بدلتے حالات کے تناظر میں، سیاسی داؤ پیچ کا استعمال وقت کی اہم ضرورت۔۔۔از: نقاش نائطی

Bhatkallys

Published in - Other

03:56PM Wed 22 Nov, 2017
گذشتہ ریاستی انتخاب میں مجلس اصلاح و تنظیم بهٹکل کے قومی امیدوار عنایت اللە شاہ بندری کا انتخاب لڑنا، اور اس ریاستی انتخاب میں اپنی ہار کے باوجود ایک قدآور سیاسی لیڈر کی حیثیت سے ابھرنے میں انکا کامیاب ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ ڈرتے ڈرتے ہی صحیح قوم نے  بنا شرط کانگریس کی  تائید میں قومی ووٹ ڈالنے کے بجائے،کانگریس سے برگشتہ ہوکر، سیکیولر جنتا دل کے تائید کردہ قومی امیدوار کو الیکشن میں لڑانے کا قومی فیصلہ، وقت کا صحیح ترین فیصلہ تها. نہ صرف ذاتی طور پر انہیں سیاسی فائدہ ہوا بلکہ سابقہ دو دہوں کی مقامی سیاست میں مسلم ووٹوں سے علاقے پر راج کرنے والی اور سابقہ دو  دہوں سے مسلمانوں کو صرف وعدوں اور جهوٹے سپنوں پر ٹرخانے والی کانگریس نے قومی امیدوار  کی کانگریس کو چهوڑ جنتا دل کی طرف سے انتخاب لڑتے ہوئے، ریاستی انتخاب میں ہارنے کےباوجود، کانگریس کے سرگرم رکن، المحترم مزمل قاضیہ کو ریاستی اسپائس بورڈ کا چیرمین بنایا جانا یہ ثابت کرتا ہے، کہ گذشتہ انتخاب میں کانگریس سے ناراض ہوکر جنتا دل کے ٹکٹ پر قومی امیدوار کهڑا کر انتخاب لڑانا وقت کا سے  سب سے بہترین فیصلہ تھا۔ اب ذرا اس انتخاب میں قومی امیدوار کی ہار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا یے اس وقت  پچانوے تا اٹهانوے فیصد قومی یکجہتی کے باوجود ایک دو فیصد ہمارے اپنے باغی سرگرم باآثر کارکنوں نے،  نامداری منتشر ووٹوں کی صورت، تھالی میں سجا کر ملنے والی اس وقت کی جیت کو ہار میں بدلنے میں بڑا رول ادا کیا تھا. سابقہ دو دہوں کی آسمبلی و پارلیمنٹری نمائیندگی کرنے والے مختلف نامداری امیدواروں کی لوٹ کهسوٹ سے پریشان حال علاقے کے ووٹر اپنے میں نامداری مخالف جذبہ پاتے تھے. خصوصا علاقے کی تیسری بڑی ووٹ اکثریت، گوڈا ذات اور دوسری پچھڑی ذاتیں، کسی بھی صورت غیر نامداری امیدوار کو جتوانے کی فراق میں تھے. ایسے میں ہم مسلمان، اپنے پرانے، اپنوں ہی کی ٹانگ کھینچنے کے وصف کے چلتے، دور دراز کے ووٹروں کے پاس پہنچ پہنچ کر ، اپنی برادری ہی قومی امیدوار کے حق میں متفق نہیں ہے،اور   کسی بھی صورت قومی امیدوار کے جیتنے کے چانسز نہیں ہیں، یہ بتاکر، جتلاکر، مخالف نامداری ووٹوں کو، جو نامداری امیدوار کو ہرانے کے لئے قومی امیدوار کے حق میں اکهٹا  کئے جاسکتے تھے، قومی امیدوار کے خلاف ایک آزاد امیدوار کے حق میں رائے دہی کر، نامداری امیدوار  کے خلاف اس کی جیت آسان بنادی تھی. اسی تناظرمیں، خصوصا گوڈا ووٹ جو کسی بھی طور نامداری امیدوار کی ہار کے متمنی تھے اپنے قیمتی ووٹ کو قومی امیدوار کے حق میں استعمال کرنے پر،اپنے قیمتی ووٹوں کے  بے کار چلے جانے کے ڈر سے، قومی امیدوار کے خلاف ووٹ استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے تھے.قوم کے ووٹوں کو بیرون ملک رہتے، دان میں کانگریس کو دینے کا سودا کرنے والے بعض اہم ذمہ داروں نے ، مجلس اصلاح و تنظیم کےمتفقہ فیصلہ کے خلاف قومی  امیدوار کے خلاف لڑ رہے  غیر مسلم امیدوار کو جتانے کے لئے، نہ صرف نرم  گوشہ رکھا. تها بلکہ الیکش فنڈ بهی دئے جانے کی خبریں زبان زد عام تهیں.واللہ الاعلم* *پانچ سال قبل ریاستی انتخاب عنایت اللە کی ہار کے بعد بحیثیت انتخابی تبصرہ نگار انہی نکات پر مبنی اپنا تبصرہ کمٹہ کاونٹنگ سے واپس آتے ہوئے، عوام الناس کے سامنے ہم نے رکھے تھے جس کے نکات اکثر قارئین کو یاد رہینگے۔ مجلس اصلاح و تنظیم اپنے ماتحت، پورے اسمبلی حلقہ میں پڑنے والے مسلم علاقوں کے اداروں پر مشتمل سیاسی پینل میں علاقے کے لئے کسی مسلم امیدوار کے انتخاب میں حصہ لینے یا تائید کرنے کے فیصلے کیا کرتی یے. سابقہ دس سال قبل بھی کرناٹکا مسلم فرنٹ نے، کانگریس کی بے اعتنائی سے متنفر ہوکر آزاد مسلم امیدوار کو انتخاب لڑواتے ہوئے مسلم ووٹوں کی اہمیت جتوانا چاہا تها، لیکن اس وقت خلیجی ممالک میں مصروف تجارت بعض باآثر ذمہ داروں نے سیاسی پینل میٹنگ میں اپنے اثر رسوخ کا استعمال  کر، جس کانگریسی امیدوار  جے ڈی نائک کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، وہی جے ڈی نائک اپنے پانج سالہ دور اقتدار میں قوم وملت کو جهوٹے وعدوں پر ٹرخاتے ٹرخاتے،  خود مسلم دشمن بی جے پی میں شمولیت اختیار کر قوم کی نیا کو بیج منجدھار میں چهوڑ،اپنا سیاسی مستقبل تابناک کرگیا ہے.* *اب بھی قوم و ملت اسی منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے  کہ  کس پارٹی کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کرے. مسلم امہ کا فقدان یہی ہے کی انکے پاس صرف اور صرف مسلم امہ کے حق میں لڑنے اور ضرورت پڑنے پر قوم ملت کے لئے اپنی اپنی  پارٹی کا ساتھ  چھوڑنے والے لیڈران  کا فقدان ہے.  بنسبت ان نام نہاد لیڈروں کے، جو قوم و ملت کے ووٹوں کا سودا کر اپنا سیاسی قدر اور دھن جمانے کے فراق میں رہتے ہیں. بے شک مسلمانان کرناٹک  کے وسیع علاقے میں، بی جے پی جیسی فسطائی طاقت کے خلاف کانگریس جیسا ایک اچھا متبادل  موجود ہے. بعض علاقوں میں جنتا دل مضبوط یے ایسے میں تکونی مقابلہ ،مختلف  گروہی خیموں میں بٹی، بی جے پی کے لئے جیت کی راہ آسان کرسکتا یے.  ایسے میں حالیہ ریاستی انتخاب میں کانگریس و جنتا دل کا انتخابی سمجهوتا وقت کی اہم ضرورت یے.* *ایک لمبے عرصے تک المحترم مرحوم جوکاکو شمش الدین اور المحترم مرحوم ایس ایم یحیی صاحب کی نمائندگی والے بهٹکل اسمبلی حلقے سے  محترم مزمل قاضیہ   یا المحترم یونس قاضیہ کو امیدوار بنایا جاتا پے تو اس علاقے کے مسلم بائیس چوبیس ہزار ووٹ اور کانگریس کے روایتی دس ایک ہزار دیہاتی ووٹوں کے سہارے اس حلقہ سے قومی امیدوار جیت سکتا یے. ہماری سیاسی بصیرت کے پیش نظر ہم ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس پارٹی، ہمارے مسلم اکثریتی حلقہ سے کسی بهی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دے گی. اور اگر کانگریس کسی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں بھی دیتی یے اور جنتا دل کے ٹکٹ پر قومی امیدوار انتخاب لڑتے ہوئے گذشتہ انتخاب کے تجربہ کی بنیاد پر گوڈا ووٹ،اپنے ریاستی لیڈران کی درخواست پر قومی امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کرتے ہیں تو تکونی یا چارکونی انتخابی لڑائی میں، قومی امیدوار کی جیت ناممکن بھی نہیں رہ  جاتی .  اور اگر قومی یکجہتی دکھاتے ہوئے کچھ سو ہزار ووٹوں کے فرق سے قومی امیدوار ہار بھی جاتا پے تومستقبل میں یکمشت پڑنے والےکثیر مسلم ووٹوں کے حصول کے لئے، سیکیولر سیاسی پارٹیوں سے قومی بھلائی کی سودے بازی کرنے کی پوزیشن میں قوم آکهڑی ہوسکتی ہے. قوم و ملت کی بهلائی کی خاطر مناسب سودے بازی کے بغیر ان کی جهولی میں پڑنے والے مسلم ووٹوں کی کوئی قدرو منزلت باقی نہیں رہتی.موجودہ سیاسی پس منظر میں، اپنی طاقت جتلاکرسیاسی سیکیولر پارٹیوں سے قوم و ملت کے مفاد میں سودے بازی کرنے والے ہی، دراصل قوم و ملت  کی صحیح معنوں خدمت کر رہے ہوتے ہیں* *گذشتہ اسمبلی انتخاب میں بحیثیت آزاد امیدوار جیتنے والے رکن اسمبلی نے،  پنچائتی انتخاب میں، مجلس اصلاح و تنظیم کی مدد سے جیتنے والے کانگریسی پنچایتی امیدواروں کو مجلس اصلاح و تنظیم کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتے ہوئے، پنچایت چیرمین شب انتخاب میں، مجلس اصلاح و تنظیم کے نامزد امیدوار کو، شکشت فاش دیتے ہوئے، علاقے میں مجلس اصلاح و تنظیم کے وقار کو مجروح کرنے کی جو کوشس کی یے،اسے نظر انداز کرتے ہوئے، اس کے بہی خواہوں کی ایما پر آئیندہ منعقد ہونے والے ریاستی انتخاب میں اسکی حمایت کا اعلان کرنا ، ایک ایسی سیاسی بھول ہوگی جس کے لئے نہ صرف مجلس اصلاح و تنظیم کو بلکہ قوم و ملت کو تادیر پچھتانا پڑیگا. ایسے ناعاقبت آندیش فیصلہ کے لئے مشہور شاعر رزمی کا وە شعر گنگناتے رہنا پڑیگا* *یوں جبر بھی دیکھا یے ان سلطانوں(قومی لیڈروں)کا* *"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے* *فی زمانہ عملی سیاست میں مسلمانوں کی خاطر خواہ شراکت ہی، مسلم امہ  میں ہمت و حوصلہ بڑھانے میں تریاق کا کام کرسکتی یے. انتخاب میں ہار کے خوف سے انتخابی جنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرنے والے دراصل اپنے ازلی دشمن سے دو بدو جنگ لڑے بغیر، میدان کار زار سے راە فرار اختیار کرنے والے ڈرپوکوں میں سے ہوتے ہیں.موجودہ سیاسی منظر نامہ، براہ راست انتخابی لڑائی کے مقابلے تکونی یا چوکور مقابلہ آرائی ہی کا لگتا یے. اوپر سے لیڈروں کے نزول کے بجائے عوامی سطح پر مقبول عام، نمائندے ہی کو اپنی پوری طاقت جھونک ایک طاقت ور سیاسی لیڈر کی حیثیت طاقتور تر بنایا جاسکتا یے.وما علینا الا البلاغ*   (مندرجہ بالا مضمون مصنف کی ذاتی آراء و خیالات پر مشتمل ہے اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا بالکل  بھی ضروری نہیں)