نقش پا کی تلاش میں۔۔۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۶)۔۔ سورت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri

Published in - Other

05:53PM Wed 6 Oct, 2021

WA: 00971555636151

سورت میں ہماری نگاہیں شیخ محمد طلحہ بلال  منیار کو تلاش کررہی تھیں، ویسے آپ سے ہماری ابھی تک بالمشافہ ملاقات نہیں  ہوئی ، لیکن علم وکتاب گروپ کے ذریعہ جب سے شناسائی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ مدت سے دل ملے ہوئے ہیں، اگر اس تعبیر میں عقیدہ  تناسخ کا شائبہ نہ ہوتا تو شاید کہتے کہ جنم جنم کی شناسائی ہے۔   ہماری معلومات کی حدتک علوم قرآنیہ اور حدیثیہ میں آپ کے پایہ کے علماء برصغیر میں شاذونادر ملیں گے۔ اللہ نے لحن داؤدی سے بھی نوازا ہے، حرمین شریفین کی فضاؤوں کے پروردہ ہیں۔

اس سفر میں مولانا سے ہماری ملاقات نہیں لکھی تھی، شیخ صاحب کو ہماری ملاقات سے زیادہ اہم کا م تھا، ارض حرم جس کی زیارت سے دو سال تک محروم چلے آرہے تھے، اور اس مبارک سرزمین پر قدم رکھنے کے لئے اس طرح تڑپ رہے تھے، جیسے کوئی مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے، ہمارے پہنچنے سے ایک ہی روز قبل آپ کا سفر ارض پاک کے لئے لکھ دیا گیاتھا۔ لہذا آپ کی زیارت سے محرومی رہی۔ زندگی رہی تو ان شاء اللہ مولانا سے پھر ملاقاتیں نصیب ہوتی رہیں گی۔

یہ حسین اتفاق دیکھئے، کہ مفتی طاہر صاحب نے  سورت میں ہمارا جہاں قیام کروایا تھا  وہ تو آل منیار کے مکانات کا کامپلکس تھا، سورت میں ایک ہی کمپاؤنڈ میں شیخ بلال سمیت سات بھائیوں کے گھر پائے جاتے ہیں، آپس میں صلہ رحمی اور خون کا رشتہ ان بھائیوں کے گھرانوں میں دیکھنے کے لائق ہے۔ اب تک ہمارے گجرات نہ آنے میں حائل شاید یہ احساس بھی رہا ہوگا کہ کہ ہمیں کون جانتا ہے؟ لیکن یہاں تو جہاں گئے ایک دیرینہ اپنائیت کی  خوشبو محسوس ہوئی، ہر جگہ ایسے افراد ملے جن سے اپنائیت اور بے تکلفی سے بات کی جاسکے، ساحل میں تو چاروں طرف محبتوں کا ڈیرہ تھا، خاص طور پر منیار خانوادہ کے بزرگ جناب خالد منیار صاحب جو عمر میں اسی سے متجاوز ہونے کے باوجود دل وجان سے جوان لگتے ہیں، وہ تو بھٹکل والوں کے پرانے شناسا نکلے، سنہ ۱۹۸۰ اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں دوبار چلے میں آچکے ہیں، بھٹکل کے پرانے بزرگوں الحاج محی الدین منیری اور ڈاکٹر علی ملپا صاحب سے مل چکے ہیں، اسی طرح آپ کے فرزند نجم الثاقب  بھی بھٹکل کا چلہ لگا چکے ہیں۔  خالد صاحب کی شخصیت ہمارے لئے انکشاف بھی ہے اور گرویدگی کا باعث بھی، سنا ہے حضرت جی مولانا انعام الحسن علیہ الرحمۃ سے آپ کا بڑا گہر ا تعلق تھا، حضرت جی نے اپنے فرزند مولانا زبیر الحسن مرحوم کو آپ کے رشتہ اخوت میں باندھ دیا تھا۔ اللہ موصوف کو صحت وعافیت سے مالامال کرے، اور تادیر آپ کا  باقی رکھے،حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آپ پر صادق آتی ہے کہ، ہم کان کی نمک ہیں، ہم سے زندگی کا مزہ ہے، ہماری قدر کریں۔

گجرات میں عموما اور سورت و راندیر میں خصوصا ہماری دلچسپی کے کئی اسباب ہیں۔ نوائط سے نسبت ہمارے لئے صرف پدرم سلطان بود کی حیثیت نہیں  رکھتی ، ایک ایسے وقت جب کے  پندرھویں صدی عیسوی میں بھٹکل سلطنت ہرمز اور عادل شاہی کے درمیان  ٹرانسزٹ پورٹ کا کام انجام دے رہا تھا، اور صفوی اور عادل شاہی شیعیت میں پس رہا تھا، اور پھر ۱۵۱۵ ء کے بعد پرتگالی اقتصادی ناکہ بندی کا شکار ہوا، تو اپنے آباء اجداد سے نسبت اور ان کی تہذیب وثقافت، اور جماعت المسلمین سے وابستگی نے بھٹکل کے نوائط کو بہت سے گمراہیوں سے محفوظ رکھا۔  یہ اللہ تعالی کا ہم پر بڑا کرم ہے کہ اس نے اس برادری کو قابل شکر حالت میں رکھا۔

راندیر بنیادی طور پر سورت ہی کا ایک حصہ تھا، اور نوائط کا ایک مرکز، لیکن   ان کے لئے سورت بھی کچھ کم اہم نہیں تھا، مورخ ہند علامہ سید عبد الحی حسنیؒ   کی کتاب نزہۃ الخوطر میں جب فقیہ محمد بن ابی محمد الشافعی النائطی رحمۃ اللہ علیہ کا شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کے حوالہ سے  تذکرہ دیکھا تو خوشی کی انتہاء نہ رہی ، کیونکہ تاریخ کی ایک گتھی سلجھنے میں اس سے مدد مل رہی تھی، خانوادہ بدر الدولہ میں نسب نامہ  کی آخری کڑیوں میں مخدوم فقیہ اسماعیل اور ان کے فرزند مخدوم فقیہ ابو محمد کے نام ملتے ہیں۔

آخر الذکر بزرگ بھٹکل اور قریبی قصبے کائیکنی(مرڈیشور ) میں آسودہ خاک ہیں۔ بھٹکل کی روایات کے مطابق ابو محمد کا کم عمری میں انتقال ہواتھا، اس نظریہ کو مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی ؒ نے عرب ودیار ہند میں قبول نہیں کیا ہے۔ اور اس ناچیز کے نزدیک بھی کم عمری میں وفات کا نظریہ اس لئے مشکوک ہے کہ  دسویں صدی ہجری اور اس کے آس پاس کی صدیوں میں مسلمانوں میں ابومحمد کی کنیت بطور نام  نظر نہیں آتی۔ بھٹکل میں مسلمانوں کی موجود ہ تاریخ جامع مسجد کی تعمیر نو سے جڑی ہے، جس کے پتھر پر قطعہ تاریخ ۸۵۱ء  مطابق ۱۴۴۷ء کندہ ہے، مخدوم فقیہ اسماعیل اس مسجد کے اولین امام وخطیب تھے، اور خانوادہ قاضی بدر الدولۃ میں آپ کی تاریخ وفات ۸۷۹ھ؍  ۱۴۷۴ء    درج ہے، ا ن تاریخوں کے موازنہ سے  بعد کی تاریخوں میں تضادات محسوس نہیں ہوتے۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب  زاد المتقین فی سلوک طریق الیقین  کا اردو ترجمہ دستیاب ہے، غالبا مصنف نزہۃ الخواطر کے سامنے جو فارسی نسخہ ہے وہ اس سے زیادہ مکمل ہے،  محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔

فقیہ محمد نائت

یہ ایک قوم ہے جو سورت اور اس کی اطراف میں آباد ہے، یہ سب شافعی ہیں اور اکثر علم وصلاح کی صفت سے آراستہ ہیں، فقیہ نائت بہت بوڑھے تھے، زندگی حرمین شریفین میں بسر کی تھی، شیخ علی متقی اور دوسرے بزرگوں کی خدمت میں رہے تھے، اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا وہ بھی بوڑھا ہوچکا تھا، انکسار وتواضع ، عفت وصلاح اور مسکنت کی صفت سے آراستہ تھے۔ زمانہ حج میں مناسک حج کے بعد جیسا کہ اہل مکہ کی عادت ہے حرم شریف میں کتاب فروشی کے بازار لگاتے ہیں، بہت لوگ آتے ہیں، خلائق کا اژدحام رہتا ہے، بعض سے آداب وتعظیم وبقعہ شریفہ کی حرمت جاتی رہتی ہے، بعدہ غفلت کے آثار خلق پر غالب آتے ہیں۔۔۔۔

فقیہ محمد کی ایسی عادت تھی کہ چھ مہینے مکہ میں رہتے  اور چھ مہینے مدینہ میں بسر کرتے تھے، اس سال کے آخر میں جب  ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ،حج کے قافلہ کے ساتھ جیسی کہ عادت تھی مدینہ منورہ نہیں پہنچ سکے آخر موسم رجبیہ میں مدینہ گئے، اور دو تین دن بعد انتقال ہوگیا، جنت البقیع میں دفن کئے گئے

زاد المتقین (۳۶۱)

سورت  گجرات کا اہم ترین تجارتی مرکز ہے، لیکن ہماری کم عمری میں اس شہر کا نام ہمارے کانوں تک کتابوں کے تعلق سے پہنچا، ہماری عربی  درسیات میں جو غیر ملکی کتابیں تھیں ان پر عموما  عبد الصمد الکتبی واولادہ اور ابناء محمد بن غلام رسول السورتی  کی مہریں نظر آتی تھیں، اب تو یہاں پر چاروں طرف خوش عقیدگی اور بدعات کا بسیرہ نظر آتا ہے، لیکن کبھی یہ علماء و محدثین کی آماجگاہ ہوا کرتی تھی، چاروں طرف خانقاہیں تھی جن میں اہل اللہ انسانوں کے دلوں تزکیہ کرتے تھے۔مولانا سید ابوظفر ندوی جنہوں نے گجرات کی اسلامی ثقافت وتہذیب   کےنقوش کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے، جن میں  تاریخ اولیائے گجرات، گجرات کی تمدنی تاریخ  شامل ہے،  محی الدین عبد القادر العیدروس کی النور السافر  اور علامہ سید عبد الحی حسنی نے یاد ایام میں یہاں کی علمی بہار کا جو تذکرہ کیا ہے انہیں پڑھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہے، صرف نزہۃ الخواطر میں آپ نے سورت کے ایک سو ایک اکابرعلماء ومشائخ کا تذکرہ کیا ہے۔ سورت کے مدرسہ خیریہ کے تذکرہ میں مولانا سیدا بو ظفر ندوی نے لکھا ہے کہ اسے مولانا خیر الدین  محمد زاہد سورتی نے قائم کیا تھا،  اور علامہ سید مرتضی بلگرامی زبیدی جیسے  متبحر عالم ومحدث  جب حج کو نکلے تو یہاں پر قیا م کیا ، اور بانی مدرسہ سے حدیث کی اجازت لی۔ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے، سورت کی سرزمین سے وابستہ اور ایسے  کئی سارے سنہرے واقعات کتابوں کو تلاش کرنے سے مل سکتے ہیں۔

ساحل میں کچھ سستانے کے بعد ہماری اولین منزل  دارالحمد تھی،دار الحمد کیا ہے؟ حقیقت میں شہر سورت میں علم وتحقیق کی صبح   نو اب یہاں سے پھوٹے گی ان شاء اللہ۔

مولانا مفتی طاہر سورتی جیسی  حوصلہ اور جوش سے بھر پور شخصیت اس کی پشت پنا ہ ہے، اللہ تعالی مفتی صاحب کو حاسدوں اور بدخواہوں سے محفوظ رکھے، حضرت مولانا مفتی عبد اللہ کاپودری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا  مفتی احمد خانپوری دامت برکاتھم جیسی گجرات کی دور حاضر کی عظیم ہستیوں کی زیر سایہ آپ نے دار الحمد کی داغ بیل ڈالی ہے، بڑی نیک تمناؤں کے ساتھ اس ادارے کی آبیاری کی جارہی ہے۔ نہ صرف سورت میں بلکہ پورے گجرات میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے۔ گجرات ہندوستان کے مسلمانوں کی امید کا ایک مرکز ہے، وہاں پر چوٹی کے دینی مدارس اور دارالعلوم پائے جاتے ہیں، عموما مسلمانوں میں خوشحالی پائی جاتی ہے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ دوسری جگہوں کی طرح یہاں کی بھی نئی نسل اپنے شاندار ماضی سے کٹتی جارہی ہے، انہیں اپنے قابل فخر ماضی سے جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

مفتی طاہر صاحب کچھ زیادہ ہی ہم جیسے فقیروں سے امیدیں باندھتے ہیں، اور خوش گمان رہتے ہیں، انہوں نے  اپنے ادارے میں چند نوجوانوں کو جمع کیا تھا، ہمیں ان سے کچھ باتیں کرنے کی ہدایت کی۔ مہمانی کے آداب میں میزبانوں کی فرمائشوں کو پورا کرنا  بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم جیسے بے زبان پھنس جاتے ہیں۔ ہم نے بھی دوسرے ساتھیوں کے نقش قدم پر چل کر دو چار باتیں کیں۔ ان میں سے چند باتیں یاد آرہی ہیں۔

۔ اس وقت گجراتی نوجوان عموما ا ردو سے نابلد ہوتے جارہے ہیں،یہ درست ہے کہ گجراتی علما ء  یہاں کی زبان بولتے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے جو بولی ہمارے علماء و فارغین کی زبان پر رائج ہے وہ عوامی اور بازار کی بولی ہے، علما ء کو اس زبان پر مہارت حاص کرنی چاہئے جو یہاں کے پڑھے لکھوں کی زبان ہے، اور جو مہذب معاشروں میں رائج ہے، اس کے لئے ہمارے علما ء کو گجراتی زبان کو بحیثیت زبان سیکھنے پر توجہ دینی چاہئے۔ اور اس سلسلے میں فارغین کی مستقل رہنمائی ہونی چاہئے۔

۔ اردو زبان ہندوستانی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے مربوط رکھنے والی زبان ہے، اس میں ہمار ا ملی ورثہ محفوظ ہے، حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ کی ۱۹۸۱ء میں مکہ مکرمہ کی ایک تقریر میں آپ کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ آپ  نے اپنے  جدہ کے میزبان نورولی خاندان کے لوگوں سے بہ اصرار کہا تھا کہ ہماری ساری زندگی عربی زبان کی ترویج میں ہوئی ہے، لیکن ہم آپ سے  کہیں گے کہ اپنے بچوں کو اردو سکھائیں، کیوں کہ یہی وہ زبان ہے جس میں آپ کے آبا ء و اجداد کے قابل فخر کارنامے محفوظ ہیں،

ان کی اور آپ کے خاندان کی قدر کرنے والے لوگ اردو والوں میں پائے جاتے ہیں، سعودی عرب میں آپ کی ایک نسل کو جاننے والے افراد پائے جاسکتے ہیں، اس سے آگے کے بارے میں یہاں  پر مکمل ناواقفیت پائی جاتی ہے۔ اب آپ کی نسلیں اردو بھول جائیں گی تو پھر آپ کے آباء واجداد کو جاننے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔ گجرات کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی جارہی ہے، دینی مدرسوں میں اردو صرف بولی جاتی ہے، اور نئی نسل زیادہ تر پرائیویٹ اسکولوں میں پروان چڑھ رہی ہے، جہاں اردو کا کوئی عمل دخل نہیں رہ گیا۔ ایسے میں نونہالوں کو اردو سے جوڑنے کے لئے  بچوں کی لائبریریوں  کی اور ان سے  آسان اردو کتابوں کے پڑھوانے کو رواج دینے کی سخت ضرورت ہے۔

۔ اس وقت تصنیفی کام تو بہت ہورہا ہے، لیکن ان کاموں میں خاطر خواہ محنت نہیں ہورہی ہے، ان میں جدت نہیں پائی جاتی، یکسانیت اور تکرار کی وجہ سے  کتابیں پڑھی نہیں جاتیں،اس کے لئے موثر انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب اگر آپ کے ادارے سے بھی کتابیں زیادہ سے زیادہ چھپنے پر توجہ ہو اور جدت اور دلچسپی بیان نہ ہونے کی وجہ سے یہ  گوداموں میں پڑی رہیں، اور صرف تحفے اور ہدئے میں دی جاتی رہیں، تو پھر ادارے کو باقی رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ آپ کو ایسے موضوعات پر کتابیں لانے پر توجہ دینی چاہئے جن کی معاشرے میں طلب ہو، اور اسلوب تحریر میں نیا پن ہو، اپنی منشورات میں معیار اور جدت پر آپ کی توجہ ہونی چاہئے۔

دارالحمد سے ہم خانقاہ رفاعیہ کی طرف روانہ ہوئے، سورت کی یہ خانقاہ سلسلہ رفاعیہ کی قدیم خانقاہوں میں شمار ہوتی ہے، یہ سلسلہ بعضوں کی زبانی صوفیہ کا سب سے وسیع سلسلہ ہے، اس کی خانقاہیں ہندوستان بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، بنگلور میں  ہمارے دوست اور بزرگ مولانا شاہ سید مصطفی  جیلانی رفاعی ندوی دامت برکاتھم اس کے سجادہ نشین  ہے، شاہ صاحب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ؒ، اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بھی مجاز بیعت ہیں، انہیں مکمل کالے لباس میں دیکھ کر لوگ استفہامیہ نشان بن جاتے ہیں، لیکن شاہ صاحب اندر سے ہیرا ہیں، انہیں قریب سے دیکھنے کا بارہا موقعہ ملا، آج کے زمانے میں زہد وتقشف اور دنیا کے لہو ولعب سے لاتعلقی کی ایسی مثال شاید ہی ملیں، مولانا  نے اپنی سرگرمیاں سجادہ نشینی سے ہٹ کر ملت کی خدمت میں لگادی ہیں، سلسلہ رفاعیہ میں بنیادی طور پر مرید سے محنت لینے اور اسے گھسنے کا پہلو دوسرے سلسلوں سے زیادہ رہا ہے۔  لیکن زہد وتقشف سے ہٹ کر ان میں کرتب دکھانے کا مزاج بھی عام ہے، مزاج  نہ صرف امام ابن تیمیہ ؒ کے زمانے میں تھا، جس  کے خلاف امام صاحب شمشیر براں تھے، بلکہ اس زمانے کی شعبدہ بازیاں اب بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ہمارے بچپن میں ماہ رمضان المبارک میں  مہاراشٹر کی حاجی ملنگ بابا درگاہ سے فقیروں کا ایک جھنڈ آتا تھا، جنہیں مقامی زبان میں جھنڈا کہا جاتا تھا، یہ سب بھنگ کے عادی ہوتے تھے، اور تلوار اور برچھی اور میخواں سے اپنے سر وں پر وار کرتے تھے۔ یہ جھنڈ عصر کے بعد گلی گلی گھومتا، اور کرتب دکھاتا، محلے کی بڑی بیبیاں اسے دینے کے لئے خاص طور پر صدقہ و خیرات محفوظ رکھتیں،  ان سے ہٹ کر اور  تنہا تنہا چند صورتیں ایسی بھی ملتی جن کے چہروں سے عفت اور پاکدامنی چھلکتی تھی، کبھی ہم ان سے باتیں کرتے تو پتہ چلتا کہ کسی بڑے خاندان کے فرد ہیں،  اور سلسلہ رفاعیہ میں بیعت ہیں، اور شیخ نے ہدایت کی ہے کہ  مانگنے کو نکلیں، تاکہ انا ختم ہو، یہ لوگ جمع شدہ صدقہ وخیرات جمع کرکے کسی اور مستحق پر تقسیم کرتے ہیں۔

کافی عرصہ پہلے ایک شامی نوجوان ہمارے آفس امامت کا امتحان دینے آئے تھے، امتحان کے دوران اچانک ایک لوہے کی سلائی جیب سے نکالی اور فورا ایک گال میں ڈال کر دوسرے سے نکال دی، سلسلہ رفاعیہ اب بھی عراق ، شام اور مصر میں مقبول ہے،  سب پر خرافات کا حکم لگانا بہت مشکل ہے، کیونکہ ہمارے بعض دوست جو علم وتحقیق کے میدان سے تعلق رکھتے ہیں ، اور عرصہ سے ہمارے ساتھ گھلے ملے ہیں، ان سے ہم نے کوئی خلاف شرع بات نہیں دیکھی، جیسے ہم نے شاہ مصطفی رفاعی صاحب سے نہیں دیکھی۔

لیکن سورت  میں جو خانقاہ دیکھی اس نے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا، سجادہ نشین کی ذات کے بارے میں تو کچھ کہ نہیں سکتے، ممکن ہے ان میں بھی زہد وتقشف ہو،ان کی باتیں بہت سادہ تھیِں، ہم ان سے  کچھ خاندانی مخطوطات کے بارے میں بات کرتے تو وہ ہمیں کربلا، مولد، اذکار وغیرہ پر لکھی ان کی کتابوں کا ذکر کرتے تھے، انہوں نے مسجد سے متصل خاندانی قبرستان دکھایا، جس میں سیکڑوں سالوں سے سلسلے کے بزرگ دفن ہیں، ان میں ایک قبر بکری شاہ کی بھی ہے، جس میں حقیقتا ایک بکری بزرگوں کے جلو میں دفن ہے، یہیں پر تہ خانے میں چند قبریں ہیں، جن کے بارے میں سجادہ نشین کا کہنا تھا کہ یہ صحابہ کی قبریں ہیں، کھدائی کے وقت ان کا علم کشف کے ذریعہ سے ہوا، اور کشف کرنے والے نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا، اب یہ کون ہیں ؟ اس کا کچھ پتہ نہیں۔

خانقاہ رفاعیہ سے ہم خانقاہ عیدروسیہ کو نکلے، یہ یمن سے آئے ہوئے عیدروسی سلسلے کے بزرگوں کی قدیم خانقاہ ہے، یہاں پر بھی بزرگوں  کی مزار نما قبریں ہیں،دسویں صدی ہجری کی شخصیات پر مشہور کتاب النور السافر  عن اخبار القرن العاشر  کے مصنف اسی خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے، سجادہ نشین سے ملاقات ہوئی، گھر پر بڑی خوش اسلوبی اور اخلاق سے خاطر مدارات کی، جینز اور شرٹ پہنے تھے، اپنے خاندان کے سلسلے میں آدھی کچی آدھی پکی باتیں کرتے رہے، ان کی زبانی اپنے بزرگ کے بارے میں وہ مشہور روایت بھی سنی جو ہمارے یہاں مخدوم فقیہ ابومحمد ؒ کے بارے میں کبھی رائج تھی کہ بچپن میں ان  کا کسی گھڑ سوار کو دیکھ کر گھوڑے پر سواری کو دل للچایا، تو ایک باغ کی دیوار پر چڑھ گئے، ہاتھ میں ایک سانپ آگیا جو آپ کے ہاتھ میں چابک بن گیا، اور دیوار گھوڑا۔ان دونوں خانقاہوں سے سچی بات تو یہ  ہے کہ ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا ، البتہ دل میں ایک درد اٹھا، علماء ، محدثین  اور اولیاء کی سرزمین اب شرک وبدعات کا گہوارہ بن گئی ہے، اور اب علم وتحقیق اس کی پہنچان نہیں رہی ہے، اللہ تعالی نے جنہیں علم وفہم سے نوازا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ سنہرے زمانے کی اس کی شناخت کو واپس لائیں، گجرات کے مسلمانوں کے پاس وسائل ہیں، اللہ کے بھروسہ پر کھڑے ہوں تو اس کی ذات سے یہ کچھ بعید نہیں۔

عشاء بعد  سورت کی مسجد انوار میں  مفتی طاہر نے ایک جلسہ جمایا تھا، ہم سے تو انہوں نے یہی کہا کہ سامعین یہاں پر قائم مدرسہ رحمانیہ  کے طلبہ  ہیں، کیونکہ اس میں مفتی صاحب نے راندیر وسورت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ کتب بینی پر بھی اظہار خیال کرنے کو کہا تھا، اس میں شہر کے چنندہ اہل علم بھی نظر آئے۔ اس میں ہمارے ساتھی  مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے بھی ادب اطفال اور بچوں کے لئے کہکشاں کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں پر روشنی ڈالی، اس ناچیز نے بھی حسب ہدایت کتب بینی ومطالعہ کی اہمیت  اور آج سے چھ سو سال قبل پندرھویں صدی عیسوی میں  یہاں کی ترقی و عروج کے بارے میں پرتگالی سیاحوں کے مشاہدات اور ان پر حملے اور یہاں پر مچی ہوئی تباہی کے بارے میں اپنی معلومات پیش کیں، محسوس ہوا کہ یہاں کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اہل علم کے لئے ہماری کئی ایک باتیں نئی تھیں۔ ہم نے خاص طور پر اس جانب توجہ دلائی کہ یہاں پر جو مزارات اور اینٹ اور گارے سے بنی اونچی اونچی قبریں ہم نے دیکھیں، ان میں یہاں کے اہل اللہ آسودہ خاک ہیں، یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اللہ والوں کی اس بستی میں توحید کے پرستار ایسے توہمات شرک اور بدعات میں مبتلا ہوں کہ بت پرست ان سے شرماجائیں۔  یہاں کے علماء ، صلحاء ، اور بزرگان کی روشن زندگیوں کو اجاگر کرنا یہاں کے ہر اہل علم پر فرض ہے۔ تفسیر حدیث وفقہ کے ساتھ تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہمیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے والوں اور سنن الہیہ پر چل کر ترقی کی راہ پانے والوں کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے، جب تک عملی زندگی ساتھ نہ ہوتو احکامات پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا، حضور اکرم ﷺ کی زندگی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

رات  کو ساحل میں عشائیہ تھا، ہم تو بڑوں کے جانے کے بعد بستر پر لیٹ گئے، لیکن لرن قرآن اور ادب اطفال وکہکشاں کے ساتھیوں نے بتا یا کہ رات ڈھائی تین بجے تک کم عمرنوجوانوں کی محفل جمی رہی، مولوی زفیف شنگیری نے خوب رنگ جمایا، اور قراءت اور تلاوت  کے خوبصورت نمونوں سے بھی محفل خوب چمکی۔خانوادہ کے بزرگ خالد منیار صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ تعلقات کی اس کڑی کو ٹوٹنے نہیں دیں گے، اپنے خاندان کے افراد کو لے کر بھٹکل ضرور آئیں گے، ہم تو صرف دعا کرسکتے ہیں کہ  اللہ تعالی آپ کا سایہ تادیر قائم رکھے، اور  انہیں صحت وعافیت سے مالامال کرے، تاکہ وہ بھٹکل تک کا طویل سفر بہ آسانی کرسکیں، بھٹکل میں آپ کی اور آپ کے وخاندان والوں کی ملاقات  کا دن عید سے کم نہیں ہوگا۔  ان شاء اللہ

یار زندہ صحبت باقی۔ ان شاء اللہ آئندہ کالم کچھ تاخیر سے۔