نقوش پا کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۹) ۔ ۔۔ اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو۔۔۔ از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

07:04PM Mon 25 Oct, 2021

پروفیسر بمبئی والا صاحب نے   بتایا کہ  ان کا واحد  مقصد   یہ ہے کہ  لائبریری کو کسی طرح آگے بڑھایا جائے،علمی ورثہ جس قدر اور جہاں سے بھی مل جائے اسے جمع کیا جائے، جستجو کبھی  ختم نہیں ہوتی، جو ہاتھ آئے ہمارا ہے،اور یہ کہ ہر کتاب کو اس کا قاری مل جائے، اور ہر قاری کو اس کی مطلوبہ کتاب ۔ لہذا ان حضرات کی انتھک کوششوں سے کتب خانے میں چالیس ہزار مطبوعات، پانچ ہزار نایاب رسائل،  انسائیکلو پیڈیا  اور ریفرنس قسم  کی اتنی ریفرنس کتابیں جو کسی اور کتب خانے میں یکجا نہ مل سکتی ہوں، آپ نے خود گجراتی سے اردو میں پہلی اور ضخیم ڈکشنری ترتیب دی ہے جس کے سات ایڈیشن ابتک چھپ چکے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ پیر محمد شاہ   لائبریری کی خوش قسمتی یہ تھی کہ یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے  علم دوست محققین کی ایک  اچھی خاصی تعداد  اسے مل گئی ، لیکن اس  کی خامی یہ تھی  کہ اسے کوئی ایسی جامع شخصیت نہ مل سکی جسے عربی فارسی گجراتی اور انگریزی پر یکسا ں عبور حاصل ہو،  گجرات کے علما ء حضرات نے اس طرف توجہ نہیں دی، ورنہ یہ کام اصل میں  انہیں کے کرنے کا تھا، کیونکہ گجرات کے علما ء کا بڑا ذخیرہ فارسی اور عربی میں ہے۔لہذا کام ٹکڑے ٹکڑے ہوکر جاری ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے مولانا مفتی عبد اللہ کاپودروی کو بھی متوجہ کیا تھا۔

پروفیسر بمبئی والا صاحب  دریا کے بہاؤ کی طرح رواں تھے، شاید مدت کے بعد ان کا درد سننے والے چند افراد انہیں مل گئے تھے، اور ان سے انہیں بہت ساری امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں، وہ کہ رہے تھے کہ احمد آباد میں مسلم دور میں کاغذ اور مشروع کپڑا بنتا تھا جس میں سوت کے ساتھ ریشم بھی شامل ہوتا تھا، جسے بادشاہ پہنا کرتے تھے، اب ان سب کے نمونے کہاں ہیں؟، ایران نے فردوسی کا میوزیم بنایا،  اور اس کی سب چیزیں یہاں محفوظ کیں،لیکن  ہمارے یہاں ان انجنیروں اور معماروں کا نام بھی کوئی نہیں جانتا جنہوں نے  سدی بشیر، سدی سعید ،  اورروپ متی  کی مسجدیں  تعمیر  کرکے  دنیا کو فن معماری کا  ایسا انمول نمونہ دیا، جس پر آج  کے  گجرات کو  بھی فخر کرنے  سے مفر نہیں۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ ترقی کرگئے ہیں اور سدھر گئے ہیں، لیکن یہ کیسی ترقی اور سدھار ہے؟ ہم تو اپنی اصلیت سے دور ہو تے جارہے ہیں۔

اب تو ہماری زبان بھی بدل گئی ہے، اس میں سے رائج عربی وفارسی کے الفاظ سے ہم  ناآشنا ہوگئے ہیں، ایک مرتبہ آپ کے بڑے بھائی مفتی عبد العزیز صاحب کے گھر جانا ہوا، گھر والوں نے پوچھا کہ کیا پکائیں، آپ نے  کہا کہ سگلا بگلا، مفتی صاحب کہنے لگے کہ بگلا تو کہیں سے پکڑ لاؤں گا، لیکن یہ سگلا کیا چیز ہے؟ تو آپ نے وضاحت کی کہ یہ سگلا سالم یا مکمل کے معنی میں ہے  اور بگلا عربی کا بقلۃ  (لوبیا )ہے۔ یہ گجرات کی مشہور ڈش تھی، اسی طرح ایک ہوٹل میں کسی مسافر نے بیت الخلا لے جانے کو  کہا ، ویٹر بیت الخلا کیا جانے؟ اس نے  سمجھا کہ کسی دور جگہ لے جانے کو کہ رہے ہیں،  رکشا  والے کولے آیا کہ انہیں بیت الخلا پہنچا دیں، تلسی داس کی رامائن میں استعمال شدہ الفاظ کی تحقیق کی گئی تو اس میں ایک سو ستر الفاظ عربی اور فارسی  زبان کے نکلے، گجراتی زبان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس میں ۶۰ فیصد الفاظ عربی وفارسی کے ہیں۔ اب جو نئی زبان بولی جاتی ہے نہ وہ بچوں کی سمجھ میں آتی ہے نہ بڑوں کی۔

جب بمبئی والا صاحب سے دریافت کیا گیا کہ علماء و فارغین مدارس کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے تو فرمایا کہ

وہ لگ بھگ ہندوستان کے تمام مدارس دینیہ میں گئے ہیں، یہاں پر قلمی کتابوں سے لگاؤ کم ہے۔ فارسی میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ ہمارے یہاں پایا جاتا ہے، راندیر کے دارالعلوموں میں جانا ہوا، یہ  مسلمانوں کی اولین بستیوں میں  رہی ہے، یہاں کے مدارس والوں کو اس جگہ  کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ سب سنی سنائی باتیں ہیں، جن کے علمی شواہد  پائے نہیں جاتے، ہم نے یہاں سے امویوں اور عباسیوں کی تاریخ ختم کردی، حضرت عثمان ثقفیؒ جب گجرات آکر واپس گئے تو ان کے ساتھ گجرات کے لوگ بھی تھے، وہ کون تھے؟ ان میں سے  کسی کے بارے میں  ہمیں کچھ معلوم نہیں، اکبر اعظم کا صدر الصدور گجرات سے تھا، کوئی اس کے حالات  نہیں جانتا، جب ہماری تاریخ معلوم ہوگی تو ہم اپنے دین کو پہچانیں گے۔  گجرات میں عربی زبان کا بہت لٹریچر لکھا گیا، ہمارے پاس اس میں سے کچھ نہیں بچا۔ ہمارے علماء کو اس کا علم ہونا چاہئے۔

جی چاہتا تھا کہ پروفیسر صاحب بولتے جائیں، لیکن مغرب کی آذان نے باتوں پر بریک لگا دیا۔ مغرب بعد بھی ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ بیٹھے رہے،چائے پلائی،اور کتابوں کی شکل میں قیمتی تحفے دئے، سیڑھیوں سے نیچے اتر تے ہوئے ہمارے  پاؤں بوجھل ہورہے تھے،جی چاہ رہا تھا کہ وقت رک جائے،اور دماغ سوچ رہا تھا کہ یہ منحنی جسم اور ساڑھے پانچ فٹ سے کم قد  کا انسان جس  نے  زندگی کی نوے بہاریں دیکھیں، جن میں سے پچاس سے زیادہ عرصہ علم وتحقیق کی سربلندی اور قوم کی عظیم علمی وراثت کو محفوظ کرنے اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچانے میں گذرا ہے،   تنہا ہے، وہ شہرت اور ناموری سے دور  گوشہ تنہائی میں قوم کی شناخت اور ملی ورثہ کی حفاظت میں سرگرداں  بچی کچی اپنی ساری توانائیاں کتابوں کی الماریوں کے درمیان نچوڑ رہا ہے، اس کے ساتھ علامہ ، مفکر اسلام ، حضرت جیسے بھاری بھرکم الفاظ کی قطار نہیں، عمر کے اس آخری پڑاؤ میں فکر مند ہے کہ جس انمول سرمایہ کو جمع کرنے  میں  زندگی کی پونچی اور صلاحتیں نچھاور کردیں،  اسے محفوظ ہاتھوں میں چھوڑ جائے، آپ بھی سوچئے یہ کام تو علمائے دین اور دارالعلوموں کے فارغین کے کرنے کا تھا،  جن پر یہ ذمہ داری تھی ،آج وہ کس مقام پر کھڑے ہیں ؟  اس فریضہ کی ادائیگی ان کی ترجیحات میں کہاں تک شامل ہے؟ پیر محمد شاہ لائبریری احمد آباد کی شکل ایک عظیم امانت ہمارے اہل علم کی توجہات کے انتظار میں ہے۔ وہ معاشرے جو اپنے ثقافتی اور تہذیبی اور تاریخی ورثہ سے کٹ جاتے ہیں،  دنیا کی قوموں میں اپنی اہمیت کھودیتے ہیں، جن قوموں  کا حال ماضی سے مربوط نہ ہو، اور حال کو مستقبل سے نہیں جوڑتے ہوں وہ قومیں تاریخ کے حافظے سے  مٹادی جاتی ہیں، ہم  کیا تھے یہ بتانے کے لئے ہمارے پاس اب صرف سنانے کی داستانیں رہ گئی ہیں، مستند حوالوں  کو زمانہ ہوا ہم نے چھوڑ دیا ہے، آج کے تعلیم یافتہ دور میں کتابی حوالے کے بغیر کوئی بات قبول نہیں کی جاتی، اس کے لئے پتہ مار کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تحقیق  تنہائی اور یکسوئی کی طالب ہے، یہ شہرت طلبی کے سستے ہتکنڈوں سے  قدر وقیمت نہیں پاتی ، پروفیسر بمبئی والا سے ملاقات کرکے لوٹ رہا تھا، تو دماغ میں ایک ہلچل  بپا تھی،کہتے ہیں کہ بعض لوگ  رائی کا دانہ بھی چباتے ہیں تو چاروں طرف  چر چر کی آواز سنائی دیتی ہے، لیکن ان میں بعض ہاتھی بھی نگلیں  تو ڈکار تک نہیں آتی۔  ریڈنگ روم کی تنہائی میں شہرت وناموری کے ہتھکنڈوں سے بلند ہوکر جو علمی وتحقیقی کام کرتے ہیں،  ملت کو وقار بخشنے والے یہی لوگ ہیں، انہی سے تہذیبوں اور ثقافتوں کی رونق باقی ہے، یہ وہ لوگ ہے جو قوموں اور معاشروں کو تاریخ کی زنجیر سے جوڑتے ہیں، کیا ہم پروفیسر سید محی الدین بمبئی والا جیسی انمول ونایاب شخصیا ت کے کام اور مشن سے کچھ سبق حاصل کرپائیں گے؟ جواب سوچئے، اور آئندہ قسط تک کے لئے اجازت دی جئے۔

2021-10-23