تبصرہ کتب : محدثین اندلس

Bhatkallys

Published in - Other

07:07PM Sat 19 Aug, 2017

 نام کتاب :محدثینِ اندلس

مصنفہ :ڈاکٹر جمیلہ شوکت

پروفیسر امریطس۔ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب۔ لاہور

صفحات : 532   قیمت 800 روپے

 ناشر : یو ایم ٹی پریس۔ پبلشنگ ہاؤس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی۔ C-11 جوہر ٹاؤن لاہور

ای میل : umtpress@umt.edu.pk

 ویب گاہ : www.umt.edu.pk

اندلس یا ہسپانیہ یا اسپین وہ ملک ہے جس پر مسلمانوں نے سیکڑوں سال حکومت کی ہے۔ اب ان کا وجود وہاں مفقود ہے۔

اندلس، یورپ کے جنوب مغرب میں ایک جزیرہ نما ہے جس کے تین طرف سمندر اور ایک طرف خشکی ہے۔ مشرق میں بحیرہ روم یا بحیرہ متوسط (Mediterranean Sea) اور مغرب میں بحیرہ محیط یا بحیرہ اوقیانوس (Atlantic Sea) ہے۔ آبنائے جبرالٹر(Gibraltar) یا آبنائے جبل طارق یا بحرزقاق اندلس کے جنوبی گوشے اورافریقہ کے شمالی گوشے میں ہے۔ یہ یورپ کو افریقہ سے جدا کرتی ہے۔ شمال مشرق میں کوہستانی سلسلہ (Pyrenees Mountains)یعنی جبال البرانس یا البرتات کا ہے۔ یہ اندلس کی ایک قدرتی سرحد ہے جو اسے ملک فرانس سے جدا کرتی ہے۔ ازمنہ وسطیٰ میں اندلس کا اطلاق اندلس اور پرتگال دونوں پر ہوتا تھا، جبکہ موجودہ دور میں یہ دونوں علیحدہ سلطنتیں ہیں۔

اندلس کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ یونانیوں نے اسے آئیبیریا (Iberive) کے نام سے پکارا۔ رومیوں نے اس کو ہسپانیہ (Hispania) کہا۔ اس کے بعد جب عرب اس ملک میں آئے تو انہوں نے اندلس سے موسوم کیا۔

مسلمان اندلس میں 92ھ میں داخل ہوئے اور ان کی سلطنت کا خاتمہ 897ھ میں ہوا۔ اس دور میں ہر قسم کے علوم و فنون میں بے پناہ ترقی ہوئی، خاص طور پر بنیادی اسلامی علوم میں بہت ترقی ہوئی جن میں سرفہرست علوم میں حدیثِ رسول کریم کا مقدس علم تھا۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے اسی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت (پ:1941ئ) پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (عربی، اسلامیات، تاریخ)۔ ’مسندِ عائشہ رضی اللہ عنہا‘ پر تحقیق کے اعتراف میں کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ بطور استاد، ادارہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ (1966ء۔2000ئ) رہیں اور بطور پروفیسر سبک دوش ہوئیں۔ ادارہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی چیئرپرسن، شیخ زاید اسلامک سینٹر کی ڈائریکٹر اور پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ کی ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بطور نگران 50 سے زیادہ پی ایچ ڈی اور 20 سے زیادہ ایم فل تحقیق کاروں کو رہنمائی دی۔ لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومتِ پاکستان کی رکن رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے خدمات کے اعتراف میں پروفیسر ایمریطس مقرر کیا ہے۔ تین تحقیقی مجلوں: مجلہ تحقیق، الاضواء، القلم کی مدیراعلیٰ رہیں۔ 30 سے زائد تحقیقی مقالات اردو، عربی، انگریزی میں شائع ہوئے۔ چند کتب: مسند عائشہؓ ‘(عربی)

Studies in Hadith 1Biographical Sketch of Ishaq bin Rahawayh

ڈاکٹر صاحبہ کتاب کی تحریر کا پس منظر یوں بیان کرتی ہیں:

’’ملتِ اسلامیہ کے زیرانتظام سرزمینِ اندلس بہت جلد اوجِ ثریا تک پہنچی۔ بعض حکام و امراء کی عیاشیوں، ظلم و ستم اور افتراق و انتشار کے باوجود علم و ادب کے میدان ویران و برباد نہ ہوئے اور امورِ سلطنت خوبی سے چلتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ نفسانفسی اور ظلم و زیادتی کے شکار معاشروں کو زیادہ دیر تک پنپنے نہیں دیتا۔ اسی سنتِ الٰہی کے مطابق اندلس مسلمانوں کے لیے جنتِ گم گشتہ میں تبدیل ہوگیا۔

ایک عام انسان جب اندلس کی تاریخ پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس کے اندر سے ھل من مزید کی صدا آتی ہے۔ آگے بڑھتا ہے، بڑے ہی خوش کن مناظر و واقعات سے گزرتے گزرتے یکدم ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے کہ اس سرزمین کے مکینوں پر ہونے والے مظالم اور علمی ورثے کو ملیامیٹ کرنے کی داستان پر اشک بار ہوجاتا ہے۔

راقمہ کا اندلس کی تاریخ و ادب کا مطالعہ محدود و قلیل ہے لیکن ایک جذباتی سا تعلق ضرور محسوس ہوتا ہے۔ شاید اسی جذباتی تعلق کو باقی رکھنے کے لیے اللہ ذوالجلال نے یہ سبب پیدا فرمایا کہ ایم اے عربی کے تحقیقی مقالے کے لیے میرے استاد محترم رانا احسان الٰہیؒ نے اندلس کے معروف عالم و ادیب ابن عبدربہ (م328ھ) کی معروف کتاب العقد الفرید (جس کو اہلِ علم نے علم و ادب کا موسوعہ تسلیم کیا ہے) کے ایک جز کا اردو ترجمہ مع حواشی تجویز کیا، جس پر میں نے رضامندی ظاہر کردی۔ اس پر مستزاد یہ کہ میرے مشرف استاذ الاساتذہ ڈاکٹر سر محمد شفیع ؒ مقرر ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے قدیم کیمپس میں جب مرکزی لائبریری جانا ہوتا تو لائبریری کی عمارت کے سامنے لان میں ایک پردہ سا لگا ہوتا اور اس کے پیچھے ایک نہایت پُرجلال و عظیم شخصیت کی جھلک پڑتی۔ یہی تھے میرے مشرف محترم، متنوع علوم کے ماہر اور ایک مستند محقق جو اُس وقت دائرہ معارف علوم اسلامیہ کے صدر نشین تھے۔ دورانِ تحقیق جب بھی رہنمائی کے لیے ان کے پاس حاضر ہوتی وہ نہایت شفقت سے پیش آتے۔ توضیحی و تشریحی مقامات کی وضاحت اور ان سے متعلق مصادر کی نشاندہی بھی فرماتے۔ اس طرح اندلس کے ورثے سے کچھ تعارف ہوا جو مزید مطالعہ کا باعث بنا۔ مقالہ ابھی تکمیلی مراحل میں تھا کہ وہ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مجھے یاد ہے کہ بڑی تگ و دو کے بعد جنازہ میں شرکت کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچی تھی۔ اللہ کریم ان کو اور میرے دیگر تمام اساتذہ کرام کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے(آمین)۔ علم و ادب کے شناور استاد محترم محمد شفیع ؒ نے العقد الفرید کا اشاریہ (Index)دو جلدوں میں تیار کیا، جو علمائے مغرب و مشرق میں مقبول ہوا۔ یہ اشاریہ پنجاب یونیورسٹی نے باپٹسٹ (Baptist) مشن پریس کلکتہ سے 1937ء میں شائع کرایا تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں قیام کے دوران میرے مشرف پروفیسر سارجنٹ (Serjeant) نے اس کی تعریف کی اورکہا کہ ’’ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اسے دوبارہ شائع کرے۔‘‘ جب واپس آئی تو اُس وقت کے وائس چانسلر کی خدمت میں یہ عرض داشت پہنچائی، لیکن افسوس کوئی مثبت کارروائی نہ ہوسکی۔

جب ایم اے تاریخ کرنے کا ارادہ کیا تو اختیاری پرچوں میں تاریخ اندلس کو اختیار کیا۔ اس طرح یہ جذباتی تعلق سرد نہ ہونے پایا۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران جو علمی و تحقیقی سرگرمیوں کی سرپرستی کے لیے معروف ہیں، انہوں نے اساتذہ سے تحقیقی منصوبے طلب کیے تو راقمہ کو خیال آیا کہ اندلس کے علمی ورثے پر کام کیا جائے، لہٰذا اندلس کے محدثین سے متعلق منصوبہ پیش کیا جو اربابِ اختیار کی طرف سے منظور ہوگیا۔ تحریر مقالہ کے لیے جب مواد اکٹھا کرنے کی ابتدا کی تو اندازہ ہوا کہ اس موضوع پر اردو/عربی/انگریزی زبانوں میں کوئی خاص علمی و تحقیقی کام موجود نہیں سوائے ماہنامہ فکر و نظر اسلام آباد کے، جس کا خصوصی شمارہ اندلس نمبر مختلف موضوعات پر اہل علم کے قابل قدر مقالات کا مجموعہ ہے۔ محمد احمد زبیر کی کتاب ’’اندلس میں علم حدیث کا ارتقائ‘‘ (ایم فل کا مقالہ) میں تقریباً بیس/بائیس محدثین کا مختصر تذکرہ ملتا ہے۔ عربی زبان میں اس موضوع سے متعلق مواد جابجا بکھرا پڑا ہے۔

راقمہ نے بکھرے مواد کو اکٹھا کرکے مرتب کرنے کی کوشش کی۔ ابتدا میں کام بہت سست رفتاری کا شکار رہا، جب کچھ آگے بڑھا تو معلوم ہوا کہ جو کام بظاہر آسان نظر آرہا تھا، وہ خاصی محنت و ہمت اور وقت کا متقاضی ہے۔ اپنی کم ہمتی اور کمزوری کے سبب کئی بار اس منصوبے کو ترک کرنے کا ارادہ کیا، لیکن صدرِ شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی کی ترغیب و تشویق نے کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔ فجزاہ اللہ خیرالجزاء

قارئین محترم! علماء اندلس کی علمی میراث، کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے قابل تحسین ہے۔ گو اس بیش بہا علمی سرمائے کا بیشتر حصہ تو زمانے کی دست برد کے ہاتھوں تباہ و ضائع ہوچکا ہے، لیکن مشرق و مغرب کے علماء کے کثرت سے علمی اسفار کی بدولت کچھ سرمایہ محفوظ رہا۔ اہلِ اندلس کی یہ علمی میراث علوم دینیہ اور عقلیہ دونوں میں تھی۔ عرب محققین اور مستشرقین ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مختلف افراد اور مکتبات سے قلمی نسخوں کو حاصل کیا، محنت و تندہی سے ان کی تدوین و ترتیب کی اور شائقینِ علم کے استفادے کے لیے میسر بنایا۔

پاکستان میں یہ مرتب شدہ کتب و ذخیرہ کمیاب ہے اور اس کا حصول مشکل تر ہے۔ انٹرنیٹ کے اسرار و رموز سے باخبر لوگوں نے مشورہ دیا کہ نیٹ سے مدد لی جائے کہ بعض مکتبات نے مختلف علوم پر مدون کردہ اور شائع شدہ کتب کو استفادے کے لیے مہیا کردیا ہے۔ راقمہ انٹرنیٹ کے استعمال سے بھی نابلد ہے۔ اللہ تعالیٰ ان عزیزانِ محترم (میری بیٹیاں اور بیٹے) کو اجر جزیل سے نوازے جنہوں نے مطلوبہ مواد وکتب کو تلاش کیا۔ بہت سی تالیفات ڈاؤن لوڈکرکے دیں اور اس طرح مجھے ان سے استفادہ کا موقع ملا۔

جب حاصل شدہ مواد سامنے رکھا تو اسے بحر بیکراں پایا۔ اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا ادراک ہوتے ہوئے اس سمندر سے موتی چننے اور الفاظ کا روپ دینے کے لیے اپنی سی کوشش جاری رکھی۔ بالآخر اہلِ علم کے سامنے ہزاروں محدثین و علماء میں سے یہ ایک انتخاب پیش خدمت ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ دوسری صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری تک کے ایسے بعض علماء کرام کا بالخصوص تذکرہ کیا جائے جو بطور محدث معروف ہوئے، ہرچند کہ ان میں ایک معتدبہ تعداد اُن صاحبانِ علم کی بھی ہے جو علوم حدیث کے علاوہ علوم قرآن میں بھی مرجع خلائق تھے۔ شاید اس روش کے عام ہونے میں علمائِ اندلس کے اس مقولے : من لا یستظہر القرآن عن ظہر قلب فھو ناقص نے بھی مہمیز کا کام کیا ہو، جس کے نتیجے میں محدثین کرام بالعموم نہ صرف حافظ قرآن ہوتے بلکہ قرآن حکیم کے مفاہیم و مطالب اور اسرار و رموز سے بھی واقف ہونے کے علاوہ صاحبِ تالیف بھی ہوئے۔

اس انتخاب میں ایسے اہلِ علم کا ذکر بھی ملے گا، جو حدیث کی نسبت فقہ میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ علوم دینیہ  سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا بھی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ ایک ماہر فقیہ بننے کے لیے قرآن و حدیث اور اس سے متعلقہ علوم میں مہارت لازمی ہے۔

اہلِ علم کے مختصر سوانحی خاکے لکھنے کے دوران ایک اہم پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ یہ عظیم شخصیات علوم دینیہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں۔ انہیں خطابت اور نظم و نثر دونوں میں برجستہ اظہارِ خیال پر خوب قدرت حاصل تھی۔

اندلس کے بعض خانوادے علم حدیث کی خدمت کے لیے بڑے معروف ہوئے، مثلاً: قرطبہ کے بنو مغیث اور اشبیلیہ کے بنو باجی، قرطبہ کے یحییٰ مصمودی، اور ان کے ابناء و احفاد واقرباء، فحص البلوط کے قاضی سعید اور ان کا خاندان۔ ان کے علاوہ بعض اور اہلِ علم خاندان کا پتا چلتا ہے کہ جن کے آباء و ابناء کئی نسلوں تک اپنے علم و فضل سے لوگوں کو مستفید کرتے رہے، مثلاً: مرسیہ کا ابوجمرہ کا خاندان۔ ایسے گھرانے بھی کثیر تعداد میں ہیں جن کے اجداد، ابناء اور احفاد نے اس علم کی خدمت کی۔ اور اگر صاحبِ ترجمہ کے آباء و ابناء میں سے کسی نے علم و ادب کی کسی صنف میں ممتاز مقام حاصل کیا تو حاشیہ میں اس کا نام مع تحدید مصدر ذکر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ میسر مواد کو صاحبانِ تراجم کے نام و نسبت و خاندان، شیوخ و تلامذہ، علمی مقام، اگر صاحبِ تالیف ہیں تو ان کی بعض تالیفات کا ذکرکیا گیا ہے۔ ان سوانحی خاکوں/تراجم کو سنین وفات کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ مصادر کے لیے بالعموم اختصارات استعمال کیے گئے ہیں۔

اس مبارک علم کی خدمت میں اندلس کی خواتین پیچھے نہ رہیں۔ ہم نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلاف کی روایت کے مطابق بعض خواتین محدثات کا آخر میں ذکر کیا ہے اور یہ روایت ان کے مقام عالی کے عین مطابق ہے۔

ان عظیم شخصیات کے علمی خاکوں کو دیکھ کر ایک قاری شاید یہ محسوس کرے کہ تشنہ اور نامکمل ہیں۔ درحقیقت اس عاجزانہ تالیف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اندلس کے محدثین پر کام کرنے والوں کے لیے راستہ کھلے۔ امید ہے کہ یہ کاوش ایک فہرست کا کام دے گی۔ اور اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ پاکستان کے تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کے اساتذہ محترم اور طلبہ عزیز علمائے اندلس کی علمی خدمات کو وسیع پیمانے پر منظرعام پر لائیں۔ ان علماء کے موضوعاتِ تحقیق میں بڑا تنوع اور توسع ہے۔ بعض عرب علماء اور مستشرقین نے اس سمت میں مساعی کی ہیں اور بعض اہم مخطوطات کو مرتب و مدون کرکے شائقینِ علم کے استفادے کے لیے شائع کیا ہے۔ ملائشیا اور انڈونیشیا کے تعلیمی اداروں نے بھی اس طرف توجہ کی ہے اور جامعات میں اس نایاب علمی ورثے پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی جامعات بھی اس خطے کے علمی ورثے کے احیاء کی کوشش میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو خیر کثیر کا باعث بنائے اور اندلس کے ورثے پر کام کرنے والوں کے لیے راستے وا ہوں۔ وماتوفیقی الا باللہ

میں شکر گزار ہوں اُن تمام اہلِ علم کی، جنہوں نے کسی نہ کسی طور پر اس تالیف کی تحریر و ترتیب میں اپنے مفید مشوروں سے نوازا اور پروف ریڈنگ میں تعاون کیا۔ میرے شکریہ کے مستحق عزیزم سرفراز احمد بھی ہیں جنہوں نے مشکل مسودہ کو کمپوز کیا اور بڑے صبر و تحمل سے اس کی تصحیح بھی کرتے رہے۔ کتاب کے ناشر یو ایم ٹی پریس کے مہتمم مرزا محمد الیاس صاحب کی بھی ممنون ہوں جنہوں نے کتاب کو جدید طرز پر چھاپنے کی ذمہ داری باحسن ادا کی۔ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین اجر سے نوازے۔

قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اس کوشش کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنے زریں مشوروں سے نوازیں۔ میری علمی کمزوریوں اور لغزشوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی مخلصانہ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔

دعا ہے کہ اللہ کریم خاتم المرسلین احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے خادمین و محافظین کے قافلے میں مجھ ناچیز کو بھی شامل فرمائے اور اس کاوش کو شرفِ قبولیت حاصل ہو۔ اللہ کریم روزِ محشر اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے اور اپنے محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت عطا فرمائے۔ آمین‘‘

ڈاکٹر صاحبہ نے جن محدثین کرام کا تذکرہ مرتب کیا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

دوسری صدی ہجری کے چھے محدثین، تیسری صدی ہجری کے تیرہ محدثین، چوتھی صدی ہجری کے اڑتیس محدثین، پانچویں صدی ہجری کے اننچاس محدثین، چھٹی صدی ہجری کے بیالیس محدثین، ساتویں صدی ہجری کے انتیس محدثین، آٹھویں صدی ہجری کے گیارہ محدثین، اس کے علاوہ پچیس محدثات کے حالات کا تعارف بھی شاملِ کتاب ہے۔

ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ پر اللہ پاک کا خاص فضل ہے کہ اس نے اپنے دین اسلام کی خدمت کے لیے انہیں توفیق بخشی اور انہوں نے عمرکے اس مرحلے پر یہ گرانقدر کتاب مرتب کی ہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔

کتاب مجلّد، خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔