیادہ دولت مند ہیں۔ ان کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کسی اخبار کا پہلا صفحہ ایک دن کے لیے ہی لے لیں۔
عزیز برنی صاحب کو اللہ صحت دے وہ ملت کی ضرورت ہیں لیکن بہت غور کرنے اور دماغ پر زور ڈالنے کے بعد بھی یہ سمجھ میں نہ آیا کہ انھوں نے ڈاکٹر ایوب کو ڈاکٹر فریدی سے کیسے ملادیا؟ اور انہیں قائد اعظم لکھتے وقت ان کا قلم ہاتھ سے گر کیوں نہیں گیا؟ ان کی اس پریس کانفرنس کو برنی صاحب پھر پڑھ لیں اور کم از کم اپنی ٹانگ ڈاکٹر ایوب کی ٹانگ سے باندھنے سے پہلے معلوم تو کرلیں کہ ان کی بی ایس پی، ایس پی کانگریس اور اویسی صاحب کے ساتھ میٹنگ کب اور کہاں ہوئی؟ اور جماعت اسلامی جس کے کسی معمولی ورکر کے منہ سے بھی الیکشن نہیں نکلا ان کے دفتر میں کس کے ساتھ اور کب میٹنگ ہوئی؟ اور پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب تلوارلے کر سب کے مقابلہ پر کھڑے ہوگئے جبکہ وہ سب کو ملا کر بی جے پی کا محاصرہ کرنے کے لیے عظیم اتحاد کی تیاری کررہے تھے۔
۱۶؍ فروری کے انقلاب کے پہلے صفحہ پر عزیز برنی صاحب نے اویسی کو نشانہ بنایا ہے۔ انہیں آخری درجہ کی گالی مسلم آر ایس ایس کہا ہے جبکہ وہ بھی وہی تو کررہے ہیں جو ڈاکٹر ایوب صاحب کررہے ہیں۔ بلکہ ا للہ معاف کرے اویسی کے بجائے ڈاکٹر ایوب کو امت شاہ کا خیر خواہ بتانے والے ہمیں بھی بہت ملے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اب صرف سرجن نہیں ہیں بلکہ انجکشن کی سرنج بنانے والے صنعت کار بھی ہیں۔ہوسکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی کوئی کام بڑے پیمانے پر کررہے ہوں یا کرنے والے ہوں جس کے لیے مرکزی حکومت کی نظر عنایت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے وہ سب کرنا پڑتا ہے جو آسام میں مولانا بدرالدین اجمل نے کیا اور بی جے پی کی حکومت بن جانے دی۔ ان کی یہ دلیل بھی توجہ کے لائق ہے کہ مسلمانوں کے لیے جیسی بی جے پی ہے ویسی ہی کانگریس ہے۔حکومت اِس کی رہے یا اُس کی فرق کیا ہے؟ اگر ڈاکٹر ایوب صاحب نے بھی اپنے مفاد میں ملت کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ کس سے معلوم کریں کہ عزیز برنی جیسے صحافی کیسے اپنے قلم کی عظمت کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے؟ ہم کیا ہماری حیثیت کیا ؟لیکن الحمد ﷲ پورے ملک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم ایمان دار ہیں اور اسی لیے لکھ رہے ہیں کہ جو اویسی کررہے ہیں وہی ڈاکٹر ایوب کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں یہ وہ یا خدا جانے لیکن دونوں کے کرموں کا نتیجہ خطرناک اور وہ ہے جو بی جے پی چاہتی ہے۔
موبائل نمبر:9984247500