سچی باتیں ۔۔۔ حسن اخلاق ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys

Published in - Other

08:34PM Sat 2 Jun, 2018

 فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِیْثَا قَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عِنْ مَّوَاضِعِہِ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّاذُکِّرُوْا بِہِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلِّا قَلِیْلاً مِّنْھُمْ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔مائدہ۔ع۔۳ سو ان کی عہد شگنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی (یعنی اپنی رحمت سے دور کردیا) اور ان کے قلوب سخت کردیئے وہ لفظوں  کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں  جو کچھ انھیں  نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ بھلا بیٹھے اور تم کو ان لوگوں  کی خیانت کی اطلاع آئے دن رہتی ہے بجز ان میں  سے معدودے چند کے س ان کو معاف کرو اور ان کی خطاؤں  سے درگزر کرو بیشک اللہ حسنِ اخلاق رکھنے والوں  سے محبت رکھتاہے ،یہ عفو درگزر بھی حسنِ اخلاق ہی کی ایک شاخ ہے اوپر سے ذکر یہود اور ان کی شدید بد عملیوں  کا چلا آ رہا ہے، خوداس آیت میں  یہ تذکرہ ہے کہ یہ لوگ بالآخر اپنی مسلسل بد عہدیوں  اور قانون شکنیوں  کی باداش میں  ملعون ہوگئے رحمتِ حق سے دور اور مہجور ہوگئے، نتیجہ یہ ہواکہ انھوں  نے کلامِ الٰہی میں  اپنی مرضی کے موافق دیدہ و دانستہ لفظی و معنوی تحریف شروع کردی اس سے بڑھ کر جسارت، شوخ چشمی اوردیدہ دلیری اور کیا ہوسکتی ہے، پھر اللہ کو دھوکادینے پر دلیر ہو اسے بندوں  کو دھوکا دیتے کیا لگتاہے، ان کی خیانت ان کی بددیانتی ایک روز مرہ کا واقعہ بن گئی اورکھلم کھلا روانہ اس کی مثالیں  ملنے لگیں، گویا یہ قوم حقوق اللہ او رحقوق العبد دونوں  کے ضائع کرنے میں  حدِ کمال کو پہنچ گئی اب ایسے لوگ کس برتاؤ کے مستحق تھے؟ بہ ظاہر نظر ایسے نالائقوں  اور بدبختوں  کے ساتھ سلوک کیا ہونا چا ہیے تھا؟ ظاہر ہے کہ سخت سے سخت برتاؤ ان کے ساتھ ہوتاجب بھی عقل بشری کے لحاظ سے نرم ہی تھا لیکن اس کے برعکس وحیٔ خدا وندی کیا فرماتی ہے؟ یہ کہ ان کی پردہ دری نہ کرو ان کی رسوائی وتفضیح کے درپے نہ ہو، انھیں  معاف کردو، ان سے مواخذہ نہ کرو چشم پوشی اور تحمل سے کام لو اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرواور آگے اس کی مزید تحریص و ترغیب ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کاحسن اخلاق پر سب سے بڑی نعمت اور انتہائی دولت محبوبیت الٰہی کا وعدہ ہے اور اس برتاؤ کو حسنِ اخلاق ہی کی ایک فرد قرار دیاہے! آج کوئی بدتر سے بدتر مسلمان بھی کیا یہود سے گیا گزراہے؟ کیا اس کی خطاؤں  کا شمار ان خدائی مجرموں  کے جرائم سے بھی زیادہ ہے؟ آج کسی بڑے بڑے فاسق وفاجر مسلمان کا نامۂ اعمال ان بدبختوں  سے بھی زیادہ گندا ہے؟ اور پھر کسی ملامت کرنے والے کا کسی بہترسے بہتر مسلمان کا دامن ، رسول اللہ ﷺ کے دامن سے پاک تر و پاکیزہ ترہے؟ ایک طرف ان واقعات حقائق و احکام کو پیشِ نظر رکھیے اور دوسری طرف اس طرزِ عمل کو دیکھیے جو آج مسلمان بے تکلف دوسرے مسلمان سے متعلق اختیار کئے ہوئے ہے فلاں  بے ایمان ہے ، فلاں  خائن ہے ، فلاں  غدار ہے ، فلاں  سرکار پرست ہے، فلاں  ہندو پرست ہے ، فلاں  بدنیت ہے، فلاں  کمینہ کی اولاد ہے، فلاں  زانی ہے، فلاں  شرابی ہے، ایسے الفاظ بے دھڑک ایک دوسرے سے متعلق اخبارات میں لے آنا اور اعلانیہ ایک دوسرے کو مغلظات گالیاں  دینا تعلیم اسلام سے کوئی بھی مناسبت رکھتا ہے؟