نقوش پا کی تلاش میں۔۔۔ گجرات کا مختصر سفر(۰۴)۔۔۔عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

08:06PM Thu 30 Sep, 2021

 پہلے روز جب ہم حضرت مولانامفتی احمد خانپوری دامت برکاتھم شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین دابھیل کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو وہاں پر مولانا قاری عبد اللہ میاں صاحب سے بھی شرف ملاقات حاصل ہوا تھا، مولانا بڑے باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں، اور ایک ایسے خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے گجرات اور برصغیر کے دینی  و علمی اداروں پر احسانات کی پختہ چھاپ موجود ہے۔ ان حضرات  کے ربط وتعلقات برصغیر کے تمام اکابر سے رہے ہیں، اس خاندان کے زیادہ تر افراد جنوب افریقہ اور دوسرے ممالک میں آباد ہیں، ہندوستان میں اس کے اب صرف  دو افراد مولانا قاری عبد اللہ صاحب اور ان کے بھائی  باقی رہ گئے ہیں ۔ یہ ان کے والد ماجد اور دادا سبھی گجرات کے آفتاب وماہتاب رہے ہیں۔

 آپ کے دادا مولانا محمد میاں سملکی رحمۃ اللہ دابھیل میں المجلس العلمی اور ترانسفال میں جمعیۃ العلماء کے قیام کے محرکین میں تھے، آپ نے  حضرت مولانا  محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی  وفات کے بعد آپ کی اولاد کی کفالت کا خیال خاص رکھا، آپ کے فرزند مولانا محمد انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم وتربیت کی بڑی فکر کی  جو اپنے والد ماجد کے انتقال کے وقت بہت چھوٹے  سے تھے ۔آپ ہی نے  حضرت کشمیر یؒ کی اولاد کو دوبارہ دیوبند سے جوڑنے میں اہم کردار نبھایا تھا۔مولانا انظرشاہ صاحب کی تعلیم مدرسہ امینیہ دہلی سے شروع ہوئی تھی، مولانا محمد میاں سملکی ؒ نے  یہاں سے آپ کو نکال کر دارالعلوم دیوبند میں داخل کیا تھا۔

 آپ کے فرزند مولانا عبد الحق میاں سملکی ؒ بھی گجرات کی ایک عظیم ہستی تھے، آپ کو حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ نے خلافت سے نوازا تھا، حضرت حکیم الامت تھانویؒ سے بھی آپ کا گہرا تعلق تھا۔ حضرت تھانویؒ کو غسل جنازہ دینے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ اس وقت جو صابون استعمال کیا گیا تھا، وہ اب بھی آپ کے فرزند کے پاس محفوظ ہے۔ دابھیل اور سملک میں اکابر علمائے دیوبند کے کئی ایک تبرکات محفوظ ہیں ، جن میں حضرت کشمیری ؒ کی ٹوپی، آپ کی اسانید، فارسی زبان میں آپ کے خط میں آب بیتی کے صفحات، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا استعمال کردہ رومال وغیرہ۔ مولانا عبد الحق میاں ؒ کا ایک عظیم کارنامہ سملک میں قائم جامعہ اصلاح البنات بھی ہے، جس کا تذکرہ ہم نے پہلے پہل  محترم الحاج محی الدین منیری ؒ سے سنا تھا، منیری صاحب نے ۱۹۷۴ء کے اواخر میں جب بھٹکل میں جامعۃ الصالحات قائم کیا تھا، تو جامعۃ الصالحات رامپور ، جامعۃ الصالحات مالیگاؤں۔ مدرسۃ النسوان وانمباڑی کے ساتھ ساتھ اس جامعہ کو بھی دیکھا تھا۔ مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ بھی سملک کے اس جامعہ کا اور مولانا عبد الحق ؒ کی محنتوں کا خوب ذکر کیا کرتے تھے، انہی سے ہم نے سنا تھا کہ یہاں پر انگلینڈ سے خواتین کو غسل جنازہ کی عملی تربیت کے لئے  میڈیکل کالجوں وغیرہ کی تجربہ گاہوں میں استعمال ہونے والی ایک گڑیا لائی گئی تھی۔ مولانا عبد اللہ میاں  صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو ہمیں پرانی سنی ہوئی بہت سی باتیں یاد آگئیں۔ مولانا نے دوسرے روز دابھیل سے روانگی  پر ملاقات کرنے کو کہا، ہمارا خیال تھا ، کہ سرسری سی ملاقات ہوگی، کیوں کہ ہم نے جامعہ کے بارے میں جو باتیں سن رکھی تھیں ، ان میں یہ بھی تھا کہ کوئی غیر محرم اس جامعہ میں پر بھی نہیں مارسکتا۔لیکن یہ کیا؟ صبح جب ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مولانا عبد اللہ میاں کے یہاں پہنچے،تو مولانا نے تو دل کھول کر رکھ دیا۔ اور جامعہ کا ایک ایک چپہ ان نو واردوں پر کھول دیا۔  جامعہ کے درو دیوار دیکھنے اور اس کے نظم ونسق کی معلومات جانے کے بعد تو محسوس ہوا کہ ہم نے ایک نئی دنیا دیکھی ہے، جس سے ہم ابتک آشکارا نہیں تھے۔

پہلے ہم نے  جامعہ کو باہر سے دیکھا، مستطیل نما عمارت، پڑھانے والے عموما مرد اساتذہ، باہر  سے بالکونی جیسے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے، جن میں اساتذہ کے سامنے ڈیسک اور مائک، استاد اور طالبات کے درمیان دیوار، ہیڈ فون سے مدرس سوال وجواب دیتے ہوئے۔ اندر داخل ہوئے تو آفس جس  میں بچوں کے سرپرست آکر اپنی بچیوں سے مل سکتے ہیں۔ پھر طالبات کی دنیا، درسگاہ، مسجد ، ہوسٹل، باغ ،مطبخ، مذبح خانہ، غذائی اجناس کا بھنڈار،  اسپتال ڈاکٹر نرس  وغیرہ کے جملہ انتظامات۔ دور سے چند بچیوں کے کتب حدیث سے احادیث  پڑھنے کی آوازیں سنائی دیں، محسوس ہوا کہ عبارت خوانی ،اور صحت ادائیگی میں یہ بچیاں کسی طرح لڑکوں سے پیچھے نہیں ہیں ۔ معلوم ہوا کہ چونکہ شادی شدہ  لڑکیوں  کی موجودگی سے طالبات کی عفویت اور فطری سادگی پر میل آنے کا خطرہ رہتا ہے، اور غیر شادی شدہ مستقل مدرسات کا ملنا بہت دشوار  ہوتا ہے، لہذا حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بزرگان سے  مشورہ کے بعد مرد اساتذہ کی تقرری   عمل میں لائی گئی۔

جامعہ کا کونا کونا دیکھنے سے محسوس ہوا کہ  انسان جو سوچ سکتا ہے، ان سبھی ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترقی یافتہ  اسپتالوں کی طرح  حمامات میں ماہانہ پیریڈ کے پیڈ کو کسی کی نظر  میں پڑے  بغیر بھک سے  اڑادینے کا نظم بھی موجود ہے۔

بچیوں کے ہاسٹل ، ان  کی الماریاں وغیرہ دیکھنے سے  محسوس ہوا کہ بڑے سلیقے سے اور ایسے صاف ستھرے رکھے گئے ہیں کہ کہیں غبار کا نشان نہیں ملتا، اسے دیکھ کر دعا ء ہی نکل سکتی ہے کہ اللہ اسے نظر بد سے بچائے، اور گزشتہ نصف صدی میں جو محنتیں بنت حوا کی نسلوں کی تعلیم وتربیت کے لئے یہاں صرف کی گئی ہیں، ان کے نتائج خوب سے خوب تر نکلیں۔ اور اس گہوارہ نور سے تاقیامت نسلین روشنی پھوٹتی رہے۔  اس کے سوتے کبھی خشک نہ ہوں۔ بچیوں کی صحیح نہج  پر تعلیم وتربیت کے لئے کوشاں اداروں کو اس مثالی ادارے کو ایک مرتبہ ضرور دیکھنا چاہئے۔اس میں بہت کچھ ایسا نیا مل جائے گا، جس کا دوسری جگہ ملنا مشکل ہے۔

مولانا کی میزبانی اور مختصر اور خوبصورت محفل کے بعد  سورت اور راندیر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے بھر یہی سوچتے رہے کہ یہاں جو دیکھا بہت کم تھا، یہاں سیکھنے کی اور کئی ساری  چیزیں موجود تھیں، وقت کی کم دامانی نے ان سے محروم رکھا۔