نقوش پا کی تلاش میں۔۔۔ گجرات کا ایک مختصر سفر (۰۷)۔کھرود اور بھڑوچ ۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

09:29PM Thu 14 Oct, 2021

جمعرات کی صبح ہمارا قافلہ سورت سے روانہ ہوا، ہماری اگلی منزل  جامعہ قاسمیہ کھروڈ تھی،  یہاں کے اکابر مولانا محمد اسماعیل کاپودروی، مولانا محمد ایوب پانولوی مہتمم جامعہ اور مفتی محمد زبیر صاحب وغیرہ سے ملاقاتیں ہوئیں، انہی بزرگوں کی معیت میں  پرتکلف ناشتہ ہوا، اور جامعہ کی زیارت ہوئی، جامعہ بڑی خوشنما جگہ پر قائم ہے، عمارتیں بھی صاف ستھری اور مرتب  ہیں، یہاں پر اعلی علمی وتصنیفی ذوق کا احساس ہوا، قریبی دور میں گجرات کی عظیم علمی و فکری شخصیت حضرت مولانا مفتی عبد اللہ کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ اس جامعہ کے سرپرست تھے، آپ کے فرزند اس وقت اس جامعہ سے وابستہ ہیں، آپ کی کتابوں کا ذخیرہ بڑے ہی منظم انداز میں یہاں پر محفوظ ہے، جسے دیکھنے ہی سے آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہوتی  ہے، مولانا کاپودری علیہ الرحمۃ ایک مرتبہ بھٹکل تشریف لاچکے ہیں، جن شخصیات کی ملاقات سے محرومی پر اس ناچیز کو افسوس رہا ان میں آپ کی بھی شخصیت  شامل ہے۔ جن  لوگوں نے آپ کو دیکھا ہے، وہ آپ کے تعریف میں رطب اللسان ہیں، کہتے ہیں بڑا وسیع ظرف پایا تھا، اس کتابی ذخیرے  اور صاحب کتب کے وسعت مطالعہ اور ذوق کتب بینی کو دیکھ کر ملاقات سے محرومی کا احساس اور بڑھا۔ اللہ آپ کی قبر اپنی رحمتوں سے بھر دے۔ کتب خانے میں کئی ایک نوادرات محفوظ ہیں، ان میں  ۱۲۸۳ھ میں مطبع مجتبائی سے شائع شدہ ایک مصحف پر ہماری نظر جم گئی، اس مصحف کو منشی ممتاز علی نے لکھا ہے اور اس کی تصحیح حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ نے کی  ہے۔ مولانا عبد القادر دہلوی ؒ کا ترجمہ حاشیہ پر ہے۔

بھروچ

یہاں سے ہشاش بشاش ہوکر ہم گجرات کے تاریخی شہر بھروچ  کی طرف گامزن ہوئے،  وسط مغربی ہندوستان میں ریاست گجرات کا شہر جو کہ قدیم تاریخوں میں بھروکجھا Bharukacchaکے نام سے ذکر کیا جاتاہے ، یہ بحر عرب کی خلیج کھمبات میں دریائے نرمدا کے دہانے پر واقع ہے ۔ اس کا شمار ہندوستان کی قدیم بندرگاہوں میں ہوتا ہے ۔ اس کا تذکرہ ۸۰ء کی کتابوں اور مہابھارت میں ملتا ہے ۔ دوسری صدی عیسوی میں اس پر کشتر پاس Kratrapasنے اور ساتویں صدی عیسوی میں گوجروں نے حکومت کی ۔ (Britanica)

بلازری کے مطابق جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت حکم بن ابی العاص ثقفی کو ۱۵ھجری / ۶۳۶ء میں بحرین و عمان کا گورنر مقرر کیا تو آپ نے اپنے بھائی حضرت حکم بن ابی العاص کو یہاں فوج کشی کے لیے بھیجا ۔ محمد بن قاسم ثقفی کے ہاتھوں سندھ کی فتح بہت بعد میں ۸۹ھ / ۷۰۷ء کو ہوئی ۔(فتوح البلدان)  اس شہر کا تذکرہ مسعودی ، ادریسی ، یاقوت ، دمشقی اور نویر ی نے کیا ہے ۔

یاقوت نے لکھا ہے کہ ہندوستان کا مشہور بڑا اور اچھا ساحلی شہر ہے ، یہاں سے نیل اور چمڑے سے داغنے کا رنگ لاتے ہیں (معجم البلدان ۱/۵۹۵)

دمشقی کے مطابق بھروچ شہر کافی بڑا ہے ، اس میں چار ہزار قریب گاؤں ہیں، اس کی کھاری کی لمبائی دو دن کی مسافت کے برابر ہے ۔ اس میں مدو جزر ہوتا ہے ۔ اور سمندر سے آکر کشتیاں اسے عبور کرتی ہیں ۔ یہاں مرچ ، بید بہت پایا جاتا ہے ۔ (نخبۃ الدھر ۱۷۲)

بربوسا کہتا ہے کہ یہاں کی بندرگاہ بہت خوب ہے ۔ جہاں جہازرانی بڑے پیمانہ پر ہوتی ہے ، یہاں سے بہت سی جگہوںکو سامان جاتا ہے۔ ۔ ۔ (Barbosa 1/136)۔

راندیر کی طرح بھروچ  میں بھی ہماری خواص دلچسپی تھی، کیونکہ یہاں پر ایک قدیم بزرگ مولانا اسحاق صاحب آسودہ خاک ہیں۔ جن کا  ہندوستان میں نائطی برادری کے قدیم بزرگان میں شمار ہوتا۔ خانوادہ بدر الدولۃ کے نسب نامے میں مخدوم فقیہ اسماعیل ؒ کے والد کا نام اسحاق درج ہے۔ اور اس خانوادہ کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ  بھروج میں آسودہ خاک  یہی بزرگ ان کے جد اعلی ہیں۔ یہاں پر ایک خانقاہ بھی ہے جس کے سجادہ نشین  سید محمد صادق حیدر صاحب ہیں، جن کی عمر اسی سے متجاوز ہے،

اس وقت وہ یہاں ایک ملازم کے ساتھ تنہا رہتے ہیں۔ آپ کی دو بیٹیاں ہیں جو کینیڈا اور احمد آباد میں رہتی ہیں۔  پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنی حفظان صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ لہذا آپ نے کورونا کی وجہ سے صرف اس ناچیز کو ملاقات کی اجازت دی۔ چنئی ، حیدرآباد وغیرہ کے نائطی بزرگوں کی طرح تعلیم یافتہ نظر آئے۔ باتیں بھی بڑی سلجھی  ہوئی کرتے ہیں، گورے چٹے ناک نقشہ  خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے بزرگوں  جیسا ہی  لگا۔  ان سے معلوم ہوا کہ ان کے سلسلے میں تین چیزیں منع ہیں۔ تعویذ بنانا، چندہ اور مال جمع کرنا، اور لوگوں سے بیعت لینا۔

کسی سجادہ نشین سے یہ شرطیں زندگی میں پہلی مرتبہ سننے کو ملیں، شاید آپ کے لئے بھی یہ اچھنبے کی بات ہو، لیکن جن لوگوں نے خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے سپوتوں مولانا قاضی محمد حبیب اللہ، اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو دیکھا اور  ان کے سامنے دنیا کی بے وقعتی کو جانا ہے،ان کے لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔صادق صاحب سے معلوم ہوا کہ مغل شہنشاہ جہانگیر نے اس خانقاہ کو تین گاؤں دئے تھے، اور اورنگ زیب عالمگیر بھی شیواجی کا پیچھا کرتے یہاں تک آئے تھے۔ ان سےیہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کا خاندان ایک ہزار سال قبل یہاں آباد ہوا تھا، اور ان کے پاس محفوظ دستاویز ات کے مطابق اس خاندان کے جد اعلی مولانا صبغۃ اللہ ہیں، جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ کے فرزند ابراہیم کی قبر کے ساتھ آسودہ خاک ہیں۔ خانقاہ کے ماتحت ایک مسجد بھی ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ  ۴۳۰ھ سے پہلے تعمیر ہوئی تھی۔ صادق صاحب کے بقول ان کے پاس  محفوظ قدیم دستاویزات کے مطابق مولانا اسحاق کی والدہ بھٹکل میں مدفون ہیں۔ آپ نے اس بات پر بڑی معذرت کا  اظہار کیا ہے کہ ان کا کوئی معاون نہ ہونے اور پیرانہ سالی کی وجہ سے قدیم دستاویزات دکھا نہ سکے، ورنہ ان کے پاس  بڑی قیمتی اور تاریخی دستاویزات محفوظ ہیں، جن میں سے زیادہ تر احمد آباد میں ان کی دختر کے گھر پر ہیں۔ آپ نے بتایا کہ ان کے پاس ایک بارہ سو سال پرانا مصحف ہے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب واسکوٹ بھی ہے۔

آپ نے بتایا کہ  ترکی کے خلیفہ عثمانی سے یہاں عرس کا صندل آتا تھا، اور جب آپ ترکی گئے تو  آپ کی نسبت کی وجہ سے وہاں پر  بڑی پذیرائی ہوئی۔  آپ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راندیر میں خانقاہ رفاعیہ کے سجادہ نشین ڈاکٹر فاروق صاحب اور سورت میں خانقاہ عیدروسیہ کے سجادہ  نشین بھی نوائط برادری سے تعلق رکھتے ہیں،اور سورت کی خانقاہ قادریہ کے سجادہ نشین آپ کے بہنوئی ہیں۔

مورخ گجرات مولانا سید ابو ظفر ندوی کے بقول مولانا اسحاق علامہ شاہ وجیہ الدین  ف ۹۹۸ھ کے شاگرد تھے، انہوں نے تکمیل تعلیم کے بعد بھروچ میں ایک مدرسہ عالیہ قائم کیا، اس کے ساتھ ایک دارالاقامہ بھی تھا، عہد جہانگیر میں اس کے اخراجات کے لئے کچھ موضع بھی وقف تھے، مولانا اسحاق کے بعد عرصہ تک یہ مدرسہ قائم رہا ، پھر تنزل کرتے کرتے ، ایک معمولی مکتب کی شکل میں آگیا، یہ مدرسہ ۱۰۲۵ھ۔ ۱۶۱۲ء غالبا قائم ہوا تھا،  وہاں ابھی حال میں طلبہ کے لئے ایک بورڈنگ تعمیر ہوگیا ہے، مشہور ہے کہ اس مدرسے سے پہلے ۴۳۰ھ میں  ایک مدرسہ یہاں موجود تھا، ممکن ہے بعد میں اس کے بند ہوجانے پر اس کی تجدید کی گئی ہو ۔    ان باتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے  انہیں خانوادہ بدر الدولۃ کا جد اعلی ماننا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

ہماری رائے میں یہ مولانا سید صبغہ اللہ بن روح اللہ بھروچی کے فرزند ہیں، آپ گلبرگہ کے مخدوم سید محمد حسینی گیسو دراز کے داماد تھے، آپ کی وفات ۱۰۱۵ھ ۱۶۰۷ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ جیسا کہ صادق صاحب نے بتایا کہ قدیم دستاویزات کے مطابق  آپ کی اہلیہ یعنی مخدوم گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ کی دختر   بھٹکل میں آسودہ خاک ہیں، تو پھر یہ بات عقل کو لگتی ہے کہ مولانا سید صبغۃ اللہ بھروچی بھٹکل سے بھروچ جاکر آباد ہوئے تھے۔ اور تاریخ کے تانے بانے ملانے سے یہ نتیجہ نکل رہا ہے کہ ابن بطوطہ کے دور کی سلطنت ہنور سے نوائط بھٹکل  منتقل ہوئے تھے ، وہاں سے پھر جنوبی ہند میں پھیلے۔  پرتگالی مورخین سلطنت ہنور کو نوائط کی اولین آبادی مانتے ہیں۔

اس خاندان کے ماتحت ایک قدیم مسجد بھی ہے جس کا اندرون حصہ صندل سے بنا ہے،  ۱۹۷۲ء کے زلزلہ کے بعد یہ مسجد بہت کمزور ہوگئی ہے، اس کے متولی اپنے پیسوں سے ہزار سالہ قدیم اس مسجد کی مرمت کرنا چاہتے ہیں، ایک دھڑکا سا لگتا ہے، کہ شاید  اس کا موقعہ نہ ملے اور یہ تاریخی ورثہ زمین بوس ہو جائے۔

کوئی بتانے والا رہنما ہو تو بھروچ میں تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بہت سا سامان ہے۔  دریائے نرمدا کی چوڑائی اب یہاں  پربہت کم ہوگئی ہے۔ کسی زمانے میں جس بندرگاہ کو باب مکہ کہا جاتا تھا اب وہ کھیت کھلیاں میں تبدیل ہوچکی ہے، پرانے کسٹم ہاوس کے نشان اب بھی موجود ہیں۔ ماضی کی یاد دلانے والی عظیم الشان مسجدیں بھی ہیں، جن  میں سے بعض پر  ۴۵۸ ھ کی تاریخ کندہ ہے۔

بھروچ  ہندوستان میں پارسیوں کی ابتدائی آبادیوں میں شمار ہوتا ہے، یہاں پر ان کا آتشکدہ بھی موجود ہے، جس کے پروہت نے بتایا کہ چارسو سال سے یہاں کی آگ جل رہی ہے، یہاں سے پارسیوں کی مشہور شخصیات ابھری ہیں، اندرا گاندھی کے شوہر فیروز گاندھی یہیں کے تھے، آج بھی ان کا  پرانا آبائی مکان محفوظ ہے، بوہروں کی بھی یہاں پر بہت بڑی آبادی ہے۔