سفر حجاز۔۔۔ (۱۴) ۔۔۔ مسجد نبویﷺ۔۔۔ از: ،مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:30PM Thu 8 Jul, 2021

                                                                                                                                                                باب (۱۴)     مسجد نبوی ﷺ

مسجد پاک کے کن کن حصوں کی پاکیاں اور کن کن گوشوں کی بڑائیاں گنائی جائیں اور جو ہمہ خوبی ہمہ محبوبی ہے اس سے کس کس جزو کے حسن و جمال کا نقشہ کھینچا جائے، سوائے اس کے کہ ایک ہی بار۔

                                                                                                            گلچیں بہار تو زدامان گلہ دارد! ۔

پڑھ کر خاموشی اختیار کرلی جائے، ابھی "روضہ جنت" کا ذکر تھا، روضہ کے اندر ہی محراب النبیﷺ ہے۔روضہ کے باہر، منبر نبوی کی دوسری جانب محراب عثمانی ہے۔سال کے بیشتر حصہ میں چونکہ جماعت و مسجد کی وسعت گنجائش کے لحاظ سے بہت مختصر ہوتی ہے۔اس لیے امام محراب نبویﷺ میں کھڑا ہوتا ہے اور نمازی روضہ میں ہوتے ہیں، لیکن حج کے آگے پیچھے موسم زیارت میں جب مجمع کئی گنا بڑھ جاتا ہے تو امام محراب النبیﷺ کو چھوڑ کر چند صفیں آگے بڑھ کر محراب عثمانی میں کھڑ ہونے لگتا ہے، اور نمازی مسجد کے سارے عرض  و طول میں پھیل جاتے ہیں، اور یہ محراب ذوالنورین خلیفہ ثالث ؓ کی تعمیر کرائی ہوئی ہے۔

اس کی نورانیت کا بیان کس زبان سے ہو! ۔۔۔غرض ساری مسجد اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے بندوں کے لیے ہے، جہاں چاہیے نماز پڑھیے اور جس جگہ دل میں آئے اپنے مولا سے راز و نیاز میں لگ جایئے، چپہ چپہ انوار سے معمور، ذرہ ذرہ برکتوں سے پرنور، کس حصہ کو بڑھایئے اور کس حصہ کو گھٹایئے یہ فخر عمر بھر کہیں مٹنے والا، اور یہ شرف زندگی بھر کہیں بھولنے والا ہے کہ جس زمین کے ذرات کو رسول خدا کے قدموں نے مس کیا، جہاں صدیقوں نے نمازیں پڑھیں، جہاں شہیدوں نے سجدے کیے جہاں نور کے بنے ہوئے فرشتوں نے بار بار فخر و ناز کے ساتھ حاضری دی۔ہاں، زمین کے جس ٹکڑے پر آسمان کو رشک آرہا ہو۔آج وہاں ایک خاک کا پتلا، حرص و ہوا کا بندہ آزادی کے ساتھ بے روک ٹوک چلے پھرے، ہنسے بولے، روئے گڑ گڑائے! ۔

                                                                         یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے!۔

پہلے کسی زمانہ میں چار مصلّے تھے۔جو چاروں اماموں کی جانب منسوب تھے۔اب صرف ایک ہی مصلّی ہے۔جس پر  مذاہب اربعہ کے امام مختلف اوقات پنجگانہ میں باری باری نماز پڑھاتے ہیں ۔اور ہر امام کے پیچھے ہر وقت نماز میں باقی مذاہب ثلاثہ کے پیر و جوق در جوق نمازیں پڑھتے ہیں۔چار مصلوں کو توڑ کر ایک مصلی قائم کردینا، نجدی حکومت کی یقیناﹰ ایک بدعت حسنہ ہے۔کاش اسی طرح تفریقوں کو مٹاکر وحدت امت کا خیال اس حکومت نے دوسری چیزوں میں بھی رکھا ہوتا۔فجر کی نماز حنبلی (نجدی) امام پڑھاتا ہے۔ظہر  شافعی امام سے متعلق ہے عصر مالکی امام کی اقتداء میں ادا کی جاتی ہے۔مغرب کی امامت پھر حنبلی امام کے پیچھے ہوتی ہے اور عشاء کے وقت حنفی امام کی نوبت آتی ہے۔نماز جمعہ میں بھی حنبلی امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے۔اس طرح حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سب کو ایک دوسرے کے پیچھے ہر روز پڑھنی پڑتی ہیں۔ اور یہی وحدت امت اسلامیہ کے مذاہب اربعہ کی تقسیم تو سہولت اور آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے، نہ کہ امت اسلامیہ کو مختلف ٹکڑیوں میں توڑ دینے اور ایک کو دوسرے کے مد مقابل و حریف بنادینے کے لئے چار جماعتیں الگ الگ ہونے میں وہ لطف اور وہ حسن کہاں باقی رہ سکتا ہے جو سب کے یکجا پڑھنے اور ایک امام کی اقتداء کرنے میں آتا ہے۔شیعوں کے لیے کسی علیحدہ جماعت کا انتظام نہیں۔خالی اوقات میں شیعوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو "روضہ" میں اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا گیا اور چودھری محمد علی ردولوی کے سے شیعہ تو ہم لوگوں کی جماعت میں بےتکلف شریک ہوجایا کرتے تھے، کاش یہ فراخ دلی شیعہ فرقہ میں عام ہوجاتی! ۔

فرض نمازوں کی اذان کے علاوہ یہاں تہجد کی اذان بھی ہندوستان کے وقت کے اندازہ سے کوئی ڈھائی پونے تین بجے شب کو ہوتی ہے، اسی وقت حرم مدنی  کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اسی وقت خلقت کے ٹھٹ  کے ٹھٹ جو دروازوں سے لگے ہوئے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔ ذوق و شوق کے ساتھ لمبے لمبے قدم رکھتے ہوئے اندر داخل ہونے لگتے ہیں اور سب کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ سب سے پہلے مصلی نبوی پر یا کم سے کم "روضہ" کے کسی حصہ تک جا پہونچیں۔تخمیناً گھنٹہ پون گھنٹہ کے بعد فجر کی اذان ایسے وقت ہوتی ہے کہ خوب اندھیرا چھایا ہوتا ہے، حنبلی امام کی قرات عموماً طویل ہوتی ہے۔پھر بھی جب نماز ختم ہوتی، اندھیرا خاصا باقی رہتا اور لوگ تاروں کی چھاؤں میں گھر میں واپس جاتے۔دن نکلنے سے لے کر کوئی چار ساڑھے چار گھنٹہ کا وقت مسجد نبوی میں نسبتہً تخلیہ کا ہوتا ہے اس وقت ہجوم اور وقتوں کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے "روضہ" کے اندر نفلیں پڑھنے کا یہی بہترین وقت ہوتا ہے۔جس خوش قسمت کی رسائی یہاں تک ہوجائے اسے نہ بھول جانا چاہیے کہ خدا معلوم کتنے دوسرے بھی اس مصلے پر نماز پڑھنے کے آرزو و اشتیاق میں ہیں۔اس لیے اس جگہ پر بہت دیر تک اپنا قبضہ نہ جمائے رکھے بلکہ جلد دوسروں کے لیے جگہ خالی کردے۔حضور قلب کے ساتھ اگر چار بلکہ دو دو رکعتوں کا بھی موقع مل جائے تو بالکل کافی ہے۔ظہر میں ابھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہوتا ہے کہ پھر زائروں اور نمازیوں کا ہجوم بڑھنے لگتا ہے۔ٹھیک دوپہر کو بالکل اول وقت نماز ظہر ادا ہوتی ہے اور اسی طرح اس کے کوئی تین گھنٹے بعد بالکل اول وقت نماز عصر بھی، عصر کے بعد پھر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ذرا مجمع کم رہتا ہے یہانتک کہ مغرب میں جب گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ باقی رہتا ہے تو پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اس وقت صحن بھی عموماً گھر جاتا ہے اور درس حدیث و درس صرف و نحو کے حلقے جابجا قائم ہوجاتے ہیں، مغرب کے بعد بعض لوگوں کے وعظ بھی اکثر سننے میں آئے، ان میں ایک "واعظ"بڑی بلند آہنگی کے ساتھ اردو میں بولتا رہتا تھا۔اپنے کو دہلی کا باشندہ بتاتا تھا، لیکن لہب و لہجہ میں پنجابیت اچھی خاصی تھی،  ہندوستان میں تو کوئی اسے جانتا نہیں، مگر یہاں اس کا شمار "علماء " میں تھا۔قرآن کی عبارتیں غلط پڑھتا اور اس کے معنی غلط تر بیان کرتا اور "غیرمقلدی" کی تبلیغ بیباکی اور بدزبانی کے ساتھ کیا کرتا۔ایک روز میں ذرا کھڑا ہوکر سننے لگا تو کہہ رہا تھا کہ جو لوگ یہاں کی خاک بطور تبرک لے جاتے ہیں وہ سخت گنہگار ہوں گے اور ہرگز نہ بخشے جائیں گے۔اس لیے کہ قرآن میں آچکا ہے ۔

عشاء کی نماز مغرب کے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہوتی ہے اس وقت کے امام حنفی ہوتے تھے، جو ماشاءاللہ تجوید سے واقف ہیں اور خوش الحان بھی ہیں۔حنبلی امام کے برخلاف قرات مختصر کرتے اور ارکان نماز بڑے اطمینان سے ادا کرتے، اس لیے قدرۃ اس نماز میں اور تمام نمازوں سے زیادہ جی لگتا، جماعت عشاء کے کچھ دیر کے بعد مسجد ہر شخص سے خالی کرالی جاتی ہے۔خدام کھوج لگاتے ہیں کہ کہیں کوئی شخص چھپ کر تو نہیں بیٹھ رہا ہے۔روشنیاں گل کردی جاتی ہیں اور دروازے بند ہوجاتے ہیں، صرف دو ایک خادم اندر رہ جاتے ہیں۔

مسجد کے خدام عموماً سیہ فام خواجہ سرا ہیں۔حبشہ، مراقش، زنجبار وغیرہ افریقہ کے مختلف علاقوں سے ترکوں کے زمانہ میں نوعمر خواجہ سرا آ آکر بکتے تھے۔اور ترک سلاطین انھین خدمت حرمین کے لیے خریدلیتے تھے۔سلطان ابن سعود نے اس دستور کو جو ہرگز نہ سنت رسول کے مطابق تھا، نہ سنت صحابہ کے، بحمداللہ بند کردیا ہے، تاہم پرانے خواجہ سراؤں کی ایک تعداد (پچیس تیس کے قریب ہوگی) اب بھی باقی رہ گئی ہے، حرم نبوی کے اصلی خدام، چند سال قبل تک یہی لوگ تھے اور مقدس چاردیواری کے اندر سیاہ و سپید سب انھیں کے ہاتھ میں تھا، اب ان کے اختیارات بہت گھٹ گئے ہیں۔اور تنخواہیں بھی بہت کم ہوگئی ہیں، نذرانوں کی آمدنیاں بھی یوں ہی سی رہ گئی ہیں۔تاہم ان کے حسن اخلاق اور ان کے ولولہ خدمت ان کے حب رسول میں اب بھی کوئی فرق نہیں، ان کا وہ سر سے پیر تک سفید براق لباس، وہ اونچی اونچی پگڑیاں، وہ ڈھیلی ڈھیلی عبائیں، اور لمبی آستینیں، ایک مرتبہ دیکھ لینے کے بعد ان کی صورتیں نظر میں ایسی کھپ جاتی ہیں کہ پھر نکالنا چاہے بھی تو نہیں نکلتیں، مدینہ والے خصوصاً حرم مدینہ والے یوں تو سب ہی آپ کی امداد و اعانت کے محتاج و منتظر ہیں، لیکن بن پڑے تو ان خدام کی کچھ خدمت، خلوص دل سے ضرور کیجیے، ان کو یہاں کی اصطلاح میں "آغا" کہتے ہیں، بیچارے اپنے وطن سے دور اور اپنے عزیزوں قریبوں سے ہجور آستانہ نبی پر پڑے ہوئے ہیں۔نہ کہیں آنے کے نہ کہیں جانے کے، کچھ بھی ہوجائے کیسے بھی انقلابات آئیں، سارے شہر مدینہ کی آبادی خالی ہوجائے۔پر یہ یہاں سے نہیں ٹلتے، جب دیکھیے حجرہ مطہرہ کی پشیت پر، جانب شمال، باب جبریل، و باب النساء کے درمیان اپنے وسیع چبوترہ دکۃ الاغواث پر بیٹھے ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ یہی چبوترہ کسی اصحاب صفہ کا صفہ (چبوترہ) تھا۔ان کے کمزور جثوں، ان کے نحیف جسموں، اور سب سے بڑھ کر ان کے سیاہ رنگ پر اگر کبھی نظر جائے تو فوراﹰ یاد کرلیجئے کہ فخر امت بلال کسی ملک کے اور کس رنگ کے تھے۔موجودہ آغاؤں کے سردار خلیل آغا خاص طور پر خوش اخلاق ہیں۔ہندوستان بھی آچکے ہیں اور دیوبند کے بڑے معتقد اور گرویدہ ہیں۔

حرم کے اندر ایک خاص شخصیت "شیخ الروضہ" شیخ توفیق کرد کی ہے جو ترکوں کے زمانہ سے اسی عہدہ پر ہیں۔نورانی چہرہ، سفید رنگ پرسن سفید داڑھی بہت سے کلام مجید آس پاس لیے ہوئے، روضہ کے اندر منبر نبوی و مصلی نبوی کے درمیان بیٹھے ہوئے تلاوت کے لیے جس وقت جتنی دیر تک جی چاہے ان سے کلام مجید لےکر پڑھتے رہیے۔ایک صاحب نقیب العلماء کے لقب سے باب مجیدی کے قریب صحن کے شمالی دلان میں لڑکوں کو درس دیتے رہتے ہیں۔یہ بھی ملنے کے قابل ہیں۔ذی علم، خوش اخلاق، بےطمع، ہندوستان کی سیر کیے ہوئے، پانچوں دروازوں پر ایک ایک دو دو بواب یعنی دربان ہیں جن کا کام یہ ہے کہ جب آپ مسجد کے اندر قدم رکھنے لگیں تو اپنا جوتہ، یا چھتری یا لالٹین ان کے پاس رکھادیں،واپسی پر بحفاظت آپ کی چیز آپ کو مل جائے گی،اس مقدس مکان کی دربانی کوئی معمولی چیز ہے؟جس کے نصیب میں آجائے اس کی خوش نصیبی قابل رشک !باب جبرئیل کے دربان سے سابقہ زیادہ پڑتا رہا،ایک ہندوستانی ہیں،صوبہ بہار کے رہنے والے قمرالدین نام ہے،سالہا سال سے ترک وطن کیے در رسول پر پڑے ہیں،عربی ،فارسی سب زبانیں بقدر ضرورت سیکھ لی ہیں،ذرا خوش دلی سے ان کی خدمت کردیجئے بس پھر دیکھیے کیسے مہربان ہوجاتے ہیں،اور آپ کے کیسے کیسے کام نکال دیتے ہیں،باب الرحمتہ پر جو دربان ہیں ایک نورانی شکل کے پیر مرد ہیں،ثقہ لوگوں سے سننے میں آیا کہ صاحب دل و صاحب نسبت ہیں۔باب مجیدی کے بواب سے صرف دو  ہی ایک بار سابقہ پڑا ،لیکن ان کی خدمت میں جو کچھ پیش کیا گیا اسے کس طرح قبول نہ فرمایا ،یہی کہتے رہے کہ میرے لیے کعبہ و عرفات میں دعا کردینا یہی معاوضہ کافی ہے،یہ بےطمعی اور ایسی متوکلانہ روش ایسے موقع پر جہاں ترغیبات موجود ہوں قائم رکھنا بجائے خود ایک مجاہدہ ہے۔

بلدہ  طیبہ میں قیام کی جگہیں بہت سی ہیں، علاوہ کرایہ کے مکانات کے رباط بھوپال،رباط ٹونک ،حیدرآباد کی متعدد رباطیں وغیرہ،اوپر گزرچکا ہے کہ اپنا قافلہ حیدرآباد کی ایک رباط میں آکر اترا،لیکن دوسرے تیسرے ہی روز قافلہ مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم ہوگیا،مولانا مناظر صاحب ،مولوی عبدالباری صاحب وغیرہ بدستور رباط حسین بی میں مقیم رہے جو حرم سے دو فرلانگ کے فاصلہ پر ہے بعض دوسرے رفقاء بھی الگ الگ مکانات میں اٹھ گئے،لیکن جو جماعت بھر میں سب سے زیادہ کم ہمت اور بہانہ باز تھا اسے مع خاص اس کے چھ آدمیوں کے فاصلہ کے اللہ کے فضل و کرم نے حرم کے باب جبرئیل و باب النساء سے کل دس بیس گز کے فاصلہ پر مولانا سید احمد کے مدرسہ الیتامیٰ سے متصل مولانا ہی کے ذریعہ سے جگہ دلادی،!۔وہ کمزوروں اور ناتوانوں کا رب،اپنے پست ہمت بندوں کی شاید یوں ہی دستگیری کرتا رہتا ہے۔مولانا سید احمد فیض آبادی کے احسانات و عنایات کا بیان کن الفاظ میں ہو،محض انھیں کے لطف و توجہ نے قیام کا مسئلہ یوں حل کردیا،اور اس کا پورا موقع بہم پہونچادیا ،کہ جتنی دیر تک اور جتنی بار جی چاہے حرم میں حاضری ہوتی رہے اور پھر کھانے پینے اوڑھنے بچھانے ،اور ہر قسم کے سامان آسائش کا جس اہتمام و التزام کے ساتھ ،وہ ہر وقت خبر لیتے رہے اس کی تفصیل اگر تحریر میں لائی جائے تو یقیناﹰ ایک گروہ اسے مبالغہ بیانی پر محمول کرے۔

حرم کے دروازے نماز عشاء کے کچھ دیر بعد بند ہوجاتے ہیں،اور شب میں کسی کو اندر رہنے کی اجازت نہیں،الّا یہ کہ خدام و محافظین سے مخصوص اجازت قبل سے حاصل کرلی جائے۔کون ایسا بدنصیب ہے جسے اس کی تمنا  ہوئی ہوگی؟ لیکن اس آرزوکےپوراہونے کی کیاصورت؟

حل ایں نکتہ ہم ازروئےنگارآخرشد!۔

ایک بار پھر اپنے انہیں فیض آبادی بزرگ اور ان کے حقیقی بھائی مولانا حسین احمد صاحب کا نام لینا پڑتا ہے کہ ایک کے

مکتوب نے اور دوسرے کے زبانی گفتگو نے اغوات حرم خصوصا شیخ خلیل آغا کو(جو حدیث میں موجودہ شیخ الحدیث

دیوبند کے شاکرد بھی ہیں)مہربان کردیا، ایک شب کہ شب دو شنبہ تھی،قیام کی اجازت اس نامہ سیاہ اور اس کے رفیقوں

میں مولانا مناظر صاحب کو مل گئی،چند اور اصحاب کو بھی جو سب کے سب ہندی ہی تھے،اسی شب اجازت ملی،جن

میں قابل ذکر میر نیرنگ صاحب۔(معتمد انجمن تبلیغ اسلام انبالہ)اور حیدرآباد دکن کے وکیل مولوی ابو الخیر خیر ا

صاحب ہیں،یہ شب کس طرح گزری اور کس نے کیا کیا کیا؟ اس کی شرح اخبار اور کتاب کے صفحہ پر لانے کی نہیں، صرف

لوح دل پر محفوظ رکھنےکی ہے،البتہ ایک بدنصیب ایسا تھا،جس نے اپنی ناقدری سے اس شب قدر کو بھی بالکل ضائع

کر کے رکھا، وہ صحن میں جاکر سویا بھی اور جتنی دیر جاگا،اتنی دیر بھی اس کا وقت غفلت ہی کی نذر رہا وہ اپنی

محرومیوں اور کوتہ سنجیویں کا گلہ کس سے اور کن لفظوں میں کرے! ۔سکندر کو حضرت خضر جیسے رہبر کامل ملے اور

چشمہ حیوان تک رسائی ہوئی لیکن نتیجہ؟ یہ واقعہ دنیا کی تاریخ میں صرف ایک ہی بار ایک ہی شخص کو پیش نہیں آیا

ہے، خدا معلوم کتنے سکندر ہیں جنہیں ہر جگہ ہر وقت یہی پیش آتی رہتی ہے۔۔۔۔۔

باقی اور بعض مہربانوں نے اس شب میں جو کچھ کیا حکومت کے قانون اور شریعت کے قانون کو جس طرح توڑا، آستانۂ مبارک پر جس طرح سجدے کیے،اس کے آستانے پر سجدے کیے جس کی سرکاری زندگی کا منشا اسی انسان پرستی کو مٹانا تھا،اُن کی بابت کیا کہا جائے اور بیسویں صدی عیسوی کا دور یا جوجی جو دیکھا رہا ہے اُسکا رونا کہاں تک رویا جائے۔

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/