نقوش پا کی تلاش میں۔۔۔ گجرات کا مختصر سفر(02)۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

03:03PM Tue 5 Oct, 2021

اللہ تعالی کی ذات حکیم ودانا ہے، اس کے یہاں بندے کے ہر کام کا ایک وقت مقررہے، گجرات کا ہمارا وہ سفر جس کا اختتام ۱۷ ؍ستمبر کی شام کو بروڈا سے ہونے جارہا رہا تھا، تھا توصرف تین دن کا، لیکن اس کی خواہش نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے دل میں پل رہی تھی، اس دوران ہزاروں میل دور سمندر پار کے سفر ہوئے، وطن عزیز  میں  جنوبی ہند کے آخری کنارے سے شمال کی انتہاء میں جموں تک کی خاک چھانی، لیکن کبھی گجرات سے گذر نہیں ہوسکا۔ ہمیں آج بھی یاد ہے، ۱۹۶۹ء میں جب عربی سوم میں پڑھتے تھے، تو القراءۃ الراشدہ دوم کے صفحہ (۵۴) پر  السلطان مظفر الحلیم الکجراتی پر اسباق شامل تھے، اس میں مولانا سید عبد الحی حسنی رحمۃ اللہ کی یادگار زمانہ کتاب نزہۃ الخواطر سے آپ کے تذکرہ کو تین اسباق میں تقسیم کرکے پیش کیا گیا تھا، مصنف نے اس میں اس بزرگ بادشاہ کی زندگی کے جو حالات بیان کئے تھے انہیں جان کر تو ایسا لگتا ہے، صحبت، علم ، تقوی ، اور عدل کا ایسا امتزاج برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں کسی اور بادشاہ میں نظر نہیں آیا، علامہ مجد الدین الایجی اور جمال الدین عمر بن المبارک الحضرمی (بحرق) جیسے عرب محدثین کے سامنے جس طرح آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا، اس کی دوسری مثال مل سکتی ہے تو صرف بہمنی سلطنت کے وزیر باتدبیرملک التجار محمود گاواں الگیلانیؒ کی جو حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کے شاگرد تھے، لیکن ایک بادشاہ اور وزیر سلطنت کے موازنہ میں کہاں میل ہوسکتا ہے؟

۸۱۰ھ میں گجرات میں قائم ہونے والی مظفرشاہی سلطنت نے ۹۹۳ھ میں شہنشاہ اکبر کے دور میں مغلیہ سلطنت میں ضم  ہونے تک جملہ (۱۸۳)سال تک بڑی شان بان سے حکومت کی، مسلم تہذیب وثقافت کے انمٹ نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑدئے ، اوریہ اس سلطنت کا امتیاز رہا کہ اس کے قائم کرنے والے کہیں باہر سے آنے والے مغل اور پٹھان نہیں تھے، بلکہ یہ سبھی گجرات کی مٹی سے اٹھنے والے انسان تھے۔

شاہان گجرات کے اسلامی تہذیب و تمدن کے نشانات دیکھنے کی خواہش ابھی  کہیں سینے میں دبی ہوئی تھی کہ چند سال قبل علم وکتاب واٹس اپ گروپ کی سیج سجی، اور اس سے کئی ایک بڑے باشعور نوجوان جڑ گئے، جو  تاریخ سےلگاؤ کو دیکھ کر ہمارے شوق کو مہمیز دیتے رہے، یہاں تک کہ سال گذشتہ گروپ کے معزز ممبران جامعۃ اسلامیہ تعلیم الدین دابھیل کے شعلہ جوالہ استاد مولانا مفتی محمد اویس گودھرا صاحب اور دار الحمد سورت کے بانی اور فعال عالم دین مولانا مفتی طاہر سورتی صاحب کی دبی میں اتفاقی ملاقات ہوگئی، یہ احباب شارجہ بک فیر سے اپنے اداروں  کے کتب خانوں کو معیاری کتابیں فراہم کرنے یہاں آئے تھے، ان سے یہ ملاقات تو پہلی تھی، لیکن ہمیں ایسا لگا کہ  زمانے کے بچھڑے ہوئے یار ملے ہوں، ازل سے جن کی  شناسائی ہے۔ان احباب کا اصرار اتنا بڑھا  کہ اب کے وطن میں چھٹیاں گزارنے کے ساتھ گجرات کے سفر کا پختہ ارادہ ہوگیا،اس وقت ایک اہم نام فراموش ہورہا ہے، جنہوں نے ان حضرات سے بھی پہلے ہمیں گجرات آنے کی  بڑے اصرار سے دعوت دی تھی، ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہم ان کی محبت اور قدردانی  کا مناسب جواب نہ دے سکے،  امید ہے کہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اس کوتاہی کو درگذر کریں گے، انشاء اللہ زندگی نے وفا کی تو ضرور ان کی خدمت میں حاضری کا کوئی موقعہ نکل ہی جائے گا۔اس وقت ہماری مراد  مولانا محمد حذیفہ وستانوی صاحب ہیں ، جو اپنے والد ماجد اور مسلم گجرات کے عظیم سپوت حضرت مولانا غلا م محمد وستانوی دامت برکاتھم کی سرپرستی میں مہاراشٹر اور گجرات کے سرحدی شہر اکل کوا میں  دینی وعصری تعلیم وتربیت کے عظیم مینارہ نور کا انتظام وانصرام سنبھالے ہوئے ہیں، اللہ تعالی ان حضرات کا سایہ قوم وملت پر تادیر قائم رکھے ، آمین۔

اب کی بار جب  ہمارے ذہن میں گجرات کے سفر کا خیال آیا، تو بھٹکل میں ادب اطفال ، کہکشاں اور لرن قرآن کے احباب نے بھی ساتھ چلنے کا عندیہ دیا اور توفیق الہی بھی رفیق سفر بن گئی،اورہمارے نصیب میں منزل شوق کی طرف ایک ایسا سفر لکھا گیا جسے ہماری مقامی زبان میں گھوڑے کی پیٹھ پر سواری سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ایسا سفر جس میں مسافر کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے اتر  کر سانس لینے کا موقعہ نہیں ملتا ، میزبانوں نے آرام وراحت کا بہت خیال  رکھا، لیکن اسے کیا کیجئے کہ جس سفر کے لئے پندرہ روز چاہئے تھے، اسے تین روز میں مکمل کیا گیا، اس کے لئے راحت وفراغت کے خالی اوقات کہاں سے لاتے؟

پیر مورخہ ۱۳ ستمبر کی شام کیرالا سمپرک سوپر فاسٹ اکسپرس ہمیں شام ساڑھے سات بجے لے کرنکلی، اس کے لئے ہم جنوب کی جانب اڈپی کے لئے عصر  بعد نکلے تھے، اس طرح ابتدا ہی میں ہمارے پانچ گھنٹے ضائع ہوگئے، کیونکہ ٹرین کوبھٹکل اسٹیشن کے سامنے سے بغیر رکےگذرنا تھا۔ لیکن یہ سفر شوق تھا،اور ریل گاڑی بھی بڑی شاندار اور آرام دہ تھی، وقت کے زیاں کا کوئی احساس ہی نہیں ہوا، صبح ساڑھے دس بجے جب پنویل اسٹیشن پر ٹرین رکی تو محسوس ہوا کہ اب ہم میزبان کی سرحد میں داخل ہوچکے ہیں، یہاں پر مقیم مولوی ابو ذر ماسٹر صاحب نے  آکر اطلاع دی کہ  مفتی اویس صاحب نے ناشتہ بھیجا ہے، اور نان کباب اور وڈا پاؤ کے مزیدار ناشتہ نے لطف دوبالا کردیا، مولوی ابوذر کے والد ماجد  خاندان میں اسلام کی نعمت سے  پہلے پہل  سرفراز ہوئے تھے، ایسے افراد کا جذبہ کیسے ہم جیسے نسلی مسلمانوں کو متاثر نہیں کرسکتاہے؟ ، بڑے مخلص اورجویائے علم نظر آئے۔اللہ ان کی زندگی میں برکت دے۔

عصر ساڑھے تین بجے ہماری ٹرین سورت اسٹیشن پر رکی تو یہاں استقبال میں مفتی طاہر صاحب کی قیادت میں اچھا خاصا قافلہ موجود تھا،اسٹیشن سے باہر النور ہوٹل میں کھانا چنا گیا، پنویل کے ناشتہ نے پیٹ کو کافی  بھر دیا تھا، مزید کی گنجائش نہیں تھی، ہمیں میزبانوں کو بھی راضی رکھنے  کے کچھ تقاضے  پورے کرنےتھے، سورت میں قدم رکھتے ہی یہاں کے بزرگ مولانا محمد یونس سورتی صاحب سے نظریں دوچار ہوگئیں، مدت سے شوق دید تھا، اور آپ سے ہماری ایک غرض بھی  وابستہ تھی، آپ کے پاس مولانا ابو الوفاء شاہجہان پوری کی تقاریر کے نادر کیسٹیں محفوظ تھیں، اور مولانا نے سورت آکر بالمشافہ  یہ نادر تحفہ حاصل کرنے کا لالچ دیا تھا،  اور دو سال سے اسے پانے کی خواہش ہم دل میں پالے ہوئے تھے، گذشتہ چھیالیس سال سے جب سے ہم نے نادر ریکارڈنگ کی تلاش شروع کی تھی ہمیں، اس عظیم خطیب، مجاہد آزادی  اور جمعیت علمائے ہند کے قائد کی آواز کی تلاش تھی، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل پارہا تھا، لیکن دو سال قبل علم وکتاب گروپ ان کے حصول کا ذریعہ بنا، مولانا کے پاس کئی اور نوادرات ہیں، جن میں

*سفر سخت دشوار مجھ پراندھیری*

*نہ کچھ کام آئے جناب منیری*

والے مولانا عبد المنان دہلوی کی آواز میں والہانہ کلام بھی شامل ہے۔ مولانا عبد المنان مرحوم سے اب کی نسل  واقف نہیں، لیکن ایک زمانہ تھا کہ حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ کی مجلسیں آپ کے روحانی کلام سے گرم ہوا  کرتی تھی،  حیاۃ الصحابۃ میں حضرت جی مولانا محمدیوسف کاندھلویؒ کا مرثیہ کبھی  آپ کی یاد دلاتا ہے، محی الدین منیری مرحوم کی شان میں  مذکورہ بالا شعر حضرت رائے پوریؒ  کو بہت پسند تھا اور آپ کی زبان پر رہا کرتا تھا، جس کا تفصیلی تذکرہ منیری صاحب کی آب بیتی میں پہلے آچکا ہے۔

مفتی یونس صاحب نے ہماری پیاس بڑھا دی ، زحمت اٹھا کر اسٹیشن تک آئے، اور کیسٹ تھما کر ہم پر بجلی گرادی کہ انہیں کل اندور جانا ہے،اس سفر میں دوبارہ ان سے ملاقات نہ ہو پائے گی، اور ہم کنویں کے سامنے سے پیاسے ہی لوٹ آئے ۔لیکن  اس محرومی نے بھی مولانا کی عزت اور احترام کی لو دل میں اور بڑھا دی، انہوں نے ہمیں جو قیمتی سوغات دی تھی، وہ اس مبارک سفر کے لئے نیک شگون ثابت ہوا، اللہ مولانا کو صحت وعافیت سے نوازے، اور تادیر آپ کا سایہ قائم رکھے ، آمین۔ ۔۔ جاری۔۔۔