حج كا سفر ۔۔۔ روانگی اور بمبئی میں (  ۱) ۔۔۔  مفتی محمد رضا انصاری

Bhatkallys

Published in - Other

11:57AM Fri 1 Jul, 2022

قافلہ جو چار افراد پر مشتمل تھا ‏: راقم الحروف ‏، اس كی والدہ ‏، مولانا متین میاں فرنگی محلی اور ان كی والدہ 19 مارچ كو جھانسی ایكسپریس كے ذریعہ شام كے سوا سات بجے لكھنؤ  كے چار باغ اسٹیشن سے روانہ ہوا۔

اسٹیشن پررخصت كرنے والے اعزاء و احباب میں اپنے خورد سال بچے بھی تھے جن سے اتنی طویل جدائی كا احساس شاید عام حالات میں برداشت سے باہر ہوتا ‏، یہ محض توفیق ایزدی تھی كہ سب سے چھوٹے پانچ سالہ بچے (فائق میاں ) كو چمٹاتے وقت بھی بےقراری اور بےچینی كی كیفیت اپنے اندر پیدا نہیں ہوئی ‏، وہ تو چھوٹا تھا اور اتنی لمبی غیرحاضری كا واضح تصور بھی اس كے معصوم ذہن میں نہ ہوگا ‏، اس كے بڑے بھائی ‏، بہن رخصت ہوتے وقت زار وقطار رورہے تھے ‏، ایك ایسے كورونے پرآمادہ نہ كرسكے جوزراسی غیرمعمولی بات پر پریشان ہونے كا عادی رہا ہے ‏، اب سوچنے  پر اندازہ ہوتا ہے كہ گاڑی چھوٹتے وقت دھڑكا دوسرالگا ہوا تھا كہ دیكھا چاہیئے كہ وہاں كیا گزرتی ہے ‏، شوق قدوائی كا یہ شعر اسی دھڑكے كے ساتھ ذہن میں گونج رہا تھا

اللہ كرے آج نہ پلٹائے اُسے یاس

امید جسے جانبِ در لے كے گئی ہے

اور جب یہ كیفیتیں حاوی ہوں ‏، تو دوسری كیفیتیں خواہ مخواہ  مغلوب ہوجائیں گی ‏۔

دو راتیں اور ایك دن كا سفركركے 21 مارچ كی صبح كو حدود بمبئی میں ہماری ٹرین داخل ہوئی ‏، طے پایا تھا كہ بمبئی پہونچ كر سیدھے صابو صدیق مسافرخانے جائیں گے اور وہیں قیام كریں گے ‏، خدارحمت نازل فرمائے صابو صدیق مرحوم پر جنہوں نے عازمین حج كے قیام كے لیے ایك عالی شان عمارت بمبئی میں اپنے ذاتی سرمائے سے كھڑی كردی ہے ‏، اوسطاً جوہزار مسافر ایك وقت میں اس مسافرخانے میں آرام سے ٹہر سكتے ہیں ۔

جو بمبئی نہیں گیا ‏، وہ اندازہ كرہی نہیں سكتا كہ اس مسافرخانے كی شكل میں عازمین حج كو كیا دولت ہاتھ آگئی ہے ‏، بیچ ماركیٹ میں مسافرخانہ ہے ‏، جہاں حج كو جانے والے كی تمام ضرورتیں بآسانی  پوری ہوجاتی ہیں ‏، دوكانیں ‏، ہوٹل ‏، چائے خانے ‏، سواریاں ‏، ڈاك گھر سب چیزیں اس سے متصل ہی ہیں ‏، اگر یہ مسافرخانہ نہ ہوتا ‏، تو اس زمانے میں عازمین حج كی بمبئی كی مصیبتوں كا تصور بھی نہیں كیاجاسكتا تھا ۔

بمبئی بڑے اسٹیشن و كٹوریہ ٹرمنس ‏، یا بمبئی سنڑل اسٹیشن پر ٹرین كے آتے ہی حج كمیٹی كی پولیس كے جوان سامنے آتے ہیں اور عازمین حج كو ٹرین سے اترنے ‏، سامان كو منتقل كرانے اور مسافرخانے تك پہونچانے میں مدد دیتے ہیں ۔

بمبئی ایسا بڑا شہر ہے جہاں ناواقف ہی نہیں‏، بڑے بڑے واقف كار بھی دھوكا كھاجاتے ہیں اور چاروں طرف منڈلانے والے فریبیوں اور جعلسازوں کے فریب میں آجاتے ہیں ‏، احتیاط كا شدید تقاضا ہے كہ اجنبی سے بمبئی میں كوئی سروكار نہ ركھاجائے ‏، خواہ وہ كتناہی خیرخواہ نظرآتاہو‏، ایسا ہواہے كہ ہمدرد اور بہی خواہ بن كر عازمین حج كو لوگوں نے لوٹ لیا ہے ۔

ہم لوگ وكٹوریہ ٹرمنس پر اتركر مسافرخانے میں قیام كرنے والے تھے كہ اس سے قبل ہی ہمارے ایك محترم اور پیر بھائی چودھری عظیم الدین اشرف (تعلقدار۔۔۔ضلع بارہ بنكی ) اپنے داماد اسعد الدین صدیقی سینیر برج انسپكٹر كے ساتھ بائی كلہ  اسٹیشن پر نظر آئے ‏، ٹرین ركتے ہی انہوں نے حكم دیا كہ یہیں اترو اور ہمارے ساتھ قیام كرو ۔

بائی كلہ اسٹیشن بمبئی شہر كا ایك چھوٹا اسٹیشن ہے جہاں چند منٹ گاڑی ركتی ہے ہم كو جو بڑے اسٹیشن پر اترنے كے خیال میں تھے جو دس پندرہ منٹ كے بعد آنے والاتھا ‏، تعمیل حكم  میں عذر ہوا كہ اتنے سامان كے ساتھ اتنے مختصر وقت میں كیسے ییہاں اتر پائیں گے اور اگر اتربھی گئے‏، تو مسافرخانے میں ٹہرنے كا ارداہ كیسے عملی جامہ پہن پائے گا ‏اور اس وقت یہ بڑی بے غیرتی كی بات نظر آرہی تھی كہ جہاں عازمین حج ٹہرے ہوں وہاں نہ ٹہركر كسی مخصوص قیام گاہ میں آرام سے وقت گزارا جائے ۔

عذركیا كہ ہم لوگ تو مسافرخانے میں ٹہرنے كا ارادہ كركے آئے ہیں ‏، عظیم بھائی نے كہا :‘‘آپ كو مسافرخانے كا اندازہ نہیں ہے ‏، میں دیكھ آیا ہوں ‏،جی چاہتاہے ‏، تو آپ شوق سے وہیں ٹہریں میں آپ كی والدہ اور پھوپوجان كو تو وہاں ٹہرنے نہیں دوں گا’’۔

جلدی ‏، جلدی بائی كلہ اسٹیشن پر اُترے اور عظیم بھائی كے داماد كے یہاں جوقریب ہی میں بائی كلہ گڈ شیڈ كے ایك بنگلہ میں رہتے ہیں چلے آئے ‏، مگر اپنی دانست میں كچھ اچھا نہیں كیا ۔

چودھری عظیم الدین اشرف بھي اپنی اہلیہ كے ساتھ ہم اور متین میاں ‏، صابو صدیق مسافرخانے گئے اور مسافرخانے كا حال دیكھ كر ہكا بكا رہ گئے ۔اس وقت دوہزار كی گنجائش والے مسافرخانے میں كم و بیش پانچ ہزار مسافرمقیم تھے ‏۔

ہم لوگ 21 مارچ كو بمبئی پہونچے تھے ‏، دوسرے دن پھر پانچویں دن ‏، پھر آٹھویں دن بحری جہاز روانہ ہونے والے تھے ‏، تینوں جہازوں كے مسافر اس وقت مسافر خانے میں اكھٹاتھے ‏، تل دھرنے كی جگہ كیا سانس لینا مشكل تھا ‏، اللہ كے وہ بندے جو ہرحال میں مگن رہتے ہیں ‏، اس حال میں بھی مگن نظرآرہے تھے ‏، وہ جو ‘‘ خس خانہ وبرفاب’’ كے عادی نہ سہی آرزومند ضروررہتے ہیں كہاں اس ماحول كی تاب لاسكتے تھے ۔

تین منزلہ یہ مسافرخانہ نصف كے قریب تو حج كمیٹی اور متعلقات حج كے دفتروں سے معمور تھا ‏، حج كمیٹی كے صدر كا دفتر اس كے عملہ كا دفتر ‏، ٹیكہ اور انجكشن لگانے كی مردانہ اور زنانہ ڈسپنسریاں ‏، پاسپورٹ بنوانے كا دفتر ‏، روپیہ جمع كرانیكا بینك ‏، ڈرافٹ حاصل كرنے كا دفتر ‏، راشن كی دوكان ‏، احرام كی دوكان ‏، جمعیۃ العلماء كا دفتر ‏، خدام النبی كا دفتر ‏، مردانہ ‏، زنانہ اسپتال ‏، یہ دفاتر تو یادرہ گئے اور كئی كمرے بھی متعلقاتِ حج كے تصرف میں تھے  ‏، آدھامسافرخانہ رہ گیا تھا جس میں بھیڑ بكریوں كی طرح عازمین حج بھرے ہوئے تھے ‏، چار پلنگ والے كمرے میں دس بارہ حاجی زمین پر سامان ركھے اور اس سامان سے چوحدی قائم كیے مقیم تھے ‏، راستہ برآمدے ‏، صحن حتی كہ پاخانے كے سامنے كی زمین تك پر اللہ والے دریاں اور چٹائیاں بچھاكر دن رات گزاررہے تھے اور حال یہ كہ

سودا!قمار عشق میں خسرو ے کوہکن

بازی اگر چہ لے نہ سکا سر توکھوسکا

کس منھ سے اپنے آپ کو کہتاہے عشق باز

اوروسیاہ ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا

نکلے تھےمنزل لیلی تک کی راہ طے کرنے جس کی پہلی شرط مجنون ہونا لازمی قراردی گئی ہے، اور ابھی پہلا قدم بھی اٹھاہے اور چھکے چھوٹے جارہے ہیں! ۔

ہے آرزو کے ابروئے پر کم کو دیکھئے

اس حوصلے کودیکھئے اور ہم کو دیکھئے

حوصلہ اتنا چھوٹا اور شوق اتنا اونچا! دونوں میں سمجھوتہ ہو تو کیسے؟ ڈھارس بندھے تو کس بات سے؟ ۔۔۔ اپنا ملک ، اپنا وطن ہزاروں جاننے والے اس بمبئی میں، عازمین حج کے اس مجمع میں اپنی موجودگی سے سامان تسلی فراہم کررہے ہیں  اور دل کہ بیٹھا جارہا ہے۔

ناقل: *محمد رضی قاسمی*