بزرگوں کا قول جلدی کا کام شیطان کا

Bhatkallys

Published in - Other

03:10PM Mon 28 Nov, 2016
از: حفیظ نعمانی یاد ہوگا کہ پرانے نوٹ بند ہونے کے ساتھ ہی نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے اعلان کیا تھا کہ ایک ہزار کے نوٹ کے بدلے اب دو ہزار کا نوٹ اور ۵۰۰ کا نیا نوٹ آگیا ہے۔ وہ پرانے نوٹوں کے بدلے میں ملے گا۔ اور یہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ ایک ہفتہ تک صرف ۲ ہزار کے نیلے نوٹ بینک سے دئے جاتے رہے۔ ایک ہفتہ کے بعد ایک دن ٹی وی پر ۵۰۰ کے نئے نوٹ ایسے دکھائے گئے جیسے یہ وزیر اعظم نے خود چھاپے ہیں اور بتایا گیا کہ دہلی اور بھوپال میں یہ نوٹ دیکھے گئے۔ نوٹ بندی کے ۱۳ ؍ دن کے بعد لکھنؤ میں ذکر سنا اب یہاں بھی آگئے ہیں۔ اور دوسرے ہی دن یہ دکھایا جانے لگا کہ یہ نوٹ ایک پریس کے نہیں دو پریسوں میں چھپے ہیں اور دونوں بینک سے دئے جارہے ہیں اور دونوں نوٹوں میں معمولی نہیں بلکہ بہت فرق ہے اور بھونڈا فرق ہے۔ دوسری کئی چیزوں کے علاوہ مہاتما گاندھی کا ایک کان بھی چھوٹا کردیا ہے۔ یعنی کان کاٹ دیا ہے۔ یہ کوئی گوڈسے نواز پریس کربھی سکتا ہے۔ ایک وہ جس نے ۴۰ برس پریس چلایا ہو اس غلطی کے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ اس میں پریس کی غلطی کم اور چھپوانے والوں کی زیادہ ہوسکتی ہے۔ ہم جب آرڈر لیتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ دو چار دن بڑھادیں تاکہ قدرتی اور انسانی الٹ پلٹ سے اگر دوچار دن خلل پڑ جائے تب بھی شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ وزیر اعظم برابر کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے ۱۰؍ مہینے تیاری میں لگائے۔ اگر اتنا وقت مان لیا جائے تو ڈیزائن کا بننا اس پر غور، اس پر مشورے اور منظوری کے لیے ۱۰ دن بہت ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر بات راز میں بھی رکھنا تھی جس کے لیے ضروری تھا کہ کم سے کم آدمی اس فیصلے میں شریک ہوں۔ اب اگر ۹؍ مہینے بھی مان لیا جائے ، پریس والوں کو دئے جاتے تو اتنے دنوں میں تو ہم جیسے چھوٹے پریس والے بھی ضرورت سے دوگنے چھاپ کر یکم اکتوبر تک دے دیتے تاکہ کشمیر سے کنیا کماری تک ہر بینک کا پیٹ بھر دیا جاتا۔ عزت مآب وزیر اعظم نے وقت بتانے میں اپنی آبروکھو دی ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۴ء میں جب حکومت بننے کے بعد سو دن میں ۸۰ لاکھ کروڑ کالے دھن کے لانے کے بعد سے اب تک جتنے جی چاہتااتنے دن بتادیتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ جب تک حکومت ان کی ہے کسی کی ہمت ہے جو تردید کرے۔ یہ ۵۰۰ کے دو قسم کے نوٹ صرف اس وجہ سے دوغلے ہوسکتے ہیں کہ پریسوں کو کم وقت دیا اور کسی بھی وجہ سے اعلان کرنے میں جلدی کی۔ بعد میں پریس سے کہنا شروع کیا کہ بھیجو جیسے بھی ہیں، دے دو یہ نہ دیکھو کہ کیسے ہیں؟ سواسو کروڑ بھوکوں کو آٹھ دن کے فاقہ سے یہ ہوش کہاں ہوگا کہ روٹی کوئی جلی ہے کوئی کچی ہے۔ لیکن یہ ہندوستا ن ہے یہاں بڑے بڑے بقراط پڑے ہیں جو فاقوں میں بھی آسمان کے تارے گن کر بتادیتے ہیں۔ انھوں نے ۲۰۰۰ کے نوٹ میں بھی نشان لگا دیا کہ یہ اور یہ غلط ہے۔ آج بھی ۵۰۰ کے نوٹ بہت کم ہیں۔ بینکوں نے گودام میں پڑے ہوئے ۱۰۰ کے ۵۰ کے ۲۰کے اور ۱۰ کے نوٹ نکال کر گھر کا سارا کوڑا نکال دیا ہے اور سنا ہے کہ جو جعلی سکے بنانے والی فیکٹریوں میں ۱۰ روپے کے سکے پکڑے تھے وہ بھی تھیلوں میں بھر بھر کر عزت بچانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ذلت کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ اور وہ جو ہر طرف سے کہا جارہا ہے کہ تیاری اور منصوبہ بندی کے بغیر یہ قدم اٹھالیا اس سے بھاگنے کے لیے طرح طرح کے بیان دئے جارہے ہیں اور آخر کار وہی ٹیپ بجا دیتے ہیں کہ آپ مجھے صرف ۵۰ دن دے دیجئے اور وہی بات درست نکل رہی ہے کہ ۵۰ دن کے بعد ملک کو اگر فوج بھی آکر کھڑا کرے گی تب بھی اسے کھڑے ہونے، چلنے اور دوڑنے کے لیے کئی برس لگیں گے۔ عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ تینوں ایک دوسرے سے الگ ہیں جیسے عدلیہ کے سب سے بڑے کہہ رہے ہیں کہ عدالتیں ججوں سے خالی ہیں اور وزیر جواب دے رہے ہیں کہ ۱۲۰ جج ہم نے مقرر کردیے یعنی اپنی ڈفلی اپنا راگ۔اسی طرح ریزرو بینک کے سابق گورنر کو سبرامنیم سوامی جیسے کھڑ پنچے آدمی نے ذلیل کرکے نکالا ہے۔ اس سے ہر بڑے افسر نے سوچ لیا ہوگا کہ اس طریقہ کو لگام لگنا چاہیے۔ اور یہ کام نئے گورنر نے ریزرو بینک کی کمان سنبھالتے ہی دو مہینے میں کردیاکہ سارا ملک ننگا بھوکا لائن میں کھڑا ہے اور ہر کسی کے منہ سے نکل رہا ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ انتہائی جلد بازی میں کیا گیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ نئے نوٹوں پر نئے گورنر کے دستخط ہیں اور ظاہر ہے کہ دستخط نوٹوں کا ڈیزائن بننے کے بعد سب سے آخر میں ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوٹ چھاپنے کا کام اکتوبر میں شروع ہوا ہوگا اور ظاہر ہے مختلف پریسوں میں کرانا پڑا ہوگا، جس کی وجہ سے نوٹوں میں اتنا فرق ہوگیا کہ صرف ایک ہفتہ میں جعلی نوٹ اس سے بڑی تعداد میںآسکتے ہیں اور پھر سرکاری نوٹ کالا دھن بن جائے گا۔ کرنسی نوٹوں میں بار بار تبدیلی ہوتی رہی ہے لیکن یہ سہرا بھی شری مودی وزیر اعظم کے سربندھے گا کہ ان کی سرکار میں نئے نوٹ بھی دو طرح کے چل رہے ہیں اور دونوں سرکاری ہیں ۔ لیکن وہ یہی کہتے رہیں گے کہ انھوں نے دس مہینے تیار ی کی ہے۔اور اب یکم دسمبر کو آتا دیکھ کر روح کانپ رہی ہے کہ اکثر تنخواہیں بینک میں آئیں گی یا پرانے نوٹوں میں دی جائیں گی۔ اس کے بعد پھر لائنوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگا اور پرانے نوٹ صرف جمع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد سرکاری ا ور غیر سرکاری پیڑ کے پتے اور گھاس کھا کر مودی مودی کہیں گے اور نہ جانے کتنے دم توڑ دیں۔