نقوش پا کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۱۱) ۔ ۔۔ بروڈا

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:26PM Sun 7 Nov, 2021

عبد المتین منیری۔ بھٹکل 00971555636151

آج ۱۷ ستمبر اور جمعہ کا دن  تھا  اوریہ  ہمارے گجرات کے سفر کا آخری دن  ، ہمارا قافلہ احمد آباد سے بروڈا کی طرف روانہ ہوا، اب اس شہر کا نام بدل کر مقامی لہجہ میں بروڈرا کیا گیا ہے۔ اٹھارویں صدی میں مراٹھا خاندان گائیکواڈ کی گجرات کے ایک حصہ پر حکمرانی رہی تھی۔ اور ۱۷۳۲ ء  میں یہ اس سلطنت کی راجدھانی بنا تھا۔  بروڈا ہم  دوپہر دوبجے کے آس پاس پہنچے، جہاںہمارے گروپ ممبر  مولانا عطاء الرحمن بروڈوی صاحب آنکھیں بچھائے انتظار میں تھے، یہاں آپ کے والد ماجد سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور پرتکلف ظہرانہ بھی ۔

بروڈا میں ہماری دلچسپی کی اصل چیز یہاں پر ڈھائی سال سے محفوظ ایک مصحف تھا، جسے بعض لوگ   ہاتھ سے لکھا ہوا دنیا کا سب سے بڑے حجم کا مصحف شریف مانتے ہیں،  ضروری نہیں کہ  یہ دنیا کا سب سے بڑا مصحف ہو، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا بھر میں دو تین بڑے مصاحف  میں سے ایک ہے۔  اس مصحف کی طوالت ۱۷۵نچ (۱۔ م۹۲)  میٹراور چوڑائی ۴۵ انچ یا (۱۔۱۵) میٹر ہے ۔یعنی لمبائی سوا چھ فٹ اور چوڑائی  پاونے چار فٹ،

اس کی کتابت سید محمد غوث نامی کاتب نے بیس سال کے عرصہ میں مکمل کی تھی، اور اس کی تکمیل ۱۲۰۶ھ مطابق ۱۷۸۳ء میں ہوئی تھی۔ اس زمانے میں جب کہ مشینی کاغذ عام نہیں ہوا تھا، کاتب صاحب نے اس کے لئے خود سے کاغذ تیار کیا تھا، اور اس کے لئے روشنائی بھی خود سے تیار کی تھی۔  یہ پندرہ بڑی جلدوں میں دو پاروں کے حساب سے جلد بند ہے۔ اسے خطاط مرحوم نے لکھ کر بروڈا کی جامع مسجد کو وقف کیا تھا، چند سال قبل گجرات میں زلزلہ  اور بارشوں کی تباہ حالی کے بعد  حفاظت کے لئے اس مصحف کو یہاں کے دارالعلوم تاندلجہ بروڈہ میں ایک مخصوص کمرے میں شیشوں کے  بنے  ہوئے ایک بڑے  صندوق میں بحفاظت رکھا گیا ہے۔ یہاں اور بھی کئی ایک  قرآن  کی خطاطی کے نادر اور خوبصورت  نمونے محفوظ ہیں۔ معلوم ہوا کے زمانے کی دستبرد سے بچانے کے لئے مصحف کی ایک ایک جلد ہر سال تشخیص کے لئے دہلی ارکائیوز  بھیجی جاتی ہے۔ گمان تھا کہ یہ دارالعلوم ہمارے لئے ایک اجنبی جگہ ہوگی ، لیکن  جب  یہاں پر مولانا عمر فاروق ٹنکاروی صاحب نے ہمارا استقبال کیا تو گویا ہماری بانچھیں کھل گئیں۔ مولانا اس دارالعلوم کے ذمہ دار اساتذہ میں سے  ہیں۔ اور ہمارے علم وکتاب گروپ کے ایک دیرینہ ممبر بھی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی، کیا ڈابھیل کیا بروڈا کہیں بھی  محسوس نہیں ہوا کہ ہم یہاں پر پہلی مرتبہ آئے ہیں، ہر جگہ کے ماحول میں  اپنا ئیت ، اور مانوسیت چھائی ہوئی تھی، علم وکتا ب گروپ ہم جیسے اپنے وطن سے اجنبی کے لئے کتنی بڑی نعمت  بن گیا ہے۔ جہاں جائیں مانوس چہرے اور محبت کرنے والے احباب  مل جاتے ہیں۔ اس پر اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم  ہے۔ یہاں آنے پر محسوس ہوا کہ گجرات  کے لئے   کتنا کم  وقت ہم نے دیا ہے ، چاہنے  والے کئی ایک دوست احباب سے ملاقاتیں نہ ہوسکیں۔ انہیں تلاش کرکے  ملاقات کرنا ا  ایک طرح سے ہمارا اخلاقی فرض بھی تھا۔

 ہر چیز کا اس دنیا میں ایک  انت ہے، آخر گجرات کا یہ سفر بھی تمام ہوا۔ وداع کی گھڑی   آہی گئی، شام کو جب کورومنڈل اکسپریس  پلیٹ فارم پر ہمیں اپنی منزل مقصود پر لینے آرہی تھی تو ہمارے میزبان مولانا مفتی محمد طاہر سورتی  نے فرمائشں کی کہ جاتے جاتے کچھ  تاثرات بیان کر  جائیں، عادت نہ ہونے کے باوجود پتہ نہیں کیوں کر ہماری زبان سے چند ٹوٹی پھوٹی باتیں نکل گئیں، اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کتنی درست اور بروقت تھیں۔

گجرات کی ریاست ایک قدیم دینی وعلمی ورثہ کی مالک ہے،  ممکن ہے کہ یہاں کی غیر اقوام کے مقابلے میں یہاں کے مسلمانوں کی تعداد اور ان کی اقتصادی قوت کم ہو، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اس ریاست میں جتنے خوشحال ہیں، اور جس قدر مالی واقتصادی وسائل رکھتے ہیں، وہ کہیں اور علاقے کے مسلمانوں کو حاصل نہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے دین کی سربلندی ، علم دین کے فروغ اور برادران ملت کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے بہت کچھ کیا ہے، اور اگر امت اسلامیہ ہندیہ ان سے بہت کچھ امیدیں باندھے رکھے تو بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔ یہاں پر مدارس اور مساجد  کی تعمیرات جو معیار ہے وہ شاذ ونادر ہی پایا جاتا ہے، اور اس کی وجہ یہاں کے ایک وسیع طبقہ کی دین سے محبت ہے، یہاں پر بزرگان دین سے مبالغہ کی حد تک جو محبت اور احترام پایا جاتا ہے وہ بھی اس  دین سے محبت  کے نتیجے میں ہے۔ دو تین دن پابہ رکاب ادھر ادھر بھاگنے سے جو مشاہدات حاصل ہوں ، ضروری نہیں کہ انہیں مکمل سمجھا جائے ،  لیکن کبھی چاول کا ایک دانہ بھی بتا دیتا ہے کہ دیگ میں کتنی نمک پڑی ہے۔

خیال پڑتا ہے کہ ہم نے مفتی طاہر صاحب کی خواہش پر وہی باتیں دہرائی تھیں جو  ادارہ الحمد سورت میں نوجوانوں سے کہی تھی، لیکن جو بات شاید ہم نے کہی وہ اب یاد آتی ہے وہ یہ کہ کورونا کی وبا نے   دینی مدرسوں کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان بنا دیا ہے، وہ مکتب اور دارالعلوم جنہیں ہم دین کے قلعے کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے، ان میں سے ایک بڑی تعداد بد حالی کا شکار محسوس ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلم معاشروں میں مدارس اور دارالعلوموں کا اثر محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ جو خطرے کی  ایک بڑی گھنٹی ہے۔

اس کا ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے فارغین دارالعلوموں اور جامعات میں بارہ چودہ سال محنت کرکے اپنے میدانوں کے بجائے دوسرے میدانوں کو اپنانے پر مجبور  ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے جو کچھ پڑھا تھا انہیں بھول جاتے ہیں، فراغت کے بعد لکھنے پڑھنے اور پڑھانے کا میدان ملے تو علمی استعد ا د کے فروغ  کے  امکانات پیدا ہوتے ہیں، ورنہ پھر نہ دین ہاتھ آتا ہے نہ دنیا، اور ان میں ایک بڑی تعداد ایسی نکلتی ہے جو مدارس میں اپنی عمر کے ضیاع کا احساس دلوں میں پالتے ہیں۔

 علم اور دعوت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اور ہمیشہ سے تمام معاشروں میں دعوت کے موثر ہونے کے لئے حسب ونسب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مقامی علماء اپنے معاشرے پر جتنے اثر انداز ہوسکتے ہیں، اور عزت نفس کے ساتھ اپنی بات رکھ سکتے ہیں، وہ باہر کے افراد کرنہیں پاتے، ان کے سامنے کئی ایک نفسیاتی رکاوٹیں ہوتی ہیں، یوں تو ہندوستان بھر میں مدارس کی تعداد کم نہیں ہے، لیکن یہاں کے فارغین کی پکڑ اپنے معاشرے پر بہت کم ہے، ان کی باتوں کا وہ وزن نہیں ہوپاتا جو مقامی  شخص کا ہو سکتا ہے، ہماری رائے میں اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہمارے دارالعلوموں میں مقامی طلبہ کا  مناسب مقدار میں نہ ہونا ہے، ڈابھیل اور ترکیسر کی ایک دو جامعات کے سلسلے میں سننے میں آیا کہ وہاں پر  مقامی خاندانوں کے طلبہ کے داخلہ پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن عموما مدارس میں طلبہ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں، جب کہ  ان کے اپنے علاقوں میں مدارس اور علماء کی کمی نہیں ہے، آج گجرات ، ٹامل ناڈو، کرناٹک، اور تلنگانہ ، آندھرا وغیرہ  کے مدارس میں  ان  علاقوں کے علماء اور طلبہ  بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں ، جنہیں  آج سے تیس چالیس سال قبل بڑا  زرخیز  علاقے سمجھے جاتے تھے، اور وہاں پر مدارس اور سینیر علماء کی وافر مقدار پائی جاتی تھی، اب  ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں کے طلبہ اور علماء نے اپنے علاقوں کو  چھوڑ دیا ہے، اب وہاں سے سینیر اور ہندوستان گیر شہرت کے حامل علماء کا نام سننے میں نہیں آرہا ہے۔اور ملی اداروں کے وہ منصب جنہیں بڑا موقر سمجھا تارہا ہے، ان میں کم بہ نسبت کم سن اور ناتجربہ کار فائز نظرآتی ہیں۔  یہ حال کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں ہر علاقے کی جامعات اور مدارس کو اپنے خاندانی پس منظر رکھنے والے طالب علموں کے داخلوں کی اپنے اداروں میں کثرت پر توجہ دینی چاہئے، کورونا جہاں ایک زحمت بن کر نازل ہوا ہے، اس آفت کے ابتدائی ایام میں بیرونی طلبہ کی منتقلی میں جو دشواریاں آئیں ، اور جس طرح پریشانیاں ہوئی ، انہیں دیکھتے ہوئے ، ہماری ناقص رائے میں مدرسے والوں کو اپنا گھر درست کرنے کا ایک سنہرا موقعہ مل گیا ہے۔

یہاں یہ بات اس لئے یاد آئی جب ہم نے  آج سے پچاس پچپن سال  قبل شعور کی آنکھیں کھولی تھیں، تو ہمارے قصبے بھٹکل میں آٹھ مسجدیں تھی،جن میں سے چار میں غیر مقامی ائمہ اور موذنین مقرر  تھے۔ ممکن ہے ایک دو ان میں فارغ التحصیل بھی  ہوں، ائمہ  مساجد میں کوئی حافظ قرآن  نہیں تھا،  مقامی طور پر صرف  ایک حافظ قرآن  پائے جاتے تھے، لیکن  جب جامعہ اسلامیہ بھٹکل قائم ہوا تو اس کے  پہلے مہتمم اور استاد الاساتذہ مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ نے  اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ بھٹکل کے خوش حال  گھرانوں کے بچوں کا جامعہ میں داخلہ  کثرت سے ہو، اور نصاب تعلیم  میں ندوے سے استفادہ کرتے ہوئے اسے اس طرح رکھا کہ ابتدائی  چار سالوں میں  اردو زبان کی تعلیم ہو، اس میں حساب ، جغرافیہ ، سائنس ، عام معلومات وغیرہ ضروری مضامین رکھے جائے، پنجم سے عربی چہارم تک   پانچ سال عربی زبان کے بنیادی مضامین کے ساتھ ساتھ تاریخ ، ہندی،انگریزی، کنڑی وغیرہ کے بھی اسباق ہوں، عربی پنجم سے درجہ عالمیت تک  چار سال  صرف عربی زبان اور بنیادی دینی علوم کی منتہی کتابیں پڑھا ئی جائیں۔ ا س نصاب میں کہاں تک اصلاح کی  ضرورت یا گنجائش ہے یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن جامعہ میں مکتب کی تعلیم کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس میں سو فیصد مقامی بچے آنے لگے، یہ سبھی جامعہ آباد پہنچ کر اعلی دینی تعلیم پاکر ندوۃ العلماء وغیرہ سے تخصص کرتے ہیں۔تفصیل میں جانا شاید خود نمائی ہو مختصر طور پر اتنا بتادینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت بھٹکل میں  ایک سو مساجد ہیں، چونکہ ان کے ائمہ اور موذنین زیادہ تر تدریس سے بھی وابستہ ہیں، لہذا ہر مسجد میں عموما دو امام پائے جاتے ہیں، اور تراویح میں تین چار حافظ قرآن کا ہونا عام سی بات ہے۔ اور یہ سبھی مقامی افراد ہوتے ہیں ، جنہیں یہاں کے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، عزت پر یاد آیا کہ مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا جیسکھ پور ۔ بارہ بنکی سے تعلق تھا، بڑے دبنگ انسان تھے، انہوں نے اپنے طلبہ کو عزت نفس کا درس سکھا یا تھا، جس کا اثر ہے کہ یہاں پر رسید دے کر چندے  کے لئے اساتذہ کو بھیجنا بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے، اورجامعہ کے لئے زکوۃ دینے کی ہمت افزائی نہیں کی جاتی۔ اگر آج بھٹکل میں دینی کاموں کو اگر کچھ مقام اور عزت حاصل ہے تو یہ ہمارے استاد  مولانا عبد الحمید ندوی ؒ کا فیض ہے، آپ نے  جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا پودا لگاتے ہوئے جو بیج بویا تھا، آج ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں۔یہ اللہ تعالی کا عظیم فضل واحسان ہے، جس پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔

شام ساڑھے پانچ بجے ٹرین بروڈا سے روانہ ہوگئی، اور ہم سوچنے لگے، سر زمین گجرات کو دیکھنے کی پیاس تو ابھی اور بڑھ گئی ہے   ، نہ جانے خدا  وہ دن آئندہ   کب لائے  جب خدا  گجرات کی اس سر زمین  پر پھر آئیں،  جس پر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے قدم پڑے تھے۔ وہ خاک   جو ان کے قدموں کو  چھو کر گزری تھی  اگر وہ ہمارے ماتھے پر لگ جائے تو   ہمارا کتنا نصیب جاگے گا۔  تمام شد

2021-11-07