وہ کتنا سہانا دن تھا،دو دن بعد اسکے گھر پر بہت سے لوگ رات کے کھانے پر آنے والے تھے،وہ اسی کے انتظامات میں مصروف تھی کہ پاس کے کمرے سے اسکے شوہر نے اسے آواز دیکر بلایا، جہاں وہ کمپیوٹر پر اپنی 'ڈاک' دیکھ رہے تھے،کہنے لگے '—دیکھو ، تمہارا چھوٹا بیٹا کیا کہہ رہا ہے—'وہ کچن کا کام چھوڑ کر گئ اور 'ای میل ' پر نظر ڈالی، لکھا تھا ----'ابو۔ یہاں ابھی آدھی رات ہے ، ہم سو رہے تھے کہ خواب دیکھا کہ'آپکے گھر کے دروازے کی کسی نے گھنٹی بجائ ،آپ نے دروازہ کھولا،آنے والے نے کچھ کہا اور آپ نے گھبرا کر ' ارے-کب-کہاں ' کہا ---- ہم گھبرا کر اٹھ گۓ ،بہت ڈر لگ رہا ہے ، دوبارہ سونے کی کوشش کی تو پھر وہی تسلسل سے خواب دیکھا ، ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ نے کوئ بہت بری خبر سنی ہو۔آپ کے یہاں سب خیریت تو ہے نا؟'----ای میل پڑھ کر اسنے اپنے شوہر سے کہا --- 'اسے لکھ دیجیۓ کہ جب بھی باہر نکلے ،آیت الکرسی پڑھ کر خود پر دم کر لیا کرے۔اور گاڑی زراسنبھل کر چلایا کرے۔'---اور وہ باورچی خانے میں واپس آکر کام میں مصروف ہوگئ۔ابھی دعوت میں دو دن باقی تھے ،مگر وہ اکیلی بہت سے لوگوں کا کھانا پکارہی تھی،ابھی تو مصالحہ پیس رہی اور دال 'چن' رہی تھی،اور ایسے ہی کئ کام ۔
دور درازکے شہر میں اسکا بڑابیٹا سرجن تھا،وہ ہر بدھ کو اپنی گاڑی سے آجایا کرتا اور جمعہ کی شام کو چلاجاتا تھا،وہ بہت منع کرتی کہتی جلدی جایا کرو،پہاڑی، اندھیرا اور لمباراستہ ہے۔وہ ناراض ہوجاتا کہتا---' اماں --- ہم آپکے ہی کےپاس آتے ہیں اور آپ ہی منع کرتی ہیں ، وہ دلار سے کہتی –' بیٹے- منع نہیں کرتے ہیں ، بس، زرا جلدی جایا کرو تاکہ روشنی روشنی میں اپنے گھر پہنچ جایا کرو۔'---
اسکو خود بچپن ہی سے اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی تھی، ڈر لگتا تھا،اندھیرا ہوتے ہی وہ اپنے اندر ہی اندر 'چھپ' جانے کی کوشش کرتی تھی،نہ معلوم کیا بات تھی کہ وہ گھر کے باہر جانے سے کتراتی اور ڈرتی تھی،ویسے تو وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتی تھی ،بس ایک اندھیرا ہی تھا جو اس کے اعصاب پر چھایا رہتا تھا۔
اس کے کئ جاننے والے یہاں اپنی مدت ملازمت ختم کر کے اپنے ملک واپس جارہے تھے،اسی سلسلے میں جگہ جگہ ان کی 'الوداعی دعوتیں ہورہی تھیں ،وہ خود بھی کئ جگہ مدعو تھی ، اب اس نے جمعہ کی دوپہر کو سب کو اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا ،یہ سوچ کر کہ اسکا بیٹا بھی ہوگا اور دن میں فارغ ہوکر سر شام ہی وہ روانہ ہوسکے گا۔----- وہ بہت خوش تھی ،اسکو اپنے بیٹے کے لۓ اپنے ملک میں ایک لڑکی پسند آگئ تھی،اسی وجہ سے وہ خود بھی اپنی پوری فیملی کے ساتھ اپنے ملک ، اپنے شہر جارہی تھی۔دو روز پہلے ہی پتہ لگا کہ 'جمعہ کو دوپہر کی نماز میں 'بڑی مسجد' کا افتتاح بھی ہے اور وہاں بڑے بڑے لوگ آیئں گے تو کہیں اسکے گھر کا راستہ بند نہ ہو۔عین وقت پر نہ چاہتے ہوۓ بھی اس نے دن کی دعوت رات کے کھانے میں تبدیل کردی۔اب اسکو یہی فکر تھی کہ کھانا وقت پر ہوجاۓ اور اسکا بیٹا جلدی روانہ ہوجاۓ۔
ایک دن پہلے اسکا بیٹا بھی آگیا کیونکہ اگلے دن اسکا'آف' تھا ، آپریشن ڈے' نہ تھا ،وہ کچن میں مصروف تھی ، وہیں رکھی کرسی پر بیٹھا اس سے باتیں کرتا جا رہا تھا ۔اچانک کہنے لگا---' اماں – ہم نے عجب خواب دیکھا ہے ،ہم کو کچھ ہوگیا ہے اور ہم آپ سے منع کر رہے ہیں کہ آپ رویۓ نہیں ،'- --- وہ کھانا پکاتے پکاتے رک گئ اور ڈرے ڈرے دل میں اس کے چھوٹے بھای کا خواب یاد کرنے لگی ، اسکا دل آپ ہی آپ دھک دھک کر رہا تھا اور وہ وہ تمام دعایئں پڑھ رہی تھی جو اسکو یاد تھیں ،اب اسکا دل بالکل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا ، کہنے لگی---' بیٹا- تم لوگ ہماری بات نہیں مانتے ہو،ہم کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے ۔'' بیٹااسکو تسلی دینے لگا کہنے لگا –' اماں ، آپ کیوں گھبراتی ہیں ، ساری دنیا گھومتی رہتی ہے اور میں تو دعایئں پڑھ کر گھر سے نکلتا ہوں ،''وہ خاموش ہو گئ مگر اسکا دل اور زورزور سے دھڑکنے لگا ۔
رات کی ایک دعوت میں وہ تیار ہوکر اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ گئ ، وہ بھی الوداعی پارٹی تھی ،بہت سارے لوگ تھے اور کافی بے تکلف باتیں ہوتی رہیں ، وہ جلدی چلی آئ اسکو کل کی دعوت کا انتظام کرنا تھا۔رات بہت دیر تک وہ کچن میں کام کرتی رہی اور وہیں کرسی پر بیٹھا اسکا بیٹا اس سے باتیں کرتا رہا ،دنیا جہان کی باتیں، فلسفے کی باتیں، مذہب کی باتیں ، آپریشنوں کی باتیں اور وہ خوشی خوشی اسکو جواب دیتی رہی سا تھ ہی اسکی پسند کا کھانا بھی تیار کرتی رہی ، وہ شوخی سے فرج کھول کھول کر ایک ایک ڈش دیکھتا جارہا اور 'زراسا چکھنے' کو کہتا رہا اور وہ اسکو'مذاقا ً 'ندیدہ—ندیدہ' کہتی رہی وہ مسکرارہاتھاجیسے کوئ چھوٹا سا بچہ ہو ،وہ بہت وجیہ۔ذہین اور اجلے خیالات والا ، ماں باپ کا بہت خیال کرنے والا بچہ تھا ، وہ اسے 'اپنے بڑھاپے کی لاٹھی کہتی تھی اور کبھی نظر بھر کر دیکھتی تک نہ تھی ، اکثر وہ کہتی ---' بیٹے ، ہم تو بھئ تمہارے ساتھ رہیں گے ،' وہ فورا ً کہتا ' نہیں اماں ' ہم آپ کے ساتھ رہیں گے،'---اس بیٹے کے علاوہ اسکےدو اور بچے تھے ،جن پر وہ جان چھڑکتی تھی ،اسکے تصور میں بھی اگر کسی کو کانٹاچبھتا تو وہ خود بلبلا اٹھتی تھی ،شاید سب مایئں ایسی ہی ہوتی ہوں ،
دوسرے دن جمعہ تھا حسب عادت بیٹے نے لباس تبدیل کیا ،گہرا نیلا شلوار سوٹ پہنا ،جیب میں ' جیبی قرآن شریف' رکھا اور اپنے ابو کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے چلا گیا ،وہ ایسا ہی تھا ،'عشا ٔ کی نماز وہ آدھی اسکے گھر میں پڑھتا،باقی اپنے گھر پہنچ کر اور کہتا،'اتنی دیر تک میں نماز میں ' شامل' لکھا جاؤں گا'۔
وہ دونوں جلدی واپس بھی آگۓ اور پھر وہ لوگ انتظامات میں مصروف رہے ،وہ خود بہت مصروف تھی مگر اسکو یہی خیال تھا کہ اسکا بیٹاجلدی سے دعوت سے فارغ ہوکر روانہ ہو جاۓ ،
اسکا گھر جگ مگ جگ مگ کر رہا تھابہت سے میہمان آنے والے تھے،اسکے گھر کے ہر کمرے میں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا ، سب مرد لوگ ڈرایئنگ روم میں اور خواتین دوسرے کمروں میں ،اسکا بیٹاکھانے کی میز پر رکھی پلیٹوں میں کاغذ کے ' نیپکن' لگا رہا اورگلاس ، چمچے سجا رہا تھا،کہہ رہا تھا کہ اسکا ہاتھ بٹارہا ہے کیونکہ وہ بہت تھک گئ ہے۔
شام ،رات کی طرف بڑھتی جارہی تھی ، مہمانوں کے آنے کا وقت تھا ، اسکا بیٹا تیار ہوکر اسکے پاس آیا ،اسنے اپنے ایک ماموں کی لائ ہوئ گہری عنابی قمیص اور کالی پتلوں معہ عنابی موزوںاور کالے جوتوں کے پہن رکھی تھی ، قیمتی پرفیوم کی خوشبو اس کے پاس سے آرہی تھی، کہنے لگا '- دیکھۓ اماں ، میں سب سے پہلے تیار ہوگیا ، اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور جلدی سے ایک دعا پڑھ کر اس پر پھونک دی، وہ 'ماں ' تھی ، زراوہمی قسم کی ماں ، یا شاید تمام دنیا کی مایئں ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔
بچے اب 'بڑے' ہوچکے تھے ، الگ الگ شہروں اور ملکوں میں رہتے تھے مگر وہ اب بھی ویسے ہی ڈرتی تھی کہ کسی کو چوٹ نہ لگ جاۓ ، کسی کو نقصان نہ ہوجاۓ جیسے وہ اب بھی ننھے منے سے ہوں ۔
ایک بار اسکی امی نے اسے لکھا تھا ---- کہ ،اب تم خود بچوں والی ہو ،اس لۓ ماں کے درد کو بخوبی سمجھ سکتی ہوگی'-ہاں ----- سچ بات ہے ،وہ خود ماں بننے کے بعد اپنی امی سے اور بھی قریب ہو گئ تھی ،زیادہ محبت کرنے لگی تھی اور سمجھ گئ تھی کہ ایک بچے کی غیر موجودگی اور اس کی زراسی تکلیف ماں کو کسقدر مضطرب کر دیتی ہے ،۔وہ خود اپنے بچوں کے لۓ جیتی ،انہی کے بارے میں سوچتی اور ان ہی کی پسند کو اولیت دیتی تھی،ان کی پسند کے کھانے بناتی اور ایک ایک نوالہ اپنے ہاتھ سے کھلاتی اور ساتھ ساتھ کہانیاں بھی سناۓ جاتی،اب اسکی سمجھ میں آگیا تھا کہ جب وہ یا اسکا کوئ بھائ بہن بھوکا سوجایا کرتا تھا تو ابو امی سوتے بچے کو ایک ایک نوالہ کیوں کھلاتے تھے ،بچہ بھوکا ہو تو ماں باپ کے حلق میں نوالہ کیوں اٹک اٹک جاتا ہے ۔
ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی ایک ایک چیزاپنے بیٹے کی پسند کی بہت محنت سے پکائ تھی،وہ اپنی پسند نا پسند ، آرام ،سکون اور اپنے تمام شوق بھولتی جارہی تھی۔وہ جو بھولے سے بھی کچن کا رخ نہیں کرتی تھی ،بچوں کی خاطر زیادہ تر کچن میں نظر آتی تھی ،اب اسے اچھے اور برے گوشت کی بھی پہچان تھی ، وہی گوشت جسکو وہ کھاتی تک نہیں تھی ۔
سب مہمان آچکے تھے ، پورا گھر خوبصورت آوازوں ، ہلکے اور اونچے قہقہوں سے گونج رہا تھا۔وہ خود تھکی ہوئ تو بہت تھی مگر خوش تھی کہ اسکے تمام قریبی جاننے والے اسکے گھر میں موجود تھے۔سب کو معلوم تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لۓ دولہن پسند کر چکی ہے اور اب عن قریب دلہن اس گھر میں آۓ گی۔
جون کا تپتا مہینہ تھا ،اسکول بند ہونے والے تھے ، تقریبا ً سب ہی لوگ اپنے اپنے ملک چھٹی جارہے تھے ،اسکے بیٹاسب کو کولڈڈرنک،پیش کر رہا تھا اور سب کے سب اس سے مذاق کر رہے تھے ، وہ کچن میں مصروف تھی مگر اس تک خوشگوار آوازیں آرہی تھیں ۔اس کو یہی ایک فکر تھی کہ اس کے بیٹے کو دیر نہ ہوجاۓ ۔ابھی 'سویئٹ ڈش' پیش ہی کی جارہی تھی کہ اسنے ناشتہ دان میں اپنے بیٹے کی پسند کا سامان رکھنا شروع کر دیا ، قورمہ ، پلاؤ ، گلاوٹ کے کباب ، شاہی ٹکڑے ،،کچن میں کام کررہا نوکر اس کی حالت دیکھ رہا تھا کہنے لگا--- ' بھائ تو روزہی جاتے ہیں ، آپ اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہیں ، وہ برابر بیٹے سے کہہ رہی تھی ، --' بیٹارات ہو گئ ہے ، اسوقت نہ جاؤ ، ہم تم کو صبح چار بجے جگادیں گے۔وقت سے اسپتال پہنچ جاؤ گے—مگر اسکا بیٹا کہنے لگاصبح اسکا ' آپریشن ڈے ' ہے ، اور وہ مہمانوں کی موجودگی ہی میں اپنے دوست کے ساتھ روانہ ہوگیا ،جب وہ گاڑی میں بیٹھ گیا تو بھی وہ بے اختیار ننگے پاؤں دوڑتی ہوئ باہر نکل گئ اور گاڑی کاشیشہ اتار کر اس پر آیت الکرسی پڑھکر پھونک آئ ، وہ وہیں ننگے پیر سڑک کے کنارے کھڑی رہی جب تک اسکے بیٹے کی گاڑی اسے نظر آتی رہی ۔
تمام مہمان جاچکے تھے ،نوکر برتن دھوکر ، بچا ہوا کھانا ؛فرج' میں رکھ رہا تھا ،اسکا شوہر دن بھر کی دوڑ بھاگ سے تھک کر اپنے بستر پر بےخبر سو چکا تھا ۔وہ بڑبڑارہی تھی کہ ابھی تک بیٹے کا فون نہیں آیا ، جبکہ اسکو معلوم ہے کہ اس کی اماں تب تک نہیں سوۓ گی جب تک اسکے گھر پہنچنے کا فون نہیں سن لے گی ، وہ خود بار بار فوں کر رہی تھی مگر فون کہتاتھا ،' ابھی کال نہیں مل سکتی ، فون مشغول ہے۔'وہ جھنجھلارہی تھی اور اپنے بستر پر بیٹھی ہی تھی کہ داخلی دروازے کی کال بیل بجی ، اس نے گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے،اس نے حیرانی سے دروازے کے ' کی ہول' سے دیکھا ، اسکا بھائ اور بھابھی دروازے پر کھڑے تھے جیسے سوتے سے اٹھ کر آگۓ ہوں ،ابھی ابھی تو وہ یہاں سے گۓ تھے، اس نے دروازہ کھولا اور حیرت سے پوچھا ' سب خیریت؟'
لیکن خیریت کہاں تھی ،اس کے بیٹے کی گاڑی ،غلط راستے سے آتی گاڑی سے بچنے کی کوشش میں پہاڑ سے نیچے گر گئ تھی ،وہ بے تحاشاچلانے لگی ، اسکا شوہر بھی دوڑ کر آگیا ۔
ایک قیامت تھی جو ان دونوں پر ٹوٹ پڑی،اسکے بڑھاپے کی لاٹھی ، اس کا دلارا سہارا بیٹااسپتال میں پڑا تھا، وہ جو دوسروں کا مسیحا تھا ، آپریشن کرکے جانیں بچاتاتھا ،وہ جو اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا پسند نہیں کرتاتھا ، وہ جو ہر ہر وقت مدد کے لۓ صرف ' اللہ' کی طرف دیکھتا تھا ،وہ جو 'صراط المستقیم' پر چلنے کو کوشش کرتا تھا ، --- وہی بے سدھ ، آئ سی یو میں پڑاتھا ،خدا معلوم وہ کس کے سہارے اس کے پاس گئ اور کس دل اور کن آنکھوں سے اس نے بیٹے کو دیکھا شاید اپنے بیٹے کو یاد دلانے کے لۓ کہ ' وہ یاد رکھے کہ وہ اپنی ماں کی بڑھاپے کی لاٹھی ہے۔'
وہ رات – کیسی اندھیری خوفناک رات تھی جو اس کے اعصاب پر کسی عفریت کی طرح چھا گئ ،سالوں گزر گۓ --- اسے آج بھی امید ہے کہ ایک روز اسکا ڈاکٹر بیٹا، اس کے بڑھاپے کی لاٹھی
،اسکا سہارا ، اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا اور پھرماں کو حسب وعدہ 'عمرہ' کرانے لے جاۓ گا اور پھر دونوں بھائ ملکر اپنی ماں کو قبر میں اتاریں گے،--- اب یہی ایک خواب ہے جو ماں کی دھندھلی ہوتی آنکھوں میں بسا ہے ،۔۔