بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (پانچویں قسط) از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(گزشتہ سے پیوستہ )
الحمدللہ سابقہ اقساط پر میرے کئی خیر خواہ علماء اور بزرگ قدردانوں نے شہر اور بیرون شہر سے اپنے ستائشی تاثرات سے نوازا۔ اس موضوع کی اہمیت اور اس کو جس مؤثر انداز میں ہینڈل کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اسے افادۂ عام کی خاطر کتابی شکل میں شائع کرنے کی نہ صرف تجویز دی بلکہ میرے دو بہت ہی ہمدرد اور قدردان علمائے کرام نے اس کے اخراجات میں اپنا مالی تعاون تک دینے کی پرخلوص پیش کش کی۔ اللہ انہیں اس جذبے کے لئے بہترین اجر سے نوازے۔ بہر حال اس دلچسپ معرکے کا میرے لیے جو سب سے بڑا ماحصل اور achivementرہاتھا اس کے بارے میں ان شاء اللہ اس مضمون کی آخری قسط میں بتاؤں گا۔ فی الحال مضمون کی یہ قسط ملاحظہ کیجیے:
وکیل : کیا تمہیں پتہ ہے کہ امتناعی احکامات اور کرفیو کی حالت میں لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا منع ہے؟
جواب : ہاں مجھے پتہ ہے۔
وکیل : تو کیا09 - 11 - 1993 کو کرفیو نہیں تھا؟
( یاد رہے کہ اس روز بازار میں دن دہاڑے عام مسلمانوں پر سنگھ پریوار کے نقاب پوشوں نے تلواروں سے جان لیوا حملہ کیا تھا جسمیں ایک شخص شہید اور کئی مسلمان شدید زخمی ہو گئے تھے۔ ماری کٹہ مین روڈ پرایک نوجوان کا ہاتھ تلوار کے حملہ میں کلائی تک کٹ کر گرگیاتھا اور وہ دائمی طور پر معذورhandicap ہو گیا۔اس قاتلانہ حملہ کی COD کے ذریعہ تحقیقات کے باوجود حملہ آوروں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہ چلنے کی بات کہی گئی۔اور آج تک فساد کے اس تلوار ایپی سوڈ کی سازش رچنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا پتہ چلایا نہیں جاسکا ہے۔بلکہ اس کیس کی فائل ہی بند کردی گئی ہے۔)
جواب : نہیں ۔ اس دن کرفیو نہیں تھا۔
وکیل : لیکن امتناعی احکامات(دفعہ144) لاگو تھے؟
جواب : میں نہیں جانتا کہ اس دن دفعہ 144 لاگو تھی یا نہیں۔
وکیل : میں کہتا ہوں کہ اس دن امتناعی احکامات کی وجہ سے بھٹکل میں کوئی بھی اسکول کھلا نہیں تھا۔ اس لئے تلواروں کے حملہ کے وقت تم نہ اسکول میں حاضرتھے نہ ہی تم نے کچھ دیکھا تھا، بلکہ تم یوں ہی جھوٹا بیان دے رہے ہو۔(میرے داخل کردہ بیان کے پس منظر میں یہ سوال تھا)
جواب : نہیں، میں اس سے انکار کرتا ہوں۔ اس دن اسکول (شمس)کھلا تھا اور میں نے اسکول کے قریب سے تلواروں سے حملہ کا منظر دیکھا تھا۔
وکیل: کیا تم اپنے آپ کو نوائط مسلم طبقہ کا لیڈر سمجھتے ہو؟
جواب : نہیں ۔میں ایک عام آدمی ہوں۔ میں اپنے آپ کو لیڈر نہیں سمجھتا۔
وکیل : تم اللہ کے علاوہ کن ناموں سے اپنے رب کو پکارتے ہو؟
جواب : میں اللہ کو اس کی ذات اور صفات کے پیش نظر جن ناموں سے بھی پکاراجائے، اس کو مانتا ہوں۔
وکیل : یعنی ایشور کو بھی مانتے ہو؟
جواب : نہیں۔۔۔’’ اللہ‘‘ کو اگر’’ ایشور‘‘ کہا جائے ، تو مانتا ہوں۔
وکیل : یعنی مختلف خداؤں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
جواب : ہمارے یہاں توحیدneness of God Oہے۔خداؤں کی کثرتPlurity of Gods کا کوئی تصور ہی ہمارے پاس نہیں ہے۔
غالباً کمیشن کے سامنے پیشی کامیرا یہ تیسرا دن تھا۔ اس دوران جج نے مداخلت کرتے ہوئے سنگھ پریوار کے وکیل سے دوستانہ انداز میں کہا کہ بھئی ،بس بھی کرو۔کہاں تک طول دو گے اس سلسلے کو ؟ اس پر وکیل نے بھی مسکراتے ہوئے کہا کہ کچھ دیر اور چلنے دیں، ہمیں اس گواہ سے جرح cross کرتے ہوئے مزہ آرہا ہے اور بہت سے نئے پہلو ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔
وکیل : دیکھو بحیثیت ڈاکٹر تم یہ بتاؤ کہ انسان کے لئے کوئی بھی چیز تازہ اور فریش کھانا مفید ہوتا ہے کہ نہیں؟
جواب : ہاں۔ صحت کے نقطۂ نظر سے یہ صحیح ہے۔
وکیل : اسی طرح جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد تازہ گوشت کھانا ضروری ہے؟!
جواب : ( میری چھٹی حس نے مجھے الرٹ کردیا کہ اب یہ بات کو کس طرف لے جا نا چاہتا ہے۔اس لئے میں نے کہا: )تازہ گوشت توکھانا چاہئے، لیکن اگر اس کو ڈیپ فریزر کے ذریعہ محفوظ کر لیا جائے تو کئی کئی دن بعد بھی کھایا جا سکتا ہے۔ اور بھٹکل میں فریزرس کی کمی نہیں ہے۔
وکیل : کیا بھٹکل میں مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں؟
جواب : جیسے ساری دنیا میں کھایا جاتا ہے، یہاں بھی کھاتے ہیں۔
وکیل: میں نے پوچھاکہ بھٹکلی مسلمان گائے کا گوشت کھا تے ہیں کیا؟
جواب : میں نے کہاکہ جیسے ساری دنیا میں کھاتے ہیں اسی طرح بھٹکل میں بھی کھاتے ہیں۔ بھٹکلی مسلمان کچھ خصوصی طور پر نہیں کھا تے!
(اور میری توقع کے عین مطابق اس نے اگلا اور اصل سوال داغا!)
وکیل : اچھا تو یہ بتاؤ کہ تازہ تازہ گوشت کھانے کے لئے بھٹکل میں روزانہ کتنی گائیں ذبح کی جاتی ہیں؟
جواب : دیکھو بھٹکل میں گائیں ذبح ہوتی ہیں یا نہیں، مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ میں گائے کا گوشت نہیں کھاتا ۔میں اس لئے نہیں کھاتا کیونکہ اس سے میرا ہاضمہ بگڑتا ہے۔ میں صرف بھینسے کا گوشت کھاتا ہوں۔ اس لئے گائیں ذبح ہوتی بھی ہیں یا نہیں اس کا پتہ نہیں!
وکیل : اچھا ، تم یہ تو مانتے ہو کہ گائے ہندوؤں کے لئے ایک مقدس جانور ہے؟
جواب : جی ہاں۔
وکیل : پھر تم لوگ ہندوؤں کے جذبات کا احترام کیوں نہیں کرتے؟
جواب : ہم لوگ اللہ کی ذات سے بڑھ کر کسی چیز کو مقد س نہیں سمجھتے۔اور انسانی جان سے زیادہ کسی شئے کو محترم نہیں مانتے۔ لہٰذا تمہاری گائے کو مقدس ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!
وکیل : تم نے کہاہے کہ بی،جے، پی نے اتر پردیش میں اپنی حکومت کے دوران تاریخ کو توڑمروڑکر نصاب میں شامل کیا۔
جواب : جی ہاں۔ میں اس پر قائم ہوں۔
وکیل : کیا تم کچھ مثالیں پیش کر سکتے ہو؟
جواب : نہیں ، فی الوقت میں مثالیں تو پیش نہیں کر سکتا، البتہ یہ حقیقت ہے کہ اپنے اقتدار کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے یہ کام کیا ہے۔
وکیل : کیا تم کرناٹک کی کوئی مثال پیش کر سکتے ہو؟
جواب : نہیں ، کرناٹک کی کوئی مثال نہیں ہے۔
وکیل : کیا تمہیں پتہ ہے کہ NCERT مرکزی حکومت کا وہ ادارہ ہے جو نصابی کتب syllabus پر نظررکھتا ہے؟
جواب : جی ہاں۔
وکیل : کیا تمہیں پتہ ہے کہ اس کا سربراہ ایک مسلم اسکالر ہے جس کا نام پروفیسر نورالحسن ہے؟
جواب : نہیں ، مجھے پتہ نہیں ہے۔
وکیل : کیا تم دنیا میں کسی اسلامی ملک کا نام بتا سکتے ہو؟
جواب : نہیں ،کوئی نہیں۔
وکیل : تو کیا قرآن کی بنیا د پر اسلامی مملکت کے قیام کا تصور ایک خیال خام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جس کو عملی شکل دی ہی نہیں جا سکتی؟
جواب : نہیں، یہ با لکل عملی تصور ہے۔اور اس کی مثال خلافت راشدہ کی صورت میں تاریخ کا حصہ ہے۔
وکیل : تو پھر کیاوجہ ہے کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوتی؟
جواب : کیوں کہ خود مسلم حکمراں مخلص نہیں ہوتے۔ اور وہ دل سے اسلامی حکومت قائم کرنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا اس کو عملی شکل نصیب نہیں ہوتی۔
اسی کے ساتھ ہی سنگھ پریوار کے وکیل نے اپنی جرح ختم کی ۔ اور پھر آگے کمیشن کے یعنی سرکاری وکیل کی جرح شروع ہوتی ہے۔
سرکاری وکیل : بھٹکل میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں میں تعلیم یافتہ اور با شعور لوگ ہیں یا نہیں؟
جواب : جی ہاں ، موجود ہیں۔
وکیل : تو کیا ان لوگوں نے بھٹکل میں مسلسل فسادات کو روکنے کی کوشش نہیں کی؟
جواب : امن کمیٹی کے ذریعہ ان لوگوں نے کوشش کی۔
وکیل : پھر بھی فسادات جاری رہے! کیوں ؟
جواب : میرے خیال میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ اور بر وقت سخت اقدام نہ کرنا اس کا سبب ہے۔
وکیل : آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
جواب : میرے خیال میں مسلم دشمن طاقتیں جیسا کہ ہندو جاگرن ویدیکے HJV اس فرقہ وارانہ تشدد کی ذمہ دار ہے۔
وکیل : تو کیا مسلمانوں نے جوابی اقدام بھی نہیں کیا؟
جواب : اس پورے عرصہ میں ایک آدھ بار جوابی اقدام Retaliation بھی ہوا ہوگا۔ بہر حال اپنا دفاع تو کوئی بھی کرے گا ہی!
وکیل : کیا تم دونوں فرقوں میں کہیں بھی دہشت گرد نوجوان پاتے ہو؟
جواب : نہیں، دہشت گرد کوئی نہیں۔
وکیل : دونوں فرقوں کے جو نوجوان فسادات میں ملوث پائے گئے، ان کی عمریں کیا ہوں گی؟
جواب : ۲۰ تا ۳۰ سال۔ (یہاں میں نے پولیس کی طرف سے دائرکردہ مقدمات اور گرفتاریوں کے حوالے سے یہ بات کہی ہے)
وکیل : اور یہ سب بے کار نوجوان ہیں؟
جواب : جوہندو نوجوان فسادات میں ملوث پائے گئے وہ سب بے کاری اور Frustration کا شکار ہیں۔ جبکہ مسلم نوجوان خوشحال ہیں۔ اپناخود کا کاروبار رکھتے ہیں۔
وکیل : ہندو اور مسلمانوں میں کون زیادہ دولت مند ہے؟
جواب : ہندوؤں کے مقابلہ میں مسلمان زیادہ دولت مند ہیں۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلم نوجوانوں کو ان کے والدین اور رشتہ دار خلیج gulf سے بہت زیادہ روپے پیسے بھیجتے ہیں؟
جواب : میں نہیں جانتا۔
وکیل : یہ مدرسہ کیا ہوتا ہے؟
جواب : مدرسہ مذہبی اسکول ہے ، جہاں چھوٹے بچوں کو قرآن اور اسلام کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔
وکیل : بھٹکل میں مدرسے کب سے وجود میں آئے؟
جواب : جب سے مسلمانوں نے اس سر زمین پر قدم رکھا۔ یعنی آٹھویں صدی عیسوی سے۔
اس دوران سنگھ پریوار کا ایک د وسراوکیل فوراً کھڑے ہو کر مداخلت کرتے ہوئے جج سے مخاطب ہوتا ہے:
’’ می لارڈ! اس سر زمین پر قدم رکھا ،اس فقرے کو نوٹ کیا جائے۔‘‘ ( مطلب یہ کہ مسلمان غیر ملکی foreigners ہیں!)
جج : ارے بھئی یہ ان کی تاریخHistory ہے۔ اس میں تمہیں کیا پریشانی ہے؟
وکیل : بھٹکل میں اس وقت کل کتنے مدرسے ہیں؟
جواب : تقریباً ۲۰ تا ۴۰ مدرسے ہونگے۔جو زیادہ تر شبینہ مکاتب ہیں۔
وکیل : اس میں بچوں کی تعداد کتنی ہے؟
جواب : عام طور پر ۱۵ تا ۲۰ ہوتے ہیں ۔ بعض جگہ یہ تعداد کچھ زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
وکیل : کیا مدرسے صرف لڑکوں کے لئے ہوتے ہیں؟
جواب : نہیں، یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لئے ہوتے ہیں۔
وکیل : کس عمر کے بچے ان مدرسوں میں جاتے ہیں؟
جواب : زیادہ تر ۹ سال سے کم عمر کے بچے ان مدرسوں میں جاتے ہیں۔
وکیل : جبکہ صدیوں سے یہ مدرسے بھٹکل میں چل رہے ہیں، تب تو لاکھوں مسلمان ان مدارس سے فارغ ہو کر نکلے ہونگے۔
جواب : ممکن ہے۔
وکیل : او ر فی ا لحال ان مدارس سے فارغ ہزاروں مسلمان موجود ہونگے۔
جواب : جی ہاں۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ان مدرسوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے؟
جواب : میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
وکیل : بھٹکل میں کتنے محلّے ہیں؟
جواب : ۶ یا ۷ محلّے ہیں۔(میں نے یہ جواب شہر کے قدیم علاقے کے پس منظر میں ہی دیا۔کیونکہ وکیل نے محلّے پوچھاتھا، کالونیاں نہیں! )
وکیل : اور مساجد کتنی ہیں؟
جواب : ۴۰ تا ۴۳ مساجد ہیں۔(اُس زمانے میں مساجد کی تعداد کچھ اتنی ہی تھی)
وکیل : مدرسوں کے اخراجات کے لئے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟
جواب : تقریباً تمام مدرسے مساجد سے منسلک ہوتے ہیں۔مسجدکے امام ہی بچوں کو قرآ ن و حدیث کی تعلیم دیتے ہیں۔ لہٰذا اس کے پیچھے کچھ زیادہ اخراجات نہیں آتے۔
وکیل : حدیث کیا ہے؟
جواب : حدیث پیغمبر محمدﷺ کا فرمان ہوتا ہے۔
وکیل : پھر بھی ان مدرسوں کے پیچھے کچھ تو خرچ آتا ہی ہوگا؟
جواب : جو بھی معمولی خرچ آتا ہے اسے محلہ کمیٹیاں پورا کر دیتی ہیں۔
وکیل : کیا مذہبی تعلیم رکھنے والے زیادہ متقی اور روادار ہوتے ہیں؟
جواب : مذہبی علما ء کی اکثریت متقی اور روادار ہوتی ہے۔
وکیل : یہ بتاؤ کہ مذہبی تعلیم والا زیادہ روادار (Tolerant) ہوتا ہے یا عصری تعلیم (Modern Education) والا ؟
جواب : میں اس بارے میں کوئی رائے دے نہیں سکتا۔
وکیل : 1991 کافساد ، دو تین دن کے اندرقابو میں آ گیا تھا ، ہے نا؟
جواب : جی ہاں
وکیل : کیسے قابوپایا گیا؟
جواب : پولیس کے بروقت اقدام سے۔
وکیل : اور 29 اپریل1993 کے فساد میں پولیس کا کیا رول رہا ؟
جواب : 29 اپریل کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ ویرپا موئیلی کے دورہ کی وجہ سے بھٹکل میں پولیس فورس نا کافی تھی۔
وکیل : کیا تمہیں پتہ ہے کہ فساد کے دوران کون کونسے منسٹرس بھٹکل آئے تھے؟
جواب : میں نے سنا تھا کہ بہت سارے وزراء نے بھٹکل کا دورہ کیا تھا۔
وکیل : کچھ نام بتا سکتے ہو؟
جواب : مثلاً منورما مادھوراج، پربھا کر رانے، ایس ایم یحییٰ، وزیر اعلیٰ ویرپّا موئیلی، اپوزیشن لیڈر آر۔ وی دیشپانڈے وغیرہ
وکیل : کیا جعفر شریف نے بھٹکل کا دورہ نہیں کیا تھا؟
جواب : مجھے پتہ نہیں ۔
وکیل : کیا یہ سچ نہیں ہے کہ فساد کے تمام عرصہ میں پولیس فورس، سی آر پی وغیرہ تمام حسّاس علاقوں میں تعینات تھی ، اور آخر تک رہی؟
جواب : ہاں۔ یہ سچ ہے۔
وکیل : اس تمام عرصہ میں عملاً کرفیو اور حکم امتناعی لاگو تھے یا نہیں؟
جواب : لاگو تھے۔
وکیل : اس کے باوجود بھی فساد ہوا؟
جواب : جی ہاں ہوا۔ 29,30 اپریل اور یکم مئی کو گروہی تصادم کے بعدزبر دست فساد پھوٹ پڑا۔
وکیل : فساد کے پورے عرصہ میں کُل کتنے ڈپٹی کمشنرس تھے؟
جواب : اس عرصہ میں کل تین ڈپٹی کمشنرس رہے۔ شری کھرولا، نیاز احمد اور سریواستو۔
وکیل : اور پولیس سپر نٹنڈنٹ کتنے رہے؟
جواب : مجھے تو دو ہی یا د ہیں۔ مسٹر آلوک موہن اور مسٹر اوم پرکاش۔
وکیل : کیا انہوں نے ( ایس پی اور ڈی سی نے ) فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا؟
جواب : ہاں کیا تھا۔
وکیل : پھر انہوں نے فساد روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے؟
جواب : فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لئے انہوں نے کیا کیا اقدامات کئے اس کی تفصیل میں نہیں جانتا۔
وکیل : کیا انہوں نے امن کمیٹی کی میٹنگس نہیں بلائی؟
جواب : میں نے سنا تھا کہ پیس کمیٹی کی میٹنگس انہوں نے بلائی تھی۔
وکیل : کیا اس میں دونوں فرقہ کے لوگ شریک ہوتے تھے؟
جواب : میں نے ایسا سنا تھا کہ دونوں فرقہ کے لوگ شریک ہوتے تھے۔
وکیل : پھر فساد اس حد تک جاری رہنے کا سبب کیا ہے؟
جواب : نوجوانوں میں پائی جانے والی کچھ غلط فہمیاں بھی بہت سارے اسباب میں سے ایک سبب ہو سکتی ہیں۔
وکیل : کیسی غلط فہمیاں؟
جواب : مسلمانوں کے خلاف کئے جانے والا پروپگنڈہ فرقہ وارانہ فساد کا بنیادی سبب ہے۔ پھر بعض دفعہ مسلمانوں نے اپنے دفاع کے طور پر جوابی اقدام بھی کیا۔
وکیل : مسلمانوں کے خلاف کیسا پروپگنڈہ ہوتا ہے اور کون کرتا ہے؟
جواب : ہندوؤں کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف یہ پروپگنڈہ کیا جا تا ہے کہ مسلمان ملک دشمنanti national ہیں ، اسمگلرس ہیں، آئی ایس آئی کے ایجنٹس ہیں اور بھٹکل کو دوسرے کشمیر میں بدلنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔
وکیل : ان الزامات کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
جواب : یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد پروپگنڈہ ہے۔
وکیل : تو اس سے مسلمان غضب ناک ہو جاتے ہیں؟
جواب : اس پر وپگنڈہ سے جذبات تو مجروح ہونگے ہی نا؟ ۔۔۔غضبناک ہونا ضروری نہیں ہے۔(یہاں وکیل کا منشاء یہ ثابت کرنے کا تھا کہ مسلمان غضب ناک ہوکر ہندوؤں کے خلاف فساد بھڑکاتے ہیں۔اوراس فساد کا سبب بھی مسلمان ہی ہیں۔)
وکیل : بھٹکل میں دوسرے کونسے ادارے ہیں؟
جواب : دونوں فرقوں کے اسپورٹس کلب ہیں۔
وکیل : اس کے علاوہ بھی کوئی ادارہ ہے ؟ کسی بھی فرقہ کا؟
جواب : اسپورٹس اسوسی ایشنس کے علاوہ بھی دیگر ادارے ہیں یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں ہے
وکیل : کیا بھٹکل میں عام تفریحی پروگرام وغیرہ ہوتے ہیں اور کس قسم کے ہوتے ہیں؟
جواب : کلچرل پروگرام ہو اکرتے ہیں جیسے آرکسٹرا، یکشگانہ، کوی سمیلن(مشاعرہ) وغیرہ۔
وکیل : کیا ان پروگراموں میں دونوں ہی فرقوں کے لوگ شریک ہوتے تھے؟
جواب : یہ تو میں کہہ نہیں سکتا۔
وکیل : ان پروگراموں میں عوام کی شرکت یا شمولیت نہ ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
جواب : لوگوں کو اب ایسے پروگراموں سے دلچسپی نہیں رہی۔
وکیل : تم اپنے طور پر اس ضمن میں کیا کیا کرتے تھے؟
جواب : میں سال میں ایک دو بار مشاعرے منعقد کیا کرتا تھا۔
وکیل : فسادات کے بعد تم نے امن کے لئے کیا کیا ؟
جواب : ہم نے فسادات کے بعد ایک ادارہ ’’کنڑا اردوساہتیہ سنگم ‘‘کے نام سے قائم کیا۔ اور اس کے افتتاحی اجلاس میں ریاست کے پانچ اردو اور پانچ کنڑا شعرا کی عزت افزائی کی۔
وکیل : کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ہندو اور مسلمانوں کو آپس میں ملنے جلنے کے زیادہ مواقع نہیں ملتے اور اس کے لئے کوشش ہونی چاہئے۔
جواب : ہاں، ان فسادات کے بعد ہم نے اس کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی۔ یہ چیز یقیناًدونوں فرقوں کے ذہنوں کو صاف کرنے اور آئندہ فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے میں بڑی معاون ثابت ہوگی۔
( سلسلہ جاری ہے...... اگلی قسط ملاحظہ کریں)
haneefshabab@gmail.com