سچی باتیں ۔۔۔ اگلوں کا احترام ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

07:25PM Fri 13 Oct, 2017

وَالَّذِیْنَ جَآؤُا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذَیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ۔  حشر۔ع ۔ا اور وہ مؤمنین جو ان لوگوں  کے بعد آئے کہتے ہیں  کہ اے ہمارے پروردگار بخش دے ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں  کو جو ایمان لانے میں ہم سے سابق ہوئے اور ہمارے دلوں  میں  میل نہ رکھنا ان کی طرف سے جو ایمان لائے۔ کسی بندہ کا نہیں  خدا کا کلام ہے،مؤمنین کے لئے ایک عام دستور العمل ارشاد ہوتا ہے ۔مؤمنین کا شعار یہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اپنے پیش رووں  سے بغض و عداوت رکھنا ،ان کی تنقید وتنقیض کرتے رہنا الگ رہا ان کے حق میں  دعائے مغفرت اپنی دعائے مغفرت کے ساتھ ہی ساتھ کرتے ہیں  اور جس طرح اپنی نجات کے حریص ہیں ،ان کی نجات کے بھی طالب رہا کرتے ہیں  اور اپنے قول و عمل سے ان کی تحقیر وتوہین کرنا تو کجادعائیں  اس کی مانگتے رہتے ہیں  کہ دل میں  ان کی طرف سے غبار نہ رہنے پائے.اگلوں  کی عزت ونیک نامی کو پچھلے اپنی عزت و نیک نامی سمجھتے ہیں، ان کی ناموری سے خوش ہوتے ہیں  ان کی رسوائی سے کڑھتے ہیں۔ امّت کو’’ تعلیم ‘‘یہ ملی تھی ،امّت کا ’’عمل‘‘کیا ہے؟آج جو بے ادب اگلوں  کی عزت پر حملہ کرنے میں  جتنا زیادہ بے باک اور بے دھڑک ہے اسی قدر زیادہ ’’محقق‘‘وروشن خیال،حدیث میں  ہر طالب علم ،امام بخاری وامام مسلم پر نکتہ چینی کے لئے آمادہ ،تفسیر میں  ہر جاہل ،مجاہد وابن جریر کا حریف ، فقہ میں  ہر عامی،ابوحنیفہ وشافعی کی تنقید میں  سرگرم کہ آج یہی دلیل کمال اوریہی معیارِفضیلت ہے !اور ان سے بھی گزر کر اجل صحابہ اور خلفائے راشدین تک کے مقابلہ میں  یہ دلیل قطعی ہر زبان پر موجود کہ ’’برحال وہ معصوم تھے‘‘،عام اہل امّت کی طرح خاطی ہی تھے ،آج سائنس کا’’ایکسپرٹ‘‘ (ماہرفن)جو کچھ کہہ دے،اس کے مقابلہ میں  سب کی زبانیں  گنگ اورسب کے قلوب جھکے ہوئے۔ لیکن فقہ وتصوف ،حدیث و قرآن کے ’’اکسپرٹس‘‘-ماہر فن-کے اقوال اگر نقل ہوں  تو انھیں  مان لینا ،حریت ضمیر کے منافی ،آزادی عقل والے کے حق میں  مہلک. کسی پیش روسے کسی مسئلہ میں  غلطی ہوگئی ہو تو غور وتحقیق کے بعد سنجیدگی وشرافت سے اسے واضح کردینا نہ کوئی گناہ ہے نہ کوئی شرعی جرم،نہ کہیں  اس کی ممانعت ہے نہ اس کی حوصلہ فرسائی لیکن اس کے با لمقابل خیرہ سری وجسارت کے دوسرے سرے پر پہنچ جانا ،بلا ضرورت اور بلا غورو تحقیق ،اپنے بڑوں  کی،اپنے اکابرِفن کی ، اپنے مرحوم بزرگوں  کی تحقیر وتضحیک کرتے رہنا ان کی ادنیٰ سی ادنیٰ غلطیوں  کی ٹوہ میں  خواہ مخواہ لگے رہنا اوراگر کوئی ہاتھ آجائے اسے بڑے شوق کے ساتھ فاتحانہ انداز سے شائع کرنا یہ آخرکس آئین شرافت ،کس آئین شریعت کے مطابق ہے؟