سچی باتیں۔ محبت میں شراکت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:12AM Sat 6 Mar, 2021

1928-03-16

حضرت سمنون محبؒؔ، حضرت جنیدؓؔ کے معاصر، ایک ولی کامل گزر ے ہیں،جن کی بزرگی اور فضیلت پر مشائخ قدیم کا اتفاق ہے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؓؔ ان کے تذکرے میں لکھتے ہیں، کہ ایک عمر کے مجاہدہ وریاضت کے بعد بوڑھاپے میں ،سنتِ نبویؐ کی پیروی میں ، عقد کیا۔ اور کچھ روز کے بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جب تین برس کی ہوچکی، اور باپ کی آنکھوں کا تارابن چکی، توایک شب کو خواب آیا دیکھتے ہیں، کہ قیامت برپاہے، اور ہرہر گروہ ایک ایک جھنڈے کے نیچے ہے، اور ایک جھنڈا اس قدر منوّر ہے، کہ اُس کی نورانیت سے سارا میدان حشر جگمگا رہاہے۔ دریافت کیا، کہ یہ جھنڈا کس گروہ کے لئے ہے؟ جواب ملا کہ اُس گروہ کے لئے جو اللہ کا حبیب ومحبوب ہے۔ سمنونؓ اُسی گروہ کی جانب لپکے، کہ کسی نے راستہ روک لیا، اور غیب سے آواز آئی، کہ سمنونؓ ! تم بے شبہہ ہمارے دوستوں میں تھے، لیکن جب سے تمہارے دل میں ہمارے ساتھ اُس بچّی کی محبت بھی شریک ہوگئی ہے، تمہارا نام اس فہرست سے نکال دیاگیاہے‘‘۔ سمنونؓ یہ سنتے ہی خواب میں روپڑے، اور عرض کیا ، کہ ’’پروردگار ، یہ بچی اگر میری راہ میں روک ہورہی ہے، تو تو اسے ابھی اُٹھالے‘‘۔ آنکھ کھُلی، تو گھر میں ماتم برپاتھا، کہ لڑکی ابھی کوٹھے سے گری ، اور ختم ہوگئی‘‘۔ (تذکرۃ الاولیاء، جلد دوم) آپ نے دیکھا۔ لڑکی کی محبت کوئی ناجائز محبت نہ تھی۔ اولاد تھی، اور اکلوتی اولاد، اور پھر بوڑھاپے کی اولاد! باپ اگر اس پارۂ جگر پر فدابھی ہوجاتا، تو کوئی انوکھی بات نہ ہوتی، پھر یہ بھی نہ تھا کہ لڑکی کے باعث باپ کے ایمان میں خلل آگیا تھا، عقیدے میں فتور پڑگیاتھا، عبادت تَرک ہوگئی تھی، گناہوں کی زیادتی ہوگئی تھی، یہ کچھ نہ تھا۔ بچوں سے الفت وشفقت رکھنا تو بجائے خود ایک عبادت ہے۔ فرق صر ف اتنا پڑگیاتھا، کہ پہلے جس دل میں صرف ایک کی گنجائش تھی، اب اُس میں دو کی محبتیں داخل ہوگئی تھیں۔ پہلے جو محبت صرف خالق کے لئے مخصوص تھی، اب اُس میں، ایک مخلوق بھی حصہ دار بن گئی تھی۔ اس میں نہ کوئی شے حرام تھی، نہ ناجائز۔ لیکن حُسن ازل کی غیرتمندی کو دعویدار عشق ومحبت کے دل میں یہ خفیف سا شرک فی المحبت بھی گوارا نہ ہوا، اور بالآخرخود چاہنے والے ہی کے ہاتھوں محبوب مجازی کی قربانی محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پیش کرائی گئی! سنتے ہیں، کہ آپ کو بھی اللہ کے ساتھ، اللہ کے پیام کے ساتھ، اللہ کے پیامبر کے ساتھ ، اللہ کے بتائے ہوئے دین کے ساتھ محبت کا دعویٰ ہے، آپ اس دعوی کا کوئی ثبوت پیش کرنے کو تیار ہیں؟ ایک دعویدار عشق نے تواتنا بڑا امتحان دے کردکھایا۔ آپ اعلٰی نہ سہی، ادنیٰ ہی امتحان بھی دینے پر آمادہ ہیں؟ اُس نے تو اپنا کلیجے کا ٹکڑا چھری سے چیر کرپیش کردیاتھا، آپ اپنے ناخنِ پا کی تکلیف بھی اللہ کی محبت میں برداشت کرنے کا دل وجگر رکھتے ہیں؟ اُس نے تو ایک بالکل جائز اور فطری محبت کو داغ کررکھ دیاتھا۔ آپ دنیا کی صریحی ناجائز محبتوں اور غیر فطری دلچسپیوں سے دست بردار ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ آپ نے پیرزادوں اور مجاوروں کی رسموں کا نام تصوف رکھ لیاہے، اور پھر اس ’’تصوف‘‘ کے بدعت ہونے پر آپ ردوقدح کررہے ہیں۔ لفظ ’’تصوف‘‘ کی تاریخی ولغوی تحقیقات کے اُلجھاؤ میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اسی کو دین وروحانیت کی اصلی خدمت سمجھ رہے ہیں، اور قلب کی اُس کیفیت کو جو تصوف کی روح ہے، دل کے اُس لگاؤ کو جو تصوف کی جان ہے، سرے سے بھُلائے ہوئے ہیں! آنکھیں ہیں، کہ ہر نہ دیکھنے والی صورت پر گڑی ہوئی ہیں، کان ہیں کہ ہر نہ سننے والی آواز پر لگے ہوئے ہیں، ہاتھ ہیں کہ ہر قسم کی گندگیوں سے آلودہ ہورہے ہیں، پَیر ہیں کہ ہر نہ چلنے والی راہ پر بے تحاشہ بڑھے چلے جارہے ہیں، دل ہے کہ ہر باطل سے، ہر بُت سے، ہر حرام سے اَٹکا ہواہے، اور زبانیں ہیں، بڑی بڑی اور لمبی لمبی زبانیں ہیں، کہ اللہ کی محبت پر گھُلی ہوئی ہیں! دینداری کے دعووں پر چل رہی ہیں!۔