خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ ۔۔ خوشی کے شادیانے /تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

07:42PM Tue 9 Jan, 2018

ایک جملہ اکثر پڑھنے میں آتا ہے ’’خوشی کے شادیانے بجنے لگے‘‘۔ سال 2018ء کے پہلے دن ادارتی صفحے پر حافظ عاکف سعید کا مضمون چھپا ہے۔ اس میں شروع ہی میں ایک جملہ ہے ’’اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں‘‘۔ اگر اس میں سے ’’خوشی کے‘‘ نکال دیا جائے تو بھی مفہوم پورا ہوجائے گا اور جملہ تکرارِ قبیح سے محفوظ ہوجائے گا۔ ’شادیانے‘ کا مطلب ہی خوشی ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: خوشی کا باجا، وہ نوبت جو شادی میں بجائی جاتی ہے، خوشی کے گیت گانا وغیرہ۔ اس کی اصل ’شاد‘ ہے (بروزن باد)۔ مطلب ہے: خوش و خرم، جیسے ’’چشمِ ما روشن، دلِ ماشاد‘‘۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے ’’شاد باید زیستن ناشاد باید زیستن‘‘۔ شاد ہی سے شاداب صفت ہے یعنی ترو تازہ، سرسبز، سیراب، ہرا بھرا۔ مونث شادابی۔ بعض لوگ ’شادمند‘ بھی لکھتے ہیں لیکن محققین کی رائے ہے کہ یہ ترکیب غلط ہے۔ کیوں کہ شاد بمعنی خوش، اس میں مند کے اضافے کی ضرورت نہیں اور ترکیب صفت کی صفت کے ساتھ ناجائز ہے۔ مند، مانند یا ماں زاید کا مخفف ہے۔ اہلِ زبان نے صرف ’فیروز مند‘ کی ترکیب جائز قرار دی ہے۔ (لیکن ضرورت مند جائز ہے یا ناجائز، اس کی تصریح بھی ضروری ہے) اور شادی کا مطلب تو سبھی جانتے ہیں۔ مختصر یہ کہ شادیانے کے ساتھ ’’خوشی کے‘‘ لکھنا یا کہنا غلط ہے۔ 27 دسمبر 2017ء کو ادارتی صفحے پر ایک مضمون نگار نے ’’فوج کا سپہ سالار‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ اس طرف متوجہ کیا گیا تو خود ہمیں توجہ دلائی گئی کہ یہ ترکیب تو مضمون کے اندر استعمال ہوئی ہے جس پر شاید کسی نے توجہ نہ کی ہو، لیکن گزشتہ سال کے آخری سنڈے میگزین (24 تا 30دسمبر) میں تو یہ غلطی جلی سرخی میں ہے۔ حامد ریاض ڈوگر کے مضمون کی سرخی ہے ’’پاک فوج کے سپہ سالار ایوانِ بالا کے بند کمرے میں‘‘۔ بہرحال مضمون میں یہ غلطی دہرائی نہیں گئی اور مسلح افواج کا سربراہ ہی لکھا گیا۔ آرمی چیف کا اردو میں ترجمہ اچھی بات ہے لیکن ترجمہ کرنے والوں کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’سپہ سالار‘‘ میں سپہ فوج کے لیے ہے، چناں چہ ’’فوج کا سپہ سالار‘‘ لکھنا جہالت ہے۔ اسی شمارے میں مستقل مضمون نگار نجیب ایوبی نے مشہور شعر میں تحریف کی ہے۔ مصرع ہے ’’ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن‘‘۔ انہوں نے ننگِ ملت کو ’’ننگِ آدم‘‘ کردیا، حالاں کہ جعفر و صادق نے برعظیم کی ملتِ اسلامیہ سے غداری کی تھی۔ سرورق پر ایک سرخی ہے جس میں ’سنبھالا‘ کو ’’سنبھالہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے یوم تاسیس پر جو مضمون بھیجا اُس میں سرخی اسی طرح دی گئی۔ کبھی اسلامی جمعیت طلبہ عمل کے ساتھ علم میں بھی سرفہرست تھی۔ اب اگر اسے سنبھالا اور سنبھالہ میں فرق نہیں معلوم تو افسوس کی بات ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ایک نوجوان نے ’’متلون‘‘ کا تلفظ پوچھ لیا۔ زبان کے بارے میں اُن کا شوق دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کیوں کہ یہ بات نوجوان صحافیوں میں مفقود ہوگئی ہے۔ خیر، ’’مُتَلوِّن‘‘ عربی کا لفظ ہے۔ اس میں پہلے حرف پر پیش، دوسرے پر زبر، واؤ پر تشدید اور زیر ہے۔ بعض لوگ اسے متلون بروزن پتلون بھی پڑھ لیتے ہیں۔ متلون کا مطلب ہے وہ شخص جس کے مزاج میں استقلال نہ ہو، مختلف رنگ اختیار کرنے والا۔ مسئلہ یہ ہوا کہ نوجوان نے اس کا مادّہ پوچھ لیا اور ہم نے تلوّن بتادیا۔ بعد میں غلطی کا احساس ہوا۔ اس کا مادہ ’لون‘ ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے ’رنگ‘۔ وہ نوجوان اگر یہ سطور پڑھیں تو ہماری غلطی کی اصلاح کرلیں۔ تلوّن (تَ۔لُو۔وُن) یعنی رنگ بدلنا، ایک حالت یا ایک بات پر قائم نہ رہنا۔ اوچھا پن، چھچھور پن کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ غیر مستقل مزاج شخص کو تلوّن مزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن تعاوُن اور تفنن ہوسکتا ہے۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اطراف کا مطلب ہے دو طرف۔ چناں چہ کئی اطراف اور چاروں اطراف لکھنا غلط ہے۔ لیکن ایک ساتھی نے دسمبر 2017ء کا عالمی ترجمان القرآن سامنے کردیا جس میں بین الاقوامی امور کے ماہر اور بہت اچھے نثّار عبدالغفار عزیز اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے‘‘۔ (صفحہ:21) یہ پڑھ کر ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے کہ جب عربی اور اردو کا ایک عالم ’’کئی اطراف‘‘ لکھ رہا ہے تو وہی صحیح ہوگا۔ اسی مضمون میں آگے بھی ایک جملہ ہے ’’مختلف اطراف سے دباؤ‘‘۔ مضمون کے آخر میں ایک حدیث کا ترجمہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔ یہاں ’اطراف‘ کا استعمال بہت صحیح ہے گو کہ عزیزِ من نے حدیث میں موجود ’اکناف‘ کا ترجمہ کیا ہے۔ ’اکناف‘ کنف کی جمع ہے اور مطلب اس کا بھی اطراف یا طرفین ہے، کنارے، سمتیں۔ اطراف کی طرح اکناف کے ساتھ بھی ’’کئی اکناف‘‘ نہیں آئے گا۔ اردو میں عام طور پر یہ دونوں الفاظ ایک ساتھ آتے ہیں یعنی ’’اطراف و اکناف‘‘۔

    ہم جدہ میں گھر سے دفتر کی طرف جارہے تھے کہ ایک سعودی نے کار روک کر ہم سے ’’غاز‘‘ کا پتا پوچھا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا چیز ہے۔ غازہ کا علم تو تھا۔ دفتر جا کر عربی کے ماہر اپنے ایک ساتھی سے پوچھا کہ یہ غاز کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ’’گیس‘‘ کا عربی تلفظ ہے۔ سعودی عرب میں اب بھی گھروں کو گیس فراہم نہیں کی جاتی بلکہ دکان سے جاکر سلینڈر لانا پڑتا ہے۔ وہ سعودی ہم سے ایسی ہی دکان کا پتا پوچھ رہے تھے۔ لیکن یہ گیس ’غاز‘ کیسے ہوا، یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ چلیے، ڈاکٹر عبدالرحیم سے رجوع کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں بہت کم لوگ گیس کی تاریخ سے واقف ہوں گے۔ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا کہ تخلیقِ کائنات سے پہلے فضائے لا متناہی میں شکل صورت سے عاری ایک مادہ نہایت بے ترتیبی کے ساتھ پھیلا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے یونانی زبان میں ’’خاؤس‘‘ رکھا۔ اس کے معنی ہیں بے ترتیبی، بدنظمی، ابتری۔ اس کے برخلاف انہوں نے کائنات کا نام کوسموس رکھا جس کے معنی ہیں حسنِ ترتیب۔ یہ دونوں الفاظ انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں کیوس اور کوسموس کی صورت میں مستعمل ہیں۔ سترہویں صدی عیسوی میں ہالینڈ کے سائنس دان فان بلمونٹ نے جب گیس  کے لیے کوئی لفظ وضع کرنا چاہا تو اسے گیس اور فلاسفہ کے خاؤس کے درمیان کافی مشابہت نظر آئی۔ خاؤس کی طرح گیس کی بھی کوئی متعین شکل نہیں ہے۔ جس ظرف میں جاتی ہے اسی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ گیس کا نام آج بھی ولندیزی ڈچ زبان میں خاس ہے اور اس کا املا  گاس  ہے، کیوں کہ ڈچ زبان میں جی کو خ پڑھتے ہیں۔ جب یہ انگریزی میں داخل ہوا تو انگریزوں نے اپنی زبان کے قواعد کے مطابق گیس پڑھا۔ فرانسیسی میں یہ لفظ  کی صورت میں داخل ہوا جو عربی میں آکر ’غاز‘ بن گیا۔ خواتین جو غازہ استعمال کرتی ہیں کہیں اس کا تعلق بھی غاز سے تو نہیں! غازہ فارسی کا لفظ ہے۔ سرخی، پاؤڈر، ابٹن وغیرہ کو کہا جاتا ہے۔

بشکریہ فرائیڈے اسپیشل

             

بشکریہ : فرائیڈے اسپیشل