سچی باتیں ۔۔۔ مومن فاسق ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ

Bhatkallys

Published in - Other

08:50PM Fri 14 Sep, 2018

         عن عمر بن الخطاب  ان رجلا علی عہد النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کان اسمہ عبد اللّٰہ کان یلقب حمار، کان یضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قد جلدہ فی الشراب فاتی بہ یوما فامر بہ فاجلدہ فقال رجل من القوم اللّٰھم العنہ ما یؤتی بہ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لا تلعنوہ فو اللّٰہ ما علمت الا اللّٰہ یحب اللّٰہ ورسولہ ۔بخاری ، الحدود

        حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نام عبداللہ تھا اور وہ حمار کے لقب سے مشہور تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو شراب نوشی کی علت میں کوڑے مار چکے تھے وہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (پھر اسی شراب نوشی کے جرم میں) پیش کئے گئے  پس حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان پر(اجراء حد کا) اس پر حاضرین میں سے ایک شخص بول اٹھے، اے اللہ تیری لعنت اس پر، کتنی دفعہ یہ اسی طرح پیشی میں آچکا ہے، (یعنی کتنی دفعہ اس پر حد جاری ہو چکی ہے اور پھر بھی یہ اپنی عادت نہیں چھوڑتا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اس پر لعنت نہ بھیجو، قسم اللہ کی، مجھے علم ہے کہ یہ محبت رکھتا ہے اللہ اور اللہ کے رسول سے۔

         روایت صحیح ترین کتاب حدیث کی ہے۔ مجرم، قانون شریعت کے ایک سنگین جرم کا مجرم ہے بار بار کا سزایافتہ اور عادی مجرم ہے (فتح الباری) میں واقدی کے حوالے سے ہے (وکان قداتی بہ فی الخمر مرارا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بار بار پیش ہوتا ہے آپ کے قلب مبارک کو اس سے بڑھ کر اذیت دینے والی چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس پر جب ایک صحابی (فتح الباری میں واقدی کے حوالے سے روایت ہے کہ یہ صحابی خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے) قاعدے کے لحاظ سے بالکل بجا طور پر ٹوکتے اور بغض فی اللہ کے ماتحت اس مجرم پر اللہ کی لعنت پکار اٹھتے ہیں، تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان صحابی کی تائید و موافقت نہیں کرتے، الٹا انہیں کو روکتے ہیں، ان کی تردید کرتے ہیں  اور فرماتے ہیں کہ اس مجرم کے دل میں اللہ اور رسول اللہ کی محبت موجود ہے۔ جی ہاں محض زبانی کلمہ ہی اسلام نہیں، دل میں محبت اللہ اور رسول کی، اور وہ بھی ایک گناہ کبیرہ کے عادی مرتکب کے دل میں سند اس سے بڑھ کر قوی، نص اس سے زیادہ صریح اور کیا ممکن ہے، یہاں تک کہ خود امام بخاری رحمہ اللہ علیہ جیسے فقیہ جس باب کے تحت میں  اسے لاتے ہیں خود اس کا عنوان رکھا ہے۔

        باب مایکرہ عن شارب الخمر وانہ لیس بخارج من الملۃ

        باب اس مضمون میں کہ شرابی کو لعنت کرنا مکروہ ہے اور وہ ملت سے خارج نہیں ہوتا۔

        عنوان باب کا دوسرا جزء خوب دھیان میں رہے(انہ لیس بخارج من الملۃ) شراب پینا یقینا گناہ کبیرہ ہے، قابل تعزیر ہے مجرم کے لئے دنیا میں سزائیں ہیں، آخرت میں عذاب ہے لیکن اس کے باوجود مجرم گناہ گار ہی رہتا ہے، دائرہ ملت سے خارج نہیں ہو جاتا، یہی اصل نکتہ ہے اسی لئے امام بخاری اس حدیث کو لائے ہیں اس حقیقت کو سامنے رکھیے اس نظام کو یاد رکھیے اور پھر”تحریک جدید“ کے  اس فتوے پر غور کیجیے جو عملی کمزوریوں میں گھرے ہوئے ہیں، جواعمال کی کوتاہیوں میں مبتلا ہیں، وہ صرف نام کے مسلمان، اور محض موروثی یا پیدائشی مسلمان ہیں، ورنہ عملاًان میں اورنامسلموں میں کوئی فرق ہی نہیں اعمال میں غفلت وتساہل کاعلاج یقیناً ہونا چاہیے، اعمال فاسقانہ کی اصلاح قطعاً ضروری ہے لیکن داغ دھبوں کے دھونے میں اتنا غلو تو بہرحال نہ ہوکہ

        دھبّا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی ۔