نقوش پا کی تلاش میں۔ گجرات کا ایک مختصر سفر (۱) ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

12:36PM Mon 20 Sep, 2021

نقوش پا      کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۱)

تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/

 

۱۷؍ ستمبر کی شام ساڑھے پانچ بجے بروڈا جنکشن پر ناگر کویل ، کارومنڈل اکسپرس رینگتے ہوئے داخل ہورہی تھی،اس پر یہاں  اس قافلہ  کو  سوار ہونا تھا، جس کی  منزل بھٹکل تھی، یہ قافلہ چھ افراد پر مشتمل تھا، جن کی پلکیں نمکین اور پاؤں بوجھل تھے، انہیں اس پر چڑھنے کوجی  نہیں چاہ رہا تھا، ان کے میزبانوں نے تین چار دن کی رفاقت میں مانوسیت اور محنت کا ایسا رس بھر دیا تھا، کہ اس سے محرومی کا احساس دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن جب انسان اپنی خواہش سے اس دنیا میں رہ نہیں سکتا، تو پھر ان چھوٹے موٹے سفروں کی کیا بساط،  اپنی عائلی، گھریلواور ذاتی ذمہ داریوں  کے آگے تمناؤں کو سپر ڈالنا ہی پڑتا ہے، یہاں بھی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی،ویسے ان گھڑیوں میں یہ جذبہ یک طرفہ نہیں تھا،  دوسری طرف  بھی پلکوں سے   موتی   ٹوٹ  رہے تھے،  محبت اخلاص اور انس کی یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی، اور دونوں طرف دلوں  کی یہی خواہش تھی کہ وقت کچھ اور تھم جائے۔

علم وکتاب، ادارہ ادب اطفال، اور لرن قرآن بھٹکل کے احباب ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی، مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی، مولوی عبد اللہ شریح کوبٹے ندوی، مولوی حافظ   عبد المقیت مناندوی اور عندلیب بھٹکل مولوی زفیف شینگری ندوی پر  مشتمل جو قافلہ ۱۳ ستمبر کی شام کو  گجرات کے  مختلف علمی مراکز اور تاریخی مقامات کی زیارت کے مقصد سے بھٹکل سے نکل پڑا تھا، اس کے میزبان سرزمین گجرات  پر   ادارہ الحمد کے جوان دل ڈائرکٹر مولانا مفتی طاہر سورتی صاحب  اور جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین دابھیل کے پرجوش استاد مولانا مفتی  محمد اویس گودھرا صاحب کی بابر کت شخصیات تھیں، اور پھر  آپ کے نیاز مندان اور رفیق مولوی داؤد میمن، مولوی منور، مولوی مصعب منیار، اور شبل من ذلک الاسد   مولوی زاہر بن مفتی طاہر سورتی صاحب  سایہ کی طرح لگ گئے  ۔

جو ٹرین ہمیں بروڈاسے بھٹکل لے جارہی تھی اس کا آخری اسٹیشن ناگرکوئل  تھا، ہندوستان کے آخری کنارے پر واقع اس شہر کے  بالمقابل  مشرقی سمت پر جزیرہ سری لنکا  واقع ہے، جسے عرب جغرافیہ دانوں نے سراندیب کا نام دیا ہے۔ یہ وہی جزیرہ ہے جس کے بارے میں روایتین مشہور ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے قدم اقدس جنت سے دنیا میں اترنے کے بعد پہلے پہل یہیں آکر پڑے تھے،  اس جزیرہ  کی یہ اہمیت  یہ بھی ہے کہ جب ہندوستان میں اسلام کے داخل ہونے کی بات آتی ہے تو قدم آدم کی زیارت کا قصد کرنے والے عرب زائرین کا تذکرہ کئے بغیر  یہ  تذکرہ مکمل نہیں ہوتا ، وطن عزیز میں دخول اسلام کی بات اسلئے یاد آئی کے جب ہم بروڈا سے نکلنے والے تھے تو چند منٹ پہلے  محترم مولانا سید محمد ارشد مدنی دامت برکاتھم، صدر جمعیت علمائے ہند کا بیان نظر سے گذرا  تھاکہ*  ہندوستان  میں اسلام حملہ آوروں سے نہیں بلکہ عرب تاجروں کے ذریعہ سے آیا*۔

اس سفر میں ہم ہندوستان میں دخول اسلام کے ان مقامات کی  زیارت کرنے آئے تھے، جو ہندوستان میں عرب تاجروں اور جہازرانوں کی شمال مغربی ساحل پر  آخری بندرگاہیں ہوا کرتی تھیں۔ انہیں عبور کرنے کے بعد پھر خشکی کے  وہ راستے  شروع ہوتے ہیں، جہاں سے مسلم فاتحین ملک میں داخل ہوئے، اور جن راستوں پر  بادبانی کشتیوں اور پانی  جہازوں کے بجائے ہاتھی ، گھوڑے اور بیل گاڑیاں چلا کرتی تھیں، ہماری ٹرین  کی آخری منزل وہی تھی جو ہندوستان کے ساحل پر کبھی عرب تاجروں اور جہازرانوں کی آخری بندرگاہ ہوا کرتی تھی، کارومنڈل جسے عرب جغرافیہ داں اور مورخ* معبر*  کا نام دیا ہے، یہاں پر سراندیب تک پہنچنے کی قریب ترین سمندری گزرگاہ  واقع تھی، اسے عبور کرکے ہی تمام  سیاح سراندیپ میں قد م رنجہ ہوسکتے تھے، یہی معبر ہے جس کی طرف دسویں صدی ہجری کے عظیم  شافعی فقیہ شیخ زین الدین المعبری الملباری ؒ مصنف فتح المعین شرح قرۃ العین منسوب ہیں، ناگرکویل اس عظیم مسلم اکثریتی قصبے کا اسٹیشن ہے جو تاریخ میں مصر کےدارالخلافہ  قاہرہ کی طرف منسوب  ہوکر قاہرہ پٹن کہلاتا تھا،  اور اس طرف  بھی منسوب ہوکر یہاں کے علماء و مصنفین قاہری نسبت سے معروف ومشہور تھے،   موجود ہ زمانے میں اس قصبہ کا تحریف شدہ نام* کایل پٹنم  *رائج  ہے۔ اگست ۲۰۱۹ ء میں مولانا فیصل بھٹکلی ندوی کی رفاقت میں   اس قصبے کی زیارت نصیب ہوئی تھی، ابھی   اس کا قرض چلا آرہا ہے، یہ   قصبہ اب بھی عربی روایات کا امین ہے، یہاں کے گھرانوں میں  اب بھی ٹامل زبان عربی رسم الخط میں رائج ہے جسے *اروی* کہاجاتا ہے،  یہاں کے لبابین برادری کے افراد  علاقے  کے مسلمانوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، شاذلی اور قادری  سلسلوں کی پرانی خانقاہیں اب بھی یہاں  آباد ہیں، اور ان کے سلسلے براہ راست عرب  کے علماء و صلحاء  اوربزرگان دین سے ملتے ہیں،  اسی کے  قریب قصبہ کیلے کرے کا قدیم قصبہ بھی ہے، جہاں پر بھی عرب نژاد نسلوں کی خوشبوئیں رچی بسی ہوئی ہیں۔

 قریبی قصبہ ترچناپلی میں  علاقہ کے مایہ بزرگ حضرت  طبل عالم نطہر ولی  رحمۃ اللہ علیہ آسودہ خاک ہیں ،مولانا قاضی بدر الدولۃ مدراسیؒ نے آپ کا مفصل تذکرہ کیا ہے، جس میں آپ کی  تاریخ وفات ۱۴؍ رمضان المبارک ۶۲۴ء بتائی ہے، اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ  حرمیں سے ہندوستان آتے ہوئے   بھٹکل کے بالمقابل بیس کلومیٹر پر واقع جزیرہ نتھرا پر آپ نے  چلہ کشی کی تھی، اور یہیں سے ہوتے ہوئے معبر کے علاقے میں پہنچے تھے، نئے جغرافیہ کی کتابوں  میں یہ جزیرہ نتھرانی کے نام سےموسوم  ہے، لیکن  ہم حضرت نطہر ولی ؒکی طرف نسبت کرتے ہوئے ، اس جزیرہ کو نطہرایا نتھرا بچپن سے سنتے آرہے ہیں، نائطی زبان میں نسبت کے لئے یائے حطی کے بجائے الف کی اضافت ہوا کرتی  ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان باتوں کو یہیں چھوڑ دیتے دیتے ہیں، کبھی اللہ تعالی نے توفیق دی تو*  کایل پٹنم* میں جو دیکھا  اس کا تذکرہ ہوگا۔

حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ جب ہمارے گاؤں تشریف لاتے تو یہی کہتے کہ یہاں مجھے صحابہ وتابعین کی خوشبو آتی ہے، اس علاقے میں اسلام براہ راست اور تازہ دم پہنچا، اور ہمارے یہاں شمال میں ہاتھ بدلتے  سکنڈ ہینڈ اسلام، بغداد ، ایران وخراسان ، اور افغانستان سے ہوتے ہوئے  درہ خیبر کے راستےپہنچا ہے، اس دوران اسلام کوماننے والوں کے مزاج میں کئی تبدیلیاں ہوئی، دین کی روح بھی متاثر ہوئی، دین اصلی وخالص ہمارے ملک تک نہ پہنچ سکا،حضرت مولانا کی اس بات کا اطلاق گجرات کے بھروچ سے ہندوستان کے مغربی ساحل کے علاقوں اور خلیج منار پر واقع کایل پٹنم تک  کے ہزاروں میل پر پھیلی پٹی پر ہوتا ہے۔ بھروچ کے ساتھ ساتھ  ان میں ، گندار، گوگا، سورت، وسئ،دابھول، ہنور، بھٹکل، اور ابن بطوطہ  اور تحفۃ المجاہدین کے  مصنف کے نشان کردہ بسرور، فاکنور، منگلور،کاسرکوڈ،  کوڈنگلور،پوننانی،درمفتن، فندرائینہ،کولم، کوژیکوڈ، ھیلی ،ماراوی، جرفتن وغیرہ بہت سے نام آتے ہیں، جن پر تاریخ کی دبیز تہیں  چڑھی ہوئی ہے، اور عرصہ ہوا قومی حافظہ سے یہ مقامات محو ہوچکے ہیں، گجرات کا یہ سفر ان پاکو ں کے ان نقوش پا کی تلاش میں تھا جو حقیقی معنوں میں ہمارے سب سے سے عظیم محسن تھے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ جاری

WA:+971555636151

https://telegram.me/muniri

 

۔۱۷؍ ستمبر کی شام ساڑھے پانچ بجے بروڈا جنکشن پر ناگر کویل ، کارومنڈل اکسپرس رینگتے ہوئے داخل ہورہی تھی،اس پر یہاں  اس قافلہ  کو  سوار ہونا تھا، جس کی  منزل بھٹکل تھی، یہ قافلہ چھ افراد پر مشتمل تھا، جن کی پلکیں نمکین اور پاؤں بوجھل تھے، انہیں اس پر چڑھنے کوجی  نہیں چاہ رہا تھا، ان کے میزبانوں نے تین چار دن کی رفاقت میں مانوسیت اور محنت کا ایسا رس بھر دیا تھا، کہ اس سے محرومی کا احساس دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن جب انسان اپنی خواہش سے اس دنیا میں رہ نہیں سکتا، تو پھر ان چھوٹے موٹے سفروں کی کیا بساط،  اپنی عائلی، گھریلواور ذاتی ذمہ داریوں  کے آگے تمناؤں کو سپر ڈالنا ہی پڑتا ہے، یہاں بھی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی،ویسے ان گھڑیوں میں یہ جذبہ یک طرفہ نہیں تھا،  دوسری طرف  بھی پلکوں سے   موتی   ٹوٹ  رہے تھے،  محبت اخلاص اور انس کی یہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی، اور دونوں طرف دلوں  کی یہی خواہش تھی کہ وقت کچھ اور تھم جائے۔

علم وکتاب، ادارہ ادب اطفال، اور لرن قرآن بھٹکل کے احباب ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی، مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی، مولوی عبد اللہ شریح کوبٹے ندوی، مولوی حافظ   عبد المقیت مناندوی اور عندلیب بھٹکل مولوی زفیف شینگری ندوی پر  مشتمل جو قافلہ ۱۳ ستمبر کی شام کو  گجرات کے  مختلف علمی مراکز اور تاریخی مقامات کی زیارت کے مقصد سے بھٹکل سے نکل پڑا تھا، اس کے میزبان سرزمین گجرات  پر   ادارہ الحمد کے جوان دل ڈائرکٹر مولانا مفتی طاہر سورتی صاحب  اور جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین دابھیل کے پرجوش استاد مولانا مفتی  محمد اویس گودھرا صاحب کی بابر کت شخصیات تھیں، اور پھر  آپ کے نیاز مندان اور رفیق مولوی داؤد میمن، مولوی منور، مولوی مصعب منیار، اور شبل من ذلک الاسد   مولوی زاہر بن مفتی طاہر سورتی صاحب  سایہ کی طرح لگ گئے  ۔

جو ٹرین ہمیں بروڈاسے بھٹکل لے جارہی تھی اس کا آخری اسٹیشن ناگرکوئل  تھا، ہندوستان کے آخری کنارے پر واقع اس شہر کے  بالمقابل  مشرقی سمت پر جزیرہ سری لنکا  واقع ہے، جسے عرب جغرافیہ دانوں نے سراندیب کا نام دیا ہے۔ یہ وہی جزیرہ ہے جس کے بارے میں روایتین مشہور ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے قدم اقدس جنت سے دنیا میں اترنے کے بعد پہلے پہل یہیں آکر پڑے تھے،  اس جزیرہ  کی یہ اہمیت  یہ بھی ہے کہ جب ہندوستان میں اسلام کے داخل ہونے کی بات آتی ہے تو قدم آدم کی زیارت کا قصد کرنے والے عرب زائرین کا تذکرہ کئے بغیر  یہ  تذکرہ مکمل نہیں ہوتا ، وطن عزیز میں دخول اسلام کی بات اسلئے یاد آئی کے جب ہم بروڈا سے نکلنے والے تھے تو چند منٹ پہلے  محترم مولانا سید محمد ارشد مدنی دامت برکاتھم، صدر جمعیت علمائے ہند کا بیان نظر سے گذرا  تھاکہ*  ہندوستان  میں اسلام حملہ آوروں سے نہیں بلکہ عرب تاجروں کے ذریعہ سے آیا*۔

اس سفر میں ہم ہندوستان میں دخول اسلام کے ان مقامات کی  زیارت کرنے آئے تھے، جو ہندوستان میں عرب تاجروں اور جہازرانوں کی شمال مغربی ساحل پر  آخری بندرگاہیں ہوا کرتی تھیں۔ انہیں عبور کرنے کے بعد پھر خشکی کے  وہ راستے  شروع ہوتے ہیں، جہاں سے مسلم فاتحین ملک میں داخل ہوئے، اور جن راستوں پر  بادبانی کشتیوں اور پانی  جہازوں کے بجائے ہاتھی ، گھوڑے اور بیل گاڑیاں چلا کرتی تھیں، ہماری ٹرین  کی آخری منزل وہی تھی جو ہندوستان کے ساحل پر کبھی عرب تاجروں اور جہازرانوں کی آخری بندرگاہ ہوا کرتی تھی، کارومنڈل جسے عرب جغرافیہ داں اور مورخ* معبر*  کا نام دیا ہے، یہاں پر سراندیب تک پہنچنے کی قریب ترین سمندری گزرگاہ  واقع تھی، اسے عبور کرکے ہی تمام  سیاح سراندیپ میں قد م رنجہ ہوسکتے تھے، یہی معبر ہے جس کی طرف دسویں صدی ہجری کے عظیم  شافعی فقیہ شیخ زین الدین المعبری الملباری ؒ مصنف فتح المعین شرح قرۃ العین منسوب ہیں، ناگرکویل اس عظیم مسلم اکثریتی قصبے کا اسٹیشن ہے جو تاریخ میں مصر کےدارالخلافہ  قاہرہ کی طرف منسوب  ہوکر قاہرہ پٹن کہلاتا تھا،  اور اس طرف  بھی منسوب ہوکر یہاں کے علماء و مصنفین قاہری نسبت سے معروف ومشہور تھے،   موجود ہ زمانے میں اس قصبہ کا تحریف شدہ نام* کایل پٹنم  *رائج  ہے۔ اگست ۲۰۱۹ ء میں مولانا فیصل بھٹکلی ندوی کی رفاقت میں   اس قصبے کی زیارت نصیب ہوئی تھی، ابھی   اس کا قرض چلا آرہا ہے، یہ   قصبہ اب بھی عربی روایات کا امین ہے، یہاں کے گھرانوں میں  اب بھی ٹامل زبان عربی رسم الخط میں رائج ہے جسے *اروی* کہاجاتا ہے،  یہاں کے لبابین برادری کے افراد  علاقے  کے مسلمانوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، شاذلی اور قادری  سلسلوں کی پرانی خانقاہیں اب بھی یہاں  آباد ہیں، اور ان کے سلسلے براہ راست عرب  کے علماء و صلحاء  اوربزرگان دین سے ملتے ہیں،  اسی کے  قریب قصبہ کیلے کرے کا قدیم قصبہ بھی ہے، جہاں پر بھی عرب نژاد نسلوں کی خوشبوئیں رچی بسی ہوئی ہیں۔

 قریبی قصبہ ترچناپلی میں  علاقہ کے مایہ بزرگ حضرت  طبل عالم نطہر ولی  رحمۃ اللہ علیہ آسودہ خاک ہیں ،مولانا قاضی بدر الدولۃ مدراسیؒ نے آپ کا مفصل تذکرہ کیا ہے، جس میں آپ کی  تاریخ وفات ۱۴؍ رمضان المبارک ۶۲۴ء بتائی ہے، اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ  حرمیں سے ہندوستان آتے ہوئے   بھٹکل کے بالمقابل بیس کلومیٹر پر واقع جزیرہ نتھرا پر آپ نے  چلہ کشی کی تھی، اور یہیں سے ہوتے ہوئے معبر کے علاقے میں پہنچے تھے، نئے جغرافیہ کی کتابوں  میں یہ جزیرہ نتھرانی کے نام سےموسوم  ہے، لیکن  ہم حضرت نطہر ولی ؒکی طرف نسبت کرتے ہوئے ، اس جزیرہ کو نطہرایا نتھرا بچپن سے سنتے آرہے ہیں، نائطی زبان میں نسبت کے لئے یائے حطی کے بجائے الف کی اضافت ہوا کرتی  ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان باتوں کو یہیں چھوڑ دیتے دیتے ہیں، کبھی اللہ تعالی نے توفیق دی تو*  کایل پٹنم* میں جو دیکھا  اس کا تذکرہ ہوگا۔

حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمۃ جب ہمارے گاؤں تشریف لاتے تو یہی کہتے کہ یہاں مجھے صحابہ وتابعین کی خوشبو آتی ہے، اس علاقے میں اسلام براہ راست اور تازہ دم پہنچا، اور ہمارے یہاں شمال میں ہاتھ بدلتے  سکنڈ ہینڈ اسلام، بغداد ، ایران وخراسان ، اور افغانستان سے ہوتے ہوئے  درہ خیبر کے راستےپہنچا ہے، اس دوران اسلام کوماننے والوں کے مزاج میں کئی تبدیلیاں ہوئی، دین کی روح بھی متاثر ہوئی، دین اصلی وخالص ہمارے ملک تک نہ پہنچ سکا،حضرت مولانا کی اس بات کا اطلاق گجرات کے بھروچ سے ہندوستان کے مغربی ساحل کے علاقوں اور خلیج منار پر واقع کایل پٹنم تک  کے ہزاروں میل پر پھیلی پٹی پر ہوتا ہے۔ بھروچ کے ساتھ ساتھ  ان میں ، گندار، گوگا، سورت، وسئ،دابھول، ہنور، بھٹکل، اور ابن بطوطہ  اور تحفۃ المجاہدین کے  مصنف کے نشان کردہ بسرور، فاکنور، منگلور،کاسرکوڈ،  کوڈنگلور،پوننانی،درمفتن، فندرائینہ،کولم، کوژیکوڈ، ھیلی ،ماراوی، جرفتن وغیرہ بہت سے نام آتے ہیں، جن پر تاریخ کی دبیز تہیں  چڑھی ہوئی ہے، اور عرصہ ہوا قومی حافظہ سے یہ مقامات محو ہوچکے ہیں، گجرات کا یہ سفر ان پاکو ں کے ان نقوش پا کی تلاش میں تھا جو حقیقی معنوں میں ہمارے سب سے سے عظیم محسن تھے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ جاری

WA:+971555636151

https://telegram.me/muniri