بدلتے روز و شب اور کیلنڈر کی کہانی (تیسری قسط)

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
اچانک ویکسی نیشن اور اس کے خلاف پروپگنڈہ کا مسئلہ درپیش آنے سے کیلنڈر کی کہانی والی سیریز کے مضمون کو روکنا پڑا تھا اور اس کے بجائے پچھلے دنوں میں ویکسی نیشن کی ضرورت اور اہمیت پر کچھ قسط وار مضامین قلم بند کیے گئے تھے۔ چلئے پھر ایک بار کیلنڈر کی دنیا میں چلتے ہیں۔میں نے اس سلسلے کی گزشتہ قسط میں کہا تھا کہ ہمارا موضوع چونکہ فی الحال پورے عالم میں یکساں طور پر رائج گریگورین کیلنڈرہے اس لئے ہم دیگر بہت سارے جدید و قدیم کیلنڈروں پر کوئی تفصیلی گفتگو نہ کرتے ہوئے صرف رومن، جولین کیلنڈر اور اس کے بطن سے نکلنے والے گریگورین کیلنڈر سے مطابقت رکھنے والی تفصیلات پر ہی مرکوز رہیں گے۔اس لئے کہ موجودہ دور میں چاہے کوئی سا ملک ہو اور کوئی بھی تہذیب ہو، اس کے اپنے مخصوص کیلنڈروں کی موجودگی کے باوجودزندگی کے تمام معاملات میں گریگورین کیلنڈر پر ہی انحصار گویا ایک طرح سے سب کی مجبوری بن کر رہ گیا ہے۔ اوربظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ لیکن بحیثیت مسلم ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس طرح روز مرہ کے معاملات میں بغیر سوچے سمجھے ہم غیر اسلامی اور بعض دفعہ مشرکانہ عقائد، افعال اور کلمات کی ادائیگی کرنے کے عادی ہوگئے یا بنادئے گئے ہیں، اسی طرح کیلنڈروں کے دن اور مہینوں کے نام بھی کہیں غیر اسلامی عقائد پر مبنی تو نہیں ہیں؟ اور جانے انجانے میں بغیر کراہت کے ہم اس کے تابع تو نہیں ہوگئے ہیں۔۔۔!
رومن کیلنڈرکی ابتدا اور اس کی خامیاں : چونکہ جدید گریگورین کیلنڈراصل میں رومن کیلنڈر کی بنیادوں پر جنم لینے والے جولین کیلنڈرکے اندر ترمیم کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے تو ہمیں اس میں موجود دنوں اور مہینے کے ناموں کی جڑیں وہیں سے تلاش کرنی ہوں گی اور وہیں سے اس کی وجہ تسمیہ سمجھنے کے بعد اپنی رائے اور موقف طے کرنے میں مدد ملے گی۔رومن کیلنڈر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کوئی قطعی بات تاریخی شواہد کے ساتھ دنیاکے سامنے موجود نہیں ہے۔روایت یہ کہتی ہے کہ سلطنت روم کے بانی کہلانے والے پہلے اور بہت ہی نامور بادشاہ Romulusنے سات سو سال قبل مسیح اس کیلنڈر کو متعارف کروایا۔کہتے ہیں کہ 45 سال قبل مسیح تک رومن کیلنڈر میں بہت ساری الجھنیں پائی جاتی تھیں۔جس کو دور کرتے ہوئے جولین کیلنڈر بنایا گیا تھا۔ مگراس کیلنڈر کے تعلق سے جو کچھ بھی معلومات دستیاب ہیں، وہ زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
سال کے دس مہینے اور304دن: رومن کیلنڈر کی اپنی کچھ خصوصیات یا کوتاہیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ آج کے ماڈرن کیلنڈر میں توایک سال کے 12مہینے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ رومن کیلنڈر کاایک سال 10مہینوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا جس کے کل 304دن ہوتے تھے۔اس کے علاوہ سال کا آغاز جنوری سے نہیں بلکہ مارچ کے مہینے سے ہوا کرتاتھا۔ ابتدائی برسوں میں رومن کیلنڈر کے مطابق سال کے دس مہینوں کے نام اس طرح ہوا کرتے تھے:
۱۔ Martiusمارٹیئس یا مارشیئس(مارچ) ۲۔Aprilisاپریلیس(اپریل) ۳۔Maiusمایئس (مئی) ۴۔Iuniusیونیئس (جون) ۵۔Quintilisکوینٹی لیس ،(جولائی، جسے بعد میں ایولیئس کردیا گیا تھا) ۶۔Sextilisسیکسٹی لیس (اگست) ۷۔ September سپٹیمبر (ستمبر) ۸۔Octoberاکٹوبر (اکتوبر) ۹۔ November(نومبر) ۱۰۔ Decemberڈسمبر (دسمبر)
(نوٹ : یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ انگریزی حروف تہجی میں حر ف J' جے 'شامل نہیں تھا، اس کی جگہ حرف ' آئی' Iاستعمال کیا جاتا تھا، جیسے جونیئس کے بجائے ایونیئس۔ حرف Jسترہویں صدی عیسوی میں شامل کیا گیا ہے!)
سال میں دو مہینوں کا اضافہ : اس کے بعد موسم سرما کے دو مہینوں کے لئے اس کیلنڈر میں کوئی نام نہیں تھا۔کہا جاتا ہے کہ 700سال قبل مسیح میں روم کے دوسرے بادشاہ نیوما پومپلیئس Pompilius Numaنے اس کیلنڈر میں دو مہینوں کا اضافہ کرتے ہوئے ان کے نام ۱۔anuarius Iایانوریئس (جنوری) اور ۲۔ ٖFebruarius فیبروریئس (فروری) قرار دئے۔جس کے بعد رومن کیلنڈر کاایک سال بارہ مہینوں اور355دنوں پر مشتمل ہوگیا۔اسی طرح دومہینوں کے ناموں میں تبدیلی کرتے ہوئے Quintilisکوینٹی لیس ،(جولائی)کوروم کے بادشاہ جولیس سیزر سے منسوب کرنے کے لئے ایولیئس Iuliusکردیا گیا کیونکہ اسی مہینے میں اس کی پیدئش ہوئی تھی۔ اورSextilisسیکسٹی لیس کوبادشاہ آگسٹسAugustus کے نام منسوب کرتے ہوئے اگست کردیا گیاکیونکہ اس کے دوراقتدار میں اسی مہینے میں سقوط اسکندریہ کا واقعہ پیش آیا تھا۔اس کے بعد بھی بہت سارے رومن بادشاہوں نے اپنے نام یا اپنے اجداد کے ناموں سے منسوب کرتے ہوئے بار بار ایک دو مہینوں کے نام تبدیل کردئے تھے، لیکن ہر بادشاہ کی موت کے ساتھ یہ تبدیلی ختم ہوگئی اور پرانے نام ہی زندہ رہے۔
تمام 12مہینوں کے نئے نام: رومن کیلنڈر میں ایک دور وہ بھی آیا جبLucius Aurelius Commodusنامی بادشاہ نے تمام 12مہینوں کے نام تبدیل کردئے جو جنوری سے دسمبر تک اس طرح تھے:
۱۔میزونیئس Amazonius ۲۔ انویکٹس Invictus ۳۔ فیلیکس Felix ۴۔پایوس Pius ۵۔ لوسیئسLucius ۶۔ ایلیئس Aelius ۷۔آرولیئس Aurelius ۸۔ کوموڈوس Commodus ۹۔آگسٹسAugustus ۱۰۔ہرکیولس Herculeus ۱۱۔ رومانس Romanus
۱۲۔ ایکسو پریٹوریئس Exsuperatorius
لیکن ان تبدیل شدہ 12ناموں میں صرف ایک ہی سابقہ کیلنڈر میں موجود نام تھا آگسٹسAugustus اور وہی باقی رہا دوسرا کوئی بھی نام کوموڈوس کے بعد چل نہیں پایا۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سارے رومن بادشاہوں نے اپنے شاہی دربار کی طرف سے ان کے یا ان کے اجداد ناموں پر مہینوں کے نام تبدیل کرنے کی تجاویز مسترد بھی کردی تھیں اور پرانے ناموں کو ہی بر قرار رکھا تھا۔
مہینوں کے جرمن نام: رومن بادشاہ آگسٹس کے دور اقتدار کے بعدچارل میگنے Charlemagne نے سال کے ان بارہ مہینوں کو جرمن زبان کے نام دئے، جو اس کے دوراقتدار کے 700سال بعد تک یعنی 15ویں صدی عیسوی تک جنوری سے دسمبر مہینوں کے یہ نئے نام رائج رہے:
۱۔سرما ، سردی کا مہینہ Wintarmanoth winter /ice month) (، ۲۔ہورنوگHornung، ۳۔ بہار کا مہینہ Lentzinmanoth
(spring month)۴۔ خوشی کامہینہ( (joy-month۵۔ خوشحالی کا مہینہ Bl252tenmonat145bloom month146 ۶۔ کاشت کا مہینہ Brachmanoth (fallow-month) ، ۷۔ خشک گھاس کا مہینہ (hay month) Heuuimanoth ، ۸۔ غلہ جمع کرنے کا مہینہ
(reaping month)Aranmanoth ۹۔ جنگل یا لکڑی کا مہینہ (wood month) Witumanoth ،
۱۰۔انگور توڑنے اور شراب بنانے کا مہینہ (vintage month)Windumemanoth ، ۱۱۔فصل کاٹنے کا مہینہ Herbistmanoth
(harvest month) ۱۲۔ مقدس مہینہ (holy/christ month)Heilagmanoth
واضح رہے کہ یہ تمام نام موسم اور کھیتی باڑی سے متعلق سرگرمیوں سے منسوب تھے ۔پھریہی نام کچھ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مہینوں کے روایتی ناموں کے طور پر 18ویں صدی عیسوی تک استعمال میں رہے۔
تو تاریخی حیثیت سے یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ رومن کیلنڈر کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے نیا روپ دے کر جولین کیلنڈر بنایا گیا تھا۔اور پھر جولین کیلنڈر میں ترمیم کے بعد گریگورین کیلنڈر اپنایا گیا ہے۔ان ساری تبدیلیوں کے باوجود جدید زمانے کے گریگورین کیلنڈر میں موجود ان 12مہینوں میں سے بیشتر مہینوں کے نام رومن تہذیب اور کیلنڈر سے ہی وجود میں آئے ہیں۔
ہفتے کے سات دنوں کے نام : یہاں یہ بات نوٹ کرنے لائق ہے کہ رومن کیلنڈر کے مطابق دنوں کے نام وہی تھے جو آج بھی رائج ہیں ، یعنی سنڈے ، منڈے وغیرہ جبکہ یہودی یا عبرانی کیلنڈر میں دنوں کے نام عدد کے حساب سے تھے جیسے عربی میں الاحد،الاثنین اور فارسی میں یکشنبہ ، دوشنبہ ہے اسی طرح پہلا دن ، دوسرا دن وغیرہ ۔جبکہ ہندی میں سنیچر اتوار، سوموار وغیرہ جو دنوں کے نام ہندوستانی زبانوں میں ہیں وہ سنڈے، منڈے کے بالکل عین مطابق ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے لائق ہے کہ سنیچریا سنی وارکو جو عربی میں یوم السبت (al-sabt) کہا جاتا ہے وہی نام عبرانی کیلنڈر میں بھی یوم سبّت Yom Shabbatکے طور پرہے ، اسی طرح یوم جمعہ جوعربی میں ہے وہی فارسی میں بھی ہے ۔ بہر حال کیلنڈرکے ان معروف12مہینوں اور ہفتے کے سات دنوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ کیا ہے اور اس کے رشتے کن غیر اسلامی عقائد یا اقدار سے ملتے ہیں ،اس کا جائزہ آگے چل کر لیا جائے گا۔
(۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔اگلی قسط ملاحظہ کیجئے)