چوری اور سینہ زوری؟

از:حفیظ نعمانی
یہ بات آج کی نہیں ہمیشہ سے یہ ہوتا آرہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں حکومت ہوئی ہے اور وہ غلطی کرتا ہے تو اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے اور زیادہ غلطیاں کرتا جاتا ہے۔ مسز اندراگاندھی نے ایمرجنسی لگائی اور پورا ملک چیخ پڑا تو انھوں نے اس کے فائدے گنانے شروع کیے اور یہ تو ہم نے بھی دیکھا کہ کلکتہ جہاں یہ مشہور تھا کہ اگر لکھنؤ آنا ہے یا کہیں دور جانا ہے تو ایک مہینہ پہلے رزرویشن کرانا پڑتا ہے۔ اسی کلکتہ سے ہم ایک دوست کے ساتھ جب واپس آنے لگے اور اپنے میزبانوں سے کہا کہ بلیک میں یا دوگنے پیسے دے کر بھی کہیں سے دو ٹکٹ منگوا دو تو سب ہنسنے لگے اور کہا کہ نعمانی صاحب یہ کلکتہ ہے اور اس کلکتہ سے ہم اسی دن اس طرح آئے کہ اسٹیشن پر آکر پلیٹ فارم پر ایک ٹی ٹی سے معلوم کیا کہ کیا لکھنؤ کے لیے دو سیٹیں مل جائیں گی؟ تو انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں؟لائیے ۴۰ روپے اور ہم نے ۴۰ روپے دئے انھوں نے دو برتھ دے دیں۔ لیکن یہ انفرادی معاملہ تھا، اجتماعی معاملہ یہ ہے کہ پورا ملک ایسے ہی چیخ اٹھا تھا جیسے نوٹ بندی کے اعلان سے چیخ اٹھا اور بعض باتوں میں یہ ایمرجنسی سے بھی بڑھ گیا۔ مثلاً ہر کاروبار برباد ہوگیا اور اب اس کے سمجھنے میں برس لگ جائیں گے لیکن وزیر اعظم کا یہ حال ہے کہ وہ ایک ہی بات رٹے جارہے ہیں کہ جو نوٹ بندی کا مخالف ہے وہ کالے دھن اور بھرشٹاچار کرنے والوں کی حمایت کرتا ہے اور ان کے جیٹلی یہ سبق پڑھانے میں لگے ہیں کہ اگر کاروبار بند ہوگئے تو ان کے خزانہ میں ٹیکس زیادہ کیسے آگیا؟ نریندر بھائی مودی ہوں یا ارن بھائی جیٹلی یہ مسلمان نہیں ہیں جنھیں سرکاری نوکریاں اور نوازشیں نہ ملیں اور ہم ہندو نہیں ہیں اس لیے سرکاری ملازمت سے کوسوں دور ہیں اور چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نوٹ بندی کی وجہ سے ہمارے بچوں کے، ہمارے بھائیوں کے اور ہمارے نواسوں کے کاروبار بند ہوگئے ہیں تو سچائی یہ ہے اور سچائی وہ نہیں ہے جو جیٹلی کہہ رہے ہیں۔رہی ٹیکس کی بات تو نہ جانے کتنے وہ ہوں گے جن کے ذمہ ۲۰۱۵ء کا ٹیکس ہوگا اور پرانے نوٹ کھپانے کے لیے انھوں نے ٹیکس دیے یا نہ جانے کتنے ایسے تھے جنکے ذمہ کسی کا قرض تھا اور وہ ٹال مٹول کررہے تھے جیسے ہی معلوم ہوا کہ یہ بڑے نوٹ اب بوجھ ہیں تو ٹیلی فون آنے لگے کہ وہ آپ کے روپے بھیج رہا ہوں۔ اور جواب جاتا رہا کہ اب نہ بھیجو ہم نے کاروبار بند کردیا ہے۔
ہمارے بیٹے اور نواسے سب ٹیکس دیتے ہیں لیکن یہ ٹیکس اس رقم پر دیا جاتا ہے جو نفع کی شکل میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہو۔ آج اس اعلان کو دو مہینے سے زیادہ ہوگئے۔ ان دو مہینوں میں نفع کا تو ذکر کیا اتنے پیسے بھی نہیں آئے کہ ملازموں کو تنخواہ،بجلی، ٹیلی فون کا بل اور گھر کی دال روٹی کے اخراجات پورے ہوجائیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں جن کو نومبر دسمبر میں اتنا نفع ہوا کہ وہ جیٹلی کو نوٹوں کی گڈیاں دے گئے، جیٹلی نے کڑوا منہ بنا کر بتایا ہے کہ کسٹم ڈیوٹی میں ۶ فیصدی کی کمی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی کہا کہ ریاستوں کی ویٹ آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔
بی جے پی کی ورکنگ کمیٹی میں یہ مانا گیا کہ نوٹ بندی سے غریب متاثر ہوئے ہیں۔ یہ ظالموں اور فرعونوں کی سوچ ہے۔ غریب متاثر نہیں ہوئے ہیں بلکہ غریب پوری طرح برباد ہوگئے۔ مودی اور جیٹلی اپنے محلوں میں بیٹھ کر اس سے زیادہ کیا سوچ سکتے ہیں؟ وہ اگر صورتِ حال دیکھنا چاہتے ہیں تو جیپ پر بیٹھ کر شہر کے صنعتی علاقے میں جائیں۔ راستے میں وہ دیکھیں گے کہ جو عمارتیں نامکمل کھڑی ہیں وہاں سیکڑوں غریب مزدور کام کررہے تھے جن کو ہٹادیا گیا۔ اب وہ گاؤں میں گھاس کھارہے ہیں۔ جتنے کارخانے بند ملیں ان سے معلوم کریں کہ کتنے آدمی کام کرتے تھے تو معلوم ہوگا کہ لاکھوں اور سب کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ پیسے نہیں ہیں۔ اور دہلی میں آج بھی ۳ ہزار روپے بینکوں سے خیرات کی طرح مل رہی ہے۔ مودی جی دیکھیں گے کہ پورے اتری بھارت میں لاکھوں بھٹے بند ہیں۔ ان مزدوروں کو روز دینے کے لیے کہاں سے لائیں اور کسان اینٹ خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے لائے؟
بی جے پی کی مخالف پارٹیاں نوٹ بندی کی تباہی کو لے کر میدان میں اتر گئیں اور حیرت ہے اس بے غیرتی پر کہ بی جے پی نوٹ بندی کے فائدے لے کر عوام سے ووٹ مانگے گی۔ ہم نے جب سنا تو حیران رہ گئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ 1980میں جیسے اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی معافی مانگنے اترے تھے اسی طرح مودی اور جیٹلی پورے ملک میں گھومیں گے کہ معاف کردیجئے۔ اس لیے کہ جس کالے دھن کے لیے یہ سب کیا تھا اور جعلی یا نقلی کرنسی کے لیے کیا تھا وہ صرف خیالوں کا بھوت تھا اور اگر وہ کہیں ہے تو صرف سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے۔ جس میں سے ہزاروں کروڑ خود بی جے پی کے پاس ہوگا اور جو ملک میں رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں اور ۲۰ ہزار تک انہیں بغیر رسید کے چندہ لینے کی چھوٹ ہے ان کے پاس ہوگا۔ ان سے حساب لینے کی کسی میں اس لیے ہمت نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ خود کالے ہیں۔
الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ۔ ضروری نہیں کہ جو مخالف ہے وہ تلوار دکھائے اور جو موافق ہے وہ جھنڈا لہرائے۔ لیکن سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ مودی سرکار کیسے حکومت کرے گی؟ اب جسے باقی رکھنا ہے وہ اسے ووٹ دے دے گا اور جسے زخم لگے ہیں وہ اسے اکھاڑنے میں اپنا خون بہا کر بھی اسے کھاڑے گا۔ اس مرتبہ کا الیکشن اندر سے کچھ ہوگا اور باہر سے کچھ۔ تین لاکھ صنعتوں کی نمائندگی کرنے والی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملازمتوں میں ۳۵ فیصدی کی کمی آئی ہے۔ یہ ان رجسٹرڈ کارخانوں کی بات ہے جہاں سو یا زیادہ مزدور کام کرتے تھے۔ جو چھوٹے چھوٹے کارخانے ہیں جہاں ۵ یا ۱۰ ؍آدمی کام کرتے ہیں وہاں اب صرف مالکان جو کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں ورنہ سو فیصدی جگہیں خالی ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی باتیں مودی کو زہر لگتی ہے لیکن ان کے ماہر ہونے میں کسے شک ہے؟وہ کہتے ہیں کہ نوٹ بندی کا اثر بی جے پی پر اندازہ سے بھی زیادہ ہوگا۔ اب ملک کا کیا حشر ہوتا ہے یہ ا یک سال میں معلوم ہوجائے گا۔ اس کی سینہ زوری کم ہوگی۔