بے تاج بادشاہ ، پیکر عمل ، عالم ، داعی اور مربی ،مولانا عبدا لباری فکردے ندوی مرحوم۔دوسری قسط

Bhatkallys

Published in - Other

04:56PM Tue 1 Mar, 2016
تحریر : عبد المتین منیری سرکاری دستاویز کے مطابق آپ کی تاریخ ولادت ۲۲؍اگست۱۹۶۱ء ہے جو ہجری اعتبار سے ۰۹؍ربیع الاول ۱۳۸۱ھ بنتی ہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت کے ٹھیک ایک سال بعد ۱۸ ؍ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹؍ اگست ۱۹۶۲ء کوجامعہ اسلامیہ بھٹکل کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا ۔ اس لحاظ سے آپ کا سال ولادت جامعہ کے تخییل اور اس کی قیام کی تیاری کا سال تھا ، روداد اجلاس اول کے مطابق ۱۰؍شوال ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۷؍مارچ ۱۹۶۲ء کو ابومحل میں ایک عربی دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ، اور دس روز کے اندر مورخہ ۱۹؍شوال ۱۹۸۱ھ مطابق ۲۶؍مارچ ۱۹۶۲ء کو جناب محی الدین منیری صاحب کی صدارت میں منعقدہ بمبئی جماعت کے اجلاس میں منیری صاحب کی کنوینر شپ میں اسے شروع کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے مولانا عبد الباری صاحب کی تخلیق اسی جامعہ کے مشن کو چلانے اور اسے آگے بڑھانے کے لئے کی تھی ۔ مرحوم نے جس مکان میں آنکھیں کھولی تھیں ، وہ جامع مسجد کے بائیں جانب واقع گلی میں واقع مسجد سے قریب ترین مکان تھا، گمان غالب ہے کہ اللہ کی بڑائی کی جو آواز آپ کی کانوں میں پہلے پہل پہنچی تھی، وہ مرحوم درجن باپا خلفو صاحب کی رہی ہوگی ، استاذ الاساتذہ سید میراں خلفو مرحوم کے یہ بڑے فرزند جامع مسجد کے موذن تھے ، ان کی آواز کی قصبہ میں اپنی ایک شناخت تھی ، دھان پان جسم ، جس پر صرف ہڈی اور پوست نظر آتے تھے ، سفید ڈھیلی قمیص اورلنگی زیب تن کرتے ، سر پر عمانی طرز سے قریب مخصوص ٹوپی ہوتی ، آوا ز ایسی پاٹ دار موثر اور خوبصورت کہ آج نصف صدی بعد بھی سننے والے کان ایسی آذان کو ترس رہے ہیں ، جنازہ کی قیادت کرتے وقت جب آپ کی زبان پر کلمہ توحید کا ورد بھٹکل کی مخصوص لئی میں جاری رہتا تو دور دور تک سناٹا چھا جاتا ، کون آنکھ ایسی تھی جو اسے سن کر نم نہیں ہوتی ہو ، مستورات ر چلمن کی آ ڑ میں آکر اسے سن کر آنسو پونچھتیں ۔ ممکن ہے مولانا نے شعور کی آنکھوں سے درجن خلفو کو نہ دیکھا ہو ، لیکن لا شعور میں آپ کی آواز کا درد دل میں ضرور ترازو بنا ہوگا۔ دوسری آواز جو صبح و شام آپ کے کانوں میں پڑتی وہ جامع مسجد کے امام جناب عبد القادر باشا اکرمی ۔ باشاہ خلفو کی تھی ، کیا نرم و گداز اور خوبصورت آواز تھی ، عربی تعبیر میں اسے فرشتوں کی آواز سے تشبیہ دی جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو ، ، ۹۵۷اء سے ۱۹۸۲ء تک آپ نے یہاں امامت و خطابت کے فرائض انجام دئے ، آپ کے والد محمد سکری خلفو مرحوم کا شمار بھی بھٹکل کے استاذ الاساتذہ میں ہوتا تھا ، بڑے ماہر خطاط تھے ،قرآن مجید کے کئی نسخے اپنے ہاتھ سے لکھے ، ان کے قلم سے لکھی کئی ایک کتابیں بھٹکل میں پائی جاتی تھیں ، معلوم نہیں کہ مرور زمانے کے دست برد سے کوئی بچی بھی ہے یا نہیں ۔ قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم کے کتب خانے میں عرصے تک آپ کے خط میں قرآن مجید کا ایک نسخہ نظروں کے سامنے گھومتا رہا ، پھر شایدوہ بے قدری کی نظر ہوگیا ۔ نقالی کبھی کبھار اچھا وصف بن جاتی ہے ، مولانا عبد الباری صاحب میں یہ وصف تکمیل کی سرحدوں کو چھوتا تھا ، خطابت اور اہتمام کے باوقار منصب نے مولانا کی اس صلاحیت کو مشہور ہونے نہیں دیا ، لیکن اس وصف نے بچپن میں خوش مزاجی کے ساتھ آپ کی شخصیت کو بڑا دلکش اور جاذب بنادیا تھا ، آپ کو بچپن میں بیٹھنے کے تختوں کو جسے نائطی زبان میں (منئی Manai) کہاجاتا ہے۔ ایک پر ایک رکھ کر منبر کی شکل دیتے ، ایک لکڑی پر ناریل کا سوکھا آدھا خول (نالا کٹی)باندھ کر مائک کی شکل دیتے ،اور بلند آواز میں ( ایھا الناس) کہ کر باشا خلفو کے خطبہ جمعہ کی نقل کرتے دیکھنے والے اب بھی کئی ایک پائے جاتے ہیں ۔ خیال پڑتا ہے کہ غالبا شوال ۱۳۸۷ھ؍جنوری ۱۹۶۸ء کو جامعہ میں آپ کا داخلہ ہواتھا ،اس وقت قدیم جامع مسجد میں جامعہ کے درجات قائم تھے ، دائیں جانب جہاں پرانا حوض ہوا کرتا تھا اس کے پرے سیڑھی کو لگ کر جو وسیع جگہ تھی وہیں اطفال اور اول کے درجات لگتے تھے ، ہم لوگ ابتدائی درجات کے مدرسین کوزیادہ اہمیت نہیں دیتے ، حالانکہ انہی کی دی ہوئی تعلیم میل کا پتھر ہوا کرتی ہے ،انہی کی تربیت کے اثرات لاشعوری طور پر بچوں کی زندگی کے سفر میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔جامعہ کو بھی ابتدا میں جن لوگوں نے قوم کی آنکھ کا تارہ بنایا ان میں ابتدائی درجات کے اساتذہ کا بڑا یوگدان رہا ہے ، یہ ہمارے محسن ہیں ، لیکن ہم نے انہیں قرار واقعی اہمیت نہ دے کر حافظے کی گرد میں ہم نے چھپا دیا ہے ، ابتدائی درجات کے یہ اساتذہ قومی یاد داشت سے پانی پر لکیر کی طرح مٹ گئے ہیں ، اس زمانے میں ابتدائی درجات کے جن اساتذہ نے محنت اور قربانی سے قوم میں جامعہ کا امیج بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اور نونہالوں کی بہترین صلاحیتوں کو اجاگر کیا سرسری پر ہی صحیح چند ایک کا تذکر ہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ محی الدین ماسٹر ، ہلیال ڈانڈیلی کے قریبی علاقے کے رہنے والے تھے ،۱۹۶۳ء میں مین روڈ پر واقع سوداگر بخار میں جب جامعہ کے درجات کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا ،تو یہاں کے سینیر اساتذہ کی ٹیم میں شامل تھے، بڑے نفاست پسند صاف ستھرے انسان ، سفید قمیص اور چوڑی مہری کا پاجامہ پہنتے ، جامعہ کے اساتذہ میں شیروانی کا ا ہتمام کرتے پہلے پہل آپ ہی کو ہم نے دیکھا ، طلبہ پر بہت ہی رعب رکھتے ، ان سے محبت بھی بے پناہ کرتے ، درجے میں صبح سویرے ، سب سے پہلے پہنچتے ، چونے کی چاک کو پیس کر اس میں ڈوری ڈالتے ، پھر اسے بلیک بورڈ پر رکھ کر لکیر یں کھینچتے ، تاکہ لکھائی ٹیڑھی میڑھی نہ ہو ، پھر ان پر رنگین چاک سے خوش خط میں قرآنی آیات ، دعائیں ، اور اشعار لکھتے ، انہیں قاری عبدا لباسط وغیر ہ کے انداز میں تلاوت کا شوق تھا ، آواز بھی خوبصورت پائی تھی ، ابتدائی زمانے میں جن طلبہ کی آواز پر انہوں نے محنت کی ان میں سے کئی ایک بھٹکل میں آواز کی دنیا کے چاند تارے ثابت ہوئے ، ان میں مولانا عبد العظیم قاضیا ، اور سید سمیع اللہ برماور کے نام ذہن میں تازہ ہیں ،، ماسٹر صاحب طلبہ سے اسٹیج کا خوف نکالنے میں بڑے مشاق تھے ، ان کے درجے میں ایسے طلبہ کی ایک وافر مقدارہمیشہ رہتی تھی ،جو کسی مہمان کے آنے پر فورا ہی خوبصورت آوازمیں تلاوت ، نظم اور کنڑی، اردو تقاریر پیش کرتے ، ماسٹر صاحب کے اس طریقہ کار سے جامعہ کو عوام الناس سے قریب کرنے میں بڑی مدد ملتی ،تاجر حلقہ بھی بہت مرعوب ہوتا۔ اس زمانے میں جامع مسجد اور سلطانی مسجد میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے طلبہ جامعہ کے جلسہ ہوا کرتے تھے ، جن میں آپ کے تیار کردہ طلبہ کا بڑا نام ہوتا تھا ، ۱۹۶۷ء میں مفکراسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کے موقعہ پر اجلاس میں آپ کو بہترین استاد کا ایوارڈ دیا گیا ، غالبا جامعہ کی تاریخ کا یہ اکلوتا ایوارڈ ہے ،۱۹۶۹ء میں قاضیا ابو الحسن ماسٹر مرحوم کی علالت کے دنوں میں مختصر وقفہ کے لئے آپ نے قائم مقام مہتمم کے فرائض بھی انجام دئے ، ۱۹۷۲ء میں ماسٹر صاحب جامعہ سے سبکدوش ہوئے ، اور چند سال بعد اللہ کو پیارے ہوئے ۔اللہ غریق رحمت کرے ۔ آپ کے علاوہ ابتدا ئی درجات کے جن اساتذہ کا آپ پر اثر محسوس ہوتا ہے ، ان میں ایک اہم نام عبد الرحمن خان ماسٹر مرحوم کا بھی ہے ، جامعہ سے غالبا ۱۹۶۶ ء میں وابستہ ہوئے تھے ، بڑی پختہ آواز تھی ، سنا ہے جامعہ سے وابستگی سے قبل باقاعدہ خوشی اور مسرت کی محفلوں میں قوالی اور غزلیات بھی پیش کرتے تھے ، خود بھی اچھے شاعر تھے ، نشتر تخلص رکھتے تھے ،۱۹۸۱ء کے آل کرناٹک مشاعرے میں ریکارڈ شدہ ان کی ایک غزل اب بھی آپ کی یاد تازہ کرتی ہے ، جامعہ کے اساتذہ اپنے بچوں کے نام رکھنے کے لئے عموما آپ ہی سے مشورہ کرتے تھے ،ہم نے جب انہیں دیکھا تھا ، اس وقت بڑے متشرع ، اور اپنے اصولوں کے پابند تھے ، وہ (کھلاو سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نظر سے )کے مصداق تھے ،( گربہ کشتن روز اول) کی بہترین مثال تھے ، طلبہ پر تعلیمی سال کے آغاز میں اتنی دھاک بٹھا دیتے کہ پورا سال آرام سے گذر جاتا، طلبہ سہمے سہمے تابعداری کرتے ، وہ بھی طلبہ پر بڑے مہربان تھے ، ہمیں ۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۶ء کے دوران فاروقی مسجد میں آپ کی رفاقت میں پڑھانے کا موقعہ ملا ، اس وقت آپ پرائمری درجات کے صدر مدرس تھے، ہم نے آپ کو بڑا مدبر ، علم دوست ، باذوق اور مختلف مسائل پر سنجیدہ اور غیر جذباتی رائے رکھنے والا دانش ور پا یا ،حالانکہ آپ کی شہرت ایک جلالی انسان کی حیثیت سے تھی ، جامعہ آباد میں بھی آپ نے چند سال گذارے ، آپ نے بیس سال تک جامعہ میں نونہالان قوم کی خون جگر سے آبیاری کی ، اور قوت لایموت پرپوری زندگی عزت نفس کے ساتھ گذاردی ۔انہی معماران قوم کی قربانیوں نے جامعہ کو عزت و وقار کی ان بلندیوں کو پہنچایا ہے ، جو روز روشن کے سورج کی طرح نظر آرہی ہیں ، جس سال مولانا عبد الباری مرحوم کا جامعہ میں داخلہ ہوا ، وہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اسی سال جامعہ میں دینی علوم کے اولین طالب علم ، مولانا محمد اقبال ملا ندوی صاحب ، چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل ، ندوے سے سند عالمیت سے مزین ہوکر بھٹکل تشریف لائے ، اور یہاں تدریس سے وابستہ ہوئے ، یہ جامعہ کے لئے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔