سفرحجاز۔۔۔(۲۸)۔۔۔ منی قبل حج۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:29PM Sun 18 Jul, 2021

۔″لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَشَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَیْکَ وَالخَیْرَ بِیَدَیْکَ″۔

۸ ؍ذی الحجہ جمعہ سہ پہر ہم لوگوں کو چلنے میں اس قدر تاخیر ہوئی کہ وقت مستحب نکل چکا۔ ہزار ہا قافلے آگے جا چکے پھر بھی بہت سے باقی بھی رہ گئے اور ساتھ ہی ساتھ چل بھی رہے ہیں۔ ہزاروں انسان پیدل چل رہے ہیں، ہزار ہا اونٹوں پر سوار ہیں اور ہزار ہا خچروں اور گدھوں پر۔ ہر شخص احرام پوش، لبیک لبیک کی صدا ہر طرف سے چلی آ رہی ہے۔ ہم لوگوں کی زبان پر بھی اس وقت یہی کلمے ہونے تھے لیکن لاحول ولاقوۃ اتنے نصیب کہاں تھے۔ معلم صاحب کی عنایتوں کا چرکا، ابھی دلوں پر تازہ تھا، زبانیں بجائے لبیک لبیک کے اپنے اوپر اور اپنے معلم پر لاحول پڑھنے میں مصروف! قافلہ کے آٹھوں اونٹ سولہ سواریوں کو لیے ہوئے، ایک دوسرے کے آگے پیچھے دو یا تین بدو ہمراہ، ہر اونٹ کے ساتھ ایک ایک شتربان نہیں ہوتا، تین تین چار چار اونٹوں کے لیے بس ایک ہی بدو کافی سمجھا جاتا ہے۔ ایک اونٹ پر ہم دونوں میاں بیوی، ایک پر مولانا مناظر احسن اور حکیم عبدالخالق صاحب، اسی طرح دو دو سواریاں باقی سب پر۔ اونٹ پر سوار ہونے کا یہ پہلا تجربہ تھا جو وحشت و دہشت پہلے تھی، سوار ہونے کے بعد غائب۔شغدف اگر اچھے بندھے ہوں تو اونٹ کی سواری خاصی آرام دہ ہے۔ پالکی یا میانہ کی سواری کا سا لطف آتا ہے۔

منیٰ  کا فاصلہ حرم شریف سے چار میل کا ہے، ہماری قیام گاہ سے چار فرلانگ زائد ہوگا، خوب چوڑا اور کشادہ راستہ ہے، کئی کئی اونٹ ایک ساتھ باآسانی چل سکتے ہیں۔ ایک میل تک تو خاص مکہ ہی کی آبادی پڑتی ہے، اس کے بعد میدان سے شروع ہوا اور اس کے کوئی دو میل کے بعد منیٰ کے حدود شروع ہوگئے۔ مکہ کے گورنر اور ولی عہد سلطنت شہزادہ فیصل ابن عبد العزیز آل سعود کا محل حرم شریف سے بالکل متصل ہی تھا، خود سلطان کا قصر معلیٰ منیٰ کے راستہ میں پڑا، اندر کا حال تو معلوم نہیں البتہ باہر سے ہندوستان کے رئیسوں کی طرح خاصی شاندار، پُرتکلف و عالی شان عمارت ہے جسے دورِ خلافتِ راشدہ کی سادگی سے کوئی دور کی بھی نسبت نہیں۔ دوپہر کا وقت آخر ہو رہا تھا، پیاس خوب زور کی اور بار بار لگ رہی تھی، پانی کی صراحیاں ساتھ میں تھیں، ان کے علاوہ دو دو پیسہ میں صراحیاں بیچنے والے لڑکے اور چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی بکثرت قدم قدم پر اونٹوں کو گھیرے ہوئے اپنی معصومانہ اداؤں کے ساتھ خوش خوش اپنے سودے کو بیچنے میں لگے ہوئے۔ اس عام شاہراہ کے علاوہ بعد کو سننے میں آیا کہ پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی اور مختصر راستہ بھی ہے جس سے فاصلہ بہت کم رہ جاتا ہے۔ اگر عورتوں کا جھمیلا ساتھ میں نہ ہو اور وقت بھی ذرا ٹھنڈا ہو یعنی صبح یا شام کا ہو تو پیدل کا سفر یقیناً زیادہ آرام دہ اور پرلطف رہے گا۔ جب تھک جائے جہاں چاہے دم لے سکتا ہے، چائے، قہوہ، شربت کی دکانیں بہ افراط، روانہ ہونے کے دو پونے دو گھنٹے کے بعد منیٰ کی آبادی شروع ہو گئی اور ہمارے جمالوں نے شروع آبادی ہی میں ہماری منزل کرا دی۔

منیٰ کے متعلق تخیل یہ تھا کہ ویران غیر آباد، سنسان میدان ہوگا۔ اکثر تخیلات کی طرح یہ تخیل بھی غلط ثابت ہوا۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں بے شبہ چٹیل میدان ہی تھا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب حضور ﷺ سے اس کی اجازت چاہی تھی کہ یہاں ایک مکان بنوا دیا جائے تو حضور ﷺ نے اس درخواست کو منظور نہیں فرمایا تھا لیکن اب صورت حال بالکل بدل گئی، اب منیٰ میدان کا نہیں پختہ اور بلند مکانات کی ایک مسلسل آبادی کا نام ہے۔ مکہ مکرمہ سے مشرق کی جانب واقع ہے، کسی قدر مائل بہ جنوب، طول تقریباً ڈیڑھ دو میل ہو گا۔ عرض بھی ایک میل سے کیا کم ہوگا، مکانات ظاہر ہے سال بھر خالی پڑے رہتے ہیں، ساری چہل پہل اسی ایک ہفتہ کے اندر ہوجاتی ہے، مالکان مکانات کی آمدنی کا یہی زمانہ ہوتا ہے، کرایا منہ مانگے وصول کرتے ہیں، اگر انسان صاحبِ استطاعت ہے تو یہاں کے قیام کے لیے مکان ضرور لے لے خواہ کتنا ہی مختصر ہو، رات تو میدان میں گزر جائے گی، لیکن دن کی لو ، دھوپ میں بغیر پختہ مکان کے سایہ  کے اچھی تکلیف اٹھانی پڑے گی، جو لوگ مکانات نہیں لے سکتے ہیں، وہ خیموں میں رہتے ہیں، جو خیمہ کا کرایہ بھی نہیں دے سکتے وہ بیچارے کھلے میدانوں میں محض اللہ کے بھروسے پر گزر کرتے ہیں، ہندوستانی حاجی اپنے ملک پر قیاس کرکے درختوں اور درختوں کے سایہ کی کوئی توقع ہرگز نہ قائم کریں۔ پانی، انواع و اقسام کے شربت، دودھ، دہی، قہوہ، چائے کی دوکانیں بکثرت برف اور  فالودہ بھی موجود، کھانے کی دوکانیں کمتر لیکن موجودہ بھی (منیٰ میں بھی اب کثرت سے ہوٹل قائم ہوگئے ہیں۔ یہ قیام و طعام کا انتظام کر دیتے ہیں اور ان کے ذریعہ عرفات میں بھی خیمہ کا انتظام ہوجاتا ہے۔(۱۹۴۹ء)

لیمون، نارنگی، ککڑی، کیلا، انار وغیرہ شاداب و تروتازہ، پھلوں اور میووں کی گویا منڈی لگی ہوئی جو وسط مئی کی شدید ریگستانی دھوپ میں نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی، بازار اچھا خاصا لگا ہوا، ضرورت کی ہر شے مہیا اور بہ افراط، پانی والے گھروں اور خیموں پر بھی مشکوں اور ٹین کے کنسڑوں میں پانی پہونچا دینے کو حاضر۔

ظہر کا وقت آخر ہورہا تھا، جب مکہ معظمہ سے چلے تھے، عصر کا وقت گزرچکا تھا، جب منیٰ پہونچے۔ کل صبح عرفات کے لیے روانہ ہونا ہے، مسنون طریقہ یہ  ہے کہ ۸/ذی الحجہ کی ظہر سے لےکر ۹/کی فجر تک، پوری پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کرے۔اور اسی لیے ۸/ذی الحجہ کو ہم لوگ سویرے چلنے کی اس قدر عجلت کررہے تھے، لیکن معلم صاحب کا خدا بھلا کرے محض ان کی عنایت سے ہم لوگ ایسے وقت یہاں پہونچے کہ جمعہ و ظہر کا وقت الگ رہا، عصر کا بھی اول وقت کچھ دیر ہوئی رخصت ہوچکا تھا، خیموں کی طرف سے معلم صاحب چلتے وقت مایوس ہی کرچکے تھے، سڑک کے کنارے میدان میں ہمارے شغدف اتارکر رکھ دیئے گئے اور ہم کو حکم ملا کہ اس سہ پہر سے لےکر کل صبح تک کا وقت انھیں شغدفوں کے اندر یا ان کے باہر آسمان کی چھت کے نیچے اور زمین کے فرش کے اوپر بسر کرنا ہے۔تعمیل ارشاد کے سوا چارہ کیا تھا؟ اور صبر و خاموشی سے کام نہ لیتے تو آخر کرتے کیا؟ یہ بھی غنیمت ہوا کہ یہاں سابقہ خود معلم سے نہیں ان کے لڑکوں اور کارندوں سے پڑا، جو فی الجملہ مہذب اور زبان کے میٹھے تھے۔ خود معلم صاحب کی شریعت میں منیٰ کا قیام غالباً فضول سا تھا، وہ خود آج مکہ ہی میں رہے۔ وہ موجود ہوتے تو شاید ہم لوگوں کو زبان کے گناہوں میں کچھ اور مبتلا ہونا پڑتا۔ بہرحال جس طرح بن پڑا ہم مردوں نے کہیں آڑ تلاش کرکے ضروریات سے فراغت کی، زنانہ قافلہ کے لیے چودھری محمد علی ردولوی کا مکان مل گیا، مسجد خیف جس کی فضیلت حدیثوں میں وارد ہوئی ہے، منیٰ ہی میں واقع ہے حضورﷺ نے حجتہ الوداع میں یہیں نماز پڑھائی تھی، بڑی وسیع مسجد ہے، لیکن حاجیوں نے اسے کوئی ادنیٰ قسم کی سرا، یا بازاری مسافر خانہ بناکر ہر طرح گندہ کر رکھا ہے، اور موجودہ حکومت نے شاید مسجد کی صفائی اور احترام قائم رکھنے کو بھی ”بدعت“ سمجھ رکھا ہے! ہماری منزل گاہ سے اس کا اچھا خاصا فاصلہ تھا اور پھر سڑک پر انبوہ عظیم، سب سے بڑھ کر اپنی پست ہمتی، پست ہمتوں کو کوئی نہ کوئی بہانہ مل جانا چاہیئے، بہرحال کسی نماز کے لیے بھی وہاں تک رسائی نہ ہوسکی۔ عصر، مغرب، عشاء  اور فجر کی نمازیں وہیں میدان میں جماعت کے ساتھ ادا ہوئیں، اور رات کو وہیں سوئے۔ ہزار ہا عرفات کے جانے والے، رات بھر اسی راستہ سے گزرتے رہے، اور منیٰ میں قیام نہ کیا، ان اللہ کے بندوں کے نزدیک رسول ﷺ کی سنت محبوب پر عمل گویا کوئی معنی نہیں رکھتا!

منیٰ میں قیام اور آٹھویں اور نویں کی درمیانی شب میں شب باشی تمام ائمہ کے نزدیک مستحب ہے۔قاضی ابن رشد مالکی لکھتے ہیں کہ سعی کے بعد جس عمل کی طرف حاجی کو متوجہ ہونا چاہیئے، وہ یہی ہے کہ ۸/کو منیٰ میں آئے اور شب میں یہاں رہے اور اس پر چاروں مذہبوں کا اتفاق ہے کہ امام جماعت کے ساتھ منیٰ میں ۸/کو ظہر عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھے اور ۹/ کو امام لوگوں کے ساتھ عرفات آئے اور یہاں وقوف کرے۔البتہ جس کے پاس اتنا وقت نہ ہو وہ سیدھا عرفات ہی کو جاسکتا ہے (بدایتہ المجتہد جلد اول ص ۲۷۹) اور حنفیہ کی کتابوں میں تو اس کی تصریح موجود ہے کہ اگرچہ حج بغیر منیٰ میں ۸/کو قیام کیے ہوئے بھی ادا ہوجاتا ہے لیکن منیٰ میں نہ ٹھہرنے والا ترک سنت کا گنہگار ہوگا، ہدایہ میں ہے۔

۔″ولو بات بکمۃ لیلۃ عرفۃ و صلی بھا الفجر وغدا الی عرفات و مر بمنی اجزاہ لانہ لا یتعلق بمنی فی ھذا الیوم اقامۃ نسک و لکنہ اساعہ بترکۃ الاقتداء برسول ﷺ″۔

اگر نویں شب مکہ ہی میں گزار دی اور یہیں سے صبح کو عرفات روانہ ہوا تو حج صحیح ہوجائے گا، اس لیے کہ آج منیٰ کا قیام صحیح ہوجائے گا، اس لیے کہ آج منیٰ کا قیام مناسک حج میں داخل نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کی سنت ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔

اور طحطاوی شرح درمختار میں ہے:

۔″فامن الشھر خرج الی منیٰ و مکث بھا الی فجر عرفۃ فیبات بھا استنانا فلو لم یخرج من مکۃ الا یوم عرفۃ اجزاہ و لکنہ اساء لترک السنۃ″۔

۸/کو منیٰ کی طرف روانہ ہو تو وہاں ۹/کی صبح تک قیام کرے اور اتباعِ سنت میں شب وہیں بسر کرے اور اگر ایسا نہ کرے بلکہ ۹/ہی کو مکہ سے روانہ ہو تو حج ہوجائے گا لیکن ترک سنت کا گناہ ہوگا۔

شرح لباب المناسک (ملا علی قاری) میں ہے۔

۔″وان بات بکمۃ تلک جاز واسا لترک السنۃ″۔

اگر یہ شب مکہ ہی میں گزاری تو یہ جائز ہے لیکن ترک سنت کا گناہ ہوگا۔

اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے۔

۔″ولو بات بکمۃ و خرج منھا یوم عرفۃ الی عرفات کان مخالفا للسنۃ″۔

اگر ۹/کی شب بجائے منیٰ کے مکہ ہی میں گزاری اور ۹/کو وہاں سے عرفات کے لیے روانہ ہو تو یہ سنت کے خلاف ہوا۔

معلوم ہوتا ہے، یہ دستور کچھ عرصہ سے چلا آرہا ہے، صاحب درالمختار (شامی) کو اپنے زمانہ میں لکھنا پڑا۔

۔″واما ما یفعلہ الناس فی ھذہ الازمان من دخولھم بارض عرفات فی الیوم الثامن فخطا مخالف للسنۃ ویفوتھم بسبسہ سنن کثیرۃ منھا الصلوات بمنی″۔

اور اس زمانہ میں لوگوں نے جو یہ طریقہ نکالا ہے کہ عرفات میں ۸/ ہی کو آجاتے ہیں (اور منیٰ چھوڑجاتے ہیں) سو یہ طریقہ مخالف ہے سنت کے، اور ایسا کرنے سے بہت سی سنتیں فوت ہو جاتی ہیں۔مثلاﹰ منیٰ کی نمازیں وہاں کی شب باشی وغیرہ۔

بڑی حسرت و قلق کا مقام ہے کہ انسان اتنی محنت اور اتنا صرف گوارا کرکے حج کو جائے اور ایک تھوڑی سی تن آسانی کے خیال سے اتنی بڑی فضیلت کو چھوڑدے۔

منیٰ کے لیے کوئی خاص عبادت یا کچھ مخصوص دعائیں ضروری نہیں البتہ متعدد دعائیں ماثور اور ان کی فضیلتیں منقول ہیں، مکہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہوتے وقت مستحب یہ ہے کہ لبیک پکارنے کے ساتھ لا الہ الا اللہ بھی پڑھتا رہے اور جو دعائیں چاہے مانگے، اور راستہ میں استغفار اور درود شریف کی جتنی کثرت رکھ سکے، بہتر ہے جس وقت منیٰ نظر آنے لگے، اس وقت یہ دعا پڑھے۔

۔″اللہم ھذہ منی نامنن علی بھا کما مننت بہ علی اولیائک″۔

اے اللہ! یہ منیٰ ہے تو اس کے واسطے سے مجھ پر وہ کرم کر جو تونے اپنے دوستوں پر کئے ہیں۔

نویں شب برکت والی ہے، منیٰ کا مقام برکت والا مقام ہے، چاہیئے کہ شب میں جس قدر بھی ہو سکے دعائیں پڑھتا رہے، استغفار کرتا رہے اور لبیک کہتا رہے بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور انور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اسی شب کو منیٰ میں جو شخص ایک ہزار بار یہ دعا پڑھے، وہ اپنی جو مراد اللہ سے مانگے گا اسے ملے گی۔

سبحان الذی فی السماء عرشہ

سبحان الذی فی الارض موطئہ

سبحان الذی فی البحر سبیلہ

سبحان الذی فی النار سلطانہ

سبحان الذی فی الجنۃ رحمتہ

سبحان الذی فی القبر قضاؤہ

سبحان الذی فی الھواء روحہ

سبحان الذی رفع السماء

سبحان الذی وضع الارض

سبحان الذی لا ملجا ولا منجا الا الیہ

پاک ہے وہ ذات جس کا عرش آسمان میں ہے

پاک ہے وہ ذات زمین جس کا فرش ہے

پاک ہے وہ ذات جس کا راستہ سمندر میں ہے

پاک ہے وہ ذات جس کی حکومت آگ پر ہے

پاک ہے وہ ذات جس کی رحمت جنت میں ہے

پاک ہے وہ ذات جس کا حکم قبر میں جاری ہے

پاک ہے وہ ذات جس کی بنائی ہوئی روح ہوا میں ہے

پاک ہے وہ ذات جس نے آسمان کو بلند کیا

پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کو بچھایا

پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سوا نہ کوئی پناہ ہے نہ نجات

منیٰ میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر تین شیطانوں کی علامتوں کے طور ہر تین قد آدم سفید ستون سے پتھر کے کھڑے ہوئے ہیں، ہمارے معلم صاحب نے اپنے ”غایت کرم“ سے ہمارے قافلہ کو عین اسی جگہ اتارا جہاں منجھلا درمیانی شیطان نصب تھا، گویا اللہ کے گھر کے مہمان پوری شب ان ذات شریف کے ٹھیک پڑوس میں مقیم رہے، ایسے مقدس پڑوس میں اللہ سے مناجات کا موقع تو کیا ملتا یہی غنیمت ہے کہ اس مردود پر لاحول بھیجنے میں کچھ وقت صرف ہوتا رہا!

معلم اور جمال جس طرح اپنی شرارت سے منیٰ میں حاجیوں کو لاتے بہت دیر میں ہیں، اسی طرح یہ کوشش بھی برابر جاری رہتی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو یہاں سے لے بھی جائیں۔ چنانچہ ہمارے قافلہ سے بھی یہی اصرار شروع ہوا، کہ پچھلی شب میں عرفات کے لیے کوچ کردینا ہوگا۔گویا منیٰ میں پانچ نمازوں کے ادا کرنے کی جو سنت ہے، اس سے جس طرح ۸/ کو نماز ظہر کے ترک کی محرومی ہو چکی تھی، اسی طرح ۹/کی نمازِ فجر سے بھی محرومی ہوجائے لیکن ہم لوگوں نے اتنے سویرے روانہ ہونے سے قطعی انکار کردیا، عبدالقادر سکندر خود ہوتے تو یقیناﹰ بات بڑھتی لیکن ان کے لڑکوں اور کارندوں میں فی الجملہ انسانیت تھی کچھ دیر بعد میں جب آفتاب اچھی طرح بلند ہولیا یعنی ہندوستان کی گھڑیوں کے حساب سے کوئی سات ساڑھے سات کا وقت ہوگا، اس وقت ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میدانِ عرفات مکہ معظمہ سے ٹھیک جانب مشرق کوئی ۱۵، ۱۶ میل کے فاصلہ پر ہے۔منیٰ سے اس کا فاصلہ کوئی ۱۰۔۱۱ میل ہوگا اور یہاں سے وہ شمال مشرق میں ہے۔ سنا تھا کہ عرفات میں پانی کی بہت قلت رہتی ہے، پانی کم ملتا ہے خراب اور گدلا ملتا ہے اور بہت گراں قیمت پڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض غریب غربا کو پیاس کی شدت سے ہلاکت تک کی نوبت آجاتی ہے، یہ ڈراؤنئ روایتیں سن کر صراحیاں پانی سے بھر بھر لی گئیں اور ناشتہ کے لیے بسکٹوں کے ڈبے مکہ ہی سے ساتھ لے لیے گئے تھے۔آج کا دن خاص فضیلتوں اور برکتوں کا رحمتوں اور نوازشوں کا دن ہے۔راستہ میں جس قدر بھی ہوسکے تلبیہ و تکبیر، درود و استغفار جاری رہنا چاہیے۔سعادت کی یہ گھڑیاں اگر عمر میں ایک بار بھی نصیب ہوجائیں تو خوش نصیبی ہے۔۔۔لیجئے عرفات کے حدود شروع ہوگئے۔ایک لق و دق میدان مبصروں کا اندازہ ہے کہ دس میل مربع سے کیا کم ہوگا، جہاں تک نظر کام دیتی ہے میدان ہی میدان اور اردگرد پہاڑیاں اور اونٹوں کی تعداد حساب و شمار سے خارج اور خیموں کا گویا ایک جنگل لگا ہوا ہے۔ہر طرف خیمے ہی خیمے جن کو خیمہ کی استطاعت نہیں، انھوں نے معمولی چادریں تان رکھی ہیں۔بعض جن کو یہ بھی نصیب نہیں بیچارے دھوپ میں پناہ لینے کے لیے شغدفوں کے نیچے گھسے ہوئے دوپہر سے کچھ قبل کوئی گیارہ، پونے گیارہ کا وقت ہوگا کہ ہم لوگ پہونچ گئے۔

ناقل: محمد بشارت نواز