نقوش پا کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(10) احمد آباد (03)

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:26PM Sun 31 Oct, 2021

تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

00971555636151

خواہش تو یہ تھی کہ جمعرات کی شام احمد آباد دیکھ کر جمعہ کی صبح بروڈہ روانگی ہو، لیکن وہ خواہش ہی کیا جو پوری ہو؟ پروفیسر سید محی الدین ممبئی والا کی باتوں  نے اتنا مگن کردیا کہ عشاء کا وقت آگیا، اور ہم نماز عشاء  کی ادائیگی کے لئے   احمد آباد کے مدرسۃ الفضل پہنچ گئے، یہاں پر احمد آباد کی اہم دینی شخصیت مفتی یحیی صاحب سے ملاقات ہوئی، عشائیہ کے بعد مہمان مقررہ نظم کے مطابق  اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے، یہاں پر ہمارے ایک پرانے شناسا یسین خماس صاحب تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے، مفتی طاہر صاحب سے ہم نے  احمد آباد پہنچنے پر آپ  سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، آج سے ربع صدی پیشتر دبی میں یسین صاحب سے  ہمارے روابط تھے، یہاں کویتی مسجد کے پاس جہاں اب مشہور عطر فروش حامی کمپنی کی دکان ہے وہاں  آپ کی گوشت کی ایک دکان  ہوا  کرتی تھی، ہم  ان کے پرانے  گاہگ تھے، اس کے علاوہ موصوف اجتماعی زندگی  میں بھی متحرک تھے ،  لوگوں کا دردو دکھ محسوس کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ ابتلا اور امتحان کے دور سے   بھی گذرے، اتنے عرصہ بعد دیکھا تو کافی بدل گئے تھے، بڑھاپا طاری ہوگیا تھا، پرانےتمام احباب کا  نام لے لے کر یاد کرتے رہے، البتہ ہماری پہچان بھول گئے ۔  اللہ انہیں صحت وسلامت کے ساتھ رکھے، اور شرور وفتن سے محفوظ رکھے۔

جمعہ کے روز صبح تڑکے نہا دھوکر احمد آباد کے آثار قدیمہ کی زیارت پر نکل کھڑے ہوئے، ظہر    تک بروڈہ پہنچنا تھا، لہذا بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق مختصر وقت میں دوڑتے بھاگے یہاں کے  جن جن مقامات پر نظر پڑسکی انہیں اچٹی نظر سے دیکھ لیا ، گہرائی سے انہیں دیکھنا ان کے بارے میں تاریخی معلومات جاننا اس وقت ممکن نہیں تھا، نہ ہی پہلے اندازہ تھا کہ احمد آباد میں کیا کچھ دیکھنے کی چیزیں ہیں؟

 کہتے ہیں کہ سنہ ۸۱۳ ء میں  شیخ احمد کٹھو کے مشورے سےسلطان   احمد شاہ کے دور حکومت میں چار احمدوں شیخ احمد کٹھو بخش، سلطان احمد بن محمد شاہ بن مظفر شاہ، ملک احمد جوکالوپور، اور قاضی احمد خلیفہ حضرت شیخ احمد گنج نےشہر  احمد آباد کی بنیاد ڈالی تھی،ابتدا میں اس کے سات دروازے تھے، بعد میں ان دروازوں میں مزید اضافہ ہوا۔  اس کے دروازے  یہ تھے،  سارنگ پور، کالوپور، اسلوریہ (وکٹوریہ) خان پور،رائے کھڑ، خان جہاں ، شاہ پور اور ایڈریہ( دہلی دروازہ) ، دریاپور، جمال پور، بند دروازہ، اور رائے پور۔

احمد آباد کی زیارت میں ہماری پہلی حاضری سرخیز روضہ میں ہوئی، یہاں پر شیخ احمد گنج بخش کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے، یہ علاقہ پہلے(۷۲) ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا تھا، جس میں مظفر شاہی سلاطین  کے مزارارت بھی بنے ، اس سلطنت کے عظیم  بادشاہ سلطان محمو بیکڑہ نے اس  کے احاطہ کو مزید وسعت دی تھی، اور عمارات کے پہلے دور کی ۱۴۵۱ھ میں تکمیل کے بعد جامع مسجد ، جھیل اور شامیانوں کا اضافہ کیا، اب یہاں سلطان محمود بیکڑہ،  راج بائی وغیرہ کے بھی عالیشان مزارات ہیں۔ جو یہاں پر مسلمانوں کے شاندار ماضی کے مرثیہ خواں ہیں۔

احمد آباد پہلی مرتبہ آئے تھے تو بہت کچھ دیکھنے کی خواہشیں دل میں  ہم پالے ہوئے تھے، لیکن وقت کی تنگ دامانی نے یہاں کے چپے چپے پر پھیلی اسلامی تہذیب کی عظیم نشانیوں میں سے دو تین ہی سے سرسری نظر سے گزرنے کا موقعہ دیا، ان میں دوسری نشانی  لال دروازے کے قریب واقع تاریخی سدی سعید کی جالی والی مسجد تھی، چند سال قبل یہ مسجد اس  وقت سرخیوں میں آئی تھی جب جاپانی وزیر اعظم ہندوستان تشریف لائے  تھے تو ہمارے وزیر اعظم اپنی تمام مسلم تہذیب وثقافت کے خلاف اپنی نفرتوں کو دل میں چھپا کربہ نفس نفیس یہ مسجد دکھانے ان کے ساتھ آئے تھے۔

فن تعمیر کی باریکیوں سے یہ ناچیز نابلد ہے، لیکن اتنا جانتا ہے کہ یہ مسجد ہاتھ کی دستگاری کا نادر نمونہ سمجھی جاتی ہے، اس چھوٹی سی مسجد میں پتھر پر ہاتھ سے بنائی ہوئی باریک جالیوں کو فن معماری کا  انمول کارنامہ سمجھا جاتا ہے،مسجد دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اس کا  کوئی خاص خیال رکھا گیا ہے۔اس مسجد کو دیکھ کر علامہ اقبال کا وہ شعر یاد آگیا جو ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز

نہ کوئی بند ہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

دراصل مسلمانوں نے اپنے ماضی کے جن روشن پہلؤوں کو بھلادیا ہے، ان میں غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کا حسن سلوک بھی ہے، اس موضوع پر معیاری تحقیقی اور علمی مواد شاذ ونادر ہی ملتا ہے، اور حقیقت تو یہی ہے کہ خود مسلمانوں کو چاہے پڑھے لکھے ہوں یا عالم وفاضل، انہیں سوائے  مخصوص پسندیدہ شخصیات کی شان میں مبالغہ آرائی  کے اپنے ماضی سے کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ کوچھوڑئے صرف اسی ہندوستان کو دیکھئے، یہاں جو غلام بن کرآئے ان کے  ساتھ ان کے مسلم آقاؤں نے کیسا اچھا سلوک کیا، اور پھر ان کے ہاتھوں پر کیسے کیسے کارنامے انجام پائے۔یہاں سلطنت غلامان کے حکمرانوں میں سے  قطب مینار کے تخلیق کار قطب الدین ایبک، تاتاریوں کو پنجاب کی سرحدوں پر روکنے والےغیاث الدین بلبن، اور جنوب کی عظیم سلطنت ہوئسالا کا خاتمہ کرکے افغانستان سے جنوبی ہند کے کناروں  تک پہلی مرتبہ بھارت کو  اکھنڈ   بنانے  والے ملک کافور زنگی کےحالات زندگی کی تفصیلات میں جائیں تو بات لمبی ہوجائے گی۔ لیکن جنوبی ہند گجرات  اور دکن کی سلطنتوں میں ناموری پانے والے غلاموں  کا تذکرہ کئے بغیر کیسے آگے بڑھا جاسکتا ہے؟۔ یہ بات اس لئے یاد آئی کہ احمد آباد میں تعمیر کا یہ فن پارہ   سدی سعید کی یادگار ہے، یہ مسجد  1575ء میں مکمل ہوئی تھی ، یعنی سلطنت مغلیہ کے ہاتھوں مظفر شاہی کے اختتام سے ایک سال پہلے، اسے مظفر شاہی دور کی آخری نشانیوں میں سے ایک شمار کیا جاجاتا ہے۔

لفظ سدی سے آپ مخمصے میں پڑگئے ہونگے کہ یہ موریتانیا یا مراکش کے کوئی بزرگ یا بادشاہ ہونگے، کیونکہ وہاں پر  لفظ سدی سیدی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔اور یہ درست بھی ہے، سدی لفظ سیدی کا مخفف ہے، لیکن یہ لفظ عربی  کے متضاد معنی رکھنے والے الفاظ  مولی کی طرح  ہے جس کے معنی آقا اور غلام دونوں کے ہیں۔شمالی افریقہ کے عرب ممالک   موریتانیا اور مراکش میں اب بھی سدی ، سیدی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور یہ لقب بادشاہوں اور مشائخ کے ساتھ بھی لگتا ہے۔  لیکن جب یہ لفظ ہندستان میں مستعمل ہو  تو اس سے مراد وہ قوم  ہوتی ہے جو عہد وسطی میں جہازرانی اور بحری تجارت کے دور عروج میں جہازوں کے خلاصی، اور مزدور کی حیثیت سے حبشہ، اور زنجبار جیسے افریقہ کے مشرقی ممالک سے لائے گئے تھے، ان میں اکثریت غلاموں کی تھی، انہیں ہندوستان کی بندرگاہوں تک پہنچانے میں زیادہ تر ان عرب تاجروں کا  ہاتھ تھا ۔ جن کے جہاز  دابھول، گوا ، اور راندیر  کی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہوتے تھے۔۱۵۱۰ء میں گوا پر پرتگیزی قبضے کے بعد  یہ بے سر وسامان ہوکر ادھر ادھر منتشر ہوگئے، ان کی ایک  خاصی بڑی  تعداد نے عیسائی اور ہندو مذہب اختیار کیا، عادل شاہی اور مظفر شاہی دور میں ان میں سے کئی ایک نے بڑا نام کمایا، ان کا رنگ وروغن آج بھی حبشیوں جیسا ہی ہے، اور یہ گوا اور بھٹکل کے درمیان  ہلیال وغیرہ علاقوں  میں ان کی کالونیاں  اب بھی پائی جاتی ہیں۔ کراچی میں منگھو پیر درگاہ  انہی لوگوں کے بزرگوں کی ہے،  جنہیں مکرانی کہا جاتا ہے، ان میں بھی سدیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔

برطانوی دور میں کوکن کے ساحل کے قریب ایک ریاست جنجیرہ بھی پائی جاتی تھی، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ۱۴۸۹ ء میں سلطان احمد نگر نے جنجیرہ کے قلعہ بندراجہ رام پاٹل کی سرکوبی  اور اس  کے ہاتھ سے قلعہ کا قبضہ لینے کے لئے امیر البحر سدی بیرم خان کو بھیجا تھا، پہلے یہ جزیرہ عادل شاہی اور احمد نگر سلطنت کے تابع رہا، پھر اس پر سدی نوابوں کی حکومت قائم ہوگئی، جنہوں نے   سترہویں اور اٹھارویں صدی میں مراٹھا سلطنتوں کے حملوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا، اور اس چھوٹے سے جزیرہ کی خودمختاری کو آخر تک  قائم رکھا۔ اس جزیرہ کے نام کو   علامہ شبلی ؒ کی سیرت النبیﷺ نے  دوام بخشا،علامہ شبلیؒ جب عطیہ فیضی کی بڑی بہن  نواب جنجیرہ کی بیگم   رفیعہ سلطانہ (نازلی بیگم)    کے مہمان بن کر  جنجیرہ میں مقیم تھے  تو وہیں پر  سیرت النبی ﷺ لکھنے کا آغاز کیا تھا،اور  نازلی بیگم نے سیرت النبی ﷺ کے لئے اولین عطیہ  بھی فراہم کیا تھا، اس ریاست کے ایک   نواب ایاز نے بھنڈی بازار ممبئی میں  ایک مسجد تعمیر کی تھی، جو آج بھی نواب مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے، اور و ہ محلہ جو اس مسجد  کی مناسب سے مسجد اسٹریٹ کہلاتا تھا، اسے بھٹکل کے قائد ورہنما جناب عبد القادر حافظکا     مرحوم سابق سفیر سعودی عرب کے نام پر بلدیہ ممبئی  نے موسوم کیا ہے، حیدر آباد سے گزرتے ہوئے یہاں پرسدی عنبر کے نام سے ایک مسجد اور مصروف سڑک بھی نظر آتی ہے۔

سدی سعید جن کی تعمیر کردہ احمد آباد کی یہ عجوبہ روزگار مسجد  ہے، اور اس شہر کے شاندار ماضی کی جیتی جاگتی ایک علامت بن گئی ہے، اسی حبشہ  اور افریقہ کے مشرقی ساحلوں سے  ہندوستان کے ساحلوں پر پہنچنے والی سدی برادری کے ایک فرد تھے۔ممکن ہے ان کے جسم کی رنگی کالی رہی ہو، لیکن اس کالے رنگ نے  احمد آباد کو روشن کردیا ہے ۔ النور السافر میں  علامہ عبد القادر العیدروس رحمۃاللہ علیہ نے بڑے شاندار انداز میں  آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کو عبد صالح سیدی سعید سلطانی الحبشی کے نام سے یاد کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ آپ فقیہ تھے، اور کئی علوم کا درک رکھتے تھے، آپ کو قرآن کریم  ازبر یاد تھا، آپ ایک  کثیر العبادت شخصیت تھے، اور رمضان کریم کی نمازوں میں پانچ ختم کیا کرتے تھے، فوجوں کے سپہ سالار آپ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے،  آپ سے اجلال اور اکرام کا معاملہ کرتے تھے،انہوں نے آپ کے لئے پانچ ہزار سونے  کے سکے کی مالیت کے برابر وظیفہ مقرر کیا تھا، آپ   احسان کرنے والوں میں تھے، اہل علم سے محبت کرتے تھے، جب حج پر روانہ ہوئے تو شیخ ابن حجر ہیتمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے درس  پڑھا، آپ کو کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوق تھا، انہیں خرید کرنے کے لئے مصر محروسہ لوگوں کو بھیجتے تھے۔ آپ کی وفات ۳  ؍ شوال ۹۸۴ھ کو ہوئی۔

یہاں سے ہمارا  تیسرا پڑاؤ احمد آباد کی جھولتا مینار سے موسوم مسجد کی طرف تھا، یہ مسجد بھی فن تعمیر کے عجوبوں میں شمار ہوتی ہے، اور اتفاق سے اس کو تعمیر کرنے والے بھی  حبشی سدی برادری کے ایک فرد سدی  بشیر تھے۔ پروفیسرسید محی الدین بمبئی والا ایک روز پہلے ہمیں بتا رہے تھےکہ ایسی پانچ مسجدیں احمد آباد میں پائی جاتی تھیں، ان میں سے چار تو زمانہ ہوئے زمین بوس ہوچکی ہیں، اب یہ ایک ٹوٹی پھوٹی حالت میں موجود ہے،  کتنے افسوس کا مقام ہے  کہ تعمیر کے اس شاہکار کے انجینیر اور آرکیٹکٹ کا نام تاریخ  کے صفحات سےمٹ چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سدی بشیر شہر احمد آباد کے بانی احمد شاہ کے وفادار غلام تھے، اور یہ مسجد ۱۴۵۲ء میں تکمیل کو پہنچی تھی۔ اس مسجد کی خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ مسجد کے دومیناروں میں سے کسی ایک پر چڑھ کر اس کی دیواروں کو ہلایا جائے تو مسجد کا  دوسرا مینار ہلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ۱۹۶۰ ء کی دہائی میں اسے دیکھنے والوں نے  ہم سے اس مشاہدہ کی تصدیق کی تھی۔ اس وقت اس کا ایک مینار ٹوٹا ہوا ہے، کہا جاتا ہے مراٹھوں کے حملوں سے  اس کا ایک مینار ٹوٹ گیا تھا،  اور پھر  انگریزوں نے بھی  مسجد کی تعمیر کی کاریگری کا راز جاننے کے لئے ، اس کے ایک مینار کی کھدائی شروع کی تھی، لیکن وہ  اسے زیادہ گزند  نہ پہنچا سکے، نہ ہی انہیں اس کے فن   تعمیر کا گرمعلوم  ہوسکا۔ کچھ ایسی ہی باتیں بچپن میں تاج محل کے بارے میں بھی   ہم نےسنیں تھیں، کہ وہاں کے  ایک حمام میں سردی ہویا گرمی ہمیشہ گرم پانی ملا کرتاتھا، انگریزوں نے اس  کا راز جاننے کے لئے  اسے بھی توڑا، لیکن ہاتھ کچھ نہ آسکا۔پروفیسر صاحب بتاتے تھے گجرات میں سنگ خارا کی بنی پانچسو مساجد تھیں، جن میں سے اب کوئی نہیں بچی۔ سنہ ۲۰۰۱ء کے زلزلہ میں بھروچ ، احمد آباد اور گجرات کے چپے چپے سے مسلمانوں کے آثار قدیمہ سے جو بچی  کچی چیزیں تھیں ان میں دراڑیں آگئیں، اور کئی ساری  مساجد اور عمارتیں اندر جاکردیکھنے کے قابل  بھی نہ رہیں، بھروچ کی قدیم  مسجد اور احمد آباد کی یہ مسجد انہی میں شامل ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عہد رفتہ کے زرین دور کی ان نشانیوں کے بارے میں زیادہ تگر خود یہاں کےمسلم  اہل علم ودانش یا تو ناآشنا  ہیں،یا انہیں اس سرزمین کے چپے چپے پر پھیلے ان  تہذیبی اور ثقافتی  ورثہ کی قدر وقیمت کا  احساس نہیں ، اب اگر یہ صورت حال باقی رہے تو  ان کا اللہ ہی مالک ہے۔

2021-10-31