نقوش پا کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۸) ۔ ۔۔ اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:00PM Mon 25 Oct, 2021

 سورت کے بعد ہماری  اگلی منزل احمد آباد تھی،سیدھے چلتے تو راستہ پانچ گھنٹے کا تھا ، لیکن راستے میں کھروڈ اور بھروچ آگیا، اور دونوں جگہوں میں اتنی دلچسپیوں کے سامان  پیدا ہوگئے  کہ ان کے لئے وقت دینے سے مفر نہیں رہا،  اور ہم احمد آباد شام کے پانچ بجے کے قریب پہنچ گئے، احمد آباد گجرات کا دل ہے، یہ  اسلامی تہذیب وثقافت کا ایک گہوارہ رہا ہے۔ اس کے امتیاز کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ یونیسکو نے اس شہر کو قومی ورثہ کا درجہ دے کر یہاں پر مسلم تہذیب کے بہت سے نشانات کو مٹنے سے بچا دیا ، اب یہاں جاپان کے وزیر اعظم بھی آتے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم مودی جی  یہاں کی مساجد دکھانے خود ساتھ لے جانے پر مجبور ہوتے  ہیں،  آزادی کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا تھا کہ ملک کے سیکولر وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی آنکھوں  کے  سامنے شاہجہاں آباد کے مکینوں کا دیس نکالا ہورہا تھا، اور یہاں کے اسلامی تہذیب وثقافت کے نشانات کو کھرچ کھرچ کر نکالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور یونیسکو کے اصرار کے باوجود اسے ہیریٹیج میں شامل نہیں کیا گیاتھا۔

احمد آباد کا حق تھا کہ صرف اسے دیکھنے کے لئے تین دن دئے جاتے ، لیکن یہاں تو تین گھنٹے دینے دشوار ہورہے تھے، اور ہمارے میزبان مفتی طاہر صاحب نے گجرات کی پیر محمد شاہ لائبریری کے ناظم پروفیسر سید محی الدین بمبئی والا صاحب کو شام چار بجے ملاقات کا وقت دے دیا تھا۔ وقت کی تنگ دامانی کو دیکھتے ہوئے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ لائبریری کی زیارت کو اس وقت  ٹال دیں، اور اللہ نے  توفیق دی تو اسے  کبھی دوسرے سفر میں دیکھ لیں، کیونکہ صورت حال کچھ ایسی بن رہی تھی کہ شام میں  لائبریری بند ہونے کے وقت میں منزل پر  پہنچ کر ہمارا قافلہ بھٹک گیا، اب نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورت حال بن گئی، پرانی  تنگ گلیوں  سے گزرتے ہوئے  گوگل میپ    الجھن میں پڑ گیا، اسے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ ہماری گاڑی کی کیسے رہنمائی کرے،  بازار میں شدید  بھیڑ کا وقت ، یک طرفہ سڑک پر ہماری کار مخالف سمت میں پھنس گئی، اب ہماری وجہ سے جو لوگ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سیدھے راستے پر آرہے تھے ان کے لئے راستہ بند ہوگیا، ہماری گاڑی اتنی چوڑی تھی کہ  پیچھے مڑنا  ناممکنات میں سے ہوگیا،ایسے میں  ایک دکاندار فرشتہ بن کر سامنے آیا اور اپنا کاروبار چھوڑ کرسامنے گلی کے آخر نکڑ تک ٹرافک کو روک کر ہماری گاڑی کے لئے راستہ بنانے  میں لگ گیا، لیکن  پھر  آگے کھائی پیچھے کنواں والی صورت  حال بن  گئی، کیونکہ وہاں   ایک پولیس والا چالان لینے کھڑا تھا،  پکڑے جانے پر دوہزار کا فائن ہوتا، اور جھجھک میں  وقت کی بربادی الگ سے، شاید اللہ نے  اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا، یا پھر بے بس مسافروں پر اسے  رحم آگیا  کہ ہماری طرف اس کی توجہ نہیں ہوئی ،  اور ہم  پانچ بجے  پیر محمد شاہ کے مزار سے منسلک کتب خانے کی سیڑھی چڑھ کرکے   اندر داخل ہوگئے، جہاں کتابوں کی اوڑ  میں  ایک منحنی سی  دھان  پان شخصیت بیٹھی ہوئی تھی،    یہی پیر محمد شاہ لائبریری کے روح رواں پروفیسر سید محی الدین بمبئی والا صاحب تھے ، جن کی  شخصیت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، پہلی نظر میں شاید ہی   کوئی  انہیں  کسی مشہور عالم لائبریری کا ڈائرکٹر سمجھے، اب ان سے جو باتیں شروع ہوئیں تو پتہ ہی نہ چلا کہ کتنا وقت گذر گیا، جب موذن نے مغرب کی اذان دی تو محسوس ہوا کہ ہم نے تھکے ماندے ایک بڑی عمر  عمر کے آدمی  سے  بہت زیادہ  وقت لے لیا ہے، اور  دل بول اٹھا کہ  کہ احمد آباد کو دوبارہ بھی دیکھنے کا موقعہ نکالا جاسکتا تھا، لیکن پروفیسر سید محی الدین بمبئی والا کی ملاقات سے محرومی ہوتی تو  یہ ایک بہت بڑا  خسارہ ہوتا، اور علم بیزار معاشرے کی  افراد کی فہرست میں ہمارے نام کا بھی اضافہ ہوجاتا۔ پروفیسر صاحب کو دیکھ کر ،ان کی باتیں سن کر ایسا لگا کہ وہ سانچہ اب ٹوٹ رہا ہے جس میں ایسی فنا فی التحقیق شخصیات بنتی  تھیں، نوے سال کی عمر میں علم وکتاب کی تلاش میں ایسی چاق وچوبند   شخصیت کو دیکھ کر  بیٹوں اور پوتوں کی عمر کےجوان ان کے  سامنے شاید شرما جائیں۔ واقعی ہماری آنکھیں اس وقت  جھگ گئیں جب  آپ ہمیں بٹھا کر مطلوبہ کتابوں کی تلاش میں ایک الماری سے دوسری الماری کی طرف  سرگرداں پھر رہے تھے۔ ہم جب لائبریری پہنچے تھے تو آپ کا آفس ٹائم ختم ہوگیا تھا، لیکن پتہ نہیں انہیں ہمارے مفتی طاہر صاحب اور ان کے رفقاء میں کیا بات نظر آئی کہ سب کچھ بھول بھول  کر باتوں میں لگ گئے۔ جب انہوں نے بات چیت کا آغاز  اس تاثر سے کیا کہ :۔

*ایسا لگتا ہے کہ ایک شخص ریگستان میں مارا مارا پھر رہا ہے، نخلستان کی تلاش میں ہے، تشنگی بہت بڑھی ہوئی ہے، ایسی صورت میں  آپ لوگوں سے مل کر مجھے اطمئنان ہوا ہے کہ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ ان شاء اللہ لوگ ان چیزوں کو زندہ رکھیں گے  اور ہماری جو تہذیبی روایت ہے اسے دنیا میں پھیلائیں گے*۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہ احساسات سن کر تو آنسؤوں کے چند قطرے پلکوں پر آکر رک گئے تھے،اب ہم  انہیں  کیسے بتاتے کہ ہماری بساط سے زیادہ انہوں نے امید یں  ہم سے باندھ لی ہیں، ہم تو اڑتے بادل جیسے ہیں، تھوڑی دیر میں ہوائیں انہیں کہیں اور اڑا کر لے جائیں گی، لیکن خدا بھلا کرے ہمارے مفتی طاہر صاحب کا جنہوں نے پروفیسر صاحب کی امیدوں کو ثمرآور بنانے کا یقین دلایا، ہمارے خیال میں اس سفر کا یہی ایک ماحصل نکل آئے تو قوم پر سے ایک عظیم  فرض کفایہ ساقط  ہونے کی کوئی سبیل نکل آئے  ۔ اللہ تعالی کی ذات سے ہمیں پورا یقین ہے کہ مفتی طاہر  جیسی عملی شخصیت  کی توجہات سے یہ عظیم فریضہ انجام پائے گا، ان شاء اللہ

۱۹۲۰ء میں گاندھی جی نے احمدآباد میں ودھیاپیٹھ کے نام سے ایک قومی کالج قائم کیا تھا، اس کا مقصد برطانوی حکومت کی دسترس سے آزاد ایک تعلیمی ادارے کا قیام تھا، اس میں اردو بھی پڑھائی جاتی تھی، گاندھی جی کی خواہش پر  مورخ گجرات مولانا سید ابوظفر ندوی مرحوم رنگون سے احمد آباد آئے تھے، جب یہ ادارہ مشکلات میں پڑ گیا تو پھر آپ یہاں سے جمالیہ عربی کالج  مدراس چلے گئے،  یہاں سے پھر آپ رابند ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن میں عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہوئے،تقسیم ہند کے بعد آپ مولانا ابو الکلام آزاد کی ایما پر ودیا سبھا احمد آباد آگئے ، جہاں پر  آپ نے تاریخ گجرات کے پروجکٹ پر کام شروع کیا۔ انہیں دنوں پروفیسر سید محی الدین بمبئی والا کو آپ کی شاگردی کا موقعہ نصیب ہوا تھا۔

بمبئی والا صاحب نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیار کیا تھا ، ۱۹۶۶ء سے کالج میں  اردو پڑھانا شروع کیا،  ۱۹۹۲ء میں جب آپ کا رٹائرمنٹ ہوا، تو آپ نے اردو اکیڈمی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں، اور اس میں لکھنے پڑھنے کا کام شروع کیا، تو اس وقت ڈاکٹر ضیاء الدین عبد الحی ڈیسائی صاحب نے آپ کو مشورہ دیا کہ پیر محمد شاہ لائبریری سے وابستگی اختیار کرکے اس کی ترقی میں ہاتھ بٹائیں، ڈیسائی مرحوم فارسی زبان کے بہت بڑے عالم تھے، انہیں کتبات اور سکوں کی عبارتیں پڑھنے میں بڑا ملکہ   حاصل تھا، کہا جاتا ہے کہ اس میدان میں حافظ محمود خان شیرانی مرحوم کے بعد اتنا  بڑا متبحر عالم نہیں  پیدا ہوا،وہ نایاب کتابوں اور مخطوطات کے رسیا تھے، عالمی کانفرنسوں میں جاتے او ر ان کی نظر کسی نادر کتاب پر پڑتی تو ہوٹل میں آرام کرنے کے بجائے کتب خانوں میں بیٹھ کر انمول  کتابیں  نقل کرنے میں اپنا وقت گزارتے، اس طرح ان کے ہاتھ کی لکھی کئی ایک نادر کتابیں ڈیسائی کلیکشن میں محفوظ ہیں، ڈیسائی صاحب نے اپنے ساتھ   ڈاکٹر قریشی اور پروفیسر اکبر علی ترمذی جیسے محققین کو لےلیا ،  آج جو پیر محمد شاہ  لائبریری ملک کی قابل فخر لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے، اس وقت اس کی حیثیت کتابوں کے  بے ترتیب ایک گودام سے زیادہ نہیں تھی۔ کوئی دیکھنے والا نہیں تھا، سب چیزیں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔ مخطوطہ اور مطبوعہ کتابیں گٹھریوں میں  بے ترتیب پڑی  تھیں۔ جب اس ٹیم نے کتب خانہ  اپنے ہاتھ میں لیا  تو یہاں پر ۱۴۰۰مخطوطہ کتابیں تھیں۔ اس عرصے میں ان حضرات کی کوششوں سے مخطوطات کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کے لئے ان حضرات نے گجرات کی گلی کوچوں  کاسفر کیا، جہاں جہاں پتہ چلا کہ کوئی قلمی کتاب موجود ہے وہاں تک پہنچ گئے، کوئی شہر  اورقصبہ نہیں چھوڑا، اس جد وجہد اور جستجو کے نتیجہ میں بڑی انمول چیزیں ان کے  ہاتھ لگیں ،جن سے نئے انکشافات سامنے آئے اور  تحقیق کے نئے دروازے کھلے ، مثلا منگرول سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھ کا لکھا  ہواقرآن مجید کا نسخہ ملا، اس طرح  یہ تحقیق سامنے آئی کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ سے دو سوسال قبل گجرات کے ایک عالم دین نے  قرآن مجید کا فارسی میں  ترجمہ کیا تھا،پیر محمد شاہ لائبریری کے مخطوطات کے کیٹلاگ کی تیاری کا کام مسلسل جاری ہے، اور ابتک اس کی بارہ جلدیں تیار ہوچکی ہیں۔(جاری)