سچی باتیں۔۔۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:27AM Sun 20 Feb, 2022

1930-02-21

کلکتہؔ کی مشہور رقّاصہ، جس کے گانے کی دھوم سارے ہندوستان میں مچی ہوئی تھی، مرگئی۔ مسلمان کے گھر میں پیداہوئی تھی، خداکرے مَوت بھی مسلمانوں کی طرح آئی ہو۔ اخبارات میں چھَپ رہاہے، کہ اتنا چھوڑ کر مری۔ یہ کوئی نہیں لکھتا کہ ساتھ لے کر کیاگئی۔ دنیا میں گانے کی فن کی، گلے کی، اداؤں کی بڑی قدر ہوئی۔ خدامعلوم یہ قدر دانیاں اُس وقت کیا کام آئیں، جب روح جسم کے پور پور سے کھنچنے لگی، آنکھیں پھرنے لگیں، اور سانس گلے میں رُکنے لگی۔ محفلوں میں خوب واہ واہ ہوتی رہتی تھی، معلوم نہیں ملک الموت نے ان کمالات کی کہاں تک قدرکی۔ زندگی میں بہتوں کے دل لُبھائے، بہتوں کی جانیں لیں۔ جب خود اپنی جان پرآبنی، جب وقت کے ایک ایک لمحہ کے حساب دینے کا وقت آپہونچا۔ اُس وقت اپنے دل پر کیاگزری؟ جو گزرجانے والی دُنیاتھی، گزرکررہی۔ جو رہنے والی زندگی حاصل ہوئی، وہاں کیابیتی؟ زندگی میں تصویر کھینچنے والے بہت سے تھے، سکرات موت جت وقت کا نقشہ کسی نے نہ کھینچا!

امریکہؔ سے خبر آئی ہے ، کہ وہاں کی مشہور رقاصہ اور ایکٹرس مسز ریٹا لائڈکؔ دنیا سے رخصت ہوگئی۔ کسی ملک میں نہیں، ساری متمدن دنیا میں شہرت وناموری حاصل تھی۔ امریکہؔ اور فرانسؔ یہ دو ملک خاص طور پر حُسن صورت وحسن صَوت کے قدرداں تھے۔ متمدن دنیا کا کوئی نگارخانہ (آرٹ گیلری) ایسا نہیں، جہاں ریٹاؔ کا مرقع آویزاں نہ ہو۔ بڑے بڑے اہل فن نقاش اِسی تمنا میں رہتے تھے ، کہ یہ ملکۂ حُسن اُنھیں تصویر کشی کا موقع دے، حُسن وجمال کا یہ عالم کہ جدھر سے گزر گئی، ایک قیامت برپاہوگئی۔ خوش گُلوئی کا یہ کمال، کہ مُنہ سے اِدھر بول نکلے اور اُدھر ساری محفل لوٹ گئی۔ قدردانی اور قدردانوں کی انتہا نہیں۔ اخباروں اور رسالوں میں باربار چھپتاتھا ، کہ ریٹا سے زیادہ کسی عورت کی دستی تصویریں نہیں بنائی گئیں ہین۔ دولت کا یہ حال، کہ اچھے اچھے لکھ پتی امیروں کو رشک۔ ابھی یہ سب کچھ تھا، ابھی زمانہ نے رنگ بدلا۔ حُسن کی دیوی بیمار پڑی، اور بیماری سے اُٹھی، تو سارے قدرداں او رسارے جاں نثار رخصت! کتابوں کا ذخیرہ فروخت کیا۔ ۱۹ہزار ڈالر سے اوپر قیمت آئی۔ فرنیچر کی نوبت آئی، پونے چارلاکھ دڈالر پر نیلام ہوا۔ افلاس اس سے بھی دور نہ ہوا۔ اور جب مَوت کا وقت آیا، تو جس رقّاصہ کے خرام ناز کے لئے ایک عالَم آنکھیں بچھاتارہتاتھا، اُس نے اپنے آپ کو بے مونس وبے غمخوار ، تنہا وبے کس، ایک تنگ وتاریک کمرے کے اندر، زردولاغر، زارونزار، بستر پر دَم توڑتے پایا، اوراسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔

جلسوں کی ’’واہ واہ‘‘ ختم ہوگئی۔ اہل محفل کی واہ، خاموش ہوگئی۔ قدردانوں کی قدردانی کچھ کام نہ آئی۔ حرام کی کمائی نے ساتھ نہ دیا۔ لاکھوں ہی کمائے اور لاکھوں ہی اُڑائے۔ جب وہ وقت آیا، جس کا آنا سب کے لئے لازم ہے، تو آنکھیں کھُلیں، اور تب معلوم ہوا ، کہ کام آنے والی چیزیں کیاتھیں! شریکِ غفلت سب تھے، شریکِ عبرت کوئی نہ ہوا۔ عمر بھر کی کمائیوں کا بوجھ سر پر، اور سابقہ بالآخر اُس سے بڑھ کر رہا، جس کے دربار میں زندگی کی ایک ایک سانس کا، اوروقت کے ایک ایک لمحہ کا حساب دیناہے! کاش یہ وقت یاد رہاہوتا!……کاش اوروں کو دیکھ کر ہم کو اورآپ کو یہ وقت یار رہے!